Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
16 - 144
مسئلہ ۱۱۷۳: منشی مردان علی از بجنور محلہ قاضی خاں:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جامع مسجد بجنور جو محلہ قاضیان میں واقع ہے اس کا فرش موجودہ شرقاً وغرباً یعنی عرض میں بہت کم ہے کہ جو بعض جمعہ کو نمازیوں کے لئے کافی نہیں ہوتا لہٰذا اس کے فرش بڑھانے کی تدبیر درپیش ہے درصورت بڑھانے فرش کے ایک قبر پختہ جس کا حضیرہ زمین سے قریب بارہ گرہ کے اونچا بناہوا ہے بیچ فرش میں پڑگئی، صاحبِ قبر کے انتقال کو قریب سو سال کے گزری ہوں گی لہٰذا علمائے دین کی خدمت میں التماس ہے کہ اس قبر کو کیا کیا جائے تاکہ نماز میں کچھ حرج نہ ہو، یا فرش کے براب کردی جائے یا اونچی رہنے دی جائے؟ درصورت بحالت موجودہ رکھنے قبر کے ، نماز میں کچھ حرج ہوگا یا نہیں؟ ورثائے صاحبِ قبر سوائے ایک شخص کے قبر کو برابر کرنے کے لئے راضی ہیں اگر برابر کرنا درست ہو تو یہ بھی مع حوالہ کتبِ فقہ تحریر کیا جائے کہ کتنے میعاد کے بعد برابر کرنا درست ہے ؟ بینوا تواجروا
الجواب: صورت مستفسرہ میں قبر مسلمان کو برابر کردینا کہ لوگ اس پر چلیں پھریں، اٹھیں بیٹھیں، نماز پڑھیں، محض حرام ہے۔
کما نطقت بہ احادیث جمۃ وقد صرح علمائنا ان المرور فی سکۃ حادثہ فی المقابر حرام۱؎کما فی فتح القدیر وردالمحتار وغیرھما۔
جیسے کہ اس پر تمام احادیث شاہد عادل ہیں اور ہمارے علماء نے یہ تصریح کی ہے کہ قبرستان میں نئے بنائے گئے رستے پر چلنا حرام ہے، جیسا کہ فتح القدیر اور ردالمحتار وغیرہ میں ہے ۔(ت)
( ۱ ؂ ردالمحتار    فصل الاستنجاء ،   داراحیاء التراث العربی بیروت ، ۱ /۲۲۹)
پھر اس برابر کرنے سے نماز کا بھی کچھ آرام نہیں بلکہ نقصان ہے کہ قبر پر نماز پڑھنا حرام ، اور قبر کی طرف بے حائل نماز پڑھنا بھی مسجد صغیر میں مطلقاً حرام اور کبیر میں اتنے فاصلے تک حرام کہ جب نماز خاشعین کی پڑھی اور قیام میں موضع سجود پر نطر جمائے تو قبر تک نگاہ پہنچے ، اور عام مساجد صغیر ہیں، مسجد کبیر ایسی ہے جیسے جامع خوارزم کہ سولہ ہزار ستون پر ہے ، اور قبر اس جگہ کا نام ہے جہاں میت دفن ہے، اوپر کا بلند نشان حقیقت قبر میں  داخل نہیں تو اس کے برابر کردینے سے قبر قبر ہی رہے گی غیر قبر نہ ہوجائے گی۔
ردالمحتار میں ہے:
تکرہ الصلوٰۃ علیہ والیہ لو رودالنھی عن ذلک۲؎۔
قبر پر اور قبر کی طرف نماز مکروہ ہے کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے (ت)
 ( ۲ ؂ ردالمحتار    باب صلوٰۃ الجنائز ، مطبوعہ مصطفی البابی مصر ،  ۱/ ۶۶۷)
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیںـ:
لعنۃ اﷲ علی الیھود النصارٰی اتخذوا قبورا انبیاء ھم مساجد۳؎ ۔ رواہ الشیخان وغیرھما عن ام المؤ منین الصدیقۃ وعبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنھم ۔
اﷲ تعالٰی کی لعنت ہو یہود و نصارٰی پر جنھوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ بنالیا۔ اسے بخاری ومسلم نے ام المومنین حضرت عائشہ صایقہ اور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے۔(ت)
 (۳ ؎ صحیح البخاری        کتاب الصلوٰۃ             مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی            ۱ /۶۲)

