مسئلہ ۱۲۱۲: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ہندہ کا انتقال ہوا اور اس کی نمازیں و روزہ قضا ہیں
اس کے ورثا ان کافطرہ ادا کرنا چاہتے ہیں اور اس مقام پر آبادی اہل ہنود رعیت ومسلمان رعیت وسادات کی ہے جوبوجہ قحط سال انتہا درجہ کے محتاج ہیں اور ذو القربٰی اورہمسایہ بھی احتیاج رکھتے ہیں تو اس فطرہ کو ان سب پر تقسیم کر نا جائز یا نا جائز ،اور دینا اولٰی اس میں سے کس گروہ کو ہے، متوفی کی سکونت سے دور مقامات میں طلباء دین کو دینا اولٰی ہے یا مذکورین سابقین جو اسی آبادی میں اور قرب وجوار میں محتاج ہیں اور ایک نماز و روزہ کے فطرہ کو پورا ایک شخص کو دینا جائز ہے یا اس کی قیمت کر کے نقد دینا جائز ہے یا نہیں، اگر نماز وروزہ کا غلہ یا قیمت حساب لگا کر مسا کین پر کم وبیش تقسیم کردے تو جائز ہے یا نہیں یعنی ایک سو نمازیں اور پچاس روزہ کا فطرہ پیمائش کرکے انبار کیا یا اس کی قیمت جمع کی اور پانچسو مساکین پر تقسیم کرنا منظور ہے تو کیا کرنا چاہئے؟
الجواب
یہ صدقہ حضرات سادات کرام کے لائق نہیں اور ہنود و غیر ہم کفار ہند اس صدقے کے لائق نہیں ان دونوں کو دینے کی اصلاً اجازت نہیں، نہ ان کے دیے ادا ہوں۔ مسلمین مساکین ذوالقربی غیر ہاشمین کو دینا دونا اجر ہے مدرسہ دینیہ کے طلبہ علم دین کے صحیح العقیدہ کو بھیجنے کی اجازت ہے اگر چہ وہ دوسرے شہر میں ہوں حتی کہ زکوٰۃ بھی ۔ درمختار میں ہے:
کرہ نقلھاالا الی قرابۃ او احوج اواصلح وانفع للمسلمین او الی طالب علم۱؎۔
زکوٰۃ کی رقم کا دوسری جگہ منتقل کرنا مکروہ ہے مگر اس صورت میں جب دوسرے مقام پر رشتہ دار یا زیادہ محتاج یا زیادہ صالح یا مسلمانوں کا زیادہ نفع ہے یا طالب علم ہو۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الزکوٰۃ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۴۱)
اقارب وجیران اور دور کے طلبہ علم دونوں میں ایک ایک وجہ اولیت کی ہے جو اسے انفع معلوم ہو اس پر عمل کرے چاہے اناج دے یا اس کی قیمت ایک فقیر کو متعد دنماز وں روزوں کا فدیہ دے سکتا ہے جب تک وہ اس کے دینے سے مالک نصاب نہ ہو جائے ہاں مدیون ہو تو بقدر دین ہزار نصابوں کی مقدار ایک کو دے سکتا ہے کسی فقیر کو ایک کفارہ کی مقدار سے کم نہ دے بلکہ پوری مقدار یا مقادیر یا اس کی یا ان کی پوری قیمت ہو احتیاط اس میں ہے خروجا عن الخلاف ( اختلاف سے بچنے کے لئے ۔ت) درمختار میں اسی کفارہ کے بارے میں ہے :
لوادی للفقیر اقل من نصف صاع لم یجز ولو اعطاہ الکل جاز ۱؎۔
اگر فقیركو نصف صاع سے کم دیا تو یہ جائز نہیں اور اگر اسے تمام دے دیا تو جائز ۔ (ت)
(۱؎ درمختار باب قضاء الفوائت مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۰۱)
