مسئلہ ۱۱۵۵: از شہر بریلی مدرسہ منظر الاسلام مسئولہ مولوی رحیم بخش بنگالی ۱۶ صفر ۱۳۳۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد میں روغن مٹی کا جلانا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: مسجد میں مٹی کا تیل جلانا حرام ہے مگر جبکہ اُس کی بو بالکل دور کردی جائے ۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۵۶: از داناپور محلہ سگونہ مسئولہ محمد حنیف خاں ۸ شعبان ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد ہے جس میں تین د ر و ازے لگے ہیں ، صبح کی نماز میں بوجہ سردی کے تنیوں دربند کرکے اورچراغ جلاکر لوگ نماز پڑھاکرتے ہیں او رنماز صبح اپنے وقت پر ادا کرتے ہیں، ایک شخص کہتا ہے کہ چراغ جلاکر نماز نہ پڑھنا چاہئے منع ہے مگر کو ئی ثبوت اس کا نہیں دیتا ہے اس لئے دریافت طلب ہے کہ ایسا کرنے میں شرعاً کوئی قباحت ہے یا نہیں؟ اور کہاں تک اس کا کہنا صحیح ہے ؟ مہربانی فرماکر جوا ب مع حوالہ کتبِ فقہ شریف عنایت ہو۔
الجواب: وقت حاجت چراغ جلاکر نماز پڑھنے میں تو کوئی حرج نہیں،
وفیہ حدیث تمیم الداری رضی اﷲتعالٰی عنہ وایقادہ القنادیل فی المجسد الشریف و استحسانہ من النبی صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم وحدیث علی رضی اﷲتعالٰی عنہ لما رأی المسجدین ھو قال نوراﷲ قبر عمر کما نور مساجدنا۱؎۔
اس بارے میں حضرت تمیم داری رضی اﷲ عنہ سے مروی حدیث ہے، مسجد نبوی میں قندیلوں کا جلانا اور نبی اکرم صلی اﷲعالٰی عنہ کا انھیں پسند کرنا ثابت ہے، اور وہ حدیث جس میں منقول ہے کہ جب حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے دونوں مساجد کو روشن دیکھا تو کہا: اﷲتعالٰی عمر (رضی اﷲ عنہ) کی قبر کو اسی طرح روشن کرے جیسے انھوں نے مساجد کو روشن کیا۔(ت)
( ۱؎ تاریخ الخلفاء فصل فی اولیاتِ عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ص ۹۷)
مگر نماز کے وقت مسجد کے کواڑ بند کرنا ضرور ممنوع وبدعت سیئہ ہے درمختار میں ہے:
کرہ غلق باب المسجد الالخوف علی متاعہ بہ یفتی ۲؎ اھ
مسجد کا دروازہ بند کرنا مکروہ ہے البتہ اس صورت میں جائز ہے جب مسجد کا سامان چوری ہونے کا اندیشہ ہو، فتوٰی بھی اسی پر ہے اھ
اقول: ھذا فی غیروقت الصلٰوۃ لقول الشامی الافی اوقات الصلٰوۃ ۱؎ فکیف عند نفس قیام الصلٰوۃ ھذا مردودباجماع اھل الصلٰوۃ۔
میں کہتا ہوں یہ وقت نماز کے علاوہ میں ہے، کیونکہ شامی نے کہا مگر اوقاتِ نماز میں دروازہ بند کرنا مکروہ ہے ، تو نماز کی جماعت ہورہی ہو تو اس وقت منع کیو ں نہ ہوگا! اور اس کے مردود ہونے پر تمام اہل نماز کا اجماع ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار باب مایفسد الصلوٰۃ ومایکرہ فیھا مطبوعہ مصطفے البابی مصر ۱ /۴۵۸)
اس وقت چراغ روشن کرنا بھی اگر اسی کو اڑبند کرنے کی بنا پر ہو اگر بند نہ کریں چراغ کی حاجت نہ ہو تو یہ چراغ بھی بے حاجت کہ وہ حاجت بروجہ باطل ہے اور اگر اتنے اندھیرے سے پڑھتے ہیں کہ کھلے کو اڑوں میں بھی حاجت چراغ ہو تو یہ خلاف افضل ہے ، مذہب حنفی میں نمازِ فجر جس قدر وقت روشن کرکے پڑھی جائے زیادہ اجر ہے۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۱۵۷ : از شہر بریلی محلہ گھیر جعفر خاں محمود علی خاں ۲۸ ذی القعدہ ۱۳۳۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اندرونِ مسجد مرزائی یعنی ٹین کے دالان کے دروں میں بغرض زیبائش مسجد گملے درختاں پھول وغیرہ لٹکائے جانے کےلئے تیار کئے گئے ہین جن مین کہ کھادوغیرہ پاک مٹی کی دی گئی ہے۔ اب چند حضرات کو اعتراض ہے کہ نئی بات مسجد میں نہیں ہونا چاہئے۔ ازرُوئے شرع شریف کیا حکم ہے؟
الجواب: اگر نمازی نگاہ کے سامنے ہوں تو مکروہ ہیں اور زیادہ بلند ہوں تو حرج نہیں۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۵۸: از منصور پور متصل ڈاکخانہ شیش گڑھ تحصیل بہیڑی ضلع بریلی مسئولہ محمد شاہ خان ۲۹ محرم ۱۳۳۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس باب میں ، مسجد میں اکثر کاپیاں عربی کی ونقشجات وغیرہ چہار جانب دیواروں پر مسجد کی نصب کئے جاتے ہیں منجملہ اُن کے منبر کے قریب دیوار پر عربی مناجات ایسے موقع پر نصب یعنی چسپاں کئے جاتے ہیں کہ بروقت پڑھنے کے امام کے پسِ پشت یا اس سے کسی قدر اونچے یعنی قریب پس گردن عربی مناجات ہوتے ہیں ، ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟
الجواب: ایسی چیزوں کا دیوارِ قبلہ میں نصب کرنا نہ چاہئے جس سے لوگوں کا نماز میں دھیان بٹے اور اتنی نیچی ہونا کہ خطبہ میں امام کی پشت اس کی طرف ہو، یہ اور بھی نامناسب ہے۔ ہاں اگر اس سے بلند رہے تو یہ حرج اس میں نہ ہوگا ۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۱۵۹: از علی گڑھ کالج مسئو لہ حضرت مولانہ محمد سیلمان اشرف صاحب بہاری(رحمۃ اﷲ علیہ) پروفیسر دینیات ، خلیفہ اعلٰیحضرت رضی اﷲ تعالٰی عنہ ۱۳۳۲ھ
مسجد مین طلائی نقش ونگار جائز ہے یا نہیں؟ کیا نمازیوں کے پیشِ نظر گُل بوٹے چمکتے دمکتے مخل صلوٰۃ نہیں؟ کیا اس طرح کی زیبائش مسجد کی من جہت معبد ہونے کے شایان شان نہیں؟ محض مختصر جواب اس کا تحریر فرماکر فقیر کو ممنون فرمائیں،یہاں مسئلہ درپیش ہے کالج کی مسجد منقش ومطلا کی جارہی ہے۔ فقط
الجواب : مساجد میں زینت ظاہری زمانہ سلف صالحین میں فضول وناپسند تھی کہ اُن کے قلوب تعظیم شعائر اﷲ سے مملوتھے ولہٰذا حدیث میں مباہاۃ فی المساجد کو اشراط ساعت سے شمار فرمایا ، اور عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنھما نے فرمایا:
