مسئلہ۱۱۷۷: از بھیرہ شاہ پور ملک پنجاب دروازہ ملتانی مسئولہ فضل حق صاحب چشتی ۵ رمضان ۱۳۳۹ھ
بخدمت جناب سلطان العلماء المتبحرین برہاں الفضلاء والمتصدرین کنز الہدایۃ و الیقین شیخ الاسلام و المسلمین مولٰینا مفتی العلامہ شاہ احمد رضا خان صاحب مدظلہ العالی ،
السلام علیکم:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مولود خوانی مسجد میں جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ مرزائی وغیرہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسجد میں راگ منع ہیں اور حتی الامکان منع ہیں، چونکہ مولود بھی راگ ہیں اس لئے یہ قطعاً جائز ہیں ۔ بینوا توجروا
الجواب: مجلس میلاد مبارک کہ روایات صحیحہ سے ہو اور اشعار کہ پڑھے جائیں مطابق شرع مطہر ہوں اور الحان سے پڑھنے والے مرد غیر امرد ہوں، مسجد میں بھی جائز ہے کہ مساجد ذکر الہٰی کے لئے بنیں اور نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ذکر بھی ذکر الہٰی ہے، حدیث میں ہے رب عز وجل نے کریمہ ورفعنا لک ذکرک كے نزول کے بعد کہ ہم نے بلند کیا تمھارے لئے تمھارا ذکر ، جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدمت اقدس حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں بھیج کر ارشاد فرمایا:
اتدری کیف رفعت لک ذکرک۱؎
جانتے ہو میں نے تمھارا ذکر تمھارے لئے کیونکر بلند فرمایا؟
(۱؎ کتاب الشفاء لاباب الاول فی ثناء اﷲ تعالٰی فصل اول مطبوعہ شرکت صحافیۃ ترکی ۱ /۱۵)
( تفسیر درمنشور آیۃ ورفعنا لک ذکرک کے تحت مذکور ہے منشورات مکتبہ آیۃ العظمی قم ایران ۶/ ۳۶۴)
حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے عرض کی : تو خوب جانتاہے ۔ فرمایا :
جعلتک ذکر امن ذکری فمن ذکرک فقد ذکرنی۲؎
میں تمھیں اپنے ذکر میں سے ایک ذکر بنایا تو جو نے تمھارا ذکر کیا اس نے میرا ذکر کیا۔
(۲؎ کتاب الشفاء الباب الاول فی ثناء اﷲ تعالٰی فصل اول مطبوعہ شرکت صحافیہ فی البلاد العثمانہ ترکی ۱ /۱۵)
قادیانی مرتدین ہیں ان کی بات پر کان لگانا جائز نہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۷۸: مسجد میں مسائل کا بطور وعظ کے قبل نماز کے کوئی نفل پڑھتا ہو کوئی سنتیں بیان کرنا چاہئے یا نہیں ، یا بعد نماز کے ؟
الجواب : مسائل قبل نماز خواہ بعد نماز ، ایسے وقت بیان كئے جائے كہ لوگ سننے كے لئے فارغ ہو ، نمازیوں كی نماز میں خلل نہ آئے ۔ واللہ تعالی اعلم
مسئلہ ۱۱۷۹: از جاورہ مرسلہ مولوی حافط مصاحب علی صاحب یکم رجب ۱۳۳۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد میں اگر نماز کے واسطے صفیں باندھ کر منتظر جماعت یا خطبہ بیٹھے ہوں اور مشغول ذکر الہٰی ہوں اس صورت میں کسی حاکم یا مشائخ یا رئیس یا بادشاہ یا خود امام مسجد کے آجانے پر کسی شخص کو یا عام لوگوں کو تعظیم کے لئے کھڑا ہونا یا استقبال کو بڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
الجوا ب: جبکہ لوگ جماعت یا خطبہ کے انتظار میں نہ ہوں اور ابھی امام خطبہ کے ہئے نہیں گیا تو باپ یا پیر یا استاذ علم دین کے لئے ہر شخص قیام کرسکتا ہے، اور اگر عالم دین کا تشریف لانا ہو تو تمام مسجد قیام کرے، ان کی تعظیم بعینہٖ اﷲ و رسول کی تعظیم ہے جل و علاوصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم، باقی صرف دینوی عزت یا تو انگر رکھنے والے کے لئے بلا ضرورت و مجبور جائز نہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۸۰: غرہ محرم الحرام ۱۳۱۴ھ: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جس مقام پر بہت قبریں ہوں اس مقام کو پاٹ کر اس پر مسجد بنائی جائے اس میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟
الجواب: سائل مظہر ہے کہ قبرستان عامہ مسلمین کے خاص موضع قبور پر مٹی ڈال کر چبوترہ بنایا اور اس پر عمارت قائم کرکے اسے مسجد ٹھہرایا یہ قطعاً نا جائز وباطل ہے، نہ وہ مسجد مسجد ہوسکتی ہے فان الوقف لایملک فلا یوقف مرۃ اخری علٰی جھۃ اخر ی
( کیونکہ وقف کسی کی ملکیت نہیں رہتا لہٰذا دوبارہ کسی دوسرے پر وقف نہیں کیا جاسکتا۔ ت) نہ اس میں نماز مباح
لان القبر لا یخرج عن القبریۃ باضافۃ تراب علیہ فھی صلوٰۃ علی القبر ثم ھو تصرف فی الوقف بما لیس لہ و تغییرلہ عما قد کان لہ فلا یجوز
(کیو نکہ قبر پر مٹی زیادہ ڈالنے سے قبر، قبریت سے خارج نہیں ہوسکتی لہٰذا یہ نماز قبر پر ہوگی پھر یہ وقف میں ایسا تصرف و تبدیلی ہے جو اس کے لئے جائز نہیں۔ ت) واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۸۴تا ۱۱۸۱: از میٹرتا علاقہ جودھپور متصل مسجد جامع چوٹھ کی گلی مرسلہ مولوی عبدالرحمان صاحب وکیل کچامن۸ ذی الحجہ یوم چہار شنبہ ۱۳۱۴ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کثر اﷲ جما عتہم سوالات مستفسرۃ ذیل کے جوابات میں:
(۱) ہمارے ادھر ایک قوم ہے جس کا پیشہ شراب کشید کرنے کا ہے اور مذہباً مسلمان ہے اس قوم میں کچھ آدمیوں نے دوچار پشت سے شراب کی کشید موقف کردی ہے اور دوسرے پیشے مثلاً پیشہ بساطی اور معماری وغیرہ وغیرہ جن سے اکل حلال میسر ہوسکتا ہے اختیار کر لئے ہیں ان لوگوں نے ایک مسجد بنائی ہے اس میں ہم لوگوں کی نماز ہوسکتی ہے یا نہیں ؟
(۲) مذکورہ بالاقوم کے بعض مسلمان ابھی تک شراب کشید کرتے ہیں مگر وہ نماز اور روزہ کے پابند ہیں، یہ لوگ اس مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں اسی میں وضو بناتے ہیں مگر مسجد میں جب داخل ہوتے ہیں اس وقت شراب سے بدن کو ملوث نہیں رکھتے بلکہ کپڑوں سے اور بدن کی طہارت سے داخل ہوتے ہیں اس صورت میں ان کو مسجد میں آنے دینا چاہئے یا نہیں اور وضو کرنے دیں یا منع کیا جائے اور جماعت مین شریک کریں یا نہ کریں؟
(۳) وہ مسلمان جنھوں نے شراب ترک کردی ہے ان کے یہاں کی دعوت قبول کی جائے یا نہیں اور ان کی بنا کردہ مسجد میں امامت کرنے والے کے حق میں شریعت سے کیا حکم ہے؟
(۴) قوال یعنی بڑھ مچھے اور طوائف بڑھیا کو مسجد میں آنے دینا چاہئے یا نہیں اور ان کے جنازہ کی نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں؟ بینوا توجروا
الجواب: وہ مسجد کہ ان لوگوں نے بعد توبہ مال حلال سے بنائی ہے بیشک مسجد شرعی ہے اور اس میں نماز فقط ہوسکتی ہی نہیں بلکہ اس کے قرب وجوار والوں اہل محلہ پر اس کا آباد رکھنا واجب ہے، اس میں اذان و اقامت و جماعت و امامت کرنا ضرور ہے اگر ایسا نہ کریں گے گنہگار ہوں گے ، اور جو اس میں نماز سے روکے گا وہ ان سخت ظالموں میں داخل ہوگا جن کی نسبت اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
ومن اظلم ممن منع مسٰجداﷲ ان یذکر فیھا اسمہ وسعٰی فی خرابھا ۱؎ ۔
اس سے بڑھ کر كون ظالم جو اﷲ کی مسجد وں سے روکے ان میں خدا کا ذکر ہونے سے اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے۔
( ۱؎ القرآن ۲ /۱۱۴)
اور ان تائبوں کی دعوت بھی قبول کی جائے کہ اب اس کا مال بھی حلال ہے اور توبہ سے گناہ بھی زائل ، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہے:
التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ۲؎۔
جس نے گناہ سے توبہ کرلی وہ ایسے ہے جیسے گناہ کیا ہی نہیں۔
