Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۷(کتاب الصلٰوۃ)
9 - 158
وللبیھقی عنہ سألہ ان یرخص لہ فی صلاۃ العشاء والفجر قال ھل تسمع الاذان قال نعم مرۃ اومرتین فلم یرخص لہ فی ذلک۳؎ ولہ عن کعب بن عجرۃ جاء رجل ضریر الی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فیہ ایبلغک النداء قال نعم قال فاذا سمعت فاجب۴؎ ولاحمد وابی یعلی والطبرانی فی الاوسط و ابن حبان عن جابر واللفظ لہ قال اتسمع الاذان قال نعم قال فأتھا و لو حبوا ۵؎
بیہقی نے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہی روایت کیا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اس بات کی رخصت چاہی کہ ان کو عشاء اور فجر کی نماز میں جماعت سے رخصت دے دیں۔ فرمایا: کیا تم اذان سنتے ہو؟ عرض کیا: ہاں۔ ایک یادو دفعہ پوچھا آپ نے انہیں اس بارے میں رخصت نہ دی۔ بیہقی میں حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ ایک نابینا شخص رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں آیا اسی میں ہے کہ آپ نے پوچھا: کیا تجھے اذان کی آواز پہنچتی ہے؟ عرض کیا: ہاں۔ بتایا : جب تو سنتاہے تو جواب دے (یعنی جماعت میں حاضری دے) مسند، ابویعلی، طبرانی کی اوسط میں اورابن حبان میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی الفاظ ابن حبان کے ہیں کیا تم اذان سنتے ہو؟ عرض کیا: ہاں۔ فرمایا: اس کی طرف آؤ خواہ گھٹنوں کے بل آنا پڑے،
(۳؎ مجمع الزوائد           باب فی ترک الجماعۃ    مطبوعہ دارالکتاب بیروت        ۲ /۴۳)

(۴؎ مجمع الزوائد           باب فی ترک الجماعۃ    مطبوعہ دارالکتاب بیروت        ۲ /۴۲)
ف: یہ دونوں حوالے مجمع سے اس لئے نقل کئے کہ سنن بیہقی اور شعب الایمان للبیہقی سے نہیں ملے، ہوسکتاہے یہ لفظ للبیہقی کی بجائے للطبرانی ہو کیونکہ مجمع نے طبرانی اوسط کے حوالے سے یہ دونوں حدیثیں نقل کی ہیں۔ نذیر احمد سعیدی
(۵؎ الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان        باب فرض الجماعۃ والاعذار الخ    مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۴ /۲۵۲)
فکان ذلک فیما نری واللّٰہ تعالٰی اعلم انہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ لم یکن یشق علیہ المشی وکان یھتدی الی الطریق من دون حرج کمایشاھد الآن فی کثیر من العمیان ثم راجعت الزرقانی علی المؤطا فرأیتہ نص علی ذلک نقلا فقال و حملہ العلماء علی انہ کان لایشق علیہ المشی وحدہ ککثیر من العمیان۱؎ اہ
اس سلسلہ میں ہماری رائے یہی ہے، حقیقت حال سے اللہ ہی آگاہ ہے کہ حضرت ابن ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہ پرچلنا دشوار نہ تھا اور وہ بغیر کسی حرج کے راستہ پالیتے تھے جیسا کہ اب بھی بہت سے نابینا لوگوں میں یہ مشاہدہ کیاجاتاہے پھر میں نے زرقانی علی المؤطا کا مطالعہ کیا تو اس میں بعینہٖ یہی بات منقول تھی کہ تمام اہل علم کی یہی رائے ہے کہ ان پرتنہا چلنے میں دشواری نہ تھی جیسا کہ اب بھی بہت نابینا افراد پرتنہاچلنا دشوار نہیں ہے۱ھ
(۱؎ شرح الزرقانی علی المؤطا    فصل صلوٰۃ الجماعۃ    مطبوعہ مکتبہ تجاریہ کبری مصر    ۱ /۲۶۷)
وحٍ یترجح بحث العلامۃ الشامی حیث بحث ایجاب الجمعۃ علی امثال ھؤلاء ، فقال بل یظھر لی وجوبھا علی بعض العمیان الذی یمشی فی الاسواق ویعرف الطرق بلاقائد ولاکلفۃ ویعرف ای مسجد ارادہ بلاسؤال احد لانہ حینئذ کالمریض القادر علی الخروج بنفسہ بل ربما تلحقہ مشقۃ اکثر من ھذا تامل ۲؎۱ھ
اور اب علامہ شامی کی وہ بحث بھی ترجیح پائے گی جو انہوں نے ایسے لوگوں پر جمعہ واجب قراردیتے ہوئے کی ہے توکہا بلکہ مجھ پریہ بات واضح ہوئی ہے کہ ایسے نابینا لوگوں پرجمعہ واجب ہوگا جوبغیر کسی قائد اور بلامشقت تنہاراستہ جان کر چل سکتے ہوں اور اس مسجد تک بغیر پوچھے پہنچ سکتے ہوں جہاں انہوں نے نماز اداکرنی ہو کیونکہ یہ اس وقت اس مریض کی طرح ہوں گے جو خود بخود نکلنے پر قادر ہوبلکہ بعض اوقات مریض کو اس سے کہیں زیادہ مشقت اٹھانا ہوتی ہے تامل ۱ھ