یہ ان دو اقوال میں سے دوسرا ہے جنھیں تتارخانیہ میں بغیر ترجیع کے نقل کیا اور بحر سے اسی پر اعتماد کا اظہار ہورہا ہے اور پہلا قول یہ ہے کہ یہ اسی طرح جائز ہے جس طرح صدقۃ الفطر میں جائز ہے ۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار باب قضاء الفوائت مصطفی البابی مصر ۱/ ۵۴۳)
یہاں یہ ظاہر ہو ا کہ سو نمازوں اور پچاس کا فدیہ ڈیڑھ سومساکین سے زائد کو نہ دیا جائے گا ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۱۲۱۳: از موضع بکہ جیبی والا علاقہ جاگل تھانہ ہری پور ڈاکخانہ کوٹ نجیب اﷲ خاں مرسلہ مولوی شیر محمد صاحب ۳۳ رمضان المبارک ۱۳۱۱ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ملک پنجاب میں رواج ہے کہ میت کے جنازہ کے وقت اسقاط کرتے ہیں یہ درست ہے یا نہیں؟ بنیوا توجروا
الجواب
اسقاط کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اگر میت پر نماز روزہ قضا ہیں اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا جس کے ثلث سے بحالت وصیت اس کا فدیہ ادا ہو سکے یا وصیّت نہ کی اور سب ورثا ادائے فدیہ پر راضی نہیں تو پہلی صورت میں اس کے تہائی مال کا حساب لگائیں کہ اس سے کس قدر کا فدیہ ادا ہو سکتا ہے مثلاً فرض کرو کہ چہارم کی قدر ہے تو ثلث مال فقیر کو بہ نیت فدیہ دیں فقیر اس سے لے کر پھر وارث کو ہبہ کردے یہ پھر بہ نیت فدیہ دے فقیر پھر لے کر ہبہ کردے اور ہر بارفقیر و وارث قبضہ کرتے جائیں یہاں تک کہ فدیہ ادا ہوجائے یا مال بالکل نہیں ہے تو وارث مثلاً ڈیڑھ سیر گیہوں یا اس کی قیمت کسی سے قرض لے کر اس کا الٹ پھیر کرلے اگر چہ ہزار بار یا زائد میں فدیہ کی حد تک پہنچے ۔
فی الدرلمختار لومات وعلیہ صلوٰت فائتۃ واوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلوٰۃٰ نصف صاع من برکا لفطرۃ وکذاحکم الوترو الصوم وانما یعطی من ثلث مالہ ولولم یترک مالا یستقرض وارثہ نصف صاع مثلا وید فعہ الفقیر ثم ید فعہ الفقیر للوارث ثم وثم حتی یتم ۱؎
درمختار میں ہے اگر کوئی شخص فوت ہوجاتا ہے اور اس پر نمازیں ہیں اور وہ اپنے کفارہ کی وصیت کر جاتا ہے تو ہر نماز کے عوض فطرہ کی طرح گندم کا نصف صاع دیا جائےگا وتر اور تراویح کا بھی یہی حکم ہے اور یہ اس کے تہائی مال سے دیا جائے گا اور اگر میّت نے مال ہی نہیں چھوڑا تو وارث نصف صاع قرض لے کر کسی فقیر کو دے اور پھر فقیر نصف وارث کودے ، اسی طرح دیتے رہیں یہاں تک کہ تمام نمازوں کا عوض ہوجائے ۔ (ت)
(۱؎ درمختار باب قضاء الفوائت مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۰۱)
اس کے سوا یہ جو عوام میں رائج ہے کہ سارے فدیہ کے عوض ایک قرآن دے دیا کہ وہ تو بے بہا ہے یوں ادا نہیں ہوتا قرآن مجید بیشک بے بہا ہے مگر جو بے بہا یعنی کلام الہٰی کہ ورقوں میں لکھا ہے وہ مال نہیں ، نہ وہ دینے کی چیز ہے تو جو مال ہے یعنی کاغذ اور پٹھے اسی طرح قیمت معتبر ہوگی اور جب مقدار فدیہ کو نہ پہنچے گی فدیہ کیونکہ ادا ہوگا وھذا ظاھر جدا ( یہ نہایت ہی واضح ہے ۔ ت) واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۲۱۴: از دھولقہ ضلع احمد آباد گجرات مسئولہ محمد یوسف صاحب ۲۲ ذی القعدہ ۱۳۳۶ھ
بخدمت ہادی برحق مولینٰا مولوی احمد رضا خان صاحب دام برکاتہ گزارش یہ ہے کہ ہم قصبہ دھولقہ کے رہنے والے ہیں ہم لوگ بالکل سیدھے سادھے لوگ اورصرف راہ حق کے تلاش کرنے والے ہیں ، کسی فریق پارٹی سے ہمیں کوئی لگاؤ یا تعلق نہیں، آپ کے حکم پر ہمیشہ گردن جھکانے کو تیار ہیں مگر ہم لوگوں اردو کی معمولی لیاقت کے اور علم نہیں ہے آپ کا ایک فتوی اول گجراتی کتاب میں چھپا ہے اور دوسری ایک تحریر مولوی علاء الدین صاحب پر آئی ہوئی چھپی ہے ، ان دونوں تحریروں کو سمجھنے کی ہم لوگ لیاقت نہیں رکھتے اس لئے خدمت والا میں عرض کرتے ہیں کہ ہمارے اس قصبہ میں چھبیس سیر گیہوں فی سیر ۸۰ روپیہ کے حساب سے اور نقد سوا روپیہ اور ایک کلام اﷲ شریف اتنی چیزوں کا حیلہ اس طرح کرتے ہیں کہ جنازہ کا امام کچھ پڑھتا ہے کیا پڑھتا ہے وہ ہمیں معلوم نہیں بعد پڑھنے کے حاضر فقیروں میں تین دور کرا دیتا ہے اور پھر وہ چیزیں امام وغیرہ بانٹ لیتے ہیں، یہ حیلہ شریعت کے مطابق ہے اور جائز ہے یا نہیں صرف مختصر جواب اردو آسان لفظوں میں ہوگا تو بھی ہماری کافی تسلی ہوگی۔
الجواب
امام جنازہ جو کچھ پڑھتا ہے اگر اس میں کوئی بات خلاف شرع نہ ہو ( مثلاً یہ نہ ہو کہ اس میت کے گناہ ہم نے اپنے سر لئے یا اس کا عذاب و ثواب ہمارے اوپر کہ ایسا کہنا شریعت میں حرام ہے) اور وہ لوگ جن پر ان چیزوں کا دور کراتاہے ، فقیر محتاج زکوٰۃ لینے کے قابل ہوں تو اس چھبیس سیر گیہوں کی جو قیمت وہاں اس وقت بازار کے بھاؤ سے ہو اور اس مصحف شریف کا جو ہدیہ وہاں اس وقت ہو اور وہ سوا روپیہ ان کے مجموعہ کو ان دور والے محتاجوں مصرف زکوٰۃ کے سہ چند میں ضرب دینے سے جو حاصل ہو یہ مال جتنے نمازوں کا کفارہ ہو اس قدر کا ہوگیا اگر میت پر زیادہ کفارہ تھا تو باقی اس کے ذمہ پر رہا مثلاً وہ گیہوں تین روپے کے ہوں اور وہ مصحف پونے تین روپے ہدیہ کا ہو تو یہ اور وہ سوا روپیہ مل کر سات روپیہ کا مال ہوا اب اگر دور میں اس فقیر میں اور ان پر تین بار دور ہوا توگویا تیس فقیروں کو سات سات روپے دئے گئے مجموع دو سو دس روپے ہوئے ، میت پر نماز روزے وغیرہ کا مطالبہ اگر اس قدر یا اس سے کم تھا تو سب ادا ہوگیا اور زیادہ کا تھا تو جتنا زائد تھا باقی رہا مثلاً اس کے نماز روزوں کے حساب سے جتنے گیہوں کفارہ کے ہوتے ان کی قیمت وہاں سے وقت کے بھاؤ سے ہزار روپے تھی اور یہ دو سو دس روپے ہوئے تو سات سو نو روپے کا مطالبہ میت پر رہا اور اگر دور والوں میں بعض وہ ہوں کہ اگر چہ فقیر بنتے ہیں مگر مالدار ہیں حاجت اصلیہ کے علاوہ چھپن روپے کے مال کے مالک ہیں تو ان کے شامل ہونے سے دور میں حرج نہ آئے گا فقط اتنا ہو گا کہ دور میں ان کا شمار نہ ہوگا مثلاً دس فقیروں پر دور کیا اور ان میں تین غنی تھے سات ہی پر دور سمجھا جائے گا صورت مذکورہ میں تیس فقیروں کی جگہ اکیس ہی رکھے جائیں گے اور دو سو دس رو پے کی جگہ ایک سو سنتالیس روپے کا کفارہ ادا ہوگا ، ہاں اگر ان میں کوئی بھی محتاج نہ ہوا سب غنی تھے تو بیشک کفارہ بالکل ادا نہ ہوگا ، غرض یہ حیلہ یاتو بالکل کافی ہے جبکہ میت پر مطالبہ اسی قدر یا اس سے کم ہو ورنہ نافع ضرور ہے جبکہ ان دور والوں میں ایک بھی فقیر ہو کہ آخر کچھ نہ کچھ مطالبہ تو میّت پر سے کم ہوا، ہاں جیسے بہت عوام دور ہی نہیں کرتے ایک مصحف شریف دے دیا اور سمجھ لئے کہ عمر بھر کا کفارہ ادا ہوگیا یہ محض مہمل وباطل ہے ، یونہی یہاں جب پورے مطالبہ کے قدر نہ تو اس سے بالکل ادا سمجھ لینا غلط و باطل ہے پھر بھی اس سے اس حیلہ کا جتنا فائدہ ہے زائل نہیں ہوتا، بعض کو کل سمجھ لینا ان کی غلطی ہے جیسے کسی کے ہزار روپے زید پر قرض ہوں اور زید سو روپے ادا کرے اور سمجھ لے کہ سب ادا ہوگیا تو یہ اس کی غلطی ہے مگر اس غلطی کے سبب وہ سو روپیہ جو ادا کئے باطل نہ ہوجائیں گے وہ فائدہ اسے حاصل رہے گا کہ اب ۱۰۰۰ ہزار کی جگہ ۹۰۰ نو سو کا مطالبہ اس پر رہا ، بہر حال اس میں فائدہ ضرور ہے مگر اس طرح کی کوئی خلاف شرع بات نہ کہی جاتی ہو، جس کی مثال اوپر گزری ، بغیر اس کے اسے مطلقاً ناجائز بتانے والا محض غلطی پر ہے ، البتہ مسلمانوں کے مناسب یہ ہے کہ وہ طریقہ دور کا کریں جس سے میت پر سے باذنہٖ تعالٰی سب مطالبہ ادا ہوجائے اس کا بیان ہمارے فتوٰی میں مفصل موجود ہے اور اس پر یہ اعتراض کہ قرآن مجید کا صدقہ حرام بلکہ کفر ہے جہل وحماقت ہے ورنہ ۱؎ مسکین طالب علم کو قرآن مجید دینا حرام وکفر ہو، اسے صدقہ کہہ کر نہ دے ہبہ رکہے جب بھی تو صدقہ ہی ہوگا جیسا کہ فقہاء تصریح فرماتے ہیں ۔
درمختار میں ہے:
الھبۃ للفقیر صدقۃ علی الغنی ھبۃ ۱؎ ۔
ہبہ فقیر کے لئے صدقہ اور صدقہ غنی کے لئے ہبہ ہوجاتا ہے ۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الھبۃ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۲/۱۶۱)
اور محقیقین کے نزدیک یہاں نفس قربت مؤ ثر وان کان الاثر اشد مع الا سقاط ( اگر چہ اثر اسقاط کے ساتھ اشد ہے ۔ ت)
فتح القدیر میں ہے:
الذی نعقلہ ان کلامن التقرب و الاسقاط موثر ۲؎۔
ہم یہ سمجھے کہ تقرب اور اسقاط دونوں ہی مؤثر ہیں ۔( ت)
(۲؎ فتح القدیر نوریہ رضویہ سکھر )