(۲؎ سنن ابن ماجہ ابواب الزہد باب ذکر التوبہ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۲۳)
( السنن الکبرٰی کتاب الشہادات باب شہادت القاذف مطبوعہ دار صادر بیروت ۱۰ /۱۵۴)
رواہ ابن ماجۃ بسند حسن والبیھقی فی السنن والطبرابی فی لکبیرعن عبداﷲ بن مسعود والحکیم الترمذی عن ابی سعید الخدری والبیھقی فی الشعب والسنن وابن عساکر عن ابن عباس وفی السنن عن عقبۃ الخولا نی والاستاذ القشیری فی رسالتہ والدیلمی وابن النجار عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنھم
اسے ابن ماجہ نے بسند حسن ، بہیقی نے سنن میں اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی علیہ سے، حکیم ترمذی نے حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالٰی علیہ سے ، بہیقی نے شعب الایمان میں ، اور ابن عسا کر نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہماسے اور سنن میں عقبہ خولانی سے ، اورا ستاد القشیری نے اپنے رسالہ میں ، اور دیلمی اور ابن نجار نے حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔
اور ان میں جو لوگ اب تک اس فسق عظیم میں مبتلا ہیں اگر چہ مستحق لعنت خدا ہیں مگر جبکہ پاک بدن پاک کپڑوں سے مسجد میں آتے ہیں تو انھیں وضو و مسجد و جماعت سے نہیں روک سکتے، اگر ان کے آنے سے فتنہ نہ ہو ، یو نہی قو ال کو بھی، اور عورتیں اگر چہ پارسااور بڑھیا ہوں مسجد سے ممنوع ہیں خصوصا زنا پیشہ فاحشات کہ ان کے باہمی وہ رسوم سنے گئے ہیں جن کا بعد ایمان قائم رہنا سخت دشوار ہے، قوال وغیرہ جو مسلمان مرے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاتا ہو چند صور استثنائی مذکورہ فقہیہ کے سوا سب جنازہ کی نماز پڑھی جائے گی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الصلوٰۃ واجبۃ علیکم علی کل مسلم یموت برا کان او فاجر و ان ھو عمل الکبائر ۱؎ ۔ رواہ ابوداؤد وابو یعلٰی والبیھقی بسند حسن صحیح عن ابی ھریرۃ ومعناہ لابن ماجۃ عن واثلثۃ بن الاسقع وللطبرانی فی الکبیری وابی نعیم فی الحیلۃ عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنھم اجمعین۔ واﷲ تعالٰی اعلم
ہر مسلمان کے جنازہ کی نماز تم پر فرض ہے وہ نیک ہو یا بد، اگر چہ اس نے کبیرہ گناہ کئے ہوں۔
(۱ ؎ سنن ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الغز مع ائمہ الجور مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۴۳)
( سنن الکبرٰی کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ خلف من لایحمد فعلہ مطبوعہ دار صادر بیروت ۳ /۱۱۲ و ۸ /۱۸۵)
اسے ابوداؤد ۔ابو یعلی اور بہقی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے اور معناً اسے ابن ماجہ نے حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اﷲ تعالی عنہ سے اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں اور ابو نعیم نے حلیہ میں حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنھم اجمعین سے روایت کیا ہے واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۱۸۵: از بریلی مسئولہ شیخ العزیز بسطامی دوم ذوالقعدہ ۱۳۳۰ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے ایک مسجد میں جمعہ کی نماز کے واسطے دریاں وغیرہ
بنوائیں مگر کچھ دنوں وہاں جمعہ ہوکر رہ گیا اب وہ چاہتا ہے کہ یہ دریاں کسی دوسری مسجد میں دے دوں، پس یہ جائز ہے یا نہیں ؟ بینوا تواجروا
الجواب: جب دریاں سپرد کردیں ملک مسجد ہوگئیں، جب تک ناقابل استعمال نہ ہوجائیں واپس نہیں لے سکتا نہ دوسری مسجد میں دے سکتا ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم