Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
11 - 144
مسئلہ۱۱۴۶: از گونڈل کاٹھیاواڑ مرسلہ سیٹھ عبدالستار صاحب رضوی ۹ جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ

امام مسجد اور عوام مسلمین جن کے پاس رہنے سونے کو مکان ہیں وہ مسجد میں کسی وقت سو سکتے ہیں یا نہیں نیز ایسے مسلمان مسافر جو آج کل شہروں میں آیا جایا کرتے ہیں اور چندے لے کر گزارہ کرتے ہیں انھیں مسجدوں میں رکھنا اور وہ وہاں پر بطور گھروں کے رہیں ، سوئیں ، کھائیں پئیں، جائز ہے؟

الجواب: صحیح ومعتمد یہ ہے کہ مسجد میں کھانا پینا، سونا سوا معتکف کے کسی کو جائز نہیں ، مسافر یا حضری اگر چاہتا ہے تو اعتکاف کی نیت کیا دشوار ہے، اور اس کے لئے نہ روزہ شرط نہ کوئی مدت مقرر ہے، اعتکاف نفل ایک ساعت کا ہوسکتا ہے۔ مسجد کو گھر بنانا کسی کے لئے جائز نہیں ، وہ لوگ بھی بہ نیت اعتکاف رہ سکتے ہیں، واﷲتعالٰی اعلم

مسئلہ ۱۱۴۷: از بھو ساول ضلع خاندیس محلہ ستارہ مسئولہ حافظ ایس محبوب ۷ رمضان ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ مسجد خاص میں یا صحن میں اگر واہیات لغویات اور گالی گلوچ ایک دوسرا آپس میں جمع خاص وعام کے روبرو کرے تو ان لوگوں کے لئے کیا حکم ہے؟ بیوا توجروا

الجواب : ایسے لوگ گنہگار ہیں اور شرعاً مستحقِ تعزیز، مگر تعزیر یہاں کون دے سکتاہے، اتنا کریں کہ انھیں مسجد سے باہر کردیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۴۸:از شہر عقب کوتوالی مسئولہ مولوی بدیع الزمان صاحب بنگالی ۲۷ شوال ۱۳۳۸ھ

مسجد کا ایک امام جو شب وروز مسجد کے حجرہ میں رہتا ہے اور عملیات تعویز گنڈا وغیرہ آیاتِ قرآنی سے کرتا ہے اس کو بصورتِ قیام مسجد ایسا روزگار کرنا اور اس سے اجرت لینا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: عوضِ مالی پر تعویز دینا بیع ہے اور مسجد میں بیع وشرا ناجائز ہے ، اور حجرہ فنائے مسجد ہے اور فنائے مسجد کے لئے حکمِ مسجد ،
علمگیریہ میں ہے:
یبیع التعویذ فی المسجد الجامع ویکتب فی التعویذ التوراۃ والانجیل والفرقان و یاخذ علیھا المال ادفع الی الھدیۃ لایحل لہ ذلک کذافی لکبرٰی ۱؎۔
ایک آدمی مسجد جامع میں تعویذ بیچتا ہے ، اس تعویذ میں تورات، انجیل اور قرآن لکھتا ہے اور اس پر رقم لیتا ہے ، اور یہ کہتا ہے کہ اس کا ہدیہ مجھے دے تو یہ جائز نہیں ۔ الکبرٰی میں اسی طرح ہے۔ (ت)
 ( ۱؎ فتاوٰی ہندیہ         کتاب الکراھیۃ    الباب الخامس فی آداب المسجد    مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۲۱)
اُسی میں ہے :
قیم المسجد لا یجوزلہ ان یبنی حوانیت فی حدالمسجد أوفی فنائہ لان المسجد اذا جعل حانوتا ومسکنا تسقط حرمتہ وھذا لا یجوز والفناء تبع المسجد فیکون حکمہ حکم المسجد کذافی محیط السرخسی۲؎۔
مسجد کے منتظم کے لئے جائز نہیں کہ وہ مسجد یا فنائے مسجد میں دکانیں یا رہائش گاہ بنائے کیونکہ جب مسجد دکان یا رہائش گاہ بن جائے تو اس کا احترام برقرار نہیں رہتا ، اور یہ جائز نہیں ۔ فنا مسجد کے تابع ہے لہٰذااس کا حکم مسجد والاہی ہوتا ہے۔ محیط سرخسی میں یو نہی ہے ۔(ت) واﷲتعالٰی اعلم
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ       کتاب الوقف    الفصل الثانی فی الوقف فی المسجد     مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۲ /۴۶۲)
مسئلہ ۱۱۴۹: یکم ذیقعدہ ۱۳۳۷ھ ۔ ایک شخص کچہری میں ملازم ہے فرصت کے وقت دن ورات میں مسجد میں قیام کرکے سوتا ہے اور کھانا وغیرہ کھاتاہے بہت عرصہ سے ، اب منع کرنے پر جواب دیا کہ میں نیت ِ اعتکاف کرلیتا ہوں کوئی حرج میرے قیام اور کھانے سونے میں نہیں ہے۔

الجواباگر واقعی وہ ہربار نیت اعتکاف کرتا اور کچھ دیر ذکر الہٰی کرکے کھاتا سوتا ہے تو حرج نہیں۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۵۰: از بریلی ۴ ربیع الاول ۱۳۲۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی عالم اور کوئی شخص مسجد میں سوئے اور مسند تکیہ مسجد میں اندر مسجد کے لگائے اور کھانا مسجد میں ایک جماعت کے ساتھ کھائے اور اگالدان مسجد میں رکھے اور گھوڑے کی زین اور اوراسباب وغیرہ مسجد میں رکھے یہ سب شرع سے درست ہے نہیں؟ بینواتوجروا

الجواب :مسجد میں سونا۔ کھانا بحالتِ اعتکاف جائز ہے، اگر جماعت معتکف ہو تو مل کر کھا سکتے ہیں ، بہر حال یہ لازم ہے کہ کوئی چیز، شوربایا ِشیر وغیرہ کی چھینٹ مسجد مین نہ گرے ، اور سوائے حالتِ اعتکاف مسجد میں سونا یا کھانا دونوں مکروہ ہیں خاص کر ایک جماعت کے ساتھ کہ مکروہ فعل کا اور لوگوں کو بھی اس میں مرتکب بناتاہے۔
عالمگیری میں ہے :
یکرہ النوم والاکل فیہ الغیر المعتکف۱؎ ۔
مسجد میں سونا اور کھانا غیر معتکف کے لئے مکروہ ہے (ت)
 ( ۱؎ فتاوٰی ہندیہ        کتاب الکراہیۃ    الباب الخامس فی آداب المسجد    مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۲۱)
مسند لگانا اگر براہ تکبّر ہے تو یہ خارج مسجد بھی حرام ہے۔
قال تعالٰی:
  الیس فی جھنم مثوی للمتکبرین۲؎۔
اﷲتعالٰی کا فرمان ہے: کیا نہیں ہے جہنم میں ٹھکانہ متکبرین کا۔(ت)
(۲؎ القرآن ،  ۳۹ /۶۰)
اور اگر براہِ تکبر نہیں کسی دوسرے نے اس کے لئے رکھ دی یہ اس کی خاطر سے بدیں لحاظ کہ امیرالمومنین مولی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم فرما ئے ہیں:
  لایابی الکرامۃ الاحمار۳؎۔
  عزت واحترام کا انکارکوئی گدھا ہی کرسکتاہے (ت)
 ( ۳؎ کنز العمال بحوالہ الدیلمی عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ    حدیث ۲۵۴۹۲ مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۹ /۱۵۵)
ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تو بھی یہ مسجد میں نہ ہونا چاہئے کہ ادب مسجد کے خلاف ہے،ہاں ضعف یا درد کے سبب مجبور ہو تو معذور ہے، اگالدان اگر پیک کے لئے رکھا ہے تو غیر معتکف کو مسجد میں پان کھانا خود مکروہ ہے،اور اگر کھانسی ہے بلغم باربار آتا ہے اس ٖغرض کے لئے رکھا تو حرج نہیں۔ اور گھوڑے کا زین وغیرہ اسباب بھی بلاضرورت شرعیہ مسجد میں رکھنا نہ چاہئے ، مسجدکو گھر کے مشابہ بھی کرنا نہ چاہئے ۔
رسول اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان المساجد لم تبن لھذا۴؎
 (مساجد ان چیزوں کی خاطر نہیں بنائی جاتی ۔ت) خصوصاً اگر چیزیں رکھے جن سے نماز کی جگہ رکے تو سخت ناجائز و گناہ ہے۔
 (۴؎ صحیح مسلم         کتاب المساجد    باب النہی عن نشد الضالۃ فی المسجد    مطبوعہ  نور محمد اصح المطابع کراچی     ۱ /۲۱۰)
قال اﷲتعالٰی  :
ومن اظلم ممن منع مساجد اﷲ ان یذکر فیھا اسمہ۔۵ ؎
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتاہے جو اﷲ کے گھروں میں اﷲ کا نام لینے سے روکے (ت)
(۵؎ القرآن         ۲ /۱۱۴)
با ایں ہمہ یہ بھی یاد رکھنا فرض ہے کہ حقیقۃً عالمِ دین ہا دیِ خلق سُنّی صحیح العقیدہ ہو عوام کو اُس پر اعتراض اُس کے افعال میں نکتہ چینی اس کی عیب بینی حرام حرام حرام اور باعث  سخت محرومی اور بدنصیبی ہے ،اول تو لاکھوں مسائل و احکام فرق نیت سے متبدل ہوجاتے ہیں.
رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
انماالاعمال بالنیات وانما لکل امریٔ مانوی۱؎۔
  اعمال کا مدار نیتوّں پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔(ت)
( ۱؎ صحیح البخاری    باب کیف کان بدء الوحی الخ            قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱ /۲)
علم نیّت ایک عظیم واسع علم ہے جسے علمائے ماہرین ہی جانتے ہیں، عوام بیچارے فرق پر مطلع نہ ہو کر ان کے افعال کو اپنی حرکات پر قیاس کرتے اورحکم لگادیتے اور ''کارِ پاکاں راقیاس از خود مگیر'' کے ،مورد بنتے ہیں، اسی مسئلہ میں دیکھئے شرعاً اعتکاف کے لئے نہ روزہ شرط ہے نہ کسی قدر مدت کی خصوصیت ۔ ولہذا مستحب ہے کہ آدمی جب مسجد میں جائے اعتکاف کی نیت کرلے۔ جب تک مسجد میں رہے گااعتکاف کا ثواب بھی پائے گا۔ علما اعتکاف ہی کی نیّت سے مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور اب اُن کو سونا، کھانا، پیک کےلئے اگالدان رکھنا روا ہوگا ، اور اس سے قطع نظر بھی ہو تو جاہل کو سُنی عالم پر اعتراض نہیں پہنچتا، رسول اﷲؐ کی حدیث میں عالمِ بے علم کی مثال شمع سے دی ہے کہ آپ جلے اور تمھیں روشنی و نفع پہنچائے، احمق وہ جو اس کے جلنے کے باعث اسے بجھادینا چاہے اس سے یہ خودہی اندھیرے میں رہ جائےگا ، علماء کو چاہئے کہ اگر چہ خود نیت صحیحہ رکھتے ہوں عوام کے سامنے ایسے افعال جن سے ان کا خیال پریشان ہو نہ کریں کہ اس سے دوفتنے ہیں جو معتقد نہیں ان کا معترض ہونا غیبت کی بلا میں پڑنا عالم کے فیض سے محروم رہنا، اور جو معتقد ہیں اُن کا اس کے افعال کو دستاویز بناکر بے علم نیت خود مرتکب ہونا عالم فرقۂ ملامتیہ سے نہیں کہ عوام کو نفرت دلانے میں اُس کا فائدہ ہو مسند ہدایت پر ہے ، عوام کو اپنی طرف رغبت دلانے میں اُن کا نفع ہے ، حدیث میں ہے :
راس العقل بعدالایمان باﷲ التوددالی الناس۲؎۔
ایمان باﷲ کے بعد سب سے بڑی عقلمندی لوگوں کے ساتھ محبت کرنا ہے۔(ت)
(۲ ؎ شعب الایمان    فصل طلاقۃ الوجہ وحسن البشر الخ حدیث ۸۰۶۱     مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت   ۶ /۲۵۵)
دوسری حدیث صحیح میں ہے رسول اﷲؐ فرماتے ہیں :
بشرواولاتنفروا ۳؎____
 (محبت پھیلاؤ نفرت نہ پھیلاؤ۔ت) احیاناً ایسے افعال کی حاجت ہو تو اعلان کے ساتھ اپنی نیت اور مسئلہ شریعت عوام کو بتادے ۔ واﷲتعالٰی اعلم
 (۳ ؎صحیح البخاری        کتاب العلم                مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۶)

( صحیح مسلم        کتاب الجہاد    باب تامیرالامراء علی البعوث الخ   مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی   ۲ /۸۲)
Flag Counter