پھر قرآن مجید وقف کرنے کا جواز کتب مذہب میں مصرح ہے ۔
درمختار میں ہے :
وفی الدرر وقف مصحفا علی اھل مسجد للقرأۃ ان یحصون جاز وان وقف علی المسجد جاز ویقرأ فیہ۳؎۔
درر میں ہے اگر کسی نے برائے تلاوت اہل مسجد کے لئے قرآن وقف کیا تو وہ اسے محفوظ رکھیں تو جائز ہے اور اگر مسجد کے لئے وقف کیا تو بھی جائز ہے اور اس سے تلاوت بھی جائز ہوگی ۔ (ت)
(۳؎ درمختار کتاب ا لوقف مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۳۸۰)
ردالمحتار میں ہے :
قولہ ان یحصون جاز ھذ االشرط مبنی علی ما ذکرہ شمس ا لائمۃ من الضابط و ھو انہ اذا ذکر للوقف مصرفا لا بد ان یکون فیھم تنصیص علی الحاجۃ حقیقۃ کا لفقراء اواستعمالا بین الناس کا لیتا می والزمنی لان الغالب فیھم الفقر فیصح للاغنیاء والفقراء منھم ان کانو ایحصون والا فلفقرائھم فقط ۴؎۔
ماتن کا قول'' اگر اسے وہ محفوظ رکھیں'' یہ اس ضابطہ پر مبنی ہے جس کا تذکرہ شمس الائمہ نے کیا کہ جب واقف وقف کے لیے کوئی مصرف بیان کرے تو ضرور ہے کہ لوگوں میں اس کی حاجت و ضرورت بیان کرے خواہ وہ ضرورت حقیقۃً ہو مثلاً یتامی اور بے دست و پا لوگ کیونکہ ان میں اغلب طور پر فقر ہوتا ہے پس اغنیاء و فقراء کے لئے یہ صحیح ہوگا جبکہ وہ اسے محفوظ رکھنے والے ہوں ورنہ فقط فقراء کیلئے ہوگا ۔ (ت)
(۴؎ ردالمحتار کتاب ا لوقف مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۳ /۴۱۱)
وقف بھی صدقہ ہی ہے بلکہ صدقہ جاریہ مستمرہ حتی کہ اگر خاص چند اغنیاء پر ہو جب بھی اس کا آخر فقراء کےلئے ہونا لازم ، صحیح بخاری وصحیح مسلم میں عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے مروی:
ان عمر رضی اﷲ تعالی عنہ اصاب ارضا بخیبر فاتی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یستا مرہ فیھا فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان شئت حبست اصلھا وتصدقت بھا قال فتصدق بھا عمر انہ لایباع ولا یوھب ولا یورث و تصدق بھا فی الفقراء و فی القربی وفی الرقاب وفی سبیل اﷲ وابن السبیل والضیف ۱؎ ۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے خیبر میں کچھ زمین حاصل کی تورسالتمآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ اس کے بارے میں آپ سے رہنمائی حاصل کی جائے ، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر آپ چاہیں تو اسے ( منتقل ہونے سے ) روک لیں اور صدقہ کردیں، حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اسے صدقہ کردیا اسی طرح کہ نہ اسے بیچا جائے گا نہ ہبہ کیا جائے گا ۔ اس میں وراثت جاری نہ ہوگی اور اسے فقرإ ، قریبی رشتہ دار ، غلاموں کی آزادی ، راہ خدا میں ، مسافروں اور مہمانوں کے لئے صدقہ کردیا ۔ (ت)
(۱؎ صحیح مسلم باب الوقف مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی ۲/۴۱)
یہ حدیث محرر المذہب سید نا امام محمد نے مبسوط میں یوں روایت فرمائی :
اخبر نا صخر بن جویرۃ مولٰی عبد اﷲ بن عمران عمر بن الخطاب کان لہ ارض تدعی ثمغا وکان نخلا نفیسا فقال یا رسو ل اﷲ انی استفدت مالا ھو عندی نفیس افاصدق بہ فقال رسول اﷲ صلی علیہ وسلم تصدق با صلہ لایباع ولا یوھب ولا یورث ولکن تنفق ثمرتہ فتصدق بہ عمر فی سبیل اﷲ وفی الر قاب وللضیف وللمسافر و لابن السبیل ولذی القربی ۱؎ الحدیث۔
ہمیں صخر بن جویرہ جو کہ عبداﷲ بن عمر کے آزاد کردہ غلام تھے نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس ایک ثمغ نامی زمین کا ٹکڑا تھا اور وہاں نہایت اچھا کھجوروں کا باغ تھا انھوں نے حضور اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا میں نے ایسا مال حاصل کیا ہے جو میرے نزدیک نہایت ہی قیمتی ہے کیا میں اسے صدقہ کردوں ؟ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا اصل صدقہ کردو اس طرح کہ نہ اسے بیچا جائے نہ ہبہ کیا جائے اور نہ ہی اس کا وارث بنایا جائے لیکن اس کا پھل خرچ کیا جائےحضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اسے راہ خدا غلاموں کی آزادی ،مہمان نوازی، مسافر ،ابن سبیل اور قریبی رشتہ داروں پر صدقہ کردیا ۔ (ت)
(۱؎ سنن الدارقطنی باب کیف یکتب الحبس مطبوعہ نشرالسنۃ ملتان ۴ /۱۹۳)
صحیح بخاری کے بھی بعض طرق میں بالفاظ امام محمد ہے : تصدق باصلہ لایباع ۲؎ ۔ الحدیث (اس کا اصل صدقہ کردو اسے فروخت نہ کیا جائے الحدیث ۔ ت)
مانعین ( ۳) کیا کہتے ہیں اُس صورت میں جبکہ مثلاً کوئی اہل خیر سو (۱۰۰) مصحف شریف ان کے مدرسہ یا یتیم خانے میں بھیجے کہ ان میں غربا کے بچے اور یتامٰی پڑھاکریں اس کا یہ فعل حسن وباعث ثواب ہے یا حرام وموجب عذاب بلکہ معاذ اﷲ کفر، اور (۴)اگر اس نے نذرمانی ہوکہ اﷲ تعالٰی کےلئے دس مصحف شریف فقرائے مسلمین کو دوں گا تو یہ نذر حلال ہے یا حرام وکفر، اور (۵)اگر وصیت کی ہو کہ میری ملک کے مصاحف سب میرے بعد فقرائے مسلمین کے دے دئیے جائیں اور وہ ثلث مال سے زائد نہ ہوں تو یہ وصیت صحیح یا باطل اور یہ دینا وصی پر واجب ہے یا حرام، پھر یہ حکم صرف مصحف شریف کے لئے یا کتب حدیث وفقہ کے لئے بھی، طرفہ یہ کہ مانعین کے امام الطائفہ گنگوہی کے فتاوی حصہ (۳)میں ہے :
سوال : خرید کر قرآن دینا درست ہے یا نہیں؟
جواب: زکوٰۃ کے روپے سے قرآن کتاب کپڑا وغیرہ جو کچھ خرید کر دے دیا جائے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے اھ اور بات یہ ہے مانعین حقیقت امر سے غافل ہیں جو اس کی تحقیق بازغ کا طالب ہو ہمارے فتاوی کی طرف رجوع کرے وباﷲ التوفیق واﷲ تعالٰی اعلم