قول دیگر آنکہ مصلی ایں دو سنت ہر چہار رکعت اتمام کند اگر چہ ہنوز تحریمہ بستہ است کہ جماعت ظہر یا خطبہ جمعہ آغاز نہادند زیر اکہ ایں ہمہ رکعات ہمچو نماز واحد ست لہذا درقعدہ اولی در ودنخواند نہ در شروع ثالثہ ثنا وتعوذ آرد و چوں درشفع اولیں خبر بیع شنود و بشفع دوم انتقال نمود شفعہ ساقط نشود و ہمچناں زن مخیرہ را اختیار از دست نرود و کذلک تا از ہر چہار فراغ نیابد خلوت بازن صحیح نشود وکمال مہرلازم نیاید کل ذلک فی تبین الحقائق شرح کنزالدقائق للامام العلامۃ الزیلعی،
دوسرا قول یہ ہے کہ ان دونوں سنتوں (قبل ازظہر و جمعہ) کی چار چار رکعت پوری کرلے اگر چہ خطبہ جمعہ یا ظہر کی جماعت کھڑی ہوجائے کیونکہ یہ تمام نماز واحد کی طرح ہیں یہی وجہ ہے کہ پہلے قعدہ میں درود اور تیسری رکعت میں ثنا اور تعوذ نہیں پڑھا جاتا، جب کسی نے پہلی دو رکعات میں خرید وفروخت کی خبر سنی اور وہ دوسری دو رکعات میں شروع ہوگیا تو اس سے حق شفعہ ساقط نہیں ہوجاتا ۔ اسی طرح صاحب اختیار عورت کا اختیار بھی ساقط نہیں ہوتا _____________________اسی طرح جب تک وہ چار رکعات سے فارغ نہیں ہوجاتا عورت کے ساتھ خلوت صحیحہ نہیں پائی جائیگی مہر کامل لازم نہ ہوگا ۔ یہ تمام گفتگو امام علامہ زیلعی کی تبیین الم0حقائق شرح کنز الدقائق میں ہے۔
امہ مشائخ بترجیح وتصحیح ایں قول تصریح نمودہ اند، (۱) امام ولوالجی و (۲)صاحب مبتغی و (۳) صاحب محیط و (۴) علامہ شمنی فرموند الصحیح انہ یتمھا اربعا۱؎ کما فی البحر من ادزاک الفریضۃ خود (۵) علامہ زین دربحر بعد نقلش فرمود الظاھر ما صحح المشائخ لانہ لاشک ان فی التسلیم علی رأس الرکعتین ابطال وصف السنیۃ لا لا کمالھا وتقدم انہ لا یجوز ۲؎ الخ برادر ش(۶) علامہ عمر بن نجیم در نہر ادرامقرر داشت کما فی ردالمحتار درفتاوی صغری(۷) فرمود علیہ الفتوی (۸)علامہ شرنبلالی درجمعہ غنیـہ ذوی الاحکام فرمایدقولہ وان کانت سنۃ الجمعۃ یسلم علی راس الرکعتین،
عام مشائخ نے اسی قول کو ترجیح اور اسی کی تصحیح پر تصریح کی ہے۔ (۱۱)امام ولوالجی، صاحب (۲) مبتغی ، صاحب(۳) محیط اور (۴) علامہ شمنی فرماتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ نمازی چار رکعات پوری کرے، جیسا کہ بحرکے ادراک الفریضہ میں ہے ، خود (۵) علامہ زین بحرمیں اس عبارت کو نقل کرنےكے بعد لکھتے ہیں ظاہر یہی ہے جس کی تصحیح مشائخ نے فرمائی ہے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دورکعات کے بعد سلام وصف سنیت کے ابطال کے لئے ہے نہ کہ ان کے اکمال کے لئے ، اور پیچھے گزر چکا ہے کہ یہ جائز نہیں الخ، ان کے بھائی(۷) علامہ عمر بن نجیم نے نہر میں اسی کو ثابت رکھا ہے جیسا کہ ردالمحتار میں ہے، فتاوٰی صغرٰی میں فرمایا'' فتوٰی اسی پر ہے(۸)"علامہ شرنبلالی نے غنیـہ ذوی الاحکام کے جمعہ میں فرمایا ماتن کا قول(اگر نماز جمعہ کی سنتیں ادا کر رہا ہے تو دو رکعتوں پر سلام پھیرلے)
( ۱؎ بحر الرائق باب ادراک الفریضہ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۷۱)
( ۲؎ بحر الرائق باب ادراک الفریضہ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۷۱)
میں کہتا ہوں کہ صحیح اس کے خلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ جمعہ کی چار رکعتیں ادا کرے اسی پر فتوی ہے جیسا کہ صغرٰی میں ہے اور یہی صحیح ہے جیسے بحر میں ولوالجیہ اور المبتغے سے ہے کیونکہ یہ بمنزل ایک نماز واجبہ کے ہے اھ
