ثانیاً ہر عاقل جانتا ہے کہ مسجد و معبد ہو یا مسکن ومنزل ہر مکان کو بلحاظ اختلافِ موسم دو حصّوں پر تقسیم کرنا عادات مطردئہ بنی نوع انسان سے ہے جس پر معظم معمورۃ الارض میں تمام اعصاروا امصار کے لوگ اتفاق کئے ہوئے ہیں ایک پارہ مسقف کرتے ہیں کہ برف وبارش وآفتاب سے بچائے، دوسرا کُھلا رکھتے ہیں کہ دھوپ میں بیٹھنے ، ہوا لینے، گرمی سے بچنے کے کام آئے ، زبانِ عرب میں اوّل کو شتوی کہتے ہیں اور دوم کو صیفی.
کما افادہ العلامۃ بدرالدین محمود العینی فی کتاب الایمان من البنایۃ شرح الھدایۃ
(جیسا کہ علامہ بدرالدین محمودعینی نے بنایہ شرح الہدایہ کے کتاب الایمان میں تصریح کی ہے ۔ت)
یہ دونو ں ٹکڑے قطعاً اس معبد یا منزل کے یکسا دو۲ جزء ہوتے ہیں جن کے باعث وہ مکان ہر موسم میں کام کا ہوتا ہے اور بالیقین مساجد میں صحن رکھنے سے بھی واقفین کی یہی غرض ہوتی ہے ورنہ اگر صرف شتوی یعنی مسقف کو مسجد اور صیفی یعنی صحن کو خا رج ازمسجد ٹھہرائے تو کیا واقفین نے مسجد صرف مو سم سرماو عصرین گرما کے لئے بنائی تھی کہ ان اوقات میں تو نماز مسجد میں ہو باقی زمانوں میں نمازوں اعتکاف کے لئے مسجد نہ ملے یا ان کا مقصو د یہ جبر کرنا تھا کیسی ہی حبس و حرارت کی شدت ہو مگر ہمیشہ مسلمان اسی بند مکان میں نماز پڑھیں، معتکف رہیں، ہوا ا و ر راحت کا نام نہ لیں، یا انھیں دُنیا کا حا ل معلوم نہ تھا کہ سال میں بہت اوقات ایسے آتے ہیں جن میں آدمی کو درجہ اندرونی میں مشغولِ نماز و تراویح و اعتکاف ہونا درکنار دم بھر کو جانا ناگوار ہو تا ہے ، اور جب کچھ نہیں تو بالجزم ثابت کہ جس طرح انھوں نے اپنے چین کے لئے مکانِ سکونت میں صحن و دالان دونوں درجے رکھے ہیں یو نہی عام مسلمان کی عام اوقات میں آسائش و آرام کے لئے مسجد کو بھی انہی دو۲ حصّوں پر تقسیم کیا۔
ثالثاً اب نمازیوں سے پو چھئے آپ اذان سن کر گھر سے کس ارادہ پر چلتے ہیں ، یہی کہ مسجد میں نماز پڑھیں گے یا کچھ اور ، قطعاً یہی جواب دیں گے کہ مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں ، اب دیکھئے کہ وہ موسم گرما میں فجر و مغرب وعشاء کی نمازیں کہاں پڑھتے ہیں اور اُن کے حفّاظ قرآن مجید کہاں سناتے ہیں اور اُن کے معتکف کہاں بیٹھتے اور ذکر وعبادت میں مشغول رہتے ہیں، خو دہی کھل جائے گا کہ مسلمانوں نے صحن کو بھی مسجد سمجھاہے یا نہیں تو مسجدیت صحن سے انکار اجماع کے خلاف۔
رابعاً بلکہ غور کیجئے تو جو صاحب انکار رکھتے ہیں خود اُنہی کے افعال اُن کی خطا پر دال، اگر وہ مسجدمیں نماز پڑھنے آتے ہوں تو لاجرم مو سم گرما میں عام مسلمانوں کی طرح صحن ہی پر پڑھتے ہوں گے پھر ان سے پوچھئے آپ گھر چھوڑ کر غیر مسجد میں نماز پڑھنے کیوں آئے،اور جب یہ مسجد نہیں تو یہاں نماز پڑھنے میں کیا فضیلت سمجھی، فضیلت درکنار داعی اﷲکی اجابت کب کی،اور حدیث