لتزخر فُنَّھا کما زخرفت الیھود والنصارٰی۱؎۔
تم مساجد کو اسی طرح مزیّن کروگے جس طرح یہود ونصارٰی نے مزیّن کیں۔(ت)
( ۱؎ الصحیح البخاری کتاب الصّلوٰۃ باب بنیان المسجد مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۶۴)
تبدل زمان سے علماء نے تزیینِ مساجد کی اجازت فرمائی کہ اب تعظیم ظاہر مورث عظمت فی العیون ووقعت فی القلوب ہوتی ہے فکان کتحلیۃ المصحف فیہ من تعظیمہ( یہ ایسے ہی ہے جیسے تعظیم کی خاطر قرآن حکیم کو طلا کی صورت میں لکھا جائے۔ ت) مگر اب بھی دیوار قبلہ عموماً اور محراب کو خصوصاً شاغلاتِ قلوب سے بچانے کا حکم ہے بلکہ اولٰی یہ ہے کہ دیوار یمین وشمال بھی ملہیات سے خالی رہے کہ اُس کے پاس جو مصلّی ہو اُس کی نظر کو پریشان نہ کرے۔ ہاں گنبدوں ، میناروں، سقف اور دیواروں کی سطح کہ مصلیوں کے پس پشت رہے گی ان میں مضائقہ نہیں اگر چہ سونے کے پانی سے نقش ونگارہوں بشرطیکہ اپنے مال حلال سے ہوں، مسجد کا مال اُس میں صرف نہ کیا جائے، مگر جبکہ اصل بانیِ مسجد نے نقش ونگار کئے ہوں یا واقف نے اس کی اجازت دی ہو یا مالِ مسجد کا فاضل بچاہو، اور اگر صرف نہ کیا جائے تو ظالموں کے خوردبُرد میں جائے گا پھر جہاں جہاں نقش ونگار اپنے مال سے کرسکتا ہے اس میں بھی دقائق نقوش سے تکلف مکروہ ہے سادگی ومیانہ روی کا پہلو ملحوظ رہے۔ امام ابن المنیرشرح جامع صحیح میں فرماتے ہیں:
استنبط منہ کراھۃ زخرفۃ المساجد لاشتغال قلب المصلی بذلک اولصرف المال فی غیر وجھہ نعم اذاوقع ذلک علی سبیل تعظیم المساجد ولم یقع الصرف علیہ من بیت المال فلا باس بہ ولو اوصی بتشیید مسجد وتحمیرہ وتصفیرہ ونفذت وصیتہ لانہ قد حدث الناس فتاوی بقدرمااحد ثوا وقد احدث الناس مؤ منھم وکافرھم تشیید بیوتھم و تزیینھا ولو بنینا مساجدنا باللبن وجعلنا ھا متطامنۃ بین الدورالشا ھقۃ وربما کانت لاھل الذمۃ لکانت مستھانۃ۱؎
اس سے مساجد کا مزیّن کرنا مکروہ ثابت ہوتاہے کیونکہ اس میں نمازی کے دل مشغول یا مال کاغلط طور پر استعمال لازم آتا ہے، ہاں جب یہ تزیین مساجد کی تعظیم کی خاطر ہو اور بیت المال سے نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اگر کسی شخص نے مسجد کو پختہ کرنے اور اسے سرخ وسفید کرنے کی وصیت کی تو اس کی وصیت نا فذ ہوگی کیونکہ لوگوں میں فتوٰی اُن کے حال کے مطابق ہوتاہے اب لوگ خواہ مومن ہیں یا کافر ہرکوئی اپنے گھر کو مزیّن کررہاہے ،اب اگر ہم اپنی مساجد کو کچی اینٹوں سے بنائیں گے اور انھیں بلند عمارات کے درمیان چھوٹا بنائیں تو ان کی توہین ہوگی جبکہ یہ مکانات اہل الذمہ کے بھی ہوسکتے ہیں (ت)
(۱؎ارشاد الساری بحوالہ ابن المنیر باب بنیان المسجد مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت ۱/ ۴۴۰)
درمختار میں ہے:
(ولا باس بنقشہ خلامحرابہ) فانہ یکرہ لانہ یلھی المصلی ، ویکرہ التکلف بدقائق النقوش ونحوھا ، خصوصا فی جدارالقبلۃ قال الحلبی وفی حظر الجتبٰی وقیل یکرہ فی المحراب د ون السقف والمؤخر انتہی وظاھرہ ان المراد بالمحراب جدارالقبلۃ فلیحفظ (بجص وماء ذھب) لو(بمالہ)الحلال )لامن مال الوقت) فانہ حرام (وضمن متولیہ لو فعل) النقش اوالبیاض الا اذا خیف طمع الظلمۃ فلا باس بہ کافی، والا اذاکان لاحکام البناء اوالواقف فعل مثلہ لقولھم انہ یعمر الوقف کما کان وتمامہ فی البحر۱؎۔
(مسجد کو محراب کے علاوہ منقش کرنے مین کوئی حرج نہیں) کیونکہ محراب کا نقش ونگارنمازی کو مشغول کردیتا ہے ، البتہ بہت زیادہ نقش ونگار کے لئے تکلف کرناخصوصاً دیوارِ قبلہ میں مکروہ ہے ۔ حلبی اور مجتبٰی کے باب الخطر میں ہے کہ محراب کا منقش کرنا مکروہ ہے چھت یا پچھلی دیوار کا منقش کرنا مکروہ نہیں اھ اور ظاہر یہی ہے کہ محراب سے مراد دیوارِ قبلہ ہے، پس اسے محفوظ کرلو (چونے اور سونے کے پانی سے) اگر (اپنے مال) حلال سے ہو (مال وقف سے نھیں)کیونکہ وہ حرام ہے( متولی نے اگر کیا تو وہ ضامن ہوگا) نقش یا سفیدی البتہ جب ظالموں سے مال وقف کو خطرہ ہو تو کوئی حرج نہیں ،کافی اور اس صورت میں جب یہ بنا کی پختگی کے لئے یا واقف نے خود ایسے کیا ہو کیونکہ فقہاء نے فرمایا کہ وقف کی مرمت حسب سابق کرنا ہے۔ اس کی تفصیل بحر میں ہے۔ (ت)
واراد وا من المسجد داخلہ فیفید ان تزیین خارجہ مکروہ۲؎ اھ
یہاں انھوں نے داخلِ مسجد مراد لیا ہے جو واضح کررہا ہے کہ باہر مسجد کی تزیین مکروہ ہے اھ
( ۲؎ ردالمحتار باب مایفسدالصلوٰۃ ومایکرہ فیھا مطبوعہ مصطفےٰ البابی مصر ۱ /۴۸۷)
رایتنی کتبت علیہ مانصہ، اقول فی ھذہ الاستفادۃ نظر ظاھر، بل الظاھر منہ جوازہ بلاکراھۃ بالشروط الثلثۃ ان یکون بمالہ الحلال ولا یتکلف دقائق النقوش لان خارج المسجد لیس محل الھاء المصلی، وفیہ تعظیمہ فی العیون وزیادۃ وقعتہ فی القلوب و تغیب الناس فی حضورہ تعمیرہ، و کل ذلک مطلوب محبوب،وانما الامور بمقاصدھا ، وانھا لکل امرئ مانوی۳؎ واﷲ تعالٰی اعلم
میں نے اس پر جو لکھا وہ یہ ہے کہ اس استفادہ میں نظر ظاہر ہے بلکہ ظاہریہ ہے کہ ؟شروط ثلٰثہ کے ساتھ بلاکراہت جائز ہے یہ کہ اپنا مال حلال کا ہو اور نقوش میں تکلّف نہ ہوکیونکہ خارج مسجد نمازی کو مشغول نہیں کرتا اس میں دیکھنے میں تعظیم اور دلوں میں وقعت کا اضافہ اور لوگو ں کا حضور وآبادی میں شوق کا سبب ہے اور ان میں سے ہر شئی مطلوب محبوب ہے، اور امور کا اعتبار ان کے مقاصد پر ہوتا ہے، ہر آدمی کے لئے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
( ۳؎ جدالممتار علی ردالمحتار باب احکام المسجد المجمع الاسلامی مبارکپور ، انڈیا ۱ /۳۱۵)