(۳؎ غنیۃ ذوی الاحکام علی الدرالحکام باب الجمعہ مطبعہ احمد کامل دارسعادت بیروت ۱ /۱۴۱)
(۹)امام ظہیرالدین مرغینانی در ظہیریۃ فرمودھو الصحیح۴؎
امام ظہیرالدین مرغینانی ظہیریہ میں فرماتے ہیں یہی صحیح ہے
کمافیھا ایضا علامہ غزی(۱۴) در متن تنویر الابصار فرمود علی الراجح علامہ (۱۵) دمشق در در مختار تقریر ش کرد و گفت خلافا لما رجحہ الکمال۲؎
اور اسی میں یہ بھی ہے علامہ غزی نے متن تنویرالابصار میں فرمایا کہ راجح یہی ہے، علامہ دمشقی نے درمختار میں اس پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایاہے یہ مخالف ہے اس بات کے جس کو کمال نے ترجیح دی
مجمع الانہر میں فرمایا اکثر مشائخ نے اسی کو صحیح کہا ہے
( ۴؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر باب ادراک الفریضہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۴۱)
ھم در آنست الصحیح انہ یتم ۵؎
اور اس میں یہ بھی ہے کہ صحیح یہی ہے
( ۵؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر باب ادراک الفریضہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۴۱)
تا آنکہ محرر مذہب حضرت امام (۱۷) محمد ظاھر الروایۃ ست بایں معنی ایما فرمود ناھیک بحجۃ وقدوۃ محقق علی الاطلاق در فتح فرماید الیہ اشارفی الاصل ۶؎ ۔
کہ نمازی چار رکعات ادا کرے حتی کہ محرر مذہب حضرت امام محمد رحمۃ اﷲ تعالٰی نے مبسوط جو کتب ظاہرالروایہ میں سے ہے میں اسی کی طرف اشارہ کیا اور یہی حجت کافی ہے قدوّۃ محقق علی الاطلاق نے فتح میں فرمایا اسی کی طرف (امام محمد نے) اصل میں اشارہ فرمایا ہے۔
(۶؎ فتح القدیر ، باب ادراک الفریضہ ، مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۴۱۱)
اقول: دیدی کہ ہر جانب قوتے ست بس علیہ و رفعتے شامخہّ جلیلہ امام دلیل قول اول کہ امام ابن الہمام قدس سرہ ذکر فرمود گوبدل چسپندہ ترباش لکن عامہ تصحیحات صریحہ ایں طرف ہجوم آور دہ ولفظ ھو الصحیح کہ از جمہور ائمہ طراز دامن قول شد برلفظ ھو ا وجہ کہ از امام محقق علی اطلاق نصیبہ قول اول ست گراں سنگیہا دار دہم ازروئے مادہ وہم ازرا ہ ہیئت وہم ازجہت زوائد کما لایخفی علی الفقیہ النبیہ العارف باسالیب الکلام آں طرف اگر بہ اخذالمشائخ ست کہ بظاہر مراد بایشاں مشائخ خود امام قاضی خان ست ایں طرف صححہ اکثر المشائخ ست و نیز آنکہ از عامہ الفاظ اکد ست واقوی اعنی لفظ علیہ الفتوی باز آں طرف اگر از حضرات شیخیں مذہب رضی اﷲ تعالٰی عنھما روایت نوادر ست ایں جانب اشارہ اصل نہ چیزے ست سہل علماء سپید گفتہ اند کہ مفہوم متون بر منطوق فتاوٰی تقدم دار د علامہ سیدی احمد حموی در غمز العیون نگار و غیر خاف ان مافی المتون والشروح ولوکان بطریق المفھوم مقدم علی مافی الفتاوی وان لم یکن فی عبارتھا اضطراب ۱؎ وپیدا ست کہ نسبت انوادر بہ اصول ہمچو نسبت فتاوی ست بمتون و بالآخر مسئلہ ازاں قبیل ست کہ انسان ہر دو قول بر ہر خواہد عملی نماید ہیچ جائے ملامت نیست ومن فقیر بقول اخیر خود رامائل ترمی بینم بوجو ہے کہ شنیدی ومی شنوی