لاصلٰوۃلجارالمسجدالافی المسجد ۔۔ ۱
)مسجد کے پڑوسی کی نماز ، مسجد کے علاوہ نہیں ہو سکتی۔ت)
کی تعمیل کہاں ہوئی اور سنتِ عظیمہ جلیلہ کس واسطے چھوڑی ، کہا کو ئی ذی عقل مسلمان گوارا کرے گا کہ مکان چھوڑ کر آوازِ آذان سُن کر نماز کو جائے اور مسجد ہو تے ساتے مسجد میں نہ پڑھے بلکہ اس کے حریم و حوالی میں نماز پڑھ کر چلا آئے، کیا اہل عقل ایسے شخص کو مجنون نہ کہیں گے، تو ا نکار والوں کا قو ل وفعل قطعاً متناقض، اگر یہ عذر کریں کہ جہاں امام نے پڑھی مجبوری ہیں پڑھنی ہوئی ہے تو محض بیجا و نا معقول وناقابل قبول ، آپ صاحبوں پر حقِ مسجد کی رعایت اتباعِ جماعت سے اہم و اقدم تھی، جب آپ نے دیکھا کہ سب اہل جماعت مسجد چھوڑ کر غیر مسجد میں نماز پڑھتے ہیں آپ کو چاہئے تھا خود مسجد میں جاکر پڑھتے، اگر کوئی مسلمان آپ کا ساتھ دیتا جماعت کرتے ورنہ تنہا ہی پڑھتے کہ حقِ مسجد سے ادا ہوتے۔ یہاں تک علما اس تنہا پڑھنے کو دوسری مسجد میں باجماعت پڑھنے سے افضل بتاتے ہیں نہ کہ غیر مسجد میں۔
فتاوٰی امام قاضی خاں پھر خزانۃ المفتین پھر ردلمحتار وغیرہ میں ہے۔
یذھب الی مسجد منزلہ ویؤذن فیہ ویصلی وان کان واحداً لان لمسجد منزلہ حقا علیہ فیؤدی حقہ مؤذن مسجد لایحضرمسجدہ احد قالوا یؤذن ویقیم ویصلی وحدہ فذالک احب من ان یصلی فی مسجد اٰخر۔۲؎
آدمی اپنے محلہ کی مسجد میں جائے اس میں آذان دے اور نماز پڑھے اگر چہ تنہا ہو کیونکہ اس پر محلہ کی مسجد کا حق ہے جس کی ادا ئیگی ضروری ہے ، ایسی مسجد کے مؤذن کے بارے میں جس میں کوئی نہیں آتا فقہاء نے کہا ہے کہ وہ وہاں تنہا ہی آذان دے کر اور نماز پڑھے یہ دوسری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے
(۱؎ مستدرکِ حاکم کتاب الصّلوٰۃ لاصلوٰۃلجارالمسجدالخ مطبوعہ دارالفکربیروت ۲۴۶/۱)
)۲؎ فتاوٰی قاضیخاں فصل فی المسجد مطبوعہ نولکشورلکھنؤ ۳۲/۱(
تنبیہ : انھیں وجوہ سے ظاہر ہوگیا کہ اہل سورت کا خا ص درجہ شتوی کو جماعتِ خانہ کہنا ایک اصطلاحِ خاص ہے اور صیفی یعنی صحن کو خارج اسی معنی پر کہتے ہیں کہ اُس جماعتِ خانہ مصطلحہ سے باہر ہے نہ بایں معنی کہ جزء ِمسجد نہیں، اور اگر مسجد ہی کہتے ہو ں تو یہ کہنا ایساہے جیسے علماءِ کرام ظاہر بدن کو خارج البدن فرماتے ہیں جس کے یہ معنی کہ بدن بیرونی حصّہ نہ یہ کہ بدن سے باہر ، یو نہی خارج مسجد یعنی مسجد کا بیرونی ٹکڑا، نہ یہ کہ مسجد سے خارج۔ اور بالفرض اگر انھوں نے اپنی اصطلاح میں مسجد صرف شتوی یعنی مسقف ہی کا نام رکھا ہو تو اسے مسجد نہ کہنے کا حاصل اس قدر ہو گا کہ درجہ شتویہ نہیں نہ یہ کہ شرعاً مسجد نہیں،اُن کے افعال دائمی یعنی موسم گرما میں ہمیشہ جماعت مغرب وعشاء وفجر صحن ہی پر پڑھنا اور آذان سننے پر مکانو ں سے بارادہ صلوٰۃفی المسجد آکر یہاں جماعت کرنا جس کی تصریح سوال میں موجود ۔اور رمضان ِگرما میں یہیں تراویح پڑھنا،معتکف رہنا کہ عادۃًبالقطع معلوم ومشہود، اس مرادمقصودپر شاہد مبین ومفید تعیین ومورث یقین،
