مسئلہ۱۲۰۲:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جس پر قضا نماز یں زیادہ ہوں وہ ان کی نیت کیونکر کرے اور قضا میں کیا کیا نماز پھیری جاتی ہے اور جس کے ذمہ قضائیں بہت کثیر ہیں جن کی ادا سخت دشوار ہے تو آیا اس کے لئے کوئی تخفیف نکل سکتی ہے جس سے ادا میں آسانی ہوجائے کہ ادا میں جلدی منظور ہے کہ موت کا وقت معلوم نہیں۔ بنیوا توجروا
الجواب
قضا ہر روز کی نماز کی فقط بیس رکعتوں کی ہوتی ہے دو فرض فجر کے ، چارظہر ،چار عصر ، تین مغرب ، چار عشاء کے تین وتر۔ اور قضا میں یوں نیت کرنی ضرور ہے کہ نیت کی میں نے پہلی فجر جو مجھ سے قضا ہوئی یا پہلی ظہر جو مجھ سے قضا ہوئی ، اسی طرح ہمیشہ ہر نماز میں کیا کرے اور جس پر قضا نماز میں بہت کثرت سے ہیں وہ آسانی کے لئے اگریوں بھی ادا کرے تو جائز ہے کہ ہر رکوع اور ہر سجدہ میں تین تین بار سبحان ربی العظیم، سبحان ربی الاعلی کی جگہ صرف ایک بار کہے، مگر یہ ہمیشہ ہر طرح کی نماز میں یاد رکھنا چاہئے کہ جب آدمی رکوع میں پورا پہنچ جائے اس وقت سبحان کا سین شروع کرے اور جب عظیم کا میم ختم کرے اس وقت رکوع سے سر اٹھائے اسی طرح جب سجدوں میں پورا پہنچ لے اس وقت تسبیح شروع کرے اور جب پوری تسبیح ختم کرلے اس وقت سجدہ سے سر اٹھائے۔ بہت سے لوگ جو رکوع سجدہ میں آتے جاتے یہ تسبیح پڑھتے ہیں بہت غلطی کرتے ہیں ایک تخفیف کثرت قضا والوں کی یہ ہوسکتی ہے ، دوسری تخفیف یہ کہ فرضوں کی تیسر ی ور چوتھی رکعت میں الحمد شریف کی جگہ سبحان اﷲ، سبحان اﷲ ،سبحان اﷲ تین بار کہہ کر رکوع میں چلے جائیں مگر وہی خیال یہاں بھی ضرور ہے کہ سیدھے کھڑے ہو کر سبحان اﷲ شروع کریں اور سبحان اﷲ پورے کھڑے کھڑے کہہ کر رکوع کے لئے سر جھکائیں ، یہ تخفیف فقط فرضوں کی تیسری چوتھی رکعت میں ہے وتروں کی تینوں رکعتوں میں الحمد اور سورت دونوں ضرور پڑھی جائیں، تیسری تخفیف پھلی التحیات کے بعد دونوں درودوں اور دعا کی جگہ صرف اللھم صلی علی محمد والہ کہہ کر سلام پھیردیں چوتھی تخفیف وتروں کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت کی جگہ اﷲ اکبر کہہ کر فقط ایک یا تین بار رب اغفر لی کہے واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۰۳: از مولوی عبد اﷲ صاحب مدرس منظرالاسلام محلہ سوداگران بریلی ۹ صفر ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ قضائے عمری نماز ادا کرنے کی حالت میں جو نفل ہر وقت کی نماز میں پڑھے جاتے ہیں وہ قبول ہوں گے یا نہیں؟
الجواب
خالی نفلوں کی جگہ بھی قضائے عمری پڑھے ، واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۰۴: کتاب ترکیب الصلوٰۃ میں لکھا ہے کہ ایک شخص تین بجے رات سے جاگتا رہا اور وقت نماز صبح صادق سوگیا اورآفتاب نکل آیا تو وہ وقت کی نماز پڑھے ثواب اس کو ادا کا ملے گا وقت میں قضا کا لفظ نہ کہے۔
الجواب
اس نماز کے قضا ہوجانے میں شک نہیں کہ نماز کے لئے شرعا اوقات معین ہیں،
قال اﷲ تعالٰی ان الصلوٰۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا ۱؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: بیشک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے،
(1۱؎ القرآن ۴ /۱۰۳)
