Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
24 - 144
مسئلہ ۱۱۹۷: مسؤلہ حافظ مولوی عبدالوحید صاحب ۲۹ جمادی الاولٰی ۱۳۱۸ ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے کہ صبح کی سنتیں قضا قبل طلوع شمس کے  پڑھنا بہتر ہے اور عمر کہتا ہے بعد کو بہتر ہے اول حدیث پر عمل کرنا چاہئے ، اور عمر کہتا ہے دوسری حدیث پر عمل کرنا چاہئے ۔بینوا توجروا
الجواب

اگر صبح کی نماز  اور  سنتیں بسبب خوف جماعت خواہ کسی اور  وجہ سے رہ گئیں تو ان کی قضا اگر کرے تو  بعد بلندآفتابپڑھے قبل طلوع نہ صرف خلاف اولٰی بلکہ ناجائز و گناہ وممنوع ہے۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم وغیر ہما صحاح وسنن ومسانید میں امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہے:
نھی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن الصلوٰۃ بعد الصبح حتی تطلع الشمس وبعد العصر حتی تغرب۱؎۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے طلوع سحر کے بعد طلوع آفتابتک اور عصر کے بعد غروبآفتابتک نماز سے منع کیا ہے ۔(ت)
 (۲؎ صحیح البخاری     کتاب مواقیت الصلوة   باب لاتتحرالصلوٰۃ الخ        مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱/۸۳)
صحیح بخاری وصحیح مسلم وغیرہما میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہے:
ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نھی عن الصلوٰۃ بعد العصر حتی تغرب الشمس وعن الصلوٰۃ بعد الصبح حتی تطلع الشمس۳؎۔
نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے عصر کے بعد غروبآفتابتک اور صبح کے بعد طلوع آفتابتک نماز سے منع فرمایا ہے ۔ (ت)
 (۳؎ صحیح البخاری   کتاب  الصلوٰۃ بعد الفجر     باب الصلوٰۃ بعد الفجر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی  ۱/۸۲ و۸۳ )
علما فرماتے ہیں اس مضمون کی حدیثیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے متواتر ہیں
ذکرہ المناوی فی التیسیر فی شرح الجامع الصغیر
( اسے امام مناوی نے التیسیرفی شرح الجامع الصغیر میں ذکر کیا ہے ۔ ت)
درمختار میں ہے:
کرہ نفل قصدا و لو تحیۃ مسجد وکل ماکان واجب لغیرہ کمنذور  ورکعتی طواف والذی شرع فیہ ثم افسدہ ولوسنۃ فجر بعدصلوٰۃ فجر و عصر۴؎اھ ملخصاً
نماز فجر اور عصر کے بعد وہ تمام نوافل ادا کرنے مکروہ ہیں جو قصداً ہوں اگر چہ تحیۃ المسجد ہوں ، اور ہر وہ نماز جو غیر کی وجہ سے لازم ہو مثلاً نذر اور طواف کے نوافل اور ہر نفل نماز جس میں شروع ہوا  پھر اسے توڑ  ڈالا  اگر چہ وہ فجر اور عصر کی سنتیں ہی کیو ں   ہوں اہ ملخصاً (ت)
 (۴؎ درمختار        کتاب الصلوٰۃ            مطبع مجتبائی دہلی       ۱/۶۱)
ردالمحتار میں ہے:
الکراھۃ ھنا تحریمیۃ ایضا کما صرح بہ فی الحلیۃ ولذا عبرفی الخانیۃ و الخلاصۃ بعدم الجوازوالمراد عدم الحل ۱؎۔
یہ کراہت تحریمہ ہے جیسا کہ اس کی تصریح حلیہ میں ہے ، اسی لئے خانیہ اور خلاصہ میں عدم جواز سے تعبیر کیا گیا اور اس سے مراد یہ ہے کہ حلال نہیں۔(ت)
 (۱؎ درالمحتار        کتاب الصلوٰۃ                    مطبوعہ مصطفے البابی مصر        ۱/۲۷۶)
امام احمد وترمذی وحاکم بسند صحیح حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالے علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من لم یصل رکعتی الفجر فلیصلھا بعد ماتطلع الشمس۲؎۔ قال الحاکم صحیح و اقرہ الذھبی فی التلخیص۔
جس نے صبح کی سنت نہ پڑھی ہوں وہ بعد طلوعآفتابپڑھے امام حاکم نے اس روایت کو صحیح قراردیا اور امام ذہبی نے تلخیص میں اس کی صحت کو  برقرار  رکھا ۔ (ت)
 (۲؎ جامع الترمذی    ابواب الصلوٰۃ     باب ماجاء فی اعادتہا بعد طلوع الشمس        مطبوعہ امین کمپنی دہلی    ۱/۵۷)
رہی حدیث ابوداؤد:
حدثنا عثمٰن بن ابی شیبۃ نا ابن نمیر عن سعد بن سعید ثنی محمد بن ابراھیم عن قیس بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال رأی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رجلا صلی بعد صلوٰۃ الصبح رکعتیں فقال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم صلوٰۃ الصبح رکعتان فقال الرجل انی لم اکن صلیت الرکعتین اللتین قبلھما فصلیتھما الان ، فسکت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم    ۳؎۔
عثمان بن ابی شیبہ نے ہم سے بیان کیا کہ ابن نمیر نے سعد بن سعید سے کہ محمد بن ابراہیم نے قیس بن عمرو رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے بیان کیا کہ انھوں نے فرمایا   رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک شخص کو بعد صلوٰۃ صبح دو رکعتیں پڑھتے دیکھا فرمایا صبح کی دو ہی رکعتیں ہیں؟ اس شخص نے عرض کی سنتیں میں نے نہ پڑھی تھیں وہ اب پڑھ لیں، اس پر نبی اکر م صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے سکوت فرمایا۔
 (۳؎ سنن ابوداؤد    کتاب الصلوٰۃ    باب من فاتتہ متی یقضیہا            مطبوعہآفتابعالم پریس لاہور ۱/۱۸۰)
و رواہ ابن ماجۃ حد ثنا ابوبکر  بن ابی شیبۃ ثنا عبداﷲ بن نمیر الخ سندا و متنا نحوہ غیر انہ قال قال النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الصلوٰۃ الصبح مرتین ۴؎۔
اسے ابن ماجہ نے سنداً و متناً روایت کیا ہے اور کہا ہمیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے عبداﷲ بن نمیر سے بیان کیا الخ البتہ ان الفاظ کے علاوہ کہ رسالتماب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : کیا صبح کی نماز  دو دفعہ ہے؟ (ت)
 (۴؎ سنن ابن ماجہ            باب فی ماجاء فیمن فاتتہ الرکعتان الخ       مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص ۸۲ )
اور  اسی حدیث میں ترمذی کی روایت یوں ہے:
حد ثنا محمد بن عمر و السواق نا عبدالعزیز بن محمد عن سعد بن سعید عن محمد بن ابرھیم عن جدہ قیس قال خرج رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فا قیمت الصلوٰہ فصلیت معہ الصبح ثم انصرف النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فوجدنی اصلی فقال مہلا یاقیس اصلاتان معا، قلت یارسول اﷲ انی لم اکن رکعت رکعتی الفجر قال فلا اذا ۱؎۔
محمد بن عمر والسواق نے ہم سے بیان کیا کہ عبدالعزیز بن محمد نے سعد بن سعید سے، انھوں نے محمد بن ابراہیم سے، انھوں نے اپنے دادا حضرت قیس سے بیان کیا کہ انھوں نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے جماعت کے لئے تکبیر کہی گئی میں نے آپ کی اقتدا میں نماز صبح ادا کی ، پھر رسالتمآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے چہرہ اقدس پھیرا تو آپ نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے  پایا ، فرمایا: اے قیس ! ٹھر جا ، کیا دو نمازیں اکٹھی ہوگئی ہیں؟ عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ! میں فجر کی سنتیں ادا نہیں کرسکا۔ فرمایا تو اب حرج نہیں۔ (ت)
 (۱؎ جامع الترمذی     ابواب الصلوٰۃ    باب ماجا فی من تفوتہ الرکعتان الخ    مطبوعہ امین کمپنی کراچی  ۱/۵۷)
جس میں بیان ہے کہ وہ شخص خود یہی قیس تھے ان کا وہ عذر سن کر نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا تو اب حرج نہیں یہ حدیث ان احادیث جلیلہ صحیحہ کے مقابل لانے کے قابل نہیں،

اوّلاً :  اس کی سند منقطع ہے خود امام ترمذی نے بعد روایت حدیث فرمایا :
اسناد ھذا الحدیث لیس بمتصل محمد بن ابراھیم التیمی لم یسمع من قیس۲؎۔
اس حدیث کی سند متصل نہیں کیونکہ محمد بن ابراہیم التیمی نے حضرت قیس سے سماع نہیں کیا۔ (ت)
 (۲؎ جامع الترمذی     ابواب الصلوٰۃ    باب ماجا فی من تفوتہ الرکعتان الخ    مطبوعہ امین کمپنی کراچی ۱/۵۷)
ثانیا:  خود سعد بن سعید پر اس کی سند میں اختلاف کیا گیا ، بعض نے صحابی کو ذکر ہی نہ کیا،
جامع ترمذی میں ہے:
وروی بعضھم ھذا الحدیث عن سعد بن سعید عن محمد بن ابراھیم ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم خرج فرأی؎۳ قیسا۔
بعض نے یہ حدیث اس سند سے بیان کی ہے سعد بن سعید ، محمد بن ابراہیم سے کہ بنی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علہ وسلم تشریف لائے اور قیس کو دیکھا ۔ (ت)
(۳؎ جامع الترمذی     ابواب الصلوٰۃ    باب ماجا فی من تفوتہ الرکعتان الخ    مطبوعہ امین کمپنی کراچی    ۱/۵۷)
ثالثاً:  عامہ رواۃ نے اسے مرسلاً روایت کیا خود انھیں سعید کے دونوں  بہائی عبد ربہ بن سعید و یحیٰی بن سعید کہ دونوں سعد سے اوثق واحفظ ہیں مرسلاً روایت کرتے
جامع ترمذی میں ہے:
انما یروی ھذا الحدیث مرسلاً  ۔
( یہ حدیث مرسلاً مروی ہے ۔ ت)
(۱ ؎   جامع الترمذی    ابواب الصلوٰۃ        باب ماجاء فی من تفوتہ الرکعتان الخ    مطبوعہ امین کمپنی دہلی       ۱ /۵۷)
سنن ابی داؤد میں ہے:
روی عبد ر بہ و یحیی ابنا سعید ھذا الحدیث مرسلاان جدھم (عہ) زید ا صلی مع النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۲؎۔
سعید کے بیٹے عبدربہ اور یحیٰی دونوں نے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا کہ ان کے دادا زید نے نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی ۔ (ت)
(۲؎ سنن ابوداؤد    کتاب الصلوٰۃ        باب من فاتتہ متی یقضیہا        مطبوعہآفتابعالم پریس لاہور    ۱/۱۸۰)
عہ  : وقع فی نسخ السنن الثلث التی عندی ان جدھم زید وھو مشکل فان جد یحیٰی قیس لازید وقد انکرہ الحافظ فی الاصابۃ فقال بعد ذکر الروایۃ ھکذا قرأت ۱۲منہ (م)



میرے پاس تینوں سنن کے نسخوں میں یہ ہے کہ ان کے جد کا نام زید ہے لیکن یہ محل اشکال ہے کیو نکہ یحیٰی کے جد کا نام قیس ہے زید نہیں ۔ حافظ ابن حجر نے اصابہ میں اس کا انکار کیا اورروایت ذکر کرنے کے بعد کہا میں نے اسی طرح پڑھا ہے ۱۲ منہ (ت)
رابعاً:  مدار اس روایت کا سعد بن سعید پر ہے جامع ترمذی میں ہے:
حدیث محمد بن ابرھیم لانعرفہ مثل ھذا الامن حدیث سعد بن سعید۳؎ ۔
ہم محمد بن ابرہیم سے مروی اس حدیث کو سعد بن سعیدکے علاوہ کسی سے نہیں جانتے ۔(ت)
 (۳؎ جامع الترمذی    ابواب ماجاء فی من تفوتہ الرکعتان الخ                مطبوعہ امین کمپنی دہلی     ۱ /۵۷)
اور سعد باوصف توثیق مقال سے خالی نہیں، ان کا حافظہ ناقص تھا ، امام احمد نے انھیں ضعیف کہا ، امام نسائی نے فرمایا قوی نہیں، امام ترمذی نے فرمایا  :
 تکلموافیہ من قبل حفظہ ۴؎ یعنی ائمہ حدیث نے ان سعد میں ان کے حافظہ کی طرف سے کلام فرمایا ۔
 (۴ ؎  تہذیب التہذیب ترجمعہ سعد بن سعید نمبر ۸۷۶مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن ہند    ۳ /۴۷۱)
لاجرم تقریب میں ہے :
صدوق سیئ الحفظ ۵؎
آدمی سچے ہیں حافظہ براہے ۔
 (۵؎ تقریب التہذیب   ترجمعہ سعد بن سعید نمبر ۲۲۴۴ حرف السین المہملۃ        مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت    ۱ /۳۴۳)
ان وجوہ کی نظر سے یہ حدیث واحد خود ان احادیث صحیحہ کثیرہ کے مقابل نہ ہو سکتی خصوصاً اس حالت میں كہ  وہ مثبت ممانعت ہیں اور یہ ناقل اجازت ، اور قاعدہ مسلمہ ہے کہ جب دلائل حلت وحرمت متعارض ہوں حرمت وممانعت کو ترجیح دی جائے گی۔ واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter