فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ) |
مسئلہ۱۱۶۰: از فیض آباد مسجد مغلپورہ مرسلہ شیخ اکبر علی موذن و مولوی عبدالعلی ۱۹ رییع الآخر ۱۳۳۶ھ مسجد کے کنارے کسی بزرگ کی قبر ہو اور وہاں گانا مع آلات ڈھولکی وغیرہ ہو اور تماشائی لوگ اندر مسجد کے بلالحاظ پاکی اور ادب کے اور گاگر کے وقت ہجوم ہو لوگ اندر مسجد داخل ہوں جائز ہے یا نہیں؟ الجواب:مزامیر کے ساتھ گانا اور اُس کا سننا دونوں حرام ہیں اور حرام فعل کا مسجد میں کرنا اور سخت، اور گاگر کا ہجوم اگر کسی منکر شرعی پر مشتمل نہیں، نہ یہ وقت نماز کا ہو جس سے نمازیوں پر تنگی ہو، نہ یہ لوگ مسجد کی بے حُرمتی کریں تو حرج نہیں، اور بے ثبوت شرعی مسلمانوں کو سمجھ لینا کہ ناپاکی کی حالت میں مسجد میں داخل ہوئے بدگمانی ہے اور بدگمانی حرام ۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۱۶۱: از لال پور ضلع پیڑا بنگال مرسلہ مولوی ابو سعید محمد عارف مورخہ ۲۶جمادی الثانی ۱۳۲۶ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جمعہ کی مسجد میں کرُسی پر بیٹھ کر وعظ کہنے کو بعض لوگ عدمِ سنت کہتے ہیں سنت ہونے کی دلیل چا ہتے ہیں۔ بینوا توجروا الجواب: واعظ کا کرسی پر مسجد میں بیٹھنا جائز ہے جبکہ نماز اور نمازیوں کا حرج نہ ہو، ایک آدھ بار حدیث سے یہ ثابت ہے مگر ایک آدھ بار سے فعل سنت نہیں بن جاتا۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۶۲: از چوہڑ کوٹ بارکھاں ملک بلوچستان ۲۱ محرم ۱۳۳۷ھ مجموعہ فتاوٰی عبدالحی صفحہ ۵۵ ومجموعہ فتاوٰی ہمایونی تصنیف مولٰینا مفتی عبدالغفور نے چارپائی والے مسئلہ مسجد میں جواز لکھا ہے وہ حدیث پیش کرتے ہیں جو آنحضرت اعتکاف کے موقع میں سریر پر سوئے تھے۔
الجواب: حدیث قولی اور فعلی جب متعارض ہوں تو عمل حدیث قولی پر ہے :
ان المسٰجد لم تبن لھذا۱؎
( مساجد کی بنا ان چیزوں کے لئے نہیں ۔ت)
( ۱ ؎ سنن ابن ماجہ باب النہی عن انشاد الضوال فی المسجد مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۵۶) ( صحیح مسلم باب النہی عن نشدالضالۃ فی المسجد نور محمد اصح المطابع کراچی ۱/ ۲۱۰)
نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ واسلم اونٹ پر سوار مسجد الحرام شریف میں داخل ہوئے اور یونہی کعبہ معظمہ کا طواف فرمایا۔ سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالٰی عنہ زخمی ہوئے خون ان کے زخموں سے جاری تھا اُن کے لئے مسجد اقدس میں خیمہ نصب فرمایا کہ قریب سے عیادت فرمائیں کہ سوا مسجد شریف کے کوئی مکان نشست کا حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس نہ تھا۔ کیا ان احادیث سے استناد کرکے کوئی ایسی جرأت کرسکتا ہے؟ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۱۱۶۳ ،۱۱۶۴: از شہر بریلی مسئولہ کفایت اﷲ یکم رمضان المبارک ۱۳۳۷ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید دریافت کرتا ہے کہ: (۱) مسجد میں استعمالی جوتا رکھنا چاہئے یا نہیں؟ چونکہ زید نے ایک مولوی صاحب کی زبانِ مبارک سے سنا ہے کہ جوتا مسجد کے اند رکھنا حرام ہے اس وجہ سے منع کیا تو جواب ہوا کہ ہر مسجد میں جوتا رکھتے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عید گاہ اور جامع مسجد میں بھی دیھا اور یہاں تک کہا کہ شرع کی کتابوں میں بھی دیکھا ہے تو جوتا خشک پاک ہے اور مسجد میں کوئی حرج نہیں آیا اس میں کیا حکم ہے؟ (۲) اگر غسل خانہ مسجد کے فرش سے جُدا ہے اور غسل خانہ اتنا تر رہتا ہے کہ پاؤں پر تری لگ جاتی ہے تو جوتا پہن کر جانا چاہئے یا ویسے ہی؟
