فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ) |
مسئلہ۱۲۱۵: از ریاست رام پور مرسلہ حبیب اﷲ بیگ جماعت مولوی فاضل اورنٹیل کالج ۱۷ صفر ۱۳۳۸ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ طریقہ اسقاط جو ملک افغانستان میں مروج ہے وہ شرعاً ثابت اور مستحسن ہے یا نہیں ، اگر ثابت ہے تو اس کی کیا دلیل ہے ، اور فدیہ صوم اگرچہ منصوص ہے لیکن فدیہ صلوٰۃ پر کون سی نص ہے اور یہ یعنی دوران قرآن کیوں متروک العمل ہے اور یہ ہندوستان میں کیوں مروج نہیں، بر تقدیر ثانی یہ عبارت فتاوٰی سمرقندیہ کی بالکل غلط ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے:
لما صنف الامام الربانی محمد بن حسن الشیبانی فی کتاب الحیل فی کل باب انکر علیہ علماء البغداد بلغوا تلک القصۃ الی خلیفۃ البغداد فقال الخلیفۃ ارسل الی ذلک فان کان موافقا للاصول فبھا والا فنخرقہ فقال ان العلماء احساد واوانکر و ا حسدا فجاء الامام بذلک الكتاب الی الخلیفۃ فنظر فیہ فتعجب فطلب العلماء وقال انظروا فیہ بدقۃ النظرمن غیر حسد فلما رأوہ قالوا فقد احسن محمد ضاعف اﷲ اجرہ الی الابد ثم سئل الخلیفہ عن الامام ای اصل اخرجت تلک المسائل قال اخرجت من قصۃ ایوب ویوسف وسنۃ حیلۃ الرباء والحد فقال الخلیفۃ للعلماء من انکرالحیلۃ فقد انکر القراٰن والحدیث واجماع العلماء فالتعزیز واجب علیہ فلما حول ورقۃ وقع النظر علی حیلۃ الاسقاط فقال الامام اسھل طریقتہ ان یبیع الوارث علی الفقیر مصحفا قابل القراء ۃ ثم یھب الفقیر للوارث ثم فثم حتی یتم لعل اﷲ یجعل فدیۃ الصوم والصلٰوۃ والزکوٰۃ وغیرھا فقال العلماء قلت قولا حسنا بارک اﷲ فی عمرک فاکتب فی کتابک فکتب الامام تلک الحیلۃ فی کتابہ فشاع فی زمان الخلیفۃ ( الدرالبرر للامام الغز الی) قال الشارح السمر قندی حدثنا عباس بن سفیان عن ابن عتبہ عن ابن عوف عن محمد عن عبداﷲ قال قال عمر ایھاالمؤمنون اجعلوا القراٰن وسیلۃ لنجاۃ الموتی فتحلقوا وقولوا اللھم اغفرلھذا المیت بعزۃ القراٰن وتناولوا بایدیکم وفعل عمر فی اٰخر خلافتہ فی وفاۃ امرأۃ ملقبۃ الحبیبۃ بنت عربد زوجۃ ملاب لجزء من القراٰن فمالوا الی عمر ولم یشتھر فی خلافۃ عثمان ثم اشتھر فی خلافۃ ھارون الرشید من غیر انکار دوران القراٰن بحیلۃ الاسقاط فاصلہ ثابت عن عمر وھذا وان لم یذکر فی کتب المشھورۃ من الاحادیث ولکنہ مشھور فی بعض الکتب من التواریخ بسند قوی کما قال المورخ اللبیب صاحب الفتوح اخبرنا ابوعاصم عن ابن جریج عن ابن شھاب عن ابن سلمۃ عن ابن موسٰی قال فعل عمر دوران القراٰن لجزء منہ بحلقۃ عشرین رجلا بعد صلوٰۃ الجنازہ لامرأۃ ملقبہ بحبیبۃ بنت عربد زوجۃ ملاب لرجل من الانصار ما حفظنا اسمہ فانکار مطلقۃ الحیلۃ وعن حیلۃ الاسقاط فسق لانہ ثبت عن عمر، اخبرنا سعید بن ایوب عن جمیع عن عبداﷲ بن ابی بکر انہ اوجد عمر بدورالقراٰن بعدصلوٰۃ الجنازہ انتھی فتاوی سمر قندی من عتبہ۔
جب امام ربانی محمد بن حسن الشیبانی نے ہر معاملہ کے بارے میں کتاب الحیل لکھی تو اس پر علماءِ بغداد نے اعتراض کیا یہ بات خلیفہ بغداد کو پہنچی تو اس نے کہا وہ کتاب مجھے لاکر دو اگر اس کی عبارات اصول کے موافق ہیں تو ٹھیک ورنہ ہم اسے جلادیں گے اور علماء نے اعتراض حسداً کیا تھا، امام نے کتاب خلیفہ وقت کو دی اس نے جب اسے پڑھا تو بہت متعجب ہوا، علماء کو طلب کیا اور کہا حسد سے بالاتر ہو کر دقّتِ نظر سے اس کا مطالعہ کرو، جب انھوں نے اس کتاب کو پڑھا تو سب کہنے لگے کہ امام محمد نے بہت خوب کام کیا ہے اﷲ تعالٰی تا قیامت ان کو اجر عطا فرمائے، پھر خلیفہ نے امام سے پوچھا ان مسائل کا استنباط کرتے وقت کونسی اصل آپ کے پیش نظر تھی، تو انہوں نے فرمایا میں نے حضرت ایوب ، حضرت یوسف علیہم السلام کے واقعات اور حیلہ ربا کی سنت اور حد سے انہیں مستنبط کیا ہے خلیفہ نے علماء سے کہا جو شخص حیلہ کا انکار کرتاہے اس نے تو قرآن، حدیث اور اجماع کا انکار کیا تو اس پر تعزیر لازم ہے ۔ جب خلیفہ نے کتاب کا ایک ورق اٹھایا تو اس کی نظر حیلہ اسقاط پر پڑی، امام نے کہا کہ حیلہ کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وارث محتاج کو قابل قرأت قرآن بیچ دے پھر وہ فقیر اس وارث کو ہبہ کردے، پھر اسی طرح مسلسل کیا جائے حتی کہ پورا ہوجائے شاید اﷲ تعالٰی اسے روزہ، نماز اور زکوٰۃ وغیرہ کا فدیہ بنادے۔ علما نے کہا کہ آپ نے بہت خوب بات فرمائی ہے اﷲ تعالٰی تمھاری عمر میں برکت دے پس اسے اپنی کتاب میں تحریر فرمادو اور یہ طریقہ خلیفہ کے دور میں مروج رہا الدر البرر للامام غزالی۔ شارح سمر قندی نے فرمایا، ہمیں عباس بن سفیان نے ابن عتبہ سے انہوں نے ابن عوف سے انہوں نے محمد انہوں نے عبداﷲ بن عمر سے کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا:اے اہل ایمان! قرآن کو مردوں کی نجات کے لئے وسیلہ بناؤ اور حلقہ بناکر یوں عرض کرو اے اﷲ! اس میت کو عزّت قرآن کی برکت بخش دے اور اسے ایک دوسرے کے ہاتھ میں دو۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اپنی خلافت کے آخری دور میں حبیبہ بنت عربد زوجہ ملاب کی وفات کے موقعہ پر قرآن کے ایک حصہ سے ایسا کیا، لیکن یہ عمل خلافت عثمان میں مشہور نہ ہوا پھر ہارون الرشید کے زمانہ میں قرآن کا دور حیلہ اسقاط کے لئے بغیر کسی اعتراض کے مشہور ہوا تو اس حیلہ کی اصل حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ثابت اور یہ بات اگر چہ مشہور کتب احادیث میں نہیں لیکن کتب تاریخ میں سند قوی کے ساتھ مشہور ہے جیسا کہ عظیم مورّخ صاحب الفتوح نے بیان کیا کہ ہمیں ابو عاصم نے ابن جریج سے انہوں نے ابن شہاب ، انہوں نے ابن سلمہ ، انہوں نے ابن موسٰی سے بتایا کہ حضرت عمر نے بیس آدمیوں كے حلقہ میں قران كے ایك جز كو لیا دیا اور یہ اس خاتون كے جنازہ کے بعد کیا جو ملاب انصاری کی بیوی اور حبیبہ بنت عربد کے لقب سے مشہور تھی اس کا نام محفوظ نہیں، تو مطلقاً حیلہ کا انکار کفر اور حیلہ اسقاط کا انکار فسق ہے کیونکہ یہ حضرت عمر سے ثابت ہے، ہمیں سعید نے ایوب سے انہوں نے جمیع سے انہوں نے عبداﷲ بن ابی بکر سے بتایا کہ نماز جنازہ کے بعد قرآن کا دور حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے ایجاد کیا انتہی، فتاوٰی سمرقندی میں عتبہ کے حوالے سے منقول ہے ۔(ت) نیز اس میں دورانِ قرآن کی نسبت حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی طرف ہے وہ صحیح ہے یا نہیں اور اس کی سند کیسی ہے؟
الجواب امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور ان کے سوا اور حضرات سے جو کچھ روایات بے سروپا اس عبارت میں مذکور ہیں سب باطل وافتراء ہیں، نہ یہ عبارت فتاوٰی سمرقندیہ میں ہے اس پر بھی افترا ہے ، اور بے چارہ افتراء کرنے والا عربی عبارت بھی باقاعدہ نہ بنا سکا اپنی ٹوٹی پھوٹی جاہلانہ خرافات کو صحابہ وائمہ کی طرف منسوب کیا مسئلہ دور عامہ کتب متداولہ مذہب میں مصرح ہے خود مصحف شریف سے یا کسی مال سے مگر ہر بار کے دینے میں اتنا ہی مجرا ہوگا کہ بازاری نرخ سے وہ مصحف شریف جتنے ہدیہ کا ہے یہ جاہلانہ خیال کہ یہ توبے بہا ہے ایک ہی دفعہ میں اگلے پچھلے بلکہ سات پشت کے سب کفارے ادا ہوجائیں گے محض جاہلانہ خیال باطل ہے کما بیناہ فی فتاوٰنا بمالا مزید علیہ (جیساکہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اتنی تفصیل سے بیان کیا ہے جس پر اضافہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ت) فدیہ صلوٰۃ پر اگر چہ نصِ شارع علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم نہ آیا نص مجتہد مذہب ہے وکفی بہ حجۃ ( یہ دلیل کے لئے کافی ہے ۔ ت) واﷲ تعالٰی اعلم