Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
23 - 144
مسئلہ۱۱۹۴: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے کہ صبح کی نماز بوقت خطبہ کے جائز ہے ، اور عمروکہتا ہے بوقت خطبہ کے جائز نہیں اس واسطے کہ حدیث شریف میں وارد ہے
لا صلوٰۃ و لاکلام
( اس وقت نہ نماز ہے نہ گفتگو ۔ت)
ان دونوں میں کون حق پر ہے اور کون مطابق حدیث شریف کے عمل کرتا ہے؟ بینوا تؤجروا
الجواب

جو صاحب ترتیب نہیں اسے قضانماز بھی خطبہ کے وقت ادا کرنی جائز نہیں کہ بعد کو بھی پڑھ سکتا ہے اور صاحب ترتیب کو وقتی نماز سے پہلے قضا کا ادا کرنا ضرور ، ورنہ وقتی بھی نہ ہوگی ، ایسے شخص نے اگر ابھی قضائے فجر ادا نہ کی اور خطبہ شروع ہوگیا تو اسے قضا پڑھنے سے ممانعت نہیں بلکہ ضرور و لازم ہے ورنہ جمعہ بھی نہ ہوگا، ہاں بلاعذر شرعی اتنی دیر لگانی کہ خاص خطبہ کے وقت پڑھنی  پڑے اسے بھی جائز نہیں۔
لتادیہ الی ترک الاستماع وھوفی نفسہ محظوروکل ماادی الی محظور محظور۔
کیونکہ اس میں خطبہ کا عدم سماع لازم آرہا ہے جو فی نفسہٖ ممنوع ہے اور ہر وہ شیئ جو ممنوع تک پہنچائے ممنوع ہوتی ہے۔ (ت)
درمختار میں ہے:
اذا اخرج الامام فلا صلوٰۃ ولاکلام الی تمامھا خلا قضا فائتۃ لم یسقط الترتیب بینھا وبین الوقتیۃ فانھا لا تکرہ ۲؎۔
جب امام جمعہ آجائے تو اتمام جمعہ تک نہ نماز ہے نہ کلام ، البتہ فوت شدہ نماز کی قضا مکروہ نہیں کیونکہ فوت شدہ اور وقتی نماز کے درمیان ترتیب ساقط نہیں ہوئی تھی ۔ (ت)
 ( ۲؎ درمختار                باب الجمعہ            مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی       ۱ /۱۱۳)
سراج  وغیرہ میں ہے :
لضرورۃ صحۃ الجمعۃ والا لا۱؎
( جمعہ کی صحت کے پیش نظر ہے ورنہ نہیں ۔ ت)
 (۱؎ سراج الوہاج)
ردالمحتار میں ہے:
قولہ فانھا لاتکرہ( بل یجب فعلھا قولہ والا لا) ای وان سقط الترتیب تکرہ ۲؎۔ انتھی واﷲ تعالٰی اعلم۔
ماتن کا قول ''کیونکہ اس میں کراہت نہیں'' بلکہ اس کا کرنا واجب ہے (ورنہ نہیں) یعنی اگر ترتیب ساقط ہوچکی ہو تو کراہت لازم آئے گی انتہی۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
(۲؎ ردالمحتار        باب الجمعہ        مطبوعہ مصطفے البابی مصر    ۱/۶۰۲)
مسئلہ ۱۱۹۵: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کی سنت فجر کی قضا ہوگئیں اب وہ قضا کرے یا نہیں اور اگر قضاکرے تو کس وقت ، اور یہ سنتیں بیٹھ کر بھی بلا عذر پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟بینوا تؤجروا
الجواب

سنت فجر بلامجبوری ومعذوری بیٹھ کر نہیں ہوسکتیں، اور اگر مع فرض قضا ہوئی ہوں تو ضحوہ  کبرٰی آنے تک ان کی قضا ہے اس کے بعد نہیں، اور اگر فرض پڑھ لئے سنتیں رہ گئی ہیں تو بعد بلندیآفتابان کا پڑھ لینا مستحب ہے قبل طلوع روا نہیں۔
علمگیریہ میں ہے:
سنۃ الفجر لا یجوزان یصلیھا قاعدامع القدرۃ علی القیام ولذاقیل انھا قریبۃ من الواجب کذافی التاتار خانیۃ ناقلا عن النافع ولا یجوزا داء ھاراکبا من غیر عذرکذا فی السراج الوھاب والسنۃ اذافاتت عن وقتھا لم یقضھا الارکعتی الفجر اذافاتتا مع الفرض یقضیھما بعد طلوع الشمس الٰی وقت الزوال ثم یسقط ھکذا فی محیط السرخسی وھوالصحیح ھکذا فی البحر الرائق واذافاتتابدون الفرض لایقضی عندھما خلا فالمحمد رحمۃ اﷲ تعالٰی کذافی المحیط السرخسی۱؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم

فجر کی سنتیں قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کر ادا کرنا جائز نہیں، اسی لئے کہا گیا ہے کہ یہ واجب کے قریب ہیں۔

تاتار خانیہ میں نافع سے اسی طرح منقول ہے ، بغیر عذر کے سواری کی حالت میں بھی انھیں ادا کرنا جائز نہیں جیسا کہ سراج الوہاج میں ہے ۔ اور سنتیں اگر اپنے وقت سے قضا ہوجائیں توان کی قضا نہیں البتہ اگر فجر کی سنتیں فرائض کے ساتھ رہ جائیں تو طلوع شمس کے بعد زوال سے پہلے پہلے قضاکی جائیں، اس کے بعد ساقط ہو جائیں گی۔ اسی طرح محیط سرخسی میں ہے کہ یہی صحیح ہے ، اسی طرح البحرالرائق میں ہےجب یہ سنیتں فرض کے بغیر رہ جائیں تو شیخین کے نزدیک ان کی قضا نہیں ، امام محمد کی رائے اس کے خلاف ہے ( کہ قضا کی جائیں) جیسا کہ محیط سرخسی میں ہے ۔(ت) واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۹۶: ۲ شعبان ۱۳۰۶ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کی چار سنتیں قبل عشا کے فوت ہوگئیں مثلاً جماعت قائم ہوگئی نہ پڑھنے پایا شریک ہوگیا، اب بعد نماز ان کی قضا جائز ہے یا نہیں؟ علمائے عصر سے بعض مولویوں نے فرمایا قضا کرے اور ان کے خلاف بعض عالموں نے فتوی لکھا کہ ان کی قضا نہیں وہ مستحب ہیں اورقضا سنت مؤکدہ کی ہے، نہ مستحب کی۔ جب اس کا محل جاتارہا پڑھنا بھی دورہوا، اور بعض اجلہ فضلا نے یہ تحریر فرمایا کہ ان کی قضا خلاف قیاس وخلاف اجماع فقہا ہے ،اور اگر لازم سمجھے گا تو بدعت مذمومہ ہوگا، اس صورت میں قول فیصل کیا ہے؟ بینوا تؤجروا ۔
الجواب

الھم ھدایۃ الحق والصواب قول فیصل اس مسئلہ میں یہ ہے کہ یہ سنتیں اگر فوت ہوجائیں تو ان کی قضا نہیں،
علامہ علائی درمختار میں فرماتے ہیں:
اماماقبل العشاء فمندوب لایقضی اصلا۲؎۔
عشا کے فرائض سے پہلے جو رکعتیں ہیں وہ مستحب ہیں ان کی قضا نہیں ۔ (ت)
(۲؎ درمختار            باب ادراک الفریضہ     مطبوعہ مجتبائی دہلی            ۱/۱۰۰)
لیکن اگر کوئی بعد دو سنت بعدیہ کے پڑھے تو کچھ ممانعت نہیں،
علامہ طحطاوی حاشیہ شرح نورالایضاح میں فرماتے ہیں:
لامانع من قضاء التی قبل العشاء بعدھا ۳؎۔
عشا کی پہلی سنتوں کو عشا کے بعد ادا کرلینے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ (ت)
(۳؎ حشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح    باب ادراک الفریضہ     مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی  ص ۲۴۶)
ہاں اس شخص سے وہ سنن مستحبہ ادا نہ ہوں گی جو عشا سے پہلے پڑھی جاتی تھیں بلکہ ایک نفل نماز مستحب ہوگی جیسے تراویح وسنت مغرب و دو سنت عشا کہ ان کی قضا نہیں، پھر اگر کوئیآجکی فوت شدہ تراویح کل پڑھے تو نفل ہوں گے نہ سنن و تراویح نہ شرعاً مکروہ و قبیح ۔
علامہ امین الدین محمد ردالمحتار میں انہی سنن عشا کی نسبت فرماتے ہیں:
لو قضا ھا لاتکون مکروھۃ بل تقع نفلا مستحبا لا علی انھاھی التی فاتت عن محلہا کما قالوہ فی سنۃ التراویح   ؎۱۔
اگر انھیں قضا کرلیا جائے تو کراہت نہیں بلکہ نفل مستحبہ ہوجائیں گی اور یہ اپنے محل سے فوت ہونے والی نماز نہیں

 بلکہ (یہ نئی نماز ہوگی) جیسا کہ فقہاء نے تراویح کے بارے میں فرمایا ہے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار    باب ادراک الفریضہ    مطبوعہ مصطفےٰ البابی مصر    ۱/۵۳۱)
تنویر الابصار و درمختار کی مبحث تراویح میں ہے:
لا تقضی اذافاتت اصلا ولا وحدہ فی الاصح فان قضاھا کانت نفلا مستحبا ولیس بتراویح کسنۃ مغرب و عشا؎۲۔
جب تراویح فوت ہوجائیں تو ان کی قضا نہیں نہ جماعت سے نہ اکیلے ، اصح قول کے مطابق ۔ اور اگر کوئی قضا کرلیتا ہے تو نفل مستحب بن جائیں گی اور یہ نماز تراویح نہ ہوگی جیسا کہ مغرب و عشا کی سنتوں کا حکم ہے۔ (ت)
 (۲؎ درمحتار    باب الوتر  مطبوعہ  مطبع مجتبائی دہلی ۱/۹۸)
اقول وباﷲ التوفیق ( میں اﷲ کی توفیق سے کہتا ہوں۔ت) تحقیق مقام و تنفیح مرام  یہ ہے کہ حقیقۃ قضانہیں مگر فرض یا واجب کی،
الاداء فی محل اداء النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم داخل فی مطلق السنۃ فما ادی فی غیر المحل لا یکون سنۃ فلا یکون قضاء اذا القضاء مثل الفائت بل عینہ عندالمحققین نعم ماعین لہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم محلا بعد فوتہ فیقع سنۃ فیکون قضاء حقیقۃ،
حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی ادائیگی کے محل میں ادا مطلق سنت میں شامل ہے لہذا جو اس کے علاوہ وقت میں ادا ہوں گے وہ سنت ہی نہیں ہوں گے لہذا قضا کہاں ! کیونکہ قضاء فوت شدہ کی مثل بلکہ محققین علماء کے ہاں عین نماز ہوتی ہے، ہاں فوت  ہونے کے بعد جس کا وقت خود رسالتمآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے معین فرمادیا وہ ادائیگی سنت ہوگی اور قضا بھی حقیقی ہوگی ۔ (ت)
باقی نوافل وسنن اگرچہ موکدہ ہوں مستحق قضا نہیں کہ شرعاً لازم ہی نہ تھی جو بعد فوت ذمہ پرباقی ر ہیں،
فی الھدایۃ الاصل فی السنۃ ان لاتقضی الاختصاص القضاء بالواجب ۱؎ اھ  وتمام تحقیقہ فی الفتح ۔
ہدایہ میں ہے سنت میں اصل یہ ہے کہ اس کی قضا نہیں کیونکہ  قضا واجب کے ساتھ مخصوص ہے اھ اور اس پر تمام گفتگو فتح میں ہے ۔(ت)
 (۱؎ الہدایۃ    باب ادراک الفریضہ    مطبوعہ المکتبہ العربیہ دستگیر کالونی کراچی     ۱/۱۳۳)
مگر بعض جگہ بر خلاف قیاس نص وارد ہوگیا وہی سنتیں جو ایک محل میں ادا کی جاتی تھیں بعد فوت دوسری جگہ ادا فرمائی گئیں جیسے فجر کی ستنیں جبکہ فرض کے ساتھ فوت ہوں بشرطیکہ بعد بلندیآفتابوقبل از زوال ادا کی جائیں یا ظہر کی پہلی چار سنتیں جو فرض سے پہلے نہ پڑھی ہو تو بعد فرض بلکہ مذہب ارجح پر بعد سنت بعد یہ کے پڑھیں بشرطیکہ ہنوز  وقت ظہر باقی ہو نص علی کل ذلک فی غیر ما کتاب کردالمحتار ( اس پر متعدد کتب مثلاً ردالمحتار میں تصریح ہے ۔ ت) ان شرائط کےساتھ جب یہ دونوں سنتیں بعد فوت پڑھی جائیں گی تو  بعنیہا وہی سنتیں ادا ہوں گی جو فوت ہوئی تھیں اور ان کے سوا اور فوت شدہ سنتیں یا یہی سنتیں بے مراعات ان شرائط کے  پڑھی جائیں گی تو صرف نفل ہوں گی نہ سنت فائۃ۔ بالجملہ جو  یہ کہے کہ ان کی قضا کا حکم ہے وہ خطا پر ہے اور جو کہے ان کی قضا ممنوع ہے وہ بھی غلطی پر ہے اور جوکہے ان کی قضا نہیں مگر بعد کو پڑھ لے تو کچھ حرج نہیں وہ حق  پر ہے واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter