Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
17 - 144
مسئلہ۱۱۷۵: سائل مذکور الصدر : 

ایک مسجد قدیم چندہ کے روپیہ سے ازسرِنو تعمیر کی گئی اس کی مغربی دیوار پر عبارت ذیل تین پتّھر میں کندہ کرکے ہر سہ محراب کے اوپر چسپاں کی گئی ، 

عبارت یہ ہے :''یہ جامع مسجد مع دکانات جنوبی وشرقی وحمام شاہی عہد کے بنے ہوئے ایک عرصہ تک متولیوں کے اہتمام میں رہی، آخری متولی کی بے ایمانیوں سے حمام مسجد سے نکل گیا اور مسجد کی مغربی دیوار پر ایک شخص کا دومنزلہ مکان بن گیا، مغربی دیوار اور گنبد کی دیوار شق ہو گئی، مکاناتِ مسجد کی نسبت متولی مذکور نے اپنی خانگی جائداد ہونے کا دعوٰی کیا ، بلآخر متولی بحکم کچہری تولیت سے خارج کردیا گیا اور مسجد دکانات کاا نتظام کچہری کی طرف سے کمیٹی کو سپرد ہوا، اس کمیٹی نے حمام کو واپس لے کر جزوِ مسجد قراردیا، اور اس وقت سے مسجد کی زینت و آبادی میں روزافزوں ترقی ہوتی رہی، مسجد کی مغربی دیوار اور گنبد کی ڈاٹ شق ہوجانے سے مسجد کے گر جانے کا اندیشہ تھا لہٰذا مسجد کی کل موجودہ عمارت بنیاد سے از سرنو کمیٹی کے زیر اہتمام تعمیر کی گئی تعمیر کا کام۱۳۳۱ھ میں شروع ہوا ۱۳۳۶ھ میں ختم ہوا، تعمیر میں چالیس ہزار روپیہ خرچ ہوا، جس میں سے ایک ہزار نو سو دکانات کے کرایہ سے ملا باقی چندہ جمع کیا گیا ، ضلع الہ آباد کے علاوہ دیگر اضلاع کے مسلمانوں اور والیان ملک نے بھی چندہ عطافرمایا، دکانات زیریں مسجد مع حمام وقف ہیں ان کی آمدنی اخراجات مسجد میں صرف ہوئی ہے ، اﷲ تعالٰی اس مسجد کو حوادث زمانہ سے محفوظ رکھے اور جملہ مسلمانان معاونین مسجد کو جزائے خیر عطا فرمائے، ناظرین ارکان کمیٹی وسیکریٹری و دیگر کارکنان کے حق میں دعائے مغفرت کریں۔ سید امیرالدین احمد غفر لہ ا لمخاطب بہ خان بہادر سیکریٹری کمیٹی انتظام جامع مسجد چوک الہ آباد ساکن دائرہ شاہ رفیع الزمان رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ واقع محلہ یحٰیی پور شہر الہ آباد''

زید کہتا ہے کہ بچند وجوہ یہ عبارت چسپاں کرانا مغربی دیوار پر درست نہیں ہے،
اول یہ کہ درمختار میں لکھا ہے کہ مغربی دیوار پر نقش کرنا درست نہیں ہے،
وھو ھذا( ولا باس بنقشہ خلا محرابہ) فانہ یکرہ لانہ یلھی المصلی ویکرہ التکلف بد قائق النقوش ونحوھا خصوصا فی جدارالقبلۃ قالہ الحلبی وفی حظر المجتبٰی وقیل یکرہ فی المحراب دون السقف والمؤخر  اھ وظاھرہ ان المرادبالمحراب جدارالقبلہ فلیحفظ۱؎۔
اور وہ یہ ہے ( مسجد کو محراب کے علاوہ منقش کرنے میں کوئی حرج نہیں) کیونکہ محراب کا منقش کرنا مکروہ ہے وہ نمازی کو مشغول کردیتا ہے اور باریک نقش ونگار کے لئے تکلف کرنا خصوصاً دیوار قبلہ میں مکروہ ہے حلبی نے کہا کہ المجتبےٰ کے باب الحظر میں ہے کہ بعض کے نزدیک محراب میں نقش ونگار مکروہ، مگر چھت یا پچھلی دیوار پر مکروہ نہیں ۔ اور اس سے ظاہر ہورہاہے کہ محراب سے مراد قبلہ کی دیوار ہے، اسے محفوظ کرلو۔ (ت)
 (۱؎درمختار     باب مایفسد الصلوٰۃ    مطبو عہ مطبع مجتبائی دہلی   ۱ /۳۹)
اور یہاں نحوھا کا لفظ بھی ہے کہ جوہر ایک ایسی چیز کو شامل ہے کہ جس سے دل بٹنے کا اندیشہ ہو۔

دوم یہ کہ اس میں متولی سابق کی خیانت لکھی ہے جن کو اس لقب سے یہاں ہر شخص جانتاہے وہ اپنے کردار کو پہنچ بھی چکے اور کچہری نے بھی ان کو تولیت سے علیحدہ کردیا لیکن وہ جب دنیا سے رحلت فرمائیں گے تو ان کی برائی ہمیشہ کے لئے کندہ رہے گی اور لوگ برائی سے ان کو یاد کریں گے ، اور حدیث شریف میں منع ہے
سوم یہ کہ ایسے موقع پر کسی کا نام ہونا شہرت اور ریا سے خالی نہیں اور یہ غیر مستحسن ہے جیسا کہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے:
وعن عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ واسلم من بنی ﷲ مسجدا ای معبد افیتناول معبد الکفرۃ فیکون ﷲ لاخراج ما بنی معبدالغیر اﷲ قالہ ابن الملک والاظھر ان یکون المسجد علی بابہ ویکون ﷲ لا خراج ما بنی للریا والسمعۃ  ولذاقیل من کتب اسمہ علی بنا ئہ دل ذلک منہ علی عدم اخلاصہ قال ابن حجر وھو ظاھر مالم یقصد بکتابۃ اسمہ نحو الدعا والترحم وفیہ ان الدعاء والترحم یحصل مجملاومبہما فلا یحتاج الی تعیین الاسم۱؎۔
حضرت عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اﷲ کے لئے مسجد (عبادت گاہ) بنائی ،یہ کافروں کے عبادت خانے کو بھی شامل ہے۔ اب ''اﷲ کی خاطر'' سے وہ عبادت گاہ خارج ہو جائے گی جو غیر اﷲ کی خاطر ہو۔ یہ ابن الملک کا قول ہے۔ اور اظہر  یہی ہے کہ مسجد کا یہی حکم ہے اب'' اﷲ کی خاطر'' سے وہ مسجد نکل جائے گی جو ریا اور دکھاوے کی خاطر ہو، اسی لئے کہا گیا ہے کہ جس نے مسجد پر اپنانام لکھا تو یہ عدم اخلاص پر دلیل ہے۔ ابن حجر کہتے ہیں یہی ظاہر ہے جب تک نام لکھنے سے مقصود د عا ورحمت نہ ہو اس پر اعتراض یہ ہے کہ دعا ورحمت مجملاً ہو جاتی ہے لہٰذا نام کی تعیین کی ضرورت نہیں۔ (ت)
 ( ۱؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ    باب المساجد ومواضع الصلوٰۃ        مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان        ۲ /۱۹۳)
چہارم یہ کہ ایک خاص ایسے شخص کے نام ہونے سے اس کا اور اس کے خاندان کا ایک قسم کا استحقاق  ثابت ہوتا ہے اور آئندہ یہ مسجد کی آمدنی کے حق میں نہایت مضر ہوگا جیسا کہ تمام اوقاف میں ہورہا ہے بہر حال اگر اس میں کو ئی اختلاف بھی کرے تو اختلافی بات مسجدمیں رہنا اچھا نہیں، احتیاط کا یہی منشا ہے کہ یہ پتھر نہ رہے ۔ بکر کہتا ہے کہ یہ پتھر چسپاں کرنا درست ہے بہت مساجد میں ایسے کتبے لگے ہوئے ہیں اور نماز میں وہاں نظر لے جانے کی ضرورت کیا ہے اور نام کندہ کرانا دعا کے واسطے ہے اور اس خیال سے کہ کسی منتظم ذمہ دار کے نام ہونے کی ضرورت ہے ، بہر حال زیدکا قول صحیح ہے یا بکر کا؟بنوا توجروا
الجواب: اس سوال کا جواب رمضان ۱۳۳۷ھ میں دیا جاچکا ہے اس کی نقل مرسل ہے وہی جواب ہے اس میں دیوار قبلہ پر نام کا سوال زائد ہے، بیشک دیوار قبلہ میں عام مصلیوں کے موضع نظر تک کوئی ایسی چیز نہ چاہئے جس سے دل بٹے اور ہو تو کپڑے سے چھپا دی جائے۔ احمد و ابوداؤد عثمان بن طلحہ رضی ا ﷲ تعالٰی عنہ سے راوی :
ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دعاہ بعد دخولہ الکعبۃ فقال انی کنت رأیت قرنی الکبش حین دخلت البیت فنسیت ان آمرک ان تخمرھا فخمرھما فانہ لاینبغی ان یکون فی قبلۃ البیت شئ یلھی المصلی ؎۱۔
رسالتمآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے دخول کعبہ کے بعد انھیں بلایا اور فرمایا جب میں بیت اﷲ میں داخل ہو تو میں نے دنبے کے دو(۲) سینگ دیکھے مجھے تجھ سے یہ کہنا یاد نہ رہا کہ انھیں ڈھانپ دو، کیونکہ قبلہ بیت اﷲ میں ایسی کسی شیئ  کا ہونا مناسب نہیں جو نمازی کو مشغول کردے ۔ (ت)
 ( ۱؂ مسند امام احمد بن حنبل    مروی ازامرأۃ ام عثمان بن طلحہ            مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۵ /۳۸۰)
حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کعبہ معظمہ میں تشریف فرماہوئے عثمان بن طلحہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کلید  بردار کعبہ کو طلب فرماکر ارشاد فرمایا: ہم نے کعبہ میں دنبے کے سینگ ملاحظہ فرمائے تھے ( دنبہ کہ سید نا سمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فدیہ ہوا اس کے سینگ کعبہ معظمہ کی دیوار غربی میں لگے ہوئے تھے) ہمیں تم سے یہ فرمانا یا دنہ رہا کہ ان کو ڈھانک دو  اب ڈھانکو کہ نمازی کے سامنے کوئی چیز ایسی نہ چاہئے جس سے دل بٹے ۔ ہاں اگر اتنی بلند ی پر ہو کہ سر اٹھا کر دیکھنے سے نظر آئے تو یہ نمازی کا قصور ہے ، اسے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا نا کب جائز ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:
لینتھین اقوام یرفعون ابصار ھم الی السماء فی الصلوٰۃ اولتخطفن ابصار ھم۲؎ ۔ رواہ احمد ومسلم والنسائی عن ا بی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
وہ جو نماز میں آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں یا تو اس سے باز آئیں گے یا ان کی نگاہ اچک لی جائیگی یعنی واپس نہ آئے گی اندھے ہوجائیں گے۔ اسے امام احمد مسلم اور نسانی نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔
 ( ۲؎ صحیح مسلم         کتاب الصلوٰۃ    باب النہی عن رفع البصر الی السماء الخ    مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی    ۱ /۱۸۱)
نام کندہ کرانا نیت پر ہے، اگر بہ نیت دعا ہے بے شبہہ رواہے اور مبہم دعا کا فی ہونا بالتعیین دعا چاہنے کا نافی نہیں، اور اگر مقصود نام بیشک حرام ہے، مگر مسلمان پر بدگمانی کس نے جائز کی، یہ امر قلب ہے وہ جانے اور اس کا رب ۔ پہلی جمادی الآخر ۱۳۳۶ھ میں بھی اس کا جواب جا چکا تھا یہی حکم تھا ، وہ مجمل ہے یہ قدرے مفصل ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۷۶:  از شہر دفتر انجمن خادم المسلمین مسئولہ گوہر علی حسینی معتمد انجمن ۶ محرم ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے كرام  اس مسئلہ میں کہ سقف مساجد پر  بخیال شوکت اسلام اسلامی سیاہ جھنڈا  یعنی لوائے اسلام نصب کرنا جائز  ہے  یا نہیں؟  بینوا توجروا

الجواب : شوکت اسلام اطاعت اسلام میں ہے، مسجد  پر جھنڈا  ایک نئی بات ہے، اور کوئی مزاحمت ہو  تو سبکی و خفت ،  اور  اس کا  اندیشہ نہ ہو تو فی نفسہٖ کوئی حرج نہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter