مسئلہ ۱۲۰۵: از نجیب اباد ضلع بجنور محلہ مجید گنج مرسلہ کریم بخش صاحب ٹھکیدار ۱۷ جمادی الاول ۱۳۳۱ھ
قضا نماز کی جماعت ہوسکتی ہے یا نہیں؟ تنہا پڑھنا افضل ہے یا باجماعت ؟ اور مسجد میں یا مکان پر ؟ اگر جماعت ہوسکتی ہے تو صبح و عشا و مغرب کی نماز خاموش پڑھنا چاہیئے یا با آواز ؟ اور ہر ایک قضا عین وقت ہی پر پڑھی جائے مثلاً عشاء کی عشاء کے وقت اور ظہر کی ظہر کے وقت علی ہذالقیاس یا حتی الامکان جلد بلا تعین وقت؟
الجواب
اگر کسی امر عام کی وجہ سے جماعت بھر کی نماز قضا ہوگئی تو جماعت سے پڑھیں ، یہی افضل ومسنون ہے اور مسجد میں بھی پڑھ سکتے ہیں ، اور جہر ی نمازوں میں امام پر جہر واجب ہے اگر چہ قضا ہو۔ اور اگر بوجہ خاص بعض اشخاص کی نماز جاتی رہی تو گھر میں تنہا پڑھیں کہ معصیت کا اظہار بھی معصیت ہے قضا حتی الامکان جلد ہو ، تعیین وقت کچھ نہیں ایک وقت میں سب وقتوں کی پڑھ سکتا ہے ،
درمختار میں ہے:
یکرہ قضاء ھا فیہ ( ای فی المسجد) لان التاخیر معصیۃ فلا یظھر ھا ۔ بزازیۃ ۲؎۔
مسجد میں نماز کی قضا مکروہ ہے کیونکہ تاخیر معصیت ہے جس کا اظہار نہیں ہونا چاہئے، بزازیہ ۔ (ت)
(۲؎ درمختار باب الاذان مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۷۹)
ردالمحتار میں ہے:
وفی الامداد انہ اذاکان التفویت الامر عام فالاذان فی المسجد لایکرہ لانتفاء العلۃ کفعلہ صلی اﷲ تعلایی علیہ وسلم لیلۃ التعریس ۱؎۔
امداد میں ہے جب نماز کا فوت ہونا کسی عام امر کی وجہ سے ہو تو اب مسجد میں قضا کے لئے اذان مکروہ نہیں
کیونکہ وہ علت معدوم ہے جیسے کہ سرور علام صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے لیلۃ التعریس میں کیا تھا ۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار باب الاذان مطبوعہ مصطفیاالبابی مصر ۱/۲۸۸)
درمختار میں ہے:
یجھر الامام وجو با فی الفجر و او لی العشائین اداء وقضاء ۲؎ واﷲ تعالٰی اعلم
امام فجر اور مغرب وعشاء کی پہلی دو رکعات میں جہراً قرأت کرے خواہ نماز ادا پڑھائے یا قضا ۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
(۲؎ درمحتار فصل ویجہرالامام مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۷۹)
مسئلہ ۱۲۰۶: از نواب گنج ضلع بریلی مرسلہ امانت علی شاہ ۱۷ رمضان ۱۳۳۱ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی شخص کی بہت نمازیں قضا ہوگئی ہیں یا اس نے دیر سے نماز شروع کی تو اس کو کیا کرنا چاہئے کہ اس کی پچھلی نمازیں پوری ہو جائیں؟
الجواب
ان نمازوں کی قضا کرے جس قدر روز پڑھ سکے اسی قدر بہتر ہے مثلاً دس دن کی روز پڑھے یا آٹھ کی یا سات کی اور چاہے ایک وقت میں پڑھے یا متفرق اوقات میں، اور ہر بار یوں نیت کرے کہ سب میں پہلی وہ نماز مجھ سے قضا ہوئی ، جب ایک پڑھ لی پھر یوں نیت کرے یعنی اب جو باقیوں میں پہلی ہے، اخیر تک اتنی پڑھے کہ اب اس پر قضا باقی رہنے کا گمان نہ رہے ، قضا ہر روز کی صرف بیس رکعت ہے واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۱۲۰۷و ۱۲۰۸ : دبیر انجمن نعمانیہ لاہور ۱۴ محرم ۱۳۳۹ھ
(۱) ایک شخص جس نے اپنی چالیس سال کی عمر تک باوجود مسلمان کہلانے کے نماز ر وزہ حج زکوٰۃ ادا نہ کی ہو یا کبھی کچھ کر لیا اور کبھی کچھ نہیں اور بعد ازاں وہ تائب ہوا اور تجدید ایمان کی اور کسی اہل اﷲ کے ہاتھ پر بیعت کی کہ اس شخص کو بھی ان عبادات کا اعادہ فرض ہو گا یا تجدید ایمان کی کافی ہوگی کیونکہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تمام نقائص کو رفع کردیتا ہے اور کسی کبائر وغیرہ کا بھی وہ جواب دہ نہیں رہتا۔
(۲۲) اگر اس کی عمر ایس مدت تک پہنچ گئی ہے کہ وہ سب قضا نمازیں کھڑے ہوکر ادا نہیں کرسکتا تو بیٹھ کر ادا کرنے سے ادا ہو جائے گی یا نہیں۔؟
الجواب
(۱) نماز روزہ و حج زکوٰۃ ادانہ کرنے سے آدمی کافر نہیں ہوتا جتنے دنوں ادا نہ کرے گا اس کی قضا اس پر فرض رہے گی کا فر کا اسلام لانا اس کے اگلے کبائر کو محور کردیتا ہے ، مسلمان صرف تجدید اسلام سے اپنے گناہوں عہدہ برآنہیں ہوسکتا جب تک توبہ نہ کرے، فرائض ترک کئے ہیں اس سے توبہ میں یہ بھی شرط ہے کہ ان کی قضا کرے صرف زبانی توبہ توبہ نہیں ہے ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(۲) جب تک کھڑے ہونے کی طاقت ہے کھڑا ہونا فرض ہے اگر چہ لکڑی یا آدمی یا دیوار کے سہارے سے جتنی اس طور سے پڑھ سکے کھڑے ہو کر پڑھے، جب تک تھک جائے تھم جائے، اس طرح ادا میں اگر قصور کرے گا اور موت آگئی توامید ہے کہ مولی تعالٰی باقی نمازیں معاف فرمائے گا واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۱۲۰۹: جس شخص نے نماز صبح نہ پڑھی ہو تو اس کی جمعہ اور عید کی نماز ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ واﷲ تعالٰی اعلم
الجواب
عید کی نماز تو مطلقاً ہوجائے گی اور جمعہ کی بھی اگر صاحب ترتیب نہ ہو یعنی اس کے ذمہ پانچ نمازوں سے زیادہ قضا جمع ہوگئی ہوں اگر چہ ادا کرتے کرتے اب کم باقی ہوں، اگر صاحب ترتیب ہے تو جب تک صبح کی نماز نہ پڑھ لے جمعہ نہ ہوگا اگر صبح کی نماز اسے یاد ہے اور وقت اتنا تنگ ہوگیا کہ صبح کی نماز پڑھے تو ظہر کا وقت ہی نکل جائے اور یہ جمعہ میں ہونا متوقع نہیں ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۱۰: از بنگالہ ضلع سلہٹ ڈاکخانہ کمال گنج موضع پھول ٹولی مرسلہ عبدالغنی صاحب ۲۰ شوال۱۳۱۷ ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے انتقال کیا اس پر کفارہ صوم وصلوٰۃ کا واجب تھا بسبب غربت کے ، حیات میں ادانہ کیا ، اب اس کے وارثوں نے قرض لے کر اس کی جانب سے ایک قرآن شریف ہدیہ مسکین کو دے دیا اس صورت میں کفارہ مذکورہ ذمہ زید سے ساقط ہوایا نہیں۔ بنیوا توجروا
الجواب