کمالایخفی علی صبی عاقل فضلا عن فاضل
(جیسا کہ کسی عاقل بچے سے مخفی نہیں چہ جائیکہ کسی فاضل پر مخفی رہے۔ت)
خامساً طرفہ یہ کہ انکار کرنے والے حلتِ دخول جنب میں بحث ونزاع کرتے ہیں اُن کے قول پر یہ معاذاﷲصراحۃًبدعتِ شنیعہ مسلمانوں سے علی الدوام والالتزام واقع ہوتی ہے یعنی گرمی میں مسجد چھوڑکر غیر مسجد میں جماعت پڑھنا اور حقِ مسجد تلف کرنا اس پر کیوں نہیں انکار کرتے بلکہ اس میں تو خود بھی شریک ہوتے ہیں کہ خلاف میں اپنی بھی تکلیف ہے ، اب اگر وہ اپنے قول باطل پر اصرار کرکے اسی فکر میں پڑیں کہ نماز صحن مطلقاًبند کردی جائے اور ہمیشہ ہر موسم ہر وقت کی جماعت اندر ہی ہوا کرے، اور بالفرض اُن کی یہ بات خلق کو نماز صحن سے مانع آئے تو دیکھئے موسم گرما میں کتنی مسجدیں نماز و جماعت و تراویح واعتکاف سے معطل محض ہوئی جاتی ہیں کہ لوگ جب صحن سے روکے جائیں گے اور اندر ان افعال کی بجا آوری سے بالطبع گھبرائیں گے ، لاجرم مسجد کے آنے سے باز رہیں گے اور اگر ایک دو نے یہ ناحق و بے سبب کی سخت مصیبت گوارا بھی کرلی تو عام خلائق کا تنفر قطعی یقینی، تو اس نزاع بیجا کا انجام معاذاﷲمساجد کا ویران کرنا اور اُن میں ذکرونماز سے بندگان ِخدا کو روکنا ہے۔
قال اﷲعزوجل ومن اظلم ممن منع مسٰجداﷲان یذکرفیھا اسمہ وسعٰی فی خرابھا۔۱؎
اﷲ عزو جل نے فرمایا: اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خداکی مسجدوں کو اُن میں نامِ خدایاد کئے جانے سے روکے اور ان کی ویرانی میں کو شش کرے۔
(؎ القرآن ۲/ ۱۳)
اب صحن کو مسجد نہ ماننے والے غور کریں کہ کس کا قول افسادفی الدین تھا ولاحول ولاقوۃ الّاباﷲالعلی العظیم۔
سادساً اس مسئلہ جلیلہ کو کلماتِ ائمہ کرام ہی سے استخراج کرنا چاہئے تو بوجوہ کثیرہ میسر،علماء تصریح فرماتے ہیں کہ مسجد مبارک حضورسیّد المرسلین صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم زمانہ اقدس میں جنوباّشمالاّ یعنی دیوار ِ قبلہ سے پائینِ مسجدتک سو گز طول رکھتی تھی اور اسی قدر شرفاّغرباّعرض تھا اور پائین میں یعنی جانبِ شام ایک مسقف دالان جنوب رویہ تھا جسےصفّہ کہتے اور اہل صفّہ رضی اﷲتعالٰی عنہم اُس میں سکونت رکھتے یہ بھی جزءِ مسجد تھا
علامہ رحمة اﷲ سندی تلمیذامام محقق علی الاطلاق ابن الہمام منسک متوسط اورمولانا علی قاری مکی اس کی شرح مسلک متقسط میں فرماتے ہیں:
(حدہ) ای حدودالمسجدالاول(منالمشرق من وراء المنبر نحوذراع ومن المغرب الاسطوانۃ الخامسۃ من المنبر ومن الشام حیث ینتھی مائۃ ذراع من محرابہ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم) وھو معلوم لاھل المدینۃ بالعلامۃ الموضوعۃ ۱؎ اھ ملخصاً۔