الجواب (۱) اگر مسجد سے باہر کوئی جگہ جوتا رکھنے کی ہو تو وہیں رکھے جائیں مسجد میں نہ رکھیں اور اگر باہر کوئی جگہ نہیں تو باہر جھاڑ کر تلے ملا کر ایسی جگہ رکھیں کہ نماز میں نہ اپنے سجدے کے سامنے ہو نہ دوسرے نماز ہی کے، نہ اپنے دہنے ہاتھ کو ہوں نہ دوسرے نمازی کے ، نہ ان سے قطعِ صف ہو، اور ان سب پر قادر نہ ہوں تو سامنے رکھ کر رومان ڈال دیں۔ (۲) جوتا پہن کر جانا چاہئے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۶۵: یکم ذی قعدہ ۱۳۳۷ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اکثر نمازی مسجد میں جوتا سامنے رکھتے ہیں، منع کرنے پر کہتے ہیں کہ کہاں منع ہے؟ کس قول سے منع ہے؟
الجواب: رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
ان احدکم اذا قام فی الصلٰوۃ فانما ینا جی ربہ وان ربہ بینہ وبین القبلۃ فلا یبزقن احدکم قبل قبلتۃ ، ولکن عن یسارہ او تحت قدمہ۱؎۱۔رواہ البخاری عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ
تم مین سے جب کوئی شخص نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وُہ اپنے رب سے مناجات کرتاہے اور رب تعالٰی کو نمازی اپنے اور قبلہ کے درمیان پاتا ہے توکوئی قبلہ کی جانب نہ تھوکے، البتہ بائیں جانب یا پاؤں کے نیچے تھوک دے۔ اسے بخاری نے حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے ۔(ت)
( ۱؎ صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب حک البزاق بالید من المسجد مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۸)
اور فرمایا:
اذاقام احدکم الی الصلٰوۃ فلا یبصق امامہ ، فانما ینا جی اﷲ ما دام فی مصلاہ ولا عن یمینہ فان عن یمینہ ملکا ولیبصق عن یسارہ اوتحت قدمہ فید فنھا۱؎۔ رواہ الشیخان عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جب تم میں سے کوئی نماز شروع کرے تو سامنےنہ تھو کے کیونکہ جب تک وہ نماز میں ہے اپنے رب سے ہم کلام ہے، نہ ہی دائیں طرف تھوکے کیونکہ اس کے دائیں طرف فرشتہ ہوتا ہے، البتہ بائیں طرف یا قدم کے نیچے تھوک لے اور اسے دفن کر دے۔ اسے بخاری ومسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔(ت)
( ۱ ؎صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب دفن النخامۃ فی ا لمسجد مطبو عہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۹)
اور فرمایا:
اذا صلی احدکم فلا یضع نعلیہ عن یمینہ ولا عن یسارہ فتکون عن یمین غیرہ الا ان لا یکون علی یسارہ احد ولیضعھما بین رجلیہ۲؎۔ رواہ ابوداؤدعن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو جو تے نہ دائیں طرف رکھے نہ بائیں طرف کیونکہ وہ کسی کی دائیں جانب ہوگی البتہ اس صورت میں جب بائیں جانب کوئی نہ ہو، اور انھیں اپنے دونوں پاؤں کے درمیان رکھ لے ۔ اسے ابوداؤد نے حضرتابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے ۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
( ۲؎ سنن ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب المصلی اذاخلع نعلیہ الخ مطبو عہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۶۹)
مسئلہ ۱۱۶۶: از سرائے چھبیلہ ضلع بلند شہر مرسلہ راحت اﷲ امام مسجد جامع ۱۹ رمضان ۱۳۳۸ھ مسجد کے چاہ سے عموماً پانی بھرنا اپنے گھروں کو اور ننگے پیروں سے آنا، اور رسی سے بھی وہ خراب پیر لگتے ہیں پھر اس کی چھینٹیں کنویں میں ضرورجاتی ہیں، منع کرنے پر کہتے ہیں کہ پہلے سے یونہی بھر تے آتے ہیں۔ ان کا کیا حکم ہے؟ الجواب: کنویں کی ممانعت نہیں ہوسکتی رسی ڈول اگر مسجد کا ہے اس کی حفاظت کریں، غیر نماز کے لئے اُس سے نہ بھرنے دیں، دربارہ طہارت اوہام کو شریعت نے دخل نہیں دیا ورنہ عافیت تنگ ہوجائے۔ واﷲ تعالٰی اعلم