Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
22 - 144
باب قضاء الفوائت

( فوت شدہ نمازوں کی قضاء کا بیان)
مسئلہ ۱۱۹۱: ۲۸ محرم ۱۳۰۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے فوت جماعت کے خوف سے سنتیں فجر کی ترک کیں اور جماعت میں شامل ہوگیا اب وہ ان سنتوں کو  فرضوں کے بعد سورج نکلنے سے   پیشتر  پڑھے  یا بعد ؟بینوا تؤجروا
الجواب

جبکہ فرض فجر پڑھ چکا تو سنتیں سورج بلند ہونے سے پہلے ہرگز نہ پڑھے، ہمارے سب ائمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم کا اس پر اجماع ہے بلکہ پڑھے تو سورج بلند ہونے کے بعد دوپہر سے پہلے پڑھ لے ، نہ اس کے بعد پڑھے نہ اس سے پہلے ۔
ردالمحتار میں ہے:
اذا فاتت وحدھا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالاجماع الکراھۃ النفل بعدا لصبح وامابعد طلوع الشمس فکذلک عندھما، وقال محمد احب  الی ان یقضیھا الی ز وال کما فی الدرر ۱؎ ۔
جب فجر کی سنتیں تنہا فوت ہوجائیں تو بالاتفاق طلوع آفتاب سے پہلے ادا نہ کی جائیں کیونکہ نماز فجر کے بعد نوافل مکروہ ہیں، رہا معاملہ طلوع فجر کے بعد کا ، تو شیخین کے نزدیک قضا نہیں، اور امام محمد نے فرمایا کہ زوال تک سنتیں قضا کر لینا میرے نزدیک پسندیدہ ہیں جیسا کہ درر میں ہے۔ (ت)
 ( ۱؎ ردالمحتار    باب ادراک الفریضہ    مطبوعہ مصطفے البابی مصر    ۱/۵۳۰)
اور یہ خیال کہ اس میں قصداً وقت قضا کردینا ناواقفی سے ناشئ، یہ سنتیں جب فرضوں سے پہلے نہ پڑھی گیئں خود ہی قضاء ہوگیئں کہ ان کا وقت یہی تھا کہ فرضوں سے پیشتر پڑھی جائیں ، اب اگر فرضوں کے بعد سورج نکلنے سے پیشتر پڑھے گا جب بھی قضا ہی ہوں گی اور ہر گز نہ ہوں گی
الا تری الی قولہ لا تقضی قبل طلوع الشمس بالاجماع فقد سمی صلوٰتھا قبل الطلوع بعد الفرض قضاء
( کیا آپ نے ان کے یہ الفاظ نہیں دیکھے کہ بالاتفاق طلوعآفتابسے پہلے سنتیں قضانہ کی جائیں تو انھوں نے فرائض کے بعد طلوع سے پہلے ان کی ادائیگی کو قضا کا نام دیا ہے۔ ت)
لیکن طلوع سے پہلے قضا کرنے میں فرض فجر کے بعد نوافل کا پڑھنا ہے اور جائز نہیں، لہٰذا ہمارے اماموں نے اس سے منع فرمایا اور بعد طلوع وہ حرج نہ رہا لہٰذا اجازت دی واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۹۲: از کلکتہ ٹارنب براہ ڈاکخانہ ویلزلی اسٹریٹ ۶؎ مرسلہ رشید احمد خاں ۱۶ جمادی الاخری۱۳۰۹ھ

جناب مولوی صاحب بعد آداب کے عرض خدمت میں یہ ہے کہ اگر زید برابر نماز پڑھتا رہے لیکن یکم جنوری سے ۱۵ تک قضا ہوگئی ۱۶ سے پھر پڑھی اور قضا بھی ترتیب وار ادا کرنے لگا ۲۰ تک برابر پڑھتا رہا پھر پانچ روز کی قضا ہوگئیں ۲۵ سے شروع کی تو قضا کس طرح ادا کرے یعنی ترتیب وار جیسی یکم جنوری کی صبح پھر ظہر ومغرب وعشا پھر یاایسے ہی ۱۵ تاریخ تک رفتہ رفتہ دو چار یوم میں ادا کرچکا اب ۱۵سے۲۰ تک تو پہلے ہی پڑھ چکا ہے ۲۰ سے ۲۵ تک کے قضا پھر اسی طور پر ادا کرے یا کیا حکم ہے؟ باقی آداب!
الجواب

السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ، زید پر نہ ان ۱۵ دن کی قضا میں ترتیب ضرور تھی نہ ان پانچ دن کی قضا میں ضرور ہے اسے اختیا ر ہے ان میں جو نماز چاہے پہلے ادا کرے جو چاہے پیچھے کہ قضا نمازیں جب پانچ فرضوں سے زائد ہوجاتی ہں ترتیب ساقط ہوجاتی ہے یعنی باہم ان میں بھی ہر ایک کی تقدیم وتاخیر کا اختیار ہوتا ہے اور ان میں اور وقتی نماز میں بھی رعایت ترتیب کی حاجت نہیں رہتی پھر ان نمازوں کے حق میں ترتیب نہ باہمی نہ بلحاظ وقتی کوئی کبھی عود نہیں کرتی اگر چہ ادا کرتے کرتے چھ سے کم رہ جائیں مثلاً اب اسی صورت میں زید پر پانچ دن کی پچیس نمازیں ہیں جب دو ہی رہ جائیں گی تو بھی اسے اختیار ہے کہ اس کی ادا سے پہلے وقتیہ نماز پڑھ لے، ہاں اصح مذہب پر اتنا لحاظ ضرور ہے کہ نماز نیت میں معین مشخص ہو جائے ھوا لاحوط من تصحیحین ( دونوں تصحیحوں میں احوط یہ ہے ۔ت) مثلاً دس (۱۰) فجریں قضا ہیں تو یوں گول نیت نہ کرے کہ فجر کی نماز کہ اس پر ایک فجر تو نہیں جو اسی قدر بس ہو بلکہ تعیین کرے کہ فلاں تاریخ کی فجر ،مگر یہ کیسے یاد رہتا ہے اور ہو بھی تو اس کا خیال حرج سے خالی نہیں لہٰذا اس کی سہل تدبیر یہ نیت ہے کہ پہلی فجر جس کی قضا مجھ پر ہے، جب ایک پڑھ چکے پھر یوں ہی پہلی فجر کی نیت کرے کہ ایک تو پڑھ لی اس کی قضا اس پر نہ رہی نو (۹) کی ہے اب ان میں کی پہلی نیت میں آئے گی یونہی اخیر تک نیت کی جائے، اسی طرح باقی سب نمازوں میں کہے اور جس سے ترتیب ساقط ہو ، جیسے یہی دس یا چھ فجر کی قضا والا پہلی کی جگہ پچھلی بھی کہہ سکتا ہے نیچے سے اوپر کو ادا ہوتی چلی جائے گی،
ردالمحتار میں ہے :
لایلزم الترتیب بین الفائتۃ والوقتیۃ ولابین الفوائت اذا کانت الفوائت ستاکذا فی النھر ۱؎ ۔
جب فوت شدہ نمازیں چھ ہوجائیں تو فوت شدہ نمازوں کے درمیان اور فوت شدہ اور وقتی نمازوں کے درمیاں ترتیب لازم نہیںرہتی، جیسا کہ نہر میں ہے (ت)
 (۱؎ ردالمحتار        باب قضاء الفوائت    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۵۳۸)
درمختار میں ہے:
ولایعود لزوم الترتیب بعد سقوطہ بکثرتھا ، ای الفوائت بعود الفوائت الی القلۃ بسبب القضاء لبعضھا علی المعتمد ، لان الساقط لایعود  ؎۲۔
اکثر فوت شدہ نمازوں کو قضا کرلینے پر ترتیب لوٹ نہیں آتی یعنی اگر فوت شدہ نمازیں کثیر تھیں ان میں سے اکثر قضا کرلیں اور باقی تھوڑی رہ گئیں تو معتمد قول کے مطابق ترتیب نہیں لوٹتی، کیونکہ ساقط لوٹ کر نہیں آتا۔(ت)
 (۲؎ درمختار     باب قضاء الفوائت    مطبوعہ    مجتبائی دہلی    ۱/۱۰۱)
اسی میں ہے:
یعین ظھر یوم کذاعلی المعتمد والا سھل نیتہ اول ظھر علیہ اواخر ظھر ۳؎الخ وتمامہ فی ردالمحتار ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
معتمد قول کے مطابق اس بات کا تعین کیا جائے کہ فلاں دن کی ظہر ہے ، اور سب سے آسان یہ ہے کہ اول ظہر یا آخر ظہر کی نیت کرلی جائے۔ اس کی تمام تفصیل ردالمحتار میں ہے ۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
 ( ۳؎ درمختار        باب شروط الصلوٰۃ     مطبوعہ    مجتبائی دہلی   ۱/۶۷)
مسئلہ۱۱۹۳: ۲۹ صفر ۱۳۱۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ فجر کی سنتیں بعد جماعت فرض کے مسبوق ادا کرے ، درست ہے یانہیں؟ بینوا تواجروا
الجواب

سنت فجر کہ تنہا فوت ہوئیں یعنی فرض پڑھ لئے سنیتں رہ گئیں ان کی قضا کرے تو بعد بلندی آفتاب پیش از نصف النہار شرعی کرے، طلوع شمس سے پہلے ان کی قضا ہمارے ائمہ کرام کے نزدیک ممنوع ومکروہ ہے
لقول رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لاصلوٰۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس؎۱۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے '' صبح کے بعد سورج کے بلند ہونے تک نماز نہیں'' واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم و احکم۔ (ت)
 ( ۱؎ صحیح البخاری    کتاب مواقیت الصلوٰۃ    باب لاتتحری الصلوٰۃ ابل غروب الشمس    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۸۲ و ۸۳)
Flag Counter