( صحیح مسلم         کتاب المساجد     باب النہی عن بناء المسجد علی القبور مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی    ۱/۲۰۱)
بلکہ اس کا طریق یہ ہے کہ قبر کو فرش کے برابر کریں اور اگر فرش اونچا ہوکر آئے گا تو قبر جس قدر نیچی ہو رہنے دیں اور اس کے گرداگرد ایک ایک بالشت کے فاصلے سے ایک چار دیواری  اٹھائیں کہ سطح قبر سے پاؤ گز یا زیادہ اونچی ہو، ان دیواروں پر پتھر ڈال دیں یا لکڑیاں چن کر پاٹ دیں کہ چھت ہوجائے ۔ اب یہ ایک مکان ہوگیا جس کے اندر قبر ہے، اب اس کی چھت پر اور اسی کی دیوار کی طرف ہر طرح نماز جائز ہوگئی کہ یہ نماز قبر پر یا قبر کی طرف نہ رہی بلکہ ایک مکان کی چھت پر یا اس کی دیوار کی جانب ہوئی اور اس میں حرج نہیں۔
مسلک متقسط( ف )میں ہے:
ان کان بین القبر والمصلی حجاب فلا تکرہ الصلٰوۃ ۱؎۔
اگر قبر اور جائے نماز کے درمیان پردہ ہو تو نماز مکروہ نہ ہوگی۔ (ت)
 ( ۱ ؎ مسلک متقسط فی المنسک المتوسط مع ارشاد الساری    فصل ولیغتنم الخ    مطبوعہ دارلکتاب العربی بیروت    ص۳۴۲)
ف: کتاب مذکور کے الفاظ یوں ہیں: بل لایکون بینہ وبینہ من جدارہ والا فلا تکرہ الصلٰوۃ۔ نذیر احمد
خلاصہ و ذخیرہ وغیرہما میں ہے:
ھذا اذالم یکن بین المصلی وھذہ المواضع حائل کا لحائط وان کان حائطاً لا تکرہ ۲؎۔
یہ اس وقت ہے جب جائے نماز اور ان مقامات کے درمیان پردہ مثلاً دیوار وغیرہ حائل نہ ہو، اور اگر دیوار ہے تو کراہت نہیں۔ (ت)
 ( ۲ ؎ خلاصۃ الفتاوی            کتاب الصلوٰۃ    مطبوعہ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ        ۱ /۶۰)
اور بہتر یہ ہے کہ ان مختصر دیواروں میں جنوباً شمالاً دیوار جانب قبلہ میں بھی باریک جالیاں رکھیں، اس سے دو(۲) فائدے ہوں گے : اوّلاً میت کی قبر تک ہواؤں کا آنا جانا کہ بحکم حدیث موجب نزول رحمت ہے۔ دوم جالیاں دیکھ کر ہر شخص سمجھ لے گا کہ یہ قبر نہیں اور اس پر یا اس کی طرف نماز پڑھنے میں اندیشہ نہ کرے گا ورنہ ناواقف اُسے بھی قبر جان کر احتراز کرے گا اور صحن مسجد کے اندر اتنی جگہ تین چار گرہ بلندی رہنے کو جاہل نادانوں کی طرح ناگوار نہ جانیں کہ اس میں میت واحیا ومسجد وقبر کی بھلائی ہے
کما اشرنا الیہ
 ( جیسا کہ ہم نے اسکی طرف اشارہ کیا ہے) واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۱۱۷۴: از شہر الہ آباد زیر جامع مسجد چوک مرسلہ مرزا واحد علی خوشبوساز ۲۹ شوال ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک  مسجد میں مدرسہ ہے جس میں تعلیم کلام مجید وتفسیر وفقہ وحدیث کی ہوتی ہے، بعض متظمین نے چاہا کہ تعلیم مسجد سے اٹھادی جائے، بعد گفتگو بسیارکے یہ طے پایا کہ دونوں طرف سے تحریریں ہوجائیں اور رجسٹری کردی جائے، منتظمانِ مسجد لکھ دیں کہ ہم مدرسہ نہ اٹھائیں گے ، جب تک مدرسہ تین شرائط پر قائم رہے گا۔ ایک یہ کہ سات آٹھ برس کے لڑکے نہ داخل ہوں ، دوسرے مدرسہ میں تعلیم ہندی ناگری انگریزی غیر مذہب کی تعلیم نہ داخل ہو، مدرسہ مسجد کی کسی چیز پر قبضہ نہ کرے۔مہتمم مدرسہ نے اس کو تسلیم کیا اور تحریر کردیا کہ ہم اس کے پابند رہیں گے ، بکر کہتا ہے کہ یہ تحریر کرنا اور رجسٹری کرانا جائز نہیں ہے منتظمین کو شرعاً یہ حق حاصل نہیں کہ اس قسم کی تحریر کرائیں اور رجسٹری کرائیں ۔ زید کہتا ہے کہ یہ سب جائز ہے جو کام مسجد میں جائز ہیں اس کی مزاحمت کسی کو جائز نہیں لہٰذا عدم مزاحمت کی توثیق کرانا شرعاً کوئی مضائقہ نہیں جیسا کہ کوئی متولی کسی نمازی سے كہہ دے یا لکھ دے کہ ہم تم کو نماز سے کبھی نہ روکھیں گے جب تک تم کسی کو ایذا نہ پہنچاؤ گے اور مسجد میں فساد کی بات نہ کروگے لہٰذا کس کا قول صحیح ہے زید کا یا بکر کا؟بینوا تواجروا
الجواب: مسجد میں تعلیم بشرائط جائز ہے:

(۱) تعلیم دین ہو۔

(۲) معلم سنی صحیح العقیدہ ہو، نہ وہابی وغیرہ بددین کہ وہ تعلیم کفر و ضلال کرےگا۔

(۳) معلم بلا اُجرت تعلیم کرے کہ اجرت سے کار دنیا ہوجائے گی۔

(۴) ناسمجھ بچے نہ ہوں کہ مسجد کی بے ادبی کریں۔

(۵) جماعت پر  جگہ تنگ نہ ہو کہ اصل مقصد مسجد جماعت ہے۔

(۶) غل شور سے نمازی کو ایذا نہ پہنچے۔

(۷) معلم خواہ طالب علم کسی کے بیٹھے سے قطعِ صف نہ ہو۔

ان شرائط کا اگر وثیقہ لکھا جائے کیا مضائقہ ہے بلکہ بہتر ہے وہ تحریر کہ لکھانا چاہتے ہیں اس کی پہلی شرط ان میں کی چوتھی اور دوسری ان میں کی پہلی ہے اور تیسری کوئی خاص تعلیم کی نہیں مطلقاً ہے اس کا لکھا لینا بھی اچھا ہے گرمی کی شدت وغیرہ کے وقت جبکہ اور جگہ نہ ہو بضرورت معلم باجرت کو اجازت ہے مگر نہ مطلقاً، یونہی سلائی پر سینے والا درزی اگر حفاظت اور اس میں بچوں کو نہ آنے دینے کے لئے مسجد میں بیٹھے اور اپنا سیتا بھی رہے تو اجازت دی ہے یوں ہی غیر نماز کے وقت متعلمان علم دین کو تکرار علم میں رفع صوت کی حدیث میں فرمایا:
جنبوا مساجد کم صبیا نکم ومجانینکم۱؎ ۔
اپنی مساجد کو اپنے بچوں اور دیوانوں سے بچاؤ۔ (ت)
(۱؎ سنن ابن ماجہ    باب ما یکرہ فی المساجد         مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۵۵)

( المعجم الکبیر        حدیث  ۶۷۰۱      مطبوعہ مکتبہ فیصلیہ بیروت        ۸ /۱۵۸)
بحرالرائق میں ہے:
قالو ا ولایجوز ان تعمل فیہ (ای فی المسجد) الصنائع لانہ مخلص ﷲ تعالٰی فلا یکون محلا لغیر العبادۃ غیر انھم قالوا فی الخیاط اذا جلس فیہ لمصلحتہ من دفع الصبیان و صیانۃالمسجد لاباس بہ للضرورۃ ولایدق الثوب عند طیہ دقا عنیفا والذی یکتب ان کان باجر یکرہ وانکان بغیر اجرلایکرہ قال فی فتح القدیر ھذا اذاکتب القران والعلم لانہ فی عبادۃ اماھو لاء المکتبون الذین یجتمع عند ھم الصبیان واللغط فلا ولولم یکن لغط لانھم فی صنا عۃ لاعبادۃ اذھم یقصدون الاجارۃ لیس ھوﷲ تعالٰی بل للارتزاق ومعم الصیان القرآن کا لکتاب ان کان لاجرلا وحسبۃ لاباس بہ۲؎اھ
فقہاء نے فرمایا کہ مسجد میں کوئی عمل جائز نہیں یعنی مسجد میں کوئی کاروبار جائز نہیں کیونکہ وہ خالصۃ اﷲ تعالٰی کے لئے بنائی گئی ہوتی ہے تو اب وہ عبادت كے علاوہ کسی دوسری شے کا محل نہیں بن سکتی البتہ اس صورت میں مثلاًکوئی درزی وہاں اس لئے بیٹھ کر کام کرتا ہے کہ بچے داخل نہ ہوں اور مسجد کی حفاظت ہو، تو چونکہ یہ ضرورت کی وجہ سے ہے اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ بھی کپڑے کو لپیٹتے وقت سخت آواز سے کپڑے کو نہ جھاڑے اسی طرح اگر وہاں کوئی لکھتا ہے اور اس کا معاوضہ لیتاہے تو مکروہ ہے اور اگر معاوضہ نہیں لیتا تو مکروہ نہیں۔ فتح القدیر میں ہے کہ یہ اس وقت ہے جب قرآن اور علم لکھ رہا ہو کیونکہ یہ عبادت ہے، لیکن یہ کتابت سکھانے والے لوگ جن کے پاس بچے اکٹھے ہوں اور شور ہوتاہو وہ جائز نہیں اگر چہ عملاً شورنہ ہو کیونکہ یہ کاروبار ہے نہ کہ عبادت، کیونکہ وہ تو معاوضہ واجر کی خاطر ہوتا ہے نہ کہ اﷲ تعالٰی کی رضا کے حصول کی خاطر، بلکہ یہ رزق کمانے کے لئے ہے ، اور بچوں کو قرآن کی تعلم دینے والے کا حکم بھی کاتب کی طرح اگر معاوضہ کی خاطر ہے تو جائز نہیں اور اگر رضائے الہٰی کے لئے ہے تو کوئی حرج نہیں اھ (ت)
 ( ۲؎ بحرالرائق        باب مایفسد الصلوٰۃ ومایکرہ فیہا    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۳۵)
فتاوٰی خلاصہ میں قبیل کتاب الحیض ہے:
المعلم الذی یعلم الصیان باجر اذا جلس فی المسجد یعلم الصیان لضرورۃ الحر وغیرہ لایکرہ وفی نسخۃ القاضی الامام رحمہ اﷲ وفی اقرار العیون جعل مسئلۃ المعلم کمسألۃ الکابت والخیاط فان کان یعلم حسبۃ لاباس بہ وان کان باجریکرہ الا اذا وقع ضرورۃ۱؎۔
وہ استاد جو بچوں کو معاوضہ کے لئے پڑھاتا ہے اگر گرمی وغیرہ کی وجہ سے مسجد میں بیٹھ کر تعلیم دے تو مکروہ نہیں،اور قاضی امام رحمہ اﷲ کے نسخہ اور اقرا رالعیون  میں مسئلہ معلم کو مسئلہ کاتب اور مسئلہ درزی کی طرح ہی قراردیاگیا ہے کہ اگر وہ رضائے الہٰی کے لئے تعلیم دیتا ہے تو کوئی حرج نہیں اور اگر معاوضہ لیتا ہے تو مکروہ ہے البتہ اس صورت میں جائز جب ضرورت ہو۔ (ت)
 ( ۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی    قبیل کتاب الحیض    مطبوعہ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۱ /۲۲۹)
درمختار میں ہے:
اذا ضاق فللمصلی ازعاج القاعد ولم مشتغلا بقراء ۃ او درس ۲؎۔
جب نمازی کے لئے جگہ تنگ ہو تو بیٹھے ہوئے آدمی کو اٹھا سکتا ہے خواہ وہ تلاوت میں مصروف ہو یا تعلیم دے رہا ہو۔ (ت)
 (۲؎ درمختار         قبیل باب الوتر والنوافل    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۹۴)
ردالمحتار میں ہے:
اقول وکذا اذالم یضق ولکم من قعودہ قطع للصف۳؎۔
میں کہتا ہوں اسی طرح اس کا حکم ہے جس کے بیٹھنے کی وجہ سے صف منقطع ہورہی ہو اگر چہ تنگی نہ ہو (ت)
 ( ۳؎ ردالمحتار      قبیل باب الوتر والنوافل  مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۹۰)
درمختار مکروہات وممنوعات مسجد میں ہے:
و رفع صوت بذکرالا للمتفقھۃ۴؎۔
ذکر بلند آواز سے کرنا منع ہے مگر اس شخص کے لئے جو فقہ کی تعلیم دے رہا ہو۔ (ت)
 ( ۴؎ درمختار ،    قبیل باب الوتر والنوافل  مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی   ۱ /۹۳)
ردالمحتار میں ہے:
الاان یشوش جھر ھم علی نائم اومصلی اوقارئ الخ ۵؎۔
البتہ اس صورت میں بھی جائز نہیں جب ذکر بالجہر سے کسی سونے والے کی نیند ، کسی نمازی کی نمازیا تلاوت کرنے والے کی تلاوت میں خلل کا ندیشہ ہو۔(ت)
 (۵؎ردالمحتار         قبیل باب الوتر والنوافل  مطبوعہ مصطفٰی البابی مصر   ۱ /۴۸۸)
مناقب کردری میں ہے:
عن ابن عیینۃ قال مررت بہ (ای بالا مام رضی اﷲ تعالٰی عنہ) وھو مع اصحابہ فی المسجد قد ارتفعت اصواتھم فقلت یا ابا حنیفۃ ھذا المسجد والصوت لایرفع فیہ فقال دعھم فانھم لایفقھون الابہ ؎۱ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
ابن عیینہ سے ہے کہ میں ان ( امام رضی اﷲ تعالٰی عنہ) کے پاس سے گزرا  آپ شاگردوں کے ساتھ مسجد میں تھے لیکن ان کی آواز بلند تھی ، میں نے کہا: اے ابو حنیفہ! یہ مسجد ہے اس میں آواز بلند نہیں ہونی چاہئے۔ فرمایا: ان کو چھوڑدو کیونکہ دینی علوم کو اس آواز کے بغیر حاصل نہیں کرسکتے ۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
 (۱؎ امناقب للکردری    الامام ابو حنیفہ واصحابہ قاسواعلی السنۃ    مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ  ۲ /۷۳)
Flag Counter