مسئلہ ۱۱۴۴: از بمبئی بھنڈی بازار مرسلہ محمد فضل الرحمٰن سادہ کار ۵ ربیع الاول ۱۳۳۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سوائے معتکف اور مسافر کے مقیم یا اہل شہر کو مطلقاً مسجد میں سونا حرام ہے یا مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی؟ اگر بیرونی شہری نہ نیت اس کے کہ نماز صبح با جماعت ملے یا تہجد بھی نصیب ہو کیونکہ اگر گھر میں رہ کر نمازِ صبح با جماعت یا نماز تہجد نہیں ملتی ہے مسجد میں سوئے تو یہ سونا حرام ہے یا مکروہ یا تحریمی یا تنزیہی، نیز مسجد میں کھانا یا پینا سوائے معتکف اور مسافر کے شرعاً حرام ہے یا مباح ؟ بظاھر ابن ماجہ ف؎کی کتاب الاطعمہ کی روایت سے اباحت معلوم ہوتی ہے:
ف؎____:سائل نے ابن ماجہ کے حوالے سے جو حدیث ذکر کی ہے وہ دراصل دو حدیثوں کا مجموعہ ہے ، اصل عبارتیں یوں ہیں:
(۱) ص ۲۴۵: کنا نا کل علی عھد رسول اﷲ علیہ وسلم فی المسجد الخبز واللحم۔
(۲) ص۲۴۶: اکلنا مع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم طعاً ما فی المسجد قد شوی فمسحنا ایدینا بالحصباء ثم قمنا نصلی ولم نتوضأ__ ابواب الا طعمہ میں دونوں حدیثیں انہی الفاظ کے ساتھ ملی ہیں۱۲۔ نذیر احمد
عن عبداﷲ بن حارث بن جزء قال اتی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بخبز و لحم وھو فی المسجد فاکل واکلنا معہ ثم
قام فصلی وصلینا معہ ولم نزد علی ان مسحنا ایدینا بالحصباء ۱؎ بینواتوجوا۔
حضرت عبداﷲ بن حارث بن جزء سے مرعہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں روٹی اور گوشت لایا گیا ، اس وقت آپ مسجد میں تشریف فرماتھے ، آپ نے اسے تناول فرمایا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ گوشت روٹی کھائی، پھر کھڑے ہوئے نماز پڑھی اور ہم نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی ، اور ہم نے سوائے اس کے کچھ نہ کیا کہ اپنے ہاتھ پتھروں کے ساتھ صاف کئے ۔ت) بیّنواتوجروا۔
الجواب
مسجد(۱) میں معتکف کو سونا تو بالاتفاق بلاکراہت جائز ہے اور اس کے غیر کے لئے ہمارے علماء کے تین(۳) قول ہیں:
اول یہ کہ مطلقاً صرف خلاف اولٰی ہے،
صححہ فی الھندیۃ عن خزانۃ الفتاوی ومشی علیہ فی جامع الاسبیجابی کما نقلہ ابن کمال باشا والکافی فی معراج الدرایۃ والیہ یمیل کلام الدرفی الاعتکاف قلت وفیہ حدیث ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنھما۔
اس کی ہندیہ میں خزانۃ الفتاوٰی کے حوالے سے تصحیح کی ہے اور جامع الاسبیجابی نے اسی کو اختیار کیا، جیسا کہ اسے ابن کمال باشا نے نقل کیا اور کافی نے معراج الدارایہ میں ،اعتکاف میں درکا کلام بھی اسی طرف مائل ہے،میں کہتا ہوں اس میں حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما کی حدیث ہے۔(ت)
کیونکہ اس کا قول ہے: اس سے منع کیا گیا ہے اور منع مکروہ تحریمی سے ہوتا ہے ، کراہت تنزیہی تو اباحت کے ساتھ جمع ہوجاتی ہے جیسا کہ ردالمحتار وغیرہ میں ہے۔(ت)
اقول تحقیق امر یہ ہے کہ مرخص وحاظر جب جمع ہوں حاظر کو ترجیحٰ ہوگی اور احکام تبدلِ زمان سے متبدل ہوتے ہیں
ومن لم یعرف اھل زمانہ فھو جاھل
( جو شخص اپنے زمانے کو لوگو ں کے احوال سے اگاہ نہیں وہ جاہل ہے۔ت)
اور ہمیں رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے یہاں ایک ضابطہ کلیہ فرمایا ہے جس سے ان سب جزئیات کا حکم صاف ہوجاتاہے فرماتے ہیں رسول اﷲ تعالٰی علیہ وسلم:
من سمع رجلا ینشد ضالۃ فی المسجد فلیقل لاردھا اﷲ علیک فان المساجد لم تبن لھٰذا۱ ؎۔ رواہ مسلم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جو کسی شخص کو سنے کہ مسجد میں اپنی گم شدہ چیز دریافت کرتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ اس سے کہے اﷲ تیری گمی چیز تحجھے نہ ملائیے مسجدیں اس لئے نہیں بنیں، اسے مسلم نے ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰے عنہ سے روایت کیا ۔(ت)
(۱؎صحیح مسلم باب النہی عن نشدالضالۃ فی المسجد الخ مطبوعہ نور محمد اصح ا لمطابع کراچی ۱/۲۱۰)
اسی حدیث کی دوسری روایت میں ہے:
اذارأیتم من یتباع فی المسجد فقولوا لااربح اﷲ تجارتک۲؎۲ رو الترمذی وصححہ والحا کم عنہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جب تم کسی کو مسجد میں خرید وفروخت کرتے دیکھوتو کہو اﷲ تیرے سودے میں فائدہ نہ دے ۔ اسے ترمذی نے روایت کیا اور اسے صحیح کہا اور حاکم نے ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰے عنہ سے روایت کیا ۔(ت)
(۲؎جامع الترمذی ابواب البیوع باب النہی عن البیع فی المسجد مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی ۱/ ۱۵۸)
اور ظاہر ہے کہ مسجدیں سونے۔ کھانے پینے کو نہیں بنیں تو غیر معتکف کو اُن میں ان افعال کی اجازت نہیں اور بلاشبہ اگر ان افعال کا دروازہ کھولا جائے تو زمانہ فاسد ہے اور قلوب ادب وہیبت سے عاری، مسجدیں چو پال ہوجائیں گی اور ان کی بے حرمتی ہوگی وکل ماادی الی محظور محظور (ہر وہ شخص جو ممنوع تک پہنچائے ممنوع ہوجاتی ہے۔ت) جو بخیالِ تہجّد یا جماعتِ صبح مسجد میں سونا چاہے تو اسے کیا مشکل ہےاعتکاف کی نیت کرلے کچھ حرج نہیں، کچھ تکلیف نہیں ، ایک عبارت بڑھتی ہے۔ اور سونا بالاتفاق جائز ہوا جاتاہے
،منیۃا لمفتی پھر غمز العیون اور سراجیہ پھر ہندیہ پھر ردالمحتار میں ہے:
جب ارداہ کرے کھانے پینے کا ، تو اعتکاف کی نیت کرے ، پھر مسجد میں داخل ہوجائے ۔ پس اﷲ تعالٰی کا ذکر نیت کے مطابق کرے یا نماز پڑھے ، پھر وہاں جو چاہے کرے ، واﷲتعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ردالمحتار باب الاعتکاف مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲/۲۴۶)
مسجد میں ایسا اکل وشُرب جس سے اس کی تلویث ہو مطلقاًنا جائز ہے اگر چہ معتکف ہو، ردالمحتار باب الاعتکاف میں ہے:
الظاھر ان مثل النوم الاکل والشرب اذا لم یشغل المسجدولم یلوثہ لان تنظیفہ واجب کما امر ۲؎۔
ظاہر یہی ہے کہ کھانا پینا جبکہ مسجد کو ملوث نہ کرے اور نہ مسجد کو مشغول رہے تو یہ سونے کی طرح ہے کیونکہ مسجد کی نظافت کا خیال نہایت ہی ضروری ہے جیسا کہ گزرا۔(ت)
اسی طرح اتنا کثیر کھانا مسجد میں لانا کہ نماز کی جگہ گھیرے مطلقاً ممنوع ہے،اور جب ان دونوں باتوں سے خالی ہو تو معتکف کو بالاتفاق بلاکراہت جائز ہے اور غیر معتکف میں وہی مباحث و اختلاف عائد ہوں گے اور ہمیں ارشاد اقدس کا وہ ضابطہ کلیہ کافی ہے کہ ان المساجد لم تبن لھذا(مساجد اس خاطر نہیں بنائی جاتیں۔ت) اعتکاف نفل کے لئے نہ روزہ شرط ہے نہ طول مدت درکار ،صرف نیت کافی ہے،جتنی دیر بھی ٹھرے بہ یفتی(اسی پر فتوی ہے۔ت) تو اختلاف میں پڑنے کی کیا حاجت ، وماکان اقرب الی الادب فھوالاحب فھوالا حب الاوجب نسأل اﷲ حسن التوفیق( جوادب کے زیادہ قریب ہو وہی زیادہ پسندیدہ اور واجب ہوتا ہے ، اﷲتعالٰی سے حسنِ توفیق کا سوال ہے۔ت)
رہی حدیث ابن ماجہ، وہ ایک واقعہ عین ہے اور علماء بالاتفاق تصریح فرماتے ہیں کہ وقائع عین کے لئے عموم نہیں ہوتا ممکن کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنھم اس وقت معتکف ہوں اور صحابی کو یہاں مسئلہ اکل بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ یہ کہ مامسّتہ النار (وہ چیز جسے آگ چھولے ۔ت)
سے وضونہیں، علاوہ بریں فعل وتقریر سے قول اور بیح سے خاطرار جح ہے ۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۴۵: از فیض آباد مسجد منوپورہ مرسلہ شیخ اکبر علی مؤذن ومولوی عبدالعلی ۹ ربیع الاخر ۱۳۳۶ھ
جو لوگ عرس میں آئیں وہ مسجد ہی میں قیام کریں اور جائے نماز وغیرہ استعمال کریں ، کھانا وہاں کھائیں، دنیا کی بات کریں ، اشعار پڑھیں، جائز ہے؟
الجواب
مسجد کو چوپال بنانا جائز نہیں ۔ واﷲتعالٰی اعلم