اقول: (میں کہتا ہو) آپ نے دیكہ لیا کہ ہر طرف قوت ہے ، تو نہایت بلند اور جلیل رفعت دونوں میں ہے پس قول اول پر جو دلیل امام ابن ہمام قدس سرہ نے ذکر کی ہے وہ اگرچہ دل کو پسند ہے لیکن عام تصحیحات صریحہ کا ہجوم اس طرف زیادہ ہے کہ جہاں لفظ''ھو الصحیح'' ہے جو کہ جمہور ائمہ کا خاص انداز جس کو دسرے قول نے اپنے دامن میں لے رکھا ہے اور لفظ''ھو ا وجہ'' جو کہ محقق علی الاطلاق کی طرف سے قول اول کے لئے مزید وزنی ہے ہیت ، مادہ اور زائدامور، ہر لحاظ سے ، جیسا کہ کلام کے اسلوب سے واقف فقیہ اور ماہر پر مخفی نہیں، اس طرف اگر مشائخ کی پسند ہے جو کہ بظاہر خود امام قاضی خاں سے مراد ہے تو دوسری طرف بھی''صححہ اکثر المشائخ'' اور ''صححہ المشائخ'' کے الفاظ ہیں نیز وہاں" علیہ الفتوی " كے الفا ظ بہی ہے جو كہ عام الفاظ كی نسبت زیادہ تاكید اور قوت پر دال ہے اگر وہاں (پہلے قول) کی طرف نوادر روایت کے مطابق شیخین (امام اعظم وامام ابویوسف) رضی اﷲ تعالٰی عنہما کا مذہب مذکور ہے تو یہاں (دوسرے قول) کے لئے اصل (مبسوط امام محمد) کا اشارہ موجود ہے جبکہ اصل کا اشارہ کوئی معمولی بات نہیں ہے مشہور علماء کا قول ہے کہ ''متون''کا مفہوم بھی فتاوٰی کے ''منطوق'' (ظاہر عبارت) پر مقدم ہے ۔ علامہ سیدی احمد حموی نے غمزالعیون میں لکھا ہے کہ مخفی نہیں کہ متون اور شروح میں جوبات بطور مفہوم ہے وہ فتاوٰی واضح اقوال پر مقدم ہے ،حاصل یہ کہ نوادر کا مقابلہ اصول سے ایسے ہے جیسا کہ فتاوٰی کا متون سے ہے یعنی اصول کے اشارہ کو نوادر کی تصریحات پر ترجیح ہے غرضیکہ یہ مسئلہ اس قبیل سے ہے کہ اس کے دونوں اقوال میں سے جس پر انسان چاہے عمل کرے تو کوئی اعتراض نہیں ہے اور میں خود دوسرے قول کی طرف اپنے آپ کو مائل پاتاہوں اس کے وجوہ کچھ تو آپ نے سن لئے اور کچھ کو سنیں گے
( ۱؎ غمز عیون البصائرشرح الاشباہ والنظائر کتاب الحجر ولمأذون مطبوعہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۲۲ /۷۹ )
فاقول: بر دلیل قول اول می تواں گفت کہ سنت چوں از وقت خود برگشت نقصان پذیرفت وسنت بروجہ سنت ادانشدو سنن مکملات فرائض ست وشک نیست کہ تکمیل کامل اکمل از تکمیل ناقص ست پس نقصان سنن بنقصان فرائض منجر شود پس در تسلیم بر رکعتین ہم ابطال وصف سنیت ست بے آنکہ بروجہ سنت انجبار یا بدوہم انعدام تکمیل فرض ست علی الوجہ الاکمل بخلاف اتمام کہ سنت از نقصان محفوظ مطلق ماند و درفرض اگر جہتے از اکملیت فوت شود جہتے دیگر بدست آید ھذا ماوردعلی قلبی والعلم بالحق عند ربی
ان ربی بکل شیئ علیم۔
فاقول: پہلے قول کی دلیل پر کہا جاسکتا ہے کہ جب سنت اپنے وقت سے مؤخر ہوجائے تو وہ ناقص ہوجاتی ہے اور یہ سنت بطریق سنت ادا نہ ہوگی جبکہ سنتیں فرائض کو کامل بناتی ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ کامل چیز کا مکمل کرنا زیادہ کامل ہوتا ہے ناقص چیز کی تکمیل کے مقابلہ میں ، تویوں سنت کا نقصان فرض کے نقصان کا باعث ہوتا ہے توجب دو رکعتوں پر سلام سنت کے وصف میں نقصان ہے جو کہ پورا نہیں ہوتا،تو اس سے فرض کی تکمیل میں عدم لازم آئے گا کہ فرض اکمل نہ ہوسکے گا برخلاف اس بات کے کہ جب سنت کو تام کیا جائے تو وہ نقصان سے مطلقاً محفوظ رہے گی تو اس سے اگر چہ فرض کے اکمل ہونے میں فرق آیا مگر دوسری وجہ (سنتوں کی تکمیل) سے متبادل کمال حاصل ہوجائے گا۔ یہ ہے وہ جومیرے دل میں ڈالا گیا اور حقیقی علم میرے رب کو ہےِ،میرا رب ہر چیز کا عالم ہے۔ (ت)