اور قضا ہوجانے کے یہی معنی ہیں کہ شرعاً جو وقت مقرر فرمایا گیا تھا وہ جاتارہے،
رسول اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان اللصلوٰۃ اولا واخرا و ان اول وقت الفجر حین یطلع الفجر و ان اخر وقتھا حین تطلع الشمس۱؎۔ رواہ الترمذی والامام الطحاوی بسند صحیح عن الاعمش عن ابی صالح عن ابی ھریرۃ مطولا وھذا مختصر،
بیشک ہر نماز کے لئے اول واخر ہے اور بیشک نماز صبح کا اول وقت طلوع فجر کے وقت ہے اور اس کا آخر طلوع شمس پر ہے ، اسے امام ترمذی اور امام طحاوی نے بسند صحیح اعمش سے انھوں نے ابوصالح سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے تفصیلاً روایت کیا ہے اور یہ مختصر ہے
(۱؎ جامع الترمذی ابواب الصلوٰۃ باب منہ مطبوعہ امین کمپنی دہلی ۱/۲۲)
امام طحاوی فرماتے ہیں:
ھذا اتفاق المسلمین ان اول وقت الفجر حین تطلع الفجر واٰخر وقتھا حین تطلع الشمس۲؎ ۔
یعنی اس پر تمام مسلمانوں کا اجمع ہے کہ نماز صبح کا وقت طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے اور طلوع شمس پر جاتا رہتا ہے۔
(۲؎ شرح معانی الآثار باب مواقیت الصلوٰۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۰۳)
اما ما ذکر فی بعض کتب الفقۃ مرفوعا من نام عن صلوۃ اونسیھا فلیصلھا اذااذکرھا فان ذلک وقتھا فاقول الحدیث فی الصحیحین بلفظ من نسی صلوٰۃ فلیصلھا اذ اذکرھا لاکفارۃ لھا الا ذلک ۳؎
جو بعض کتب فقہ میں مرفوعاً روایت مروی ہے کہ جو شخص نماز سے سوگیا اسے بھول گیا تو وہ جب یاد آجائے اسی وقت نماز ادا کرے کیونکہ یہی اس کا وقت ہے ۔ فاقول (میں کہتا ہوں ) اس حدیث کو بخاری ومسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالی عنہ سے ان الفاظ میں روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : جو نماز بھول گیا وہ یاد آنے پر ادا کرے اس نماز کا کفارہ سوائے اس کے کچھ نہیں
(۳؎ صحیح البخاری باب من نسی صلوٰۃ فلیصل اذاذکر الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۸۴)
(صحیح مسلم باب قضاء الصلوٰۃ الفائتۃ نور محمد اصح المطابع کراچی ۱/۲۴۱)
اخرجاہ عن انس بن مالک رضی اﷲ تعالی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم،
وفی لفظ لمسلم عنہ من نسی صلوۃ او نام عنھا فکفارتھا ان یصلھا اذاذکرھا ۴؎
مسلم شریف میں انہی سے یہ روایت ان الفاظ میں ہے جو شخص نماز ادا کرنا بھول گیا یا سو گیا نماز رہ گئی تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب یاد آئے اسے ادا کرے ۔
(۴۔ صحیح مسلم باب قضاء الصلوٰۃ الفائتۃ نور محمد اصح المطابع کراچی ۱/۲۴۱)
مسلم کی دوسری روایت جو اسی صحابی سے مروی ہے یہ الفاظ ہیں کہ جب نماز یاد آئے تو اسے ادا کر ے کیونکہ اﷲ تعالٰی کا فرمان ہے نماز میری یاد کے لئے قائم کرو۔
(۴و۵۔ صحیح مسلم باب قضاء الصلوٰۃ الفائتۃ نور محمد اصح المطابع کراچی ۱/۲۴۱)
ولہ عن ابی قتادہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ بلفظ فلیصلھا حین ینتبہ لھا فاذاکان الغد فلیصلہا عند وقتھا۱؎
اور مسلم نے حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے یہ الفاظ روایت کئے ہیں کہ وہ شخص جب بیدار ہو تو ادا کرے اور جب دوسرا دن آئے تو اسے وقت پر ادا کرے ۔
(۱؎ صحیح مسلم کتاب المساجد باب قضاء الصلوٰۃ الفائتۃ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی ۱/ ۲۳۹)
ولہ کالستۃ الا البخاری والترمذی عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا خر الفاظہ عن انس رضی اﷲ تعالیی عنہ وللتر مذی وصححہٖ والنسائی فی حدیث ابی قتادہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ فلیصلھا اذا ذکرھا ۲؎
بخاری کے سوا صحاح ستہ میں ایسے ہی ہے ۔ ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے حدیث کے آخر ی الفاظ اس طرح نقل کئے ہیں جو حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے بھی مروی ہیں، ترمذی اور نسائی میں حضرت ابو قتاوہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی حدیث میں ہے ، پس اسے پڑھ لے جب اسے یاد ائے ، ترمذی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے
(۲؎ جامع الترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء فی النوم عن الصلوٰۃ مطبوعہ امین کمپنی کراچی ۱/۲۵)
(سنن النسائی کتاب المواقیت فیمن نام عن صلوٰۃ مطبوعہ المکتبۃ السلفیہ لاہور ۱/۷۱)
ومثلہ لابی یعلی والطبرانی فی الکبیر عن ابی حنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ونحوہ لھذا فی الاوسط عن ابی سعید الخدری رضٰی اﷲ تعالٰی عنہ ولمالک فی موطاہ عن زید بن اسلم عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اذا رقد احد کم عن الصلوٰۃ اونسیھا ثم فزع الیھا فلیصلھا کما کان یصلیھا لوقتھا ۳؎
ابویعلی اور المعجم الکبیر للطبرانی میں یہ حدیث امام ابی حنیفہ رضی اﷲ عنہ سے اسی کی مثل مروی ہے، اسی طرح اوسط میں حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے اور امام مالک کے موطا میں زید بن اسلم سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز سے سو جائے یا ا سے بھو ل جائے پھر اسے نماز کے ( قضا) ہونے کا خوف لاحق ہوا تو اسے اسی طرح ادا رکہے جس طرح وقتی نماز ادا کرتاہے۔
(۳؎ موطا امام مالک کتاب وقوت الصلوٰۃ باب النوم عن الصلوٰۃ مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی ص ۱۰)
وللطبرانی عن میمونۃ بنت سعد رضی اﷲ تعالٰی عنھا اذا ذکرھا فلیصلھا ولیحسن صلٰوتہ ولیتوضا فلیحسن وضوئہ فذلک کفارتہ ۴؎
طبرانی میں حضرت میمونہ بنت سعد رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ جب اسے یاد آئے ادا کرے اور اچھی طرح وضو کرے پس یہی اس کاکفارہ ہے ۔
(۴؎ المعجم الکبیر مروی ازمیمونہ بنت سعد رضی اﷲ عنہا مطبوعہ المکتبۃ بیروت ۲۵/ ۳۵)
و لیس فی شی من ذلک ''فان ذلک وقتھا'' بل قد ارشد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی حدیث ابی قتادۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ بقولہ فاذاکان الغد فلیصلھا عند وقتھا ان الذی یصلی الیوم لیس لوقتہ والیہ یومی حدیث زید فلیصلھا کما کان یصلیھا لوقتھا نعم للطبرانی فی الاسط و البیھقی فی السنن من نسی صلوٰۃ فوقتھا اذا ذکرھا۱؎
ان تمام روایات میں یہ الفاظ کہ'' یہی اس کا وقت ہے '' ہرگز نہیں ہیں بلکہ رسالت مآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حدیث ابو قتادہ کے الفاظ '' دوسرے دن کی نماز اپنے وقت پر ادا کرے '' کے ذریعے یہ رہنمائی عطا فرمائی ہے کہ آج اس نے جو نماز پڑھی وہ وقت پر نہ تھی حدیث زید کے الفاظ اسے اسی طرح ادا کرے جیسے وقتی ادا کرتا ہے'' بھی اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں ، ہاں طبرانی نے اوسط اور بہیقی نے سنن میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ جو نماز بھول گیا اس کا وقت وہی ہے جب اسے یاد ائے
(۱؎مجمع الزوائد نحوالہ معجم اوسط باب فیمن نام عن الصلوٰۃ مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت ۱/۳۲۲)
(سنن الکبرٰی کتاب الصلوٰۃ باب لاتفریطہ علی من نام عن صلوٰۃ مطبوعہ دار صادر بیروت ۲/۲۱۹)
وقد نص البیھقی علی تضعیفہ فانی تقوم بہ الحجۃ بل ولئن صح لم یقادح الاجماع علی انہ یقبل التاویل ای انہ یطالب بھا الان کما یطالب بہا فی وقتھا۔
لیکن امام بیہقی نے اس کے ضعیف ہونے کی تصریح کردی ہے تو یہ روایت دلیل كیسے بن سکتی ہے، بلکہ اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو اجماع کو توڑ نہیں سکتی ، علاوہ ازیں اس کی تاویل کرنا درست ہے کہ جب نماز یاد آ ۤئی ہے تو اس سے اس کی ادائیگی کاا سی طرح مطالبہ ہے جیسے کہ اس کے وقت میں تھا۔ (ت)
وقت میں قضا کا لفظ کہنے کی تو کوئی حاجت اس میں بھی نہیں جبکہ جیتے جاگتے قصداً معاذ اﷲ قضا کردی ہو بلکہ ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ قضا بہ نیت ادا اور ادا بہ نیت قضا دونوں صحیح ہیں مگر اس سے ممانعت کی کوئی وجہ نہیں جبکہ وہ یقینا قضا ہے تو قضا کہنے میں کیا مضائقہ رکھا ہے، رہا ادا کا ثواب ملنا یہ اﷲ عزوجل کے اختیار میں ہے اگر وہ جانے گا کہ اس نے اپنی جانب سے کوئی تقصیر نہ کی صبح تک جاگنے کے قصہ سے بیٹھا تھا اور بے اختیار آنکھ لگ گئی تو ضرور اس پر گنا ہ نہیں
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اما انہ لیس فی النوم تفریط انما التفریط علی من لم یصلی الصلوٰۃ حتی یجئ وقت الصلوٰۃ الاخری۲؎ ۔
سو جانے کی وجہ سے نماز رہ گئی تو گناہ نہیں لیکن جس شخص نے جان بوجھ کر نماز نہ پڑھی حتی کہ دوسری نماز کا وقت آگیا تو یقینا گنہ گار ہوگا ۔
(۲؎ صحیح مسلم کتاب المساجد باب قضاء الصلوٰۃ الفائتۃ مطبوعہ نور محمد اصح لمطابع کراچی ۱/۲۳۹)
اسے مسلم نے حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ نسائی اور ترمذی نے اسی صحابی سے ان الفاظ میں روایت کی ہے سو جانے کی صورت میں گناہ نہیں البتہ بیداری میں گناہ ہے۔ (ت)
(۱؎ سنن النسائی کتاب المواقیت فیمن نام عن صلوٰۃ مطبوعہ المکتبہ السلفیہ لاہور ۱/۷۱)
(جامع الترمذی ابواب الصلوٰۃ ماجاء فی النوم عن الصلوٰۃ مطبوعہ امین کمپنی دہلی ۱/۲۵)
اور جب اس کی جانب سے کوئی تقصیر نہیں تو امید یہی ہے کہ ثواب نماز کامل عطاہو مگر اس سے وہ نماز قضا سے خارج نہ ہو جائے گی ثواب کا مدار نیت پر ہے ، بے کئے ثواب محض نیت پر مل جاتاہے ۔ صحیح حدیث میں ارشاد ہے کہ جو نماز کے قصد پر چلا اور جماعت ہو چکی جماعت کا ثواب پائے گالیکن اس سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ جماعت فوت نہ ہوئی وھذ اظاھر جدا ( یہ بلکل واضح ہے ۔ ت ) واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم