Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
15 - 144
مسئلہ ۱۱۶۷: از بریلی شہر کہنہ مسئولہ محمد ظہور صاحب ۱۰ شوال ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ میں کہ مسجد میں درخت پھلدار مثلاً جامن مولسری کھنی وغیرہ کے ہو اور پھل اس مقدار پر آیاجس کو فروخت کیا جائے ، ایسی صورت میں وہ پھل نمازی یا غیر نمازی بلا کچھ قیمت ادا کئے ہوئے کھا سکتے ہیں یا نہیں؟ دیگر یہ کہ مسجد میں درخت بیلہ۔ چنبیلی۔ مولسری کا ہےاس کے پھول نمازی لوگ بلا کوئی قیمت ادا کئے ہوئے گھر کو لاسکتے ہیں یا نہیں ؟
الجواب: مسجد میں بے ضرورت شدید درخت بونا منع ہے اور اس کے پھل پُھول بے قیمت نہیں لے سکتے۔ ہندیہ میں ہے:
اذاغرس شجرا فی المسجد فالشجر للمسجد کذافی الظھیر یہ۱؎۔
جب کسی نے مسجد میں پودا لگایا تو وہ مسجد ہی کا ہوگا ، جیسا کہ ظہیریہ میں ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    کتاب الوقف    الباب الثانی عشرفی الرباطات    مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۲ /۴۷۴)
اسی میں ہے:
فی فتاوٰی اھل سمر قند مسجد فیہ شجرۃ تفاح یباح للقوم ان یفطر وابھذا التفاح قال الصدر الشھید رحمہ اﷲ تعالٰی المختار انہ لایباح کذافی الذخیرۃ ۲؎ اھ
فتاوٰی اہل سمر قند میں ہے: ایک مسجد میں ناشپاتی کا درخت ہے لوگوں کا اسکی ناشپاتی کے ساتھ روزہ افطار کرنا مباح ہے، صدرالشہید کہتے ہیں کہ مختاریہ  ہے کہ یہ جائز نہیں ، جیسا کہ ذخیرہ میں ہے اھ
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ    کتاب الوقف    الباب الثانی عشرفی الرباطات    مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۲ /۴۷۴)
اقول:  وھذاتصحیح صریح من امام جلیل ولا شک انہ ھو قضیۃ الوقفیۃ فان الوقف کما لا یملک لا یباح فیقدم علی مافی صلح الخانیۃ قبیل فصل المھاباۃ۔ طریق غرس فیہ رجل شجرۃ الفرصاد قالو ا لاباس بہ اذاکان لا یضر بالطریق ویطیب للغارس ورقھا واکل فرصا دھا وان کانت الشجرۃ فی المسجد قال الفقیہ ابو جعفر رحمۃ اﷲ تعالٰی لا باس باکل توتھا ولایجوز اخذ ورقھا۱؎  اھ واﷲ تعالٰی اعلم
اقول: (میں کہتا ہوں) یہ ایک عظیم امام کی صراحۃً تصحیح ہے اور بلاشبہ یہ معا ملہ وقف سے متعلق ہے اور وقف جس طرح کسی کی ملکیت نہیں ہوتا اسی طرح وہ کسی کے لئے مباح نہیں ہوتا۔ اور جو کچھ خانیہ میں مہابات کی فصل سے تھوڑا سا پہلے ہے اس پر اس قول کو تقدیم حاصل ہے کہ راستہ میں ایک شخص نے تُوت کا درخت لگادیا تو فقہاء نے فرمایا: جب وہ راستہ کے لئے ضرر ساں نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور درخت لگانے والے کے لئےاس کے پتّے اور پھل کا استعمال مباح ہوگا اور اگر درخت مسجد میں ہے تو فقیہ ابو جعفر رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے فرمایا : اسے اپنے توت کا پھل کھانا جائز اور پتّوں کا لینا ناجائز ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
 ( ۱؎فتاوٰی قاضی خاں    کتاب الصلح فیما یجوز لاحدالشریکین    مطبوعہ نو لکشور لکھنؤ    ۳ /۶۱۱)
مسئلہ۱۱۶۸: از بسولی ضلع بدایوں مرسلہ خلیل الرحمان صاحب ۱۹ شعبان المعظم ۱۳۱۹ھ 

کیا فرماتے ہیں علما ئے دین اس مسئلہ میں کہ مساجد میں معاملاتِ دنیا کی باتیں کرنے والوں پر کیا مما نعت ہے اور بروزِ حشر کیا مواخذہ ہوگا؟

الجواب: دنیا کی باتوں کے لئے مسجدمیں جاکر بیٹھنا حرام ہے۔ اشباہ ونظائر میں فتح القدیر سے نقل فرمایا: ''مسجد میں دنیا کی کلام نیکیوں کو ایسا کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔''

یہ مباح باتوں کا حکم ہے پھر اگر باتیں خود بری  ہوئیں تو اس کا کیا ذکر ہے، دونوں سخت حرام در حرام ، موجب عذاب شدید ہے ۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۱۶۹: از غازی پور محلہ میاں پورہ مرسلہ منشی علی بخش محرر دفتر ججی غازی پور ۱۷ذیقعدہ۱۳۲۲ ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسجد میں شور وشرکرنا اور دنیا کی باتیں کرنا اور اسی طرح وضو میں درست ہے یا نہیں ، اور اپنے پاس سے غیبت کرنے والوں اور تہمت رکھنے والوں اور جن میں شیوہ منافقت کا مفسدہ کا انداز  پایا جائے نکلوادینا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: مسجد میں شور وشر کرنا حرام ہے ، اور دنیوی بات کے لئے مسجد می بیٹھنا حرام، اور نماز کے لئے جاکر دنیوی تذکرہ مسجد میں مکروہ اور وضو میں بے ضرورت دنیوی کلام نہ چاہئے۔ اور غیبت کرنے والوں اور تہمت اٹھانے والوں منافقوں مفسدوں کو نکلوادینے پر قادر ہو تو نکلوا دے جبکہ فتنہ نہ اُٹھے ورنہ خود اُن کے پاس سے اٹھ جائے ۔واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۱۷۰: از شہر بریلی مدرسہ منظر الاسلام مسئولہ غلام جان صاحب طالبعلم ۱۸ شوال۱۳۳۷ ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد ویران شدہ یعنی چھت وغیرہ اُس کا گرگیا صرف دیواریں و دیگر آثار اُس کے سب نمودار ہیں اُس مسجد  کے متعلق جو دُکان ہو اُس کا کرایہ دوسری مسجد پرخرچ ہوسکتا ہے یا نہ؟ اور اس  کرایہ میں سے دوسری مسجد کے پیش امام کو دینا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: نہیں جائز ، بلکہ اس کے کرایہ سے اُسی مسجد کی تعمیر کریں۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۷۱: از مراد آباد محلہ اصالت پورہ مسئولہ کاردعلی صاحب ۱ ۱۵ محرم ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ صحنِ مسجد میں کچھ قبریں آگئی ہیں اور ان قبروں میں فرش پختہ بنادیا گیا ہے اب کوئی نشا ن قبر کا صحنِ مسجد میں معلوم نہیں ہوتا البتہ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ یہاں فلاں فلاں کی قبریں ہیں لہٰذا یہ معلوم کرنا ہے کہ اس صحن مسجد میں کہ جہاں قبریں تھیں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور جو نمازیں پڑھی ہیں وہ نمازیں ہوگئیں یا نہیں؟ سوال کا جوب بحوالہ کتب احادیث ارقام فرمائیں۔
الجواب: مسلمانوں کی قبریں ہموار کرکے صحن مسجد میں شامل کرلینا حرام ہوا اور ان قبروں پر نماز حرام ہے اور ان کی طرف نماز حرام ہے، قبر اوپر کے نشان کا نام نہیں کہ اس کے مٹنے سے قبر جاتی رہے بلکہ اس جگہ کا نام ہے جہاں میّت دفن ہے، جتنی نمازیں اس طرح پڑھی گئیں سب پھیری جائیں اور قبروں کے نشان بدستور بنادئے جائیں کہ مسلمان ان پر پاؤں رکھنے اور چلنے اور ان پر اور ان کی طرف نماز پڑھنے کی آفتوں سے محفوظ رہیں۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۷۲: از شاہی علاقہ رام پور مرسلہ نادر شاہ خاں وانعام اﷲ خاں ۶ جمادی الآخرٰی ۱۳۱۹ھ



کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں جامع مسجد کے یمین ویسار قبرستان خام ہے نشانِ قبور موجود ہیں، قبرستان کونئی مٹی سے یا پختہ چبوترہ باندھ کر فرش مسجد کا بڑھا لیا جائے ایسا کہ بلکل نشانِ قبر بالکل ظاہر نہ رہے تو اس پر نماز پڑھنا درست ہے یا ناجائز؟ بینواتواجروا
الجواب: ناجائز و حرام ہے مسلمان کی قبر پر پاؤں رکھنا بھی حرام ، اور قبر پر نماز پڑھنی حرام، اور حرام تو اس ناجائز فعل میں قبروں کی بھی بے عزتی ہے اور نماز کا بھی نقصان۔ واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter