مسئلہ ۱۱۹۸: ۴ صفر۱۳۲۰ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ سنن اربعہ جو بروز جمعہ قبل از خطبہ پڑھی جاتی ہیں اگر وہ کسی عذر سے ترک ہوجائیں تو بعد خطبہ اور فرضوں کے ان کی ادا ہے یا نہیں؟بینوا بحوالۃ الکتاب وتوجروا عند اﷲ الوھاب
الجواب
ہے اور سنتوں ہی کی نیت کرے وہ سنت ہی واقع ہوں گی،
فی الدرالمختار بخلاف سنہ الظھر وکذا الجمعۃ فانہ ان خاف فوت رکعۃ یترکھا ویقتدی، ثم یأتی بھا علی انھا سنۃ فی وقتہ ای الظھر ۱؎۔
درمختار میں ہے کہ بخلاف ظہر کی سنتوں کے او ر اسی طرح جمعہ کی سنتوں کے اگر ایک رکعت کے فوت ہونے کا خطرہ ہے تو سنتیں چھوڑ کر امام کی اقتداء کرے پھر ان کو وقت ظہر میں ادا کرے۔ (ت)
(۱؎ درمختار باب ادراک الفریضہ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۰۰)
ہاں اگر وقت ظہر نکل گیا توا ب قضا نہیں لما قد منا ( جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے ۔ ت) واﷲ تعا لٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۹۹: ۲۸ ربیع الآخر ۱۳۲۰ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے فرض فجر کی جماعت سے پڑھے اور سنت اس کی فوت ہوئیں بوجہ ادائے فرض کے اب ان سنتوں کو بعد ادائے فرض پڑھے یا بعد طلوع آفتاب اور وقت بھی ادائے سنت کا باقی ہو اور کسی کے فرض وسنت دونوں فوت ہوئے ہوں تو ان سنت وفرض کو بعد طلوع آفتاب کے پڑھے اور سنت کی قضا کس وقت تک چاہئے؟
الجواب
جب فجر کے فرض پڑھ لئے توآفتاب بلند ہونے سے پہلے سنتیں پڑھنے کی اجازت نہیں اگر چہ فجر کا ابھی ایک گھنٹا وقت باقی ہو، ہاں بعدبلندیآفتاب پڑھے اور جس کے فرض وسنت دونوں فوت ہوئے ہوں وہ طلوع کے بعد استواء سے پہلے فرض وسنت دونوں کی قضا کرے، اور اگر یہ وقت بھی گزر گیا بعد زوال فرضوں کی قضا پڑھے تو اب سنتوں کی قضا نہیں
والمسائل مبسوطۃ فی الدر وغیر عامۃ الاسفار الالغر
( ان مسائل کی تفصیل در اور دیگر کتب مبارکہ میں ہے ۔ ت) واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۰۰: از ملک بنگال ضلع نواکھالی ڈاکخانہ چندراگنج موضع ودالیا مرسلہ محمد ابراہیم ۶ شوال ۱۳۲۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کوئی شخص عمر بھر نماز کبھی نہیں پڑھی اب یہ شخص مرگیاتو اس وقت اس کی قضائے عمری کی کیا صورت ہے اس کا اگر کوئی تدارک ہوسکے تو کیا ہے؟ بینوا توجروا
الجواب
اگر وقت بلوغ معلوم نہ ہو تو مرد کے لئے اس عمر سے بارہ برس اور عورت کے لئے ۹ برس کم کریں اور باقی تمام برسوں کے دن کرکے ہردن کی نماز کے لئے آٹھ سو دس تولے گیہوں کہ سو روپے بھر کے سیر سے کچھ کم نو سیر ہوئے یا سولہ سو بیس تولہ جوَ یاان کی قیمت ادا کریں کل کے ادا کی طاقت نہ ہو توجس قدر پر قدرت ہو محتاج کو دے کر قابض کردیں محتاج اپنی طرف سے پھر ان کو ہبہ کردے یہ قبضہ کرکے پھر کفارہ میں محتاج کودیں وہ بعد قبضہ پھر ان کو ہبہ کردے ، یہ پھر قبضہ کرکے کفارہ میں دیں یونہی دورکرتے رہیں یہاں تک کہ اداہوجائے۔ عورت کی عادت حیض اگر معلوم ہو تو اس قدر دن اور نہ معلوم ہو تو ہر مہینے سے تین دن نو برس کی عمر سے پچاس برس کی عمر تک مستثنٰی کریں مگر جتنی بار حمل رہا ہو مدت حمل کے مہینوں سے ایام حیض کا استثناء نہ کریں عورت کی عادت دربارہ نفاس اگر معلوم ہو تو ہر حمل کے بعد اتنے دن مستثنٰی کرے اور نہ معلوم ہو تو کچھ نہیں کہ نفاس کے لئے جانب اقل میں شرعاً کچھ تقدیر نہیں ممکن ہے کہ ایک ہی منٹ آکر فوراً پاک ہوجائے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۰۱: از اوجین علاقہ گوالیار مکان میر خام علی صاحب اسسٹنٹ مرسلہ محمد یعقوب علی خان رمضان المبارک ۱۳۰۷ھ
چہ می فرمایند علمائے محقق دین ومفتیان مدقق پابند شرع متین دریں مسئلہ کہ اکثر عوام الناس درآخرر جمعہ رمضان المبارک نماز قضائے عمری پنجوقتہ متخلف امام می خوانند درست است یا ممنوع زیرا کہ نماز قضا بدون ادا ساقط و دورنمی شوداگرکسے بروز جمعہ آخری رمضاب شریف قضائے نماز تمام عمر بہ نیت قضائے عمری بخواہد کہ اداشود تعجب ست انتہی و نیز صورت نماز قضائے روز متفرقہ چیست یعنی قضائے عصریکے روز سہ شنبہ ونماز قضائے عصر دوم چہارشنبہ اگر ایں ہر دومردم نماز قضائے عصر جداگانہ بجماعت ادا نماز ینددرست ست یا منع چراکہ نماز ہر دومردم روز یکے نیست علاوہ بریں امام صاحب ترتیب ست و مقتدیان ازیں خوبی عاری پس چنیں امام قضائے یقینی مقتدیان کہ اکثر قضائے نماز ذمہ اوست فارغ الذمہ میشوند یا حکم آں چہ ۔اعنی پس ادا کنندہ نفل نماز فرض بچہ طور ادامی شودبشرح بسیط بیان فرمایند بحوالہ عبارت کتب رحمۃ ﷲ علیکم اجمعین۔
علمائے دین ومفتیان شرع میتن اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں عوام الناس امام کی اقتداء میں پانچ وقتی نماز قضا عمری پڑھتے ہیں یہ درست ہے یا ممنوع؟ کیونکہ قضا نماز جب تک ادا نہ کی جائے ساقط نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی شخص رمضان کے آخری جمعہ کو تمام عمر کی قضا نمازوں کی نیت سے قضا عمری پڑھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ تمام عمر کی نمازیں ساقط ہوجائیں گی اس پر تعجب ہے انتہی ، مختلف دنوں کی نمازوں کی قضاء کی صورت کیا ہے؟ مثلاًایک آدمی کی منگل کی عصر اور دوسرے کی بدھ کی عصر قضا ہوگئی ہے اگر دونوں عصر کی قضا آپس میں باجماعت ادا کرتے ہیں تو یہ درست ہے یا ممنوع ؟ کیونکہ دونوں کی نماز ایک دن کی نہیں۔ علاوہ ازیں امام صاحب ترتیب ہے لیکن مقتدی صاحب ترتیب نہیں اس طرح کے امام کے پیچھے مقتدیوں کی قضا نمازیں ساقط ہوجائینگی یا ان کا حکم کیا ہے یعنی نفل ادا کرنے سے فرض کس طرح ساقط ہوسکتے ہیں ؟ عبارت کتب کے حوالہ جات سے تفصیلاً بیان فرمائیں تم پر اﷲ کی رحمت ہو۔ (ت)
الجواب
ایں طریقہ کہ بہر تکفیر صلوات فائتہ احداث کردہ اند بدعت شنیعہ دردین نہادہ اند حدثیش موضوع و فعلش ممنوع وایں نیت واعتقاد باطل ومدفوع، اجماع مسلمین بربطلان ایں جہالت شنیعہ وضلالت فظیعہ قائم ست
حضور پر نور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرمودہ اند : من نسی صلوٰۃ فلیصلہا اذا ذکرھا لا کفارۃ لھا الا ذلک۱؎
ہر کہ نمازے فراموش کردچوں یادآید آں نماز بازگزا ردجزایں مر اورا کفارہ نیست
اخرجہ احمد والبخاری ومسلم واللفظ لہ والتر مذی والنسائی وغیر ھم عن انس بن مالک رضی اﷲ عنہ۔
فوت شدہ نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ جو طریقہ ( قضائے عمری) ایجاد کرلیا گیا ہے یہ بد ترین بدعت ہے اس بارے میں جو روایت ہے وہ موضوع ( گھڑی ہوئی) ہے یہ عمل سخت ممنوع ہے ، ایسی نیت و اعتقاد باطل و مردود، اس جہالت قبیحہ اور واضح گمراہی کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، حضور پر نور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا رشاد گرامی ہے: جو شخص نماز بھول گیا تو جب اسے یاد آئے اسے ادا کرلے، اس کا کفارہ سوائے اس کی ادائیگی کے کچھ نہیں اسے امام احمد ، بخاری ، مسلم ( مذکورہ الفاظ بھی اس کے ہیں ) ترمذی ، نسائی اور دیگر محدثین نے حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔
(۱؎ صحیح البخاری کتاب موقیت الصلوٰۃ باب من نسی صلوٰۃ الخ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۸۴)
(صحیح مسلم باب قضاء الصلوٰۃ الفائتہ نور محمد اصح المطابع کراچی ۱/ ۲۴۱)
حدیث ''من قضی صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکل صلوٰۃ فائتۃ فی عمرہ الی سبعین سنۃ'' باطل قطعا لانہ مناقض للاجماع علی ان شیأ من العبادات لاتقوم مقام فائتۃ سنوات ۱؎ الخ
امام ابن حجر مکی درتحفہ شرح منہاج الامام النووی باز علامہ زرقانی درشرح مواہب امام قسطلانی رحمہم اﷲ تعالٰی فرمایند:
علامہ قاری علیہ رحمۃ الباری موضوعات کبیر میں کہتے ہیں: حدیث '' جس نے رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز ادا کرلی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ نمازوں کا ازالہ ہوجاتا ہے '' یقینی طور پر باطل ہے کیونکہ اس اجماع کے مخالف ہے کہ عبادات میں سے کوئی شئی سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام نہیں ہوسکتی الخ،
امام ابن حجر کی تحفہ شرح منہاج للامام النووی میں پھر علامہ زرقانی شرح مواہب امام قسطلانی رحمہم اﷲ تعالٰی میں فرماتے ہیں:
اقبح من ذلک مااعتید فی بعض البلاد من صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عقب صلٰوتھا زاعمین انھا تکفر صلٰوۃ العام اوالعمر المتروکۃ و ذلک حرام لوجوہ لا تخفی ۲؎ ۔
اس سے بھی بدتر وہ طریقہ ہے جو بعض شہروں میں ایجاد کر لیا گیا ہے کہ جمعہ کے بعد پانچ نمازیں اس گمان سے ادا کرلی جائیں کہ اس سے سال یا سابقہ تمام عمر کی نمازوں کا کفارہ ہے اور یہ عمل ایسی وجوہ کی بنا پر حرام ہے جو نہایت ہی واضح ہیں۔
(۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ واما حفیظۃ رمضان دارالمعرفۃ بیروت ۷ /۱۱۰)
واقتدائے قاضی عصر امروز بقاضی عصر دیرروز نارواست زیر اكہ اتحاد نماز شرط صحت اقتدا ست وہمچناں اقتدائے مفترض بمتنفل نیز کہ زنہار درست نباشدپس بدیں صورتہاذمہ از نماز فارغ نشود۔
باقی آج کی عصر قضا کرنے والے کی اقتداء میں کل کی عصر قضا کرنے والا نماز ادا نہیں کرسکتا کیونکہ اقتداء کے لئے نماز کاایک ہونا شرط ہے اور اسی طرح فرض پڑھنے والے کا نفل پڑھنے والے کی اقتداء کرنا ہر گز درست نہیں لہٰذا اس صورت میں نمازوں کا ذمہ ساقط نہیں ہوگا۔
فی نور الایضاح وشرحہ مراقی الفلاح شرط صحۃ الاقتداء ان لایکون الا مام مصلیا فرضا غیرفرض الماموم کظھر وعصر وظھر ین من یومین ۱؎ اھ ملخصا
نورالایضاح اور اس کی شرحہ مراقی الفلاح میں ہے اقتدا کے لئے یہ شرط ہے کہ امام اور مقتدی کے فرائض الگ الگ نہ ہوں مثلاً ایک ظہر اور دوسرا عصر یا دونوں دو (۲) دنوں کی ظہر ادا کر رہے ہوں ( تو پھر اقتداء جائز نہ ہوگی ) تلخیصا ،
(۱؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی باب الا مامۃ مطبوعہ نور محمد کا رخانہ تجارت کتب کراچی ص ۱۵۸)
وفی تنویر الابصار والدرالمختار وردالمحتار لا مفترض بمتنفل ومفترض فرضا آخر کمصلی ظھر أ مس بمصلی ظھر الیوم، لان اتحاد الصلوتین شرط۲؎ انتھت ملخصۃ واﷲ تعالٰی اعلم
تنویر الابصار، درمختار اور ردالمحتار میں ہے کہ فرض ادا کرنے والا نفل پڑھنے والے کی اقتدا نہیں کرسکتا اسی طرح ایک اور فرض پڑھنے والا ہے دوسرا دوسرے فرض والا ہے ان کا ایک دوسرے کی اقتداء کرنا بھی جائز نہیں مثلاً کل کی ظہر پڑھنے والے کی آج کی ظہر پڑھنے والا اقتدا کرے کیونکہ دونوں کی نمازوں کا ایک ہونا شرط ہے انتہت تلخیصاً واﷲ تعالٰی اعلم
(۲؎ ردالمحتار معہ الدرالمختار باب الا مامۃ مطبوعہ مصطفٰی البابی مصر ۱/ ۴۲۹)