فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ) |
مسئلہ ۱۱۸۶:از او جین علاقہ گوالیار مرسلہ محمد یعقوب علی خاں ازمکان میر خادم علی صاحب اسسٹنٹ یکم ربیع الآخر ۱۳۰۷ھ چہ می فرماین علمائے دیندار و مفتیان ورع شعار دریں مسئلہ کہ مردے نیت چہار رکعت نماز سنت خواہ نفل نمودہ یک رکعت نماز با تمام رسانیدہ بادائے رکعت دوم برخاست دراں وقت کسے تکبیر نماز فرض گفت اداکندہ نفل وسنت بر چہار رکعت تمام نماید یا بردو رکعت اکتفا ساز دو رکعت باقیہ رانجواند یا نہ؟ بنوا تواجروا
علماء شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے چار رکعت نماز سنت یا نفل کی نیت کرکے شروع کی ابھی دوسری رکعت کی طرف اٹھا تھا کہ نماز فرض کی جماعت کے لئے تکبیر ہوگئی نفل و سنت ادا کرنے والا چار رکعت پوری کرے یا دو پر اکتفاء کرلے باقی دو رکعات ادا کرے یا نہ؟ بینوا تواجروا
الجواب : مصلی نفل از آغا ز ثنا تا انجام تشہد در ہر چہ کہ باشد چوں ہنوز در شفع اول ست وبہر شفع دوم یعنی رکعت ثالثہ قیام نکر دہ کہ جماعت فرض قائم شد لاجرم بر ہمیں دو رکعات پیشیں اکتفا نماید و بجماعت در آید
نفل ادا کرنے والا نمازی ثنا سے تشہد کے آخر تک جو پہلی دو رکعت میں ہے ابھی تیسری رکعت کی طرف اس نے قیام نہیں کیا تھا کہ جماعت فرض کھڑی ہو گئی تو ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ انھیں دو رکعات پر اکتفا کرے اور جماعت میں شریک ہو جائے
فی الد رالمختار الشارع فی نفل لایقطع مطلقا ویتمہ رکعتین ۱؎۔
درمختار میں ہے نوافل میں شروع ہونے والا انھیں مطلقاً قطع نہیں کرسکتا بلکہ دو رکعات پوری کرے۔
( ۱؎ درمختار باب ادراک الفریضہ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۹۹)
و دو رکعت کہ باقی ماند قضائے آنہا برزمہ اش نیست زیر اکہ ہر شفع نفل نماز جدا گانہ است تا در شفع دوم آغاز تکرد واجب نشد و چوں واجب نشد قضا نیامد ۔
اور جو دو رکعات باقی تھیں ان کی قضا اس کے ذمہ نہیں کیونکہ نوافل کی ہر دو رکعت الگ نماز ہے جب تک دوسرے شفع کا آغاز نہیں کیا جاتا وہ لازم نہیں ہوگا۔
فی الدرالمختار لاقضاء لونوی اربعا و قعد قدرالتشھد ثم نقض ۲؎ ۔
درمختار میں ہے قضا لازم نہیں اگر چہ نمازی نے چارکی نیت کی تھی اور اس نے مقدار تشہدبیٹھ کر نماز توڑی دی۔
(۲ ؎ درمختار باب الوتر والنوافل مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۹۷)
و ہمیں سب حکم سنن غیر راتبہ مانند چار رکعت قبلیہ عصر و عشاء کہ آنہم نافلہ بیش نیست اما سنن راتبہ رباعیہ کہ قبلیہ ظہر و جمعہ است و ہمچو سائر رواتبہ حکمہا دارد فائق بر احکام نفل مطلق ایں جاعلما را معر کے عظیم ست بسیاری آنہارا نیز در حکم مذکور ہمرنگ نوافل داشتہ اند پس اگر جماعت ظہر قائم شد یا امام بخطبہ جمعہ رفت ہر كہ در شفع اول سنت است ہمیں بر دو ركعت سلام وہداین ( ۱) ست روایت نوادر از امام ابویوسف رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کما فی الھدایۃ و از امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ نیز کما فی فتح القدیر وبہمیں ( ۳) قول رجوع فرمود امام شیخ الاسلام علی سغدی کما فیہ ایضا و قاضی( ۴) نسفی نیز کما فی الشامی عن الوجیز و فی غنیۃ الحلبی من الاوقاف المکروھۃ عن قاضی خان۱وامام (۵) بقالی رانیز ہمیں سو میل ست کما قالہ الکمال وشمس(۶) الائمہ سرخسی راہم کماذکر ایضا وتبعہ فی الغنیۃ وفی مراقی الفلاح واقرہ فی ردالمحتار وللعبد الضعیف فیہ وقفۃ واﷲ تعالٰی اعلم ۔
اور غیر مؤکدہ سنن کا حکم بھی یہی ہے مثلاً عصر اور عشاء کی پہلی سنتیں، ان کا درجہ بھی نوافل کا ہے لیکن وہ چار سنن موکدہ جو مثلاً ظہر اور جمعہ سے پہلے ہیں تو ان کا حکم نوافل سے فائق ہوتا ہے اس جگہ علماء کا بہت زیادہ اختلاف ہے اکثر نے ان سنن موکدہ کو نوافل کا درجہ دیا ہے اب اگر جماعت ظہر کھڑی ہوگئی یا امام نے خطبہ شروع کردیا تو جو شخص سنن کی پہلی دورکعات میں ہے وہ دو رکعت پر سلام کہ دے۔ یہ روایت نوادرامام ابویوسف سے ہے جیسا کہ ہدایہ میں ہے، اور امام اعظم سے بھی مروی ہے جیسا کہ فتح القدیر میں ہے، اور اس قول کی طرف امام شیخ الاسلام علی سغدی نے رجوع کیا جیسا کہ فتح القدیر میں ہے اورقاضی نسفی نے بھی یہی کہا ہے جیسا کہ شامی میں وجیز سے اور حلبی کی غنیہ کے اوقاف مکروہہ میں قاضی خاں سے ہے ، اور امام بقالی نے بھی اسی طرف میلان کیا ہے جیسا کہ شیخ کمال نے فرمایا ، اور شمس الائمہ سرخسی نے بھی یہی فرمایا جیسا کہ یہ بھی مذکو ر ہے اور اسی کی اتباع غنیہ اور مراقی الفلاح ا ور ردالمحتارمیں اس کو ثابت رکھا ہے۔ لیکن اس عبد ضعیف کو اس میں توقف ہے
وظاہر (۷) ہدایہ اختیاراوست کما فی الشامی وظاہر(۸)کافی شرح وافی للامام النسفی نیز کما رأیتہ فیہ وبرہمیں (۹) جزم کردہ است علامہ(۱۰) طرابلسی درہربان و مواہب الرحمن و مولٰی خسرو در درر و علامہ کرکی (۱۱) درفیض وظاہر اعلامہ (۱۲ ) علی مقدسی رانیز ہمیں سو میلان ست کما فی ردالمحتار و علامہ (۱۳) ابراہیم حلبی در متن ملتقی ہمبریں اعتماد کرد وقول دیگر رابلفظ قیل آورد و درخانیہ (۱۴) اول الصلوٰۃ فصل معرفۃ الاوقات فرمود بہ اخذ المشائخ و در فتح انہ او جہ تلمیذ (۱۶) محقق علامہ محمد حلبی در حلیہ پس از نقلش فرماید ھو کما قال در نور الا یضاح (۱۷) علامہ شر نبلالی و نیز در ادراک الفریضہ از حاشیہ اوبر درر الحکام است ھو ا لاو جہ خاتمہ المحققین علامہ شامی نیز ہمیں را تایید وتشیید کرد بریں قول ایں دو رکعت کہ گزار دہ است نفل محض گرد دو و دو باقی راقضا نیست علی ما ھو ظاھر الروایۃ و ارجع التصحیحین کما حققہ فی ردالمحتار باز بعد از فرض بلکہ علی اولی الترجیحین عندی کما حققتہ علی ھامش حاشیۃ الشامی پس از سنت بعدیہ ایں سنن قبلیہ را ادا کند تاہم سنت ادا شود و ہم فضل جماعت و استماع خطبہ ازدست نرود فی نور الایضاح وشرحہ مرافی الفلاح العلامۃ الشرنبلالی ان کان فی سنۃ الجمعۃ فخرج الخطیب او فی السنۃ الظھر فاقیمت الجماعۃ سلم علی رأس رکعتین، وھوالاوجہ لجمعہ بین المصلحتین، ثم قضی السنۃ اربعا بعدالفرض مع مابعدہ فلا یفوت الاستماع ولاداء علی وجہ اکمل ۱؎ اھ مخلصا۔
ظاہراً ہدایہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے جیسا کہ شامی میں ہے اور کافی شر ح وافی للامام نسفی سے بھی یہی ظاہر ہے جیسا کہ میں نے اسے دیکھا ہے، اور اسی پر علامہ طرابلسی نے برہان اور مواہب الرحمن میں جزم کیا ، ملا خسرو نے درر، علامہ کرکی نے فیض اور علامہ علی مقدسی نے بھی ظاہراً اسی کی طرف میلان کیا ہے جیسا کہ ردالمحتار میں ہے اور دوسرے قول کو لفظ''قیل'' کے ساتھ بیان کیا ، خانیہ نے باب الصلوٰۃ کی فصل فی معرفۃ الاوقات میں فرمایا کہ مشائخ نے اسی پر عمل کیا ہے۔ فتح میں ہے کہ یہی مختار ہے، تلمیذ محقق علامہ محمد حلبی نے حلیہ میں اسے نقل کر کے کہا وہ اسی طرح ہے جو انھوں نے فرمادیا ہے، نورالایضاح میں علامہ شرنبلالی اور اس کے ادراک الفریضہ کے حاشیہ میں دررالحکام سے ہے کہ یہی مختار ہے، خاتمہ المحققین علامہ شامی نے بھی اسی قول کی تائید کی ہے ، اس قول پر یہ جو رکعات اداکی گئی ہیں محض نفل ہیں اور باقی دونوں كی قضا نہیں جیسا کہ ظاہرالروایت سے واضح ہے اور دونوں اقوال کی تصحیح میں یہی راجح ہے جیسا کہ ردالمحتار میں اس کی تفصیل ہے ، پھر فرض کے بعد بلکہ میرے نزدیک دونوں ترجیحات میں سے پہلی ہے جیسا کہ میں نے شامی کے حاشیہ میں تحقیق کی ہے ان میں پہلی سنتوں کو بعد کی سنتوں کے بعد ادا کرلے تاکہ سنت ادا ہوجائے اور فضیلت جماعت اور خطبہ کی سماعت کا ثواب بھی ہاتھ سے نہیں جائیگا۔ نورالا یضاح اور اس کی شرح مراقی الفلاح میں ہے اگر نمازی جمعہ کی سنتیں ادا کر رہا ہے اور خطیب آگیا یا ظہر کی سنتیں ادا کر رہا ہے تو تکبیر جماعت کہی گئی تو دو رکعات پر سلام پھیر دے کیونکہ دونو ں مصلحتوں کو جمع کرلینا ہی مختار ہے پھر فرائض کے بعد ان پہلی چار سنتوں قضا کرلے تو اب خطبہ کا سننا (جو فرض تھا) فروت نہ ہوا اور ادائیگی بھی وجہ کامل پر ہوگی اھ تلخیصاً
( ۱؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی باب ادراک الفریضۃ مطبوعہ نور محمد کار خانہ تجارت کتب کراچی ص ۲۴۵)