مسئلہ ۱۱۱۵ : ازلکھنو محلہ علی گنج مرسلہ حا فظ عبد اﷲ ۵ذی الحجہ ۱۳۰۶ھ
کیا فر ماتے ہیں علما ئے دین جواب اس مسئلہ کا کہہ سقفِ مسجد پر بسبب گرمی کے نما ز پڑھنا جا ئز ہے یا نہیں۔ ۔ بینوا توجروا۔
الجواب :
مکروہ ہے کہ مسجد کی بے ادبی ہے، ہا ں اگر مسجد جماعت پر تنگی کرے نیچے جگہ نہ رہے تو باقی ماند ہ لوگ چھت پر صف بندی کر لیں یہ بلا کر اہت جائز ہے کہ اس میں ضرورت ہے بشرطیکہ حال اما م مشتبہ نہ ہو۔
فی العا لمگیریۃ الصعود علی کل مسجد مکروہ ولھذا اذا اشتد الحریکرہ ان یصلوا بالجماعۃ فوقہ الااذاضاق المسجد فحٍ لایکرہ الصعود علی سطحہ لضرورۃ کذا فی الغرائب۱؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
عالمگیری میں ہے ہر مسجد کے اوپر چڑھنا مکروہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ شدید گرمی کے وقت اس کے اوپر جماعت کرانا مکروہ ہے البتہ اس صورت میں کہ مسجد نمازیوں پر تنگ ہو جا ئے تو ضرورت کی وجہ سے مسجد کی چھت پر چڑھنا مکروہ نہیں ۔ جیسا کہ غرائب میں ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ الباب الخامس فی آداب المسجد مطبوعہ نورانی کتب خا نہ پشاور ۲/۳۲۲)
التبصیرالمنجد بان صحن المسجدمسجد(۱۳۰۷ھ)
(اس بارے میں عمدہ رہنمائی کہ مسجد کا صحن مسجد ہی ہو تا ہے)
مسئلہ۱۱۱۶: از قصبہ کٹھور، اسٹیشن سائن ضلع سورت، ملک گجرات،مسجد پُر ب والے، مرسلہ مولوی عبدالحق صاحب مدرس مدرسہ عربی کھٹو رو سیٹھ بانا بھائی صاحب مہتمم مدرسہ ۲۷جمادی الاولٰی۱۳۰۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے شریعت اس صحنِ مسجد کے حکم پر مو سم گرما میں ہمیشہ نماز فرض با جماعت مغرب و عشاء و فجر اور کبھی عصر بھی ادا کی جا ئے، اور یہ مسجد چو نکہ برسرِ بازار واقع ہے اس واسطے آمد ورفت نمازیو ں کی زیادہ ہے عصر و مغرب کو کبھی جماعت ہو چکی ہو تو اکثر آدمی آکر اُس صحن پر اکیلے فرض نماز پڑھ لیتے ہیں کبھی دوچار آدمی آگئے تو وہا ں پر جماعت بھی کرلیتے ہیں اور مو سم اعتدال ربیع و خریف میں بھی کبھی معمولی جماعت صحنِ مذکو ر پر ہو جا یا کرتی ہے، اب صحنِ مذکو ر کو حکم مسجد کا دیا جائے یا نہیں؟ اس پر جنبی وغیرہ ناپاک آدمی کا بلا عذر شرعی کے جانا جا ئز ہے یا نہیں ؟ وہ شخص باہم مناظرہ کرتے ہیں ایک کے نزدیک صحن مذکور مسجد ہے اور جنبی کا اس پر جانا حرام، اور دوسرے کے نزدیک مصلی عید کے حکم میں ہے جنبی کو اس پر جانا جائز ہے ،دلیل اس کی یہ ہے کہ ہمارے شہر سُورت میں اندرون مسجد کو جماعت خانہ اور صحنِ مسجد کو خارج بولتے ہیں، دوسری دلیل یہ کہ فنا اور حریم مسجد اور صحنِ مسجد باعتبار مفہوم کے متحد ہیں فنا اور حریم مسجد پر جب جنبی کو جانا جائز ہو توصحن پر بھی جائز ہوگا کس واسطے کو فناء کو حکم مصلی عیدکا ہے اورعلماۓ سورت میں سے دو۲عالم صحن مذکورحکم مسجد کا فرماتے ہیں ان دونوں عالموں میں سے ایک عالم صاحب اس شخص کے جو صحنِ مسجد کو خارجِ مسجدکہتا ہے استاد بھی ہیں،اب ہر ایک مناظرین مرقومہ بالا میں سے ایک دوسرے کو مفسد کہتا ہے مفسد فی الدّین ہے اور مصلح عندالشرع کون ؟ اور لفظ فناء مسجد اور حریم مسجد کے معنی صحن مسجد کے سمجھنا صیحح ہیں یاغلط؟ اور دوسرے یہ کہ ساکنانِ شہر سورت کا عرف کہ اندرون مسجد جماعت خانہ اور صحنِ مسجد خارج مسجد بولنا یہ عندالشرع معتبر ہے یا نہیں؟ اور کس قدریں نمازیں ہر سال میں اُس صحن پر ادا کی جائیں کہ وہ صحن مسجد بن جائے؟ اُس صحن کی مسجد بن جانے میں سوائے نماز کے اور کوئی دوسری شرط بھی عندالشرع معتبر ہو تو تحریر فرمائیں۔ بینوا توجروا۔
الجواب
بسم اﷲالرحمن الرحیم
الحمدﷲ والصلوٰۃوالسلام علی رسول اﷲ
صحنِ مسجد قطعاًجزء مسجد ہے جس طرح صحنِ دار جزءِ دار ، یہا ں تک کہ اگر قسم کھائی زیدکے گھر نہ جاؤں گا، اور صحن میں گیا بیشک حانث ہو گا
کما یظھر من الھدایۃ والھندیۃ والدرالمختار وردالمختار و عامۃ الاسفار
(جیسا کہ ہدایہ، ہندیہ، دُرمختار، ردالمختاراور عام کتب میں ہے، ت)
اسی طرح اگر قسم کھائی مسجد سے باہر نہ جاؤں گا اور صحن میں آیا ہر گزحانث نہ ہو ا، ولہذا معتکف کو صحن میں آنا جانا بیٹھنا رہنا یقینا روا، یہ مسئلہ اپنی نہا یت وضا حت وغایت شہرت سے قریب ہے کہ بدیہیات اولیہ سے ملتحق ہو، جس پر تما م بلادمیں عام مسلمین کے تعامل وافعال شاہد عدل، جن کے بعد اصلاًاحتیاج دلیل نہیں ، ہاں جو دعوٰی خلاف کرے اپنے دعوے پر دلیل لا ئے ، اور ہر گز نہ لاسکے گا
حتی یلج الجمل فی سم الخیاط
(یہا ں تک کہ اونٹ سو ئی کے سوراخ میں داخل ہو جائے۔ت)
مدعیِ خلاف نے کہ صحنِ مسجد کے مسجد نہ ہونے پر دو دلیلیں پیش کیں،ایک عام جس میں دلیل کی صورت بھی نہیں بلکہ محض دعوٰی ہے دلیل ہے دوسری خا ص مساجد سورت سے متعلق دونو ں محض باطل و زاہق۔ فقیر غفراﷲتعالٰی اس مسئلہ واضحہ کی ایضا ح کو بحکم ضرورت صرف دس وجہیں ذکرکرتا ہے جن سے حکم انجلائے تام پائے اور دونو ں دلیل خلاف کا ازالہ اوہام ہو جائے ، اسی کے ضمن میں اِن شاء اﷲ تعالٰی تمام مراتب سوال کا جواب منکشف ہو جائے گا۔
فاقول وباﷲالتوفیق وافاضۃالتحقیق
(میں کہتا ہوں اﷲتعالٰی ہی تو فیق اور تحقیق عطا کرنے والا ہے)
اوّلا ًمسجد اس بُقعہ کا نام ہے جو بغرض نمازِ پنجگانہ وقف خالص کہا گیا
وتمام تعریفہ مع فوائد قیودہ فی الوقف من کتابنا العطایاالنبویۃ فی ا لفتاوی الرضویۃ
(مسجد کی کامل تعر یف اور اس کے تمام قیود کے فوائدکی تفصیل ہما رے فتاویـــــ''العطایا النویہ فی الفتاوی الرضویۃ''کے باب الوقف میں ملاحظہ کیجئے۔ت)
یہ تعریف با لیقین صحن کو بھی شامل 'اور عمارات و بنایا سقف وغیرہ ہر گز اس کی ماہیت میں داخل نہیں یہاں تک کہ اگر عمارت اصلاً نہ ہو صرف ایک چبوترہ یا محدودمیدان نماز کے لئے وقف کردیں قطعاً مسجد ہوجائے گا اور تمام احکامِ مسجد کااستحقاق پائے گا۔
فتاوٰی قاضی خاں وفتاوٰی ذخیرہ وفتاوٰی علمگیریوغیرہا میں ہے
رجل لہ ساحۃ امر قوما ان یصلوافیھا بجماعۃان قال صلوا فیھاابداا وامرھم بالصلٰوۃ مطلقا و نوی الابدصارت الساحۃ مسجدا لو مات لا یورث عنہ ۱؎ اھ ملخصاً
ایک آدمی کی کُھلی جگہ ہے لوگوں سے کہتا ہے کہ یہاں نماز اداکرو، اب اگر اس نے یہ کہاکہ یہاں ہمیشہ تم نماز پڑھو، یا اتنا کہا نماز پڑھو مگر نیّت ہمیشہ کی ،تو وہ جگہ مسجد کہلائے گی _____ اگر وُہ فوت ہو جاتا ہے تو وہ زمین وراثت میں شامل نہ ہو گی اھ ملخصاً(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ الباب الحادی عشرفی المسجد ومایتعلق بہ مطبوعہ مطبع نورانی کتب خانہ پشاور ۲ / ۲۵۵)
پھر مسقف وغیرہ مسقف میں فرق کرنا اسے مسجد اسے فناء مسجد ٹہرانا محض بے معنی۔