بازار کے بھاؤ سے وہ نسخہ مصحف شریف جس قیمت کا تھا بقدر اس کے کفارہ ادا ہونے کی امید ہے مثلاً دو روپیہ ہدیہ کا تھا تو دو روپے کے گیہو جتنے کفارے کو کافی ہوں وہی ادا ہوسکتا ہے باقی نماز روزے زید کے ذمے بدستور رہے، قرآن مجیدبیشک بے بہاہے اس کے ایک کلمے ایک حرف کی برابر ساتوں آسماں وزمین اور جو کچھ ان میں ہے برابر نہیں ہوسکتے، مگر ان امور میں اعتبار مالیت کا ہے ، قرآن عظیم مال نہیں۔ ہاں یہ کاغذ و جلد جو متضمن نقوش ہیں یہ مال انھیں کی قیمت ملحوظ ہوگی و بس ، ورنہی یوں تو جس پر دس کروڑ روپے کسی کے قرض آتے ہوں ایک کلمہ اﷲ پر چہ پر لکھ کردے دے اور دین سے ادا ہو کر بے شمار اس کا اس پر فاضل رہے وھذا کلہ ظاھر جدا ( اوریہ سارا اچھی طرح واضح ہے ۔ ت) واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۱۱: ۲۹ ذیقعدہ۱۳۱۷ھ
کیا فرما تے ہیں علمائے دین ا س مسئلہ میں کہ ایک شخص مرگیا اس نے عمر بھر نماز نہ پڑھی یا کبھی پڑھی اس کی عمر ستر پچھتر برس کی ہوئی کفارہ نماز کے بہت سے گیہوں یا جوَ ہوں گے اور اس قدر مال نہیں تو اس کے ادا ہونے کا کیا طریقہ ہے ؟ بینوا توجروا
الجواب
اس کا طریقہ یہ ہے کہ مثلاً بارہ برس ادنٰی مدت بلوغ کی نکال کر ساٹھ برس کی نمازیں اس کے ذمہ تھیں سال کے دن تین سو پچپن ہیں تو ایک سال کی نمازوں کے فدیے دوہزار ایک سوتیس ہوئے اور ساٹھ برس کے ایک لاکھ ستائیس ہزار آٹھ سو ایک نماز کا فدیہ گیہوں سے نصف صاع یعنی بریلی کی تول سے ایک سیر سات چٹھانک دو ماشےساڑہے چہہ رتی اور انگریزی سیر سے کہ اسی روپیہ بھر کا ہے پونے دوسیر اور پون چٹھانک اور بیسواں حصہ چھٹانک کا یعنی ایک سیرتیرہ چھٹانک پانچواں حصہ چھٹانک کا کم اس مقدار كو ۲۱۳۰ میں ضرب دیں تو سال بھر کی نمازوں کا کفارہ ہو اور ۱۲۷۸۰۰ میں ضرب دیں تو ساٹھ سال کا ، یہ تقریباً پونے پانچ ہزار من گیہوں ہوئے اس قدر دینے کی طاقت نہی ں تو جتنے کی قدرت ہو اس قدر فقیر کو دے کر مالک کردے قبضہ دلا دیں پھر فقیر اپنی طرف سے انھیں ہبہ کردے یہ پھر دوبارہ نیت کفارہ اسے دے کر قبضہ دلادیں وہ پھر انھیں ہبہ کردے یہ سہ بارہ ایسا ہی کریں یہاں تک کہ یہ الٹ پھیر اس مقدار کو پہنچ جائے جتنے بڑی مقدار سے دور کریں گے جلد ختم ہوگا دور کے لئے یہ بھی کرسکتے ہیں کہ کسی سے مثلاً سوروپیہ کی تھیلی قرض لے کر وہ کفارے میں فقیر کو دیں اور یوں ہی الٹ پھیر کریں کہ روپے سے دو ر آسان ہوگا، اخیر میں فقیر کو کچھ دے کر راضی کریں۔
فتاوٰی بزازیہ میں ہے :
ان لم یکن لہ مال یستقرض نصف صاع ویعطیہ المسکین علی الوارث ثم الوارث علی المسکین ثم وثم حتی یتم لکل صلوٰۃ نصف صاع کما ذکرنا ۱؎ اھ وتفصیل الکلام فی فتاوٰنا۔ واﷲ تعالٰی اعلم
اگر میت کا مال نہیں تو نصف صاع قرض لے کر مسکین کو دیا جائے پھر وہ مسکین اسے وارث پر صدقہ کرتے جائیں یہاں تک کہ ہر نماز عوض نصف صاع ہوجائے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اھ ۔