Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
12 - 144
مسئلہ ۱۱۵۱: الہ آباد مسجد صدر مرسلہ حافظ عبدالمحمید صاحب فتحپوری ۱۶جمادی الاولٰی ۱۳۳۱ھ

اگر کوئی مسجد میں بآواز بلند درود  و  وظائف خواہ تلاوت کررہاہو اس سے علیحدہ ہو کر نماز پڑھنے میں بھی آواز کانوں میں پہنچتی ہے لوگ بھو ل جاتے ہیں خیال بہک جاتا ہے، ایسے موقع پر ذکر بالجہر تلاوت کرنے والے کو منع کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ یعنی آہستہ پڑھنے کو کہنا بالجہر سے منع کرنا، اگر نہ مانے تو کہاں تک ممانعت کرناجائز ہے ؟ اس کے متعلق کیا ارشاد فرماتے ہیں علمائے دین؟
الجواب: بیشک ایسی صورت میں اسے جہر سے منع کرنا فقط جائز نہیں بلکہ واجب ہے کہ نہی عن المنکر ہے اور کہاں تک کا جواب یہ کہ تا حد قدرت جس کا بیان اس ارشاد اقدسِ حضور سیّد عالم ؐصلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں ہے:
من رأی منکم منکر افلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان۱؎۔
جو تم میں کوئی ناجائز بات دیکھے اس پر لازم ہے کہ اپنے ہاتھ سے اسے مٹادے بند کردے،اور اس کی طاقت نہ پائے تو زبان سے منع کرے ، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اسے بُراجانے، اور یہ سب میں کمتردرجہ ایمان کا ہے ۔(ت)
 (۱؎ صحیح مسلم    کتاب الایمان    باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان        مطبوعہ نورمحمد اصح امطا بع کراچی    ۱ /۵۱)
اور جہاں لوگ اپنے کاموں مشغول ہوں اور قرآن عظیم کے استماع کے لئے کوئی فارغ نہ ہو وہاں جہراً تلاوت کرنے والے پر اس صورت میں دوہرا وبال ہے، ایک تو وہی خلل اندازیِ نماز وغیرہ کہ ذکر جہر میں تھا، دوسرے قرآن عظیم کو بے حرمتی کے لئے پیش کرنا ۔
ردالمحتار میں ہے:
فی الفتح عن الخلاصۃ رجل یکتب الفقہ وبجنبہ رجل یقرأ القراٰن فلا یمکن استماع القراٰن فالاثم علی القاری ، وعلی ھذا الوقرأ علی السطح والناس نیام یأثم اھ ای لانہ یکون سببا لاعراضھم عن استماعہ الانہ یوذیھم بایقاظھم۱؎
فتح میں خلاصہ سے ہے ایک آدمی فقہ لکھ رہاہے اور اس کے پاس دوسرا شخص قرآن کی تلاوت کررہاہے جبکہ قرآن کا سننا ممکن نہیں تو اب گناہ تلاوت کرنے والے پر ہے۔ اسی طرح اگر اُنچی جگہ پڑھتا ہے حالانکہ لوگ سوئے ہوئے تھے تو پڑھنے والاگنہگار ہوگا اس لئے کہ یہ شخص ان کے قرآن سننے سے اعراض کا سبب بنایا اس وجہ سے کہ ان کی نیند میں خلل واقع ہوگا۔ (ت)
 ( ۱؎ ردالمحتار    فصل فی القراءۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱ /۴۰۳)
اسی میں غینہ سے ہے:
یجب علی القاری احترامہ بان لا یقرأہ فی الاسواق ومواضع الاشتغال فاذا قرأہ فیھا کان ھوالمضیع لحرمتہ فیکون الا ثم علیہ دون اھل الاشتغال دفعاً للحرج۲؎۔ واﷲتعالٰی اعلم
تلاوت کرنے والے پر یہ احترام لازم ہے کہ وہ بازار میں اور ایسے مقامات پر نہ پڑھے جہاں لوگ مشغول ہوں ، اگر وہ ایسے مقام پر پڑھتاہے تو وہ قرآن کا احترام ختم کرنے والا ہے لہٰذا دفع حرج کے پیشِ نظر یہ پڑھنے والا گنہگار ہوگا، مشغول ہونے والے لوگ گنہگار نہ۰ ہونگے۔ (ت) واﷲتعالٰی اعلم
 ( ۲؎ ردالمحتار    فصل فی القراءۃ    مطبوعہ مصطفٰی البابی مصر        ۱ /۴۰۳)
مسئلہ ۱۱۵۲: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرح متین اس مسئلہ میں کہ ایک یا زیادہ شخص نماز پڑھ رہے ہیں یا بعد جماعت نماز پڑھنے آئے ہیں اور ایک یا کئی لوگ بآوازِ بلند قرآن یا وظیفہ یعنی کوئی قرآن کوئی وظیفہ پڑھ رہے ہیں یہاں تک کہ مسجد بھی گونج رہی ہے تو اس حالت میں کیا حکم ہونا چاہئے کیونکہ بعض دفعہ آدمی کا خیال بدل جاتا ہے اور نماز بھول جاتاہے۔
الجواب: جہاں کوئی نماز پڑھتا ہو یا سوتا ہو کہ بآواز پڑھنے سے اس کی نماز یا نیند میں خلل آئے گا وہاں قرآن مجید و وظیفہ ایسی آواز سے پڑھنا منع ہے، مسجد میں جب اکیلا تھا اور بآواز پڑھ رہاتھا جس وقت کوئی شخص نماز کے لئے آئے فوراً  آہستہ ہوجائے۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۱۵۳: از ریاست نانپارہ ضلع بہرائچ محلہ توپ خانہ مرسلہ منشی حامد علی خان صاحب ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۳۶ھ

زید اگر مسافرانہ طورپر کسی مقام پر واردہوا اور وہاں اس کا کوئی ایسا شخص شناسہ نہ ہو کہ جس کےمکان میں قیام کرسکے اور بسبب پابندی نماز جماعت ووضو وغیرہ کسی مسجد میں ٹھہر جائے تو جائز ہے یا نہیں اور اس کا سلف سے ثبوت ہے یانہیں ، اور جو شخص زید کو بصورت مذکورہ جبراً مسجد سے نکالے اور کہے کہ یہ مسجد خالد کی ملک ہے اور میں چونکہ ملازمِ خالد ہو لہٰذا مجھے حکم خالد ہے کہ بے اذن ہمارے کسی کو ہماری مسجد میں نہ رہنے دو اور اس پر برسر پیکار ہو تو زید کا اخراج عن المسجد بصورت فتنہ وفساد جائز ہے یا نہیں، اور مسجد کی ملک کی نسبت خالد جانب جائز ہے یانہیں؟ اور مسجد مذکورہ میں اس صورت میں نماز کا کیا حکم ہے؟ اور ایسی مسجد پر مسجد ضرار کی تعریف صادق ہے یا نہیں ؟
الجواب: ایسے مسافر کو مسجد میں ٹھہرنا بیشک جائز ہے، خود مسجد اقدس میں حضور پُر نور صلی اﷲتعالٰی علیہ واسلم کے عہد اقدس میں حکم انور سے اصحابِ صفّہ رضی اﷲتعالٰی عنہم قیام پذیر تھے مسجد سے بالجبر اس کا اخراج ظلم ہے والظلمات یوم القٰیمۃ( ظلم قیامت کے روز تاریکیاں ہوگا۔ت) ہاں نظر بحالاتِ زمانہ بعض مساجد میں اجنبی غیر معروف کا قیام نامناسب ووجہِ اندیشہ ہوتاہے جیسے صدہا سال مسجد مدینہ طیبہ کے دروازے بعد عشابند کردیتے ہیں اور سوا خدام کے سب لوگ باہر کردئے جاتے ہیں، اگر واقعی ایسی صورت تھی تو بزمی کہنا چاہئے تھا اور مسجد کو خالد کی ملک کہنا ظلم ہے ، اﷲ عزوجل فرماتاہے: وان المسٰجدﷲ مسجدیں خالص اﷲ کے لئے ہیں۔ بہر حال اُس مسجد میں نماز ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں ، نہ وہ مسجد ضرار ہوسکتی ہے، یہ جہل محض ہے۔ پھر اگر یہ مسجد اموال وغیرہ سے محل احتیاط مذکور نہیں یا زید مشتبہ نہیں، تو اسے جبراً نکال دینے والے پر لازم ہے کہ ا ُس سے معافی چاہے کہ مسلمان کو بلاوجہ شرعی ایذادینا بہت سخت ہے۔
من اذی مسلماً فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی اﷲ۱ ؎۔
 (الحدیث) جس نے کسی مسلمان کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے بلاشبہ اللہ تعالی کو اذیت دی۔(الحدیث ۔ت)
 ( ۱؎ الجامع الصفیر مع فیض القدیر بحوالہ طبرانی اوسط        مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت        ۶ /۹  )

( کنز العمال    حدیث ۴۳۷۰۳    			مطبوعہ مؤ سسۃ الرسالۃ بیروت        ۱۶ /۱۰  )

(مجمع الزوائد    باب فیمن یتخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ     مطبوعہ دارالکتاب بیروت       ۲ /۱۷۹ )
زید کو چاہئے کہ اگر مسجد میں قیام کرے سونے اور کھانے سے کچھ پہلے اعتکاف کی نیت کرکے کچھ ذکر الہٰی کرکے کھائے سوئے کہ مسجد میں کھانا سونا معتکف کو بلاخلاف جائز ہے۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۵۴: از شہر کمولا مسئولہ منیرالدین صاحب ۱۱ ذی الحجہ ۱۳۳۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مٹی کا تیل مسجد میں جلانا جائز ہے یا نہیں ؟ بعض لوگ جائز کہتے ہیں اور عدم جواز کی دلیل چاہتے ہیں۔ بینوا توجروا
الجواب: مٹی کے تیل میں سخت بد بو ہے اور مسجد میں بدبو کا لے جانا کسی طرح جائز نہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من اکل من ھذہ الشجرۃ المنتنۃ فلا یقربن مسجد نا فان الملئکۃ تتاذی ممایتأذی منہ الانس۱؎۔رواہ الشیخان عن جابر رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جس شخص نے اس بدبودار پودے کو کھایا وہ ہماری مساجد کے قریب نہ آئے کیونکہ ملائکہ کو بھی ہراس شئی سے تکلیف ہوتی ہے جس سے انسانوں کو ہوتی ہے۔ اسے بخاری ومسلم نے حضرت جابر رضی اﷲتعالٰی عنہ سے روایت کیا۔(ت )
 ( ۱؎ صحیح مسلم     کتاب المساجد        باب من اکل ثوماً الخ        مطبوعہ نورمحمد اصح المطابع کراچی    ۱ /۲۰۹)

(صحیح البخاری    کتاب الاذان        باب ماجاء فی الثوم الخ        مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۱۸)
امام عینی عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری پھر علاّمہ سید شامی ردالمحتار میں فرماتے ہیں:
ویلحق بما نص علیہ فی الحدیث کل مالہ رائحۃ کریھۃ ماکولا اوغیرہ ۲؎۔
حدیث کے مطابق ہر اس شیٔ کا یہی حکم ہے جس کی بوُ اچھی نہ خواہ وہ شیٔ کھائی جاتی ہو یا نہ۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار ،  باب مایفسد الصلوٰۃ ومایکرہ فیھا    مطبوعہ مصطفے البابی مصر ،  ۱ /۴۸۹)
ہاں مٹی کے تیل میں بعض انگریزی عطر جن کو لونڈر کہتے ہیں ملانےسے اس کی بدبو جاتی رہتی ہے اس صورت میں جائز ہوجائے گا بشر طیکہ اس لونڈر میں اسپرٹ وغیرہ کوئی ناپاک شئی نہ ہو ورنہ ناپاک تیل کا بھی مسجد میں جلانا جائز نہیں ہے ۔
دُرمختار میں ہے :
کرہ تحریما ادخال نجاسۃ فیہ فلایجوز الاستصباح بدھن نجس فیہ ۳؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسجد میں نجاست داخل کرنا مکروہ تحریمی ہے ، لہٰذا ناپاک تیل کے ساتھ وہاں چراغ جلانا درست نہیں۔ واﷲتعالٰی اعلم (ت)
 (۳؎ درمختار        باب مایفسد الصلوٰۃ ومایکرہ فیھا     مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۹۳)
Flag Counter