فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ) |
مسئلہ ۱۱۸۷: از ا وجین مکان میر خادم علی صاحب اسسٹنٹ مرسلہ حاجی یعقوب علی خاں صاحب ۲۲ شعبان ۱۳۱۱ھ اس مسئلہ میں کیا حکم ہے کہ بکر وضو نماز فجر کا کر کے ایسے وقت میں آیا کہ امام قعدہ اخیرہ میں ہے، جو سنت پڑھتا ہے تو جماعت جاتی ہے اور جماعت میں ملتا ہے تو سنتیں فوت ہوتی ہے، اس صور ت میں سنتیں پڑھے یا قعدہ میں مل جائے۔بینوا تواجروا
الجواب اس صورت میں بالاتفاق جماعت میں شریک ہوجائے کہ جماعت میں ملنا سنتیں پڑھنے سے اہم و آکد ہے، جب یہ جانے کہ سنتیں پڑھوں گا تو جماعت ہوچکے گی بالاتفاق جماعت میں مل جانے کا حکم ہے اگر چہ ابھی امام رکعت ثانیہ کے شروع میں ہو، قعدہ تو ختم نماز ہے اس میں کیونکہ امید ہوسکتی ہے کہ امام کے سلام سے پہلے یہ سنتیں پڑھ کر جماعت میں مل سکے گا، فی الدرالمختار اذاخاف فوت رکعتی الفجر لاشتغالہ بسنتھا ترکہا الجماعۃ اکمل۱؎ الخ واﷲ تعالٰی اعلم۔ درمختار میں ہے جب کسی کو یہ خطرہ ہو کہ اگر فجر کی سنتیں ادا کیں تو جماعت فوت ہوجائے گی تو وہ سنتیں ترک کردے کیونکہ جماعت اکمل ہے الخ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
( ۱؎ درمختار باب ادراک الفریضہ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۹۹)
مسئلہ ۱۱۸۸: ۱۵رمضان المبارک کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص فرض تنہا پڑھ چکا تھا اب مسجد میں جماعت قائم ہوئی اور یہ اس وقت مسجد میں موجود ہے تو اب اسے کیا حکم ہے؟ بینو تواجروا
الجواب ظہر و عشاء میں ضرور شریک ہو جائے کہ اگر تکبیر سن کر باہر چلاگیا یا وہیں بیٹھا رہا تو دونوں صورت میں مبتلائے کراہت وتہمت ترک جماعت ہوا اور فجر و عصر و مغرب میں شریک نہ ہو کہ قول جمہور پر تین رکعت نفل نہیں ہوتے اور چوتھی ملائے گا تو بسبب مخالفت امام کراہت لازم آئے گی اور فجر وعصر کے بعد تو نوافل مکروہ ہی ہیں اور ویسے بیٹھا رہے گا تو کراہت اور اشد ہوگی لہٰذا ان نمازوں میں ضرور ہوا کہ باہر چلاجائے
قال العلامۃ الشرنبلالی رحمۃ اﷲ علیہ فی نورالایضاح وشرحہ مراقی الفلاح ان خرج بعد صلوٰۃ منفردالایکرہ لانہ قد اجاب داعی اﷲ مرۃ فلا تجب علیہ .ثانیا الا انہ یکرہ خروجہ اذا اقیمت الجماعۃ قیل خروجہ فی الظھر و فی العشاء لانہ یجوز النفل فیہما مع الامام یتھم بمخالفۃ الجماعۃ کالخوارج و الشیعۃ وقد قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من کان یومن باﷲ والیوم الاخر فلا یقفن مواقف التھم فیقتدی فیھما ای الظہر والعشاء متنفلا لدفع التھمۃ عنہ ، یکرہ جلوسہ من غیر اقتداء لمخالفۃ الجماعۃ بخلاف الصبح العصر والمغرب لکراھۃ النفل ، والمخالفۃ فی المغرب ۱؎ الٰی آخرہ قال العلامۃ الطحطاوی رحمۃ اﷲ علیہ فی الحاشیۃ المراقی قولہ لکراھۃ النفل ای بعد الصبح العصر و فی النھر ینبغی ان یجب خروجہ لان کراھۃ مکثہ بلاصلوٰۃ اشد ۲؎ واﷲ تعالٰی اعلم سبحنہ اتم واحکم
علامہ شرنبلالی رحمۃ اﷲ رتعالٰی علیہ نے نورالیضاح اوراس کی شرح مراقی الفلاح میں فرمایا جب تنہا نماز ادا کرکے کوئی مسجد سے باہر نکلا تو کراہت نہیں کیونکہ اس نے ایک دفعہ اﷲ تعالٰی کی طرف بلانے والے کی آواز پر لبیک کہا ہے لہٰذا دوبارہ اس پر واجب نہیں البتہ اس صورت میں کراہت ہوگی جب اس کے نکلنے سے پہلے ظہر اورعشا کی جماعت کے لئے تکبیر کہہ دی گئی کیونکہ ان میں امام کے ساتھ نوافل ادا کرسکتا ہے تا کہ جماعت کی مخالفت کی تہمت اس پر نہ لگے مثلا خوارج اور شیعہ وغیرہ سے نہ کہا جائے۔ رسالتمآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اﷲ تعالٰی اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ تہمت کے مقامات پر نہ کھڑا ہو لہٰذا وہ شخص ظہر و عشاء میں نفل کی نیت سے اقتدا کرے تاکہ اس پر تہمت نہ لگے ۔ اور اقتداء نہ کرتے ہوئے بیٹھنا مکروہ ہے کیونکہ جماعت کی مخالفت ہے بخلاف صبح، عصر اور مغرب کے کیونکہ یہاں نفل مکروہ ہیں ، اور مغرب میں ( امام ) کی مخالفت لازم آئے گی الخ علامہ طحطاوی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے حاشیہ المراقی میں کہا ماتن کا قول نفل مکروہ ہونے کی وجہ سے یعنی صبح اور عصر کے بعد ، نہر میں ہے کہ ان اوقات میں مسجد سے چلے جانا واجب ہے کیونکہ بغیر نماز کے وہاں ٹھرنا یہ زیادہ ناپسند ہے ۔ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ سبحٰنہ اتم واحکم (ت)
( ا؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی باب ادراک ا لفریضہ مطبوعہ نور محمد کا رخانہ تجارت کتب کراچی ص۲۴۹) ( ۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح باب ادراک ا لفریضہ مطبوعہ نور محمد کا رخانہ تجارت کتب کراچی ص ۲۴۹)
مسئلہ ۱۱۸۹: از ریاست جادرہ مکان عبد المجید خاں صاحب سرشتہ دار ۱۳۲۵ھ فجر کی سنت وقت قائم ہوجانے جماعت کے کب تک ادا ہوجانا چاہئے اور جو ر ہ جاتی ہیں تو کیا بعد فرضوں کے بھی ادا کرسکتے ہیں یا نہیں؟
الجواب اگر جانے کہ سنتیں پڑھ کر جماعت میں شریک ہوجاؤں گا تو سنیتں پڑھ لے اگر چہ التحیات ہی ملتی سمجھے ورنہ فرضوں میں شریک ہوجائے ، اور اول سنتوں کو قضا کرنا چاہے تو بعد بلندیِآفتابکرے فرضوں کے بعد طلوع سے پہلے جائز نہیں ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۹۰: از چمن سرائے سنبھل مرسلہ احمد خاں صاحب ۸ جمادی الاولی ۳۷ ۱۳ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ نزدیک علمائے حنفیہ اہلسنت وجماعت کے صبح کی سنت اگر فرض جماعت سے ہوتے ہوں تو پڑھے یا نہیں؟ بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر فرض نماز کی دوسری رکعت کا رکوع بھی مل جانے کا یقین ہو تو سنتیں پڑھ لے ورنہ سورج نکلنے پر ادا کرے، بعض کا قول ہے قاعدہ اخیرہ کی شرکت بھی کافی ہے سنت کو پہلے پڑھے، بعض کہتے ہیں کہ جس وقت تکبیر اولٰی فرضوں کی ہو ترک سنت کرے فرضوں میں فوراً شریک ہوجائے اور پھر نماز سنت نہ بعد سلام پڑھے وقت ہونے پر نہ بعد طلوع آفتاب۔
الجواب تیسرے شخص کا قول محض باطل ہے اور پہلے دو قول صحیح ہیں اور ان میں دوسرا اصح ہے اگر تشہد تک بھی جماعت میں ملنا دیکھے تو صبح کی سنتیں صف سے دور ادا کرکے شامل ہوجائے ، اور جو یہ سمجھتا ہے کہ سنتیں پڑھنے میں جماعت بلکل فوت ہوجائے گی تو اس وقت نہ پڑھے اور جماعت میں شریک ہوجائے پھر فرض نہیں پڑھ سکتا جب تکآفتاببلند نہ ہو اگر پڑھے گا گنہ گار ہوگا، ہاں بعد بلندی پڑھے تو مستحب ہے ۔ واﷲ تعالٰی اعلم