(اس کی حد) یعنی مسجد اول کی حدود (منبر کی دوسری طرف مشرق کی طرف ایک گز کے برابر ہے ، اور جانبِ مغرب پانچویں ستون تک اور جانبِ شام حضورصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم کے محراب سے سو گز ہے) اور نشانات مخصوصہ کی وجہ سے اہل مدینہ کو معلوم ہے اھ تلخیصاً۔(ت)
)۱؎ مسلک متقسط مع ارشادالساری فصل ولیغتنم ایام مقامہ بالمدینۃ المشرفۃ مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت ص۳۴۳(
علامہ طاہرفتنی مجمع بحار الانوارمیں فرماتے ہیں:
اھل الصفۃ فقراء المھاجرین ومن لم یکن لہ منھم منزل یسکنہ فکانوا یاوون الی موضع مظلل فی مسجدالمدینۃ۔۲؎
اہل سفّہ مہاجر فقراء میں سے تھے اور جس کے لئے گھر نہ ہوتا وُہ وہیں ٹھہرتا، پس صفّہ مسجدِنبوی میں ایک چھتدار جگہ میں رہتے تھے۔(ت)
(۲؎ مجمع بحارالانوار لفظ صفف کے تحت مذکور ہے مطبوعہ نو لکشور لکھنؤ ۲ /۳۵۳ )
صیحح بخاری شریف میں ہے:
باب نوم الرجال فی المسجد وقال ابوقلابۃ عن انس رضی اﷲتعالٰی عنہ قدم رھط من عکل علی النبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فکانوا فی الصفۃ، وقال عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اﷲتعالٰی عنھما کان اصحاب الصفۃ الفقراء۱؎
باب لوگوں کا مسجد میں سونے کے بارے میں ،ابوقلابہ حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ عکل کا ایک وفد رسالتمآب صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں آیا اور وہ صفہ میں تھےحضرت عبدلرحمٰن بن ابی بکر رضی اﷲتعالٰی عنھما نے فرمایا کہ اصحابِ صفہ فقراء تھے۔(ت)
(۱؎ صیحح البخاری باب نوم الرجال فی المسجد مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی۱ /۶۳ )
علامہ احمد قسطلانی ارشاد الساری شرح صیحح بخاری میں فرماتے ہیں:
الصُفّۃ بضم الصاد و تشدید الفاء موضع مظلل فی اخریات المسجد النبوی تاوی الیہ المساکین۔۲؎
الصُفّہ، صاد پر پیش ، فاء پر تشدید، مسجد نبوی کے آخری حصہ میں وہ چھتی ہوئی جگہ جہا ں مساکین پناہ لیتے تھے۔(ت)
(۲؎ ارشاد الساری شرح صیحح البخاری باب نوم الرجال فی المسجد مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت ۱ /۴۳۸ )
اب مشاہدہ کرنے والا جانتا ہے کہ محرابِ مصطفٰي صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم کہ محراب ِامیرالمؤمنین عثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی جانب شمال ہے ، پائین مسجد کو پیمائش کرتے آئیے تو سو گز کی مساحت ایک حصّہ صحن میں آئے گی، اور قطعاًمعلوم کہ زمانہ اقدس میں جس قدر بنائے مسجد تھی اُس میں کمی نہ ہوئی بلکہ افزونیاں ہی ہوتی آئیں تو واجب کہ اس وقت بھی یہ سو گز مع صحن تھی اور جبکہ صفہ تک جزءِ مسجد تھا کما ظھر مما نقلنا من العبارات (جیسے کہ ہماری نقل کردہ عبارات سے ظا ہر ہے۔ ت) تو کیونکہ معقول کہ بیچ میں صحن خارج مسجد گنا جائے۔