(۲؎ ردالمحتار        باب الجمعۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۶۰۲)
ثم رأیت الامام النووی نقل فی شرح مسلم ماذکر المحققان من معنی الرخصۃ عن الجمہور فقال اجاب الجمھور عنہ بانہ سأل  ھل لہ رخصۃ ان یصلی فی بیتہ و تحصل لہ فضیلۃ الجماعۃ بسبب عذرہ فقیل لا قال ویؤید ھذا ان حضور الجماعۃ یسقط بالعذر باجماع المسلمین ودلیلہ من السنۃ حدیث عتبان بن مالک۱؎الخ۔
پھر میں نے امام نووی کی شرح مسلم دیکھی اس میں انہوں نے دونوں محققین کا جمہور سے معنی رخصت ذکر کیاہوا نقل کرکے فرمایا جمہور اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ حضرت ابن مکتوم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیاتھا کہ مجھے گھر پرنماز پڑھنے کی اجازت دی جائے اور عذر کی بنا پر حاضر نہ ہونے کی وجہ سے جماعت کا ثواب بھی حاصل ہو، تو اس کا جواب نفی میں آیا امام نووی نے فرمایا اس گفتگو سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ عذر کی بنا پر حاضری جماعت کے سقوط پرتمام اُمت مسلمہ کا اتفاق ہے اور اس کی دلیل سنت سے وہ حدیث ہے جو حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس بارے میں مروی ہے، الخ(ت)
(۱؎ شرح مسلم للنووی مع مسلم        باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ     مطبوعہ نورمحمد اصح المطابع کراچی    ۱ /۲۳۲)
اقول وقد علمت مافی ھذا التائید فان الشان فی ثبوت الحرج لہ رضی اللہ تعالٰی عنہ و لعل عتبان کان ممن یتحرج بالمشی وحدہ دون ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالٰی عنھما، ثم ان الامام النووی استشعر ورود قولہ صلی اللہ علیہ وسلم فاجب فاجاب باحتمام انہ بوحی نزل فی الحال وباحتمال تغیر اجتھادہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وبان الترخیص کان بمعنی عدم الوجوب وقولہ فاجب ندب الی الافضل۔
اقول(میں کہتاہوں) اس تائید میں جوکچھ ہے وہ آپ جان چکے کہ یہ اس صورت میں ہے جب ابن مکتوم کے لئے حرج ثابت ہو، شاید حضرت عتبان رضی اللہ تعالٰی عنہ ان لوگوں میں سے ہوں جن کو تنہا چلنا دشوار ہو بخلاف ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ان کے لئے ایسا معاملہ نہ تھا، پھر امام نووی نے حضور علیہ السلام کے ارشاد ''فاجب'' کے ورود سے یہ بات سمجھی تو جواب احتمال سے دیا کہ ممکن ہے یہ حکم اسی حال میں وحی نازل ہونے کے ساتھ دیا اور بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اجتہاد میں تبدیلی ہوئی ہو، یہ بھی ہوسکتاہے کہ رخصت بمعنی عدم وجوب ہو اور آپ کا ارشاد فاجب افضل کی طرف متوجہ کررہاہو۔
اقول:اماالاولان فتسلیم للقول واماحمل فاجب علی الندب فخلاف الظاھرلاسیما مع بنائہ علی سماع الاذان فان الندب حاصل مطلقا فافھم واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
اقول (میں کہتاہوں) پہلے دونوں احتمال قول کی وجہ سے تسلیم مگر فاجب کو ندب پرمحمول کرنا خلاف ظاہر خصوصاً جب اس کی بنا اذان کے سماع پر ہو کیونکہ ندب توہرحال میں حاصل تھا، فافہم واللّٰہ تعالٰی اعلم(ت)

رابعا سب سے قطع نظر کیجئے تو پاؤں کا عذر عذر فی الحضور ہے نہ عذرللحاضر کالمطروالطین وامثالہما بلکہ وجہ اولاً وہی اتیان جماعت بے اذان کہ درباب استنان موکد اذان اگرچہ مواہب الرحمان و مراقی الفلاح و ردالمحتار کے اطلاقات بہت وسیع ہیں
ویعارضہا کثیر من روایات المبسوط والمحیط والخانیۃ والخلاصۃ والبزازیۃ والھندیۃ وغیرھا من المعتبرات حتی نفس ردالمحتار ومشروحہ الدرالمختار کمابیناہ فیما علقناہ علی ھامشہ۔
مبسوط، محیط، خانیہ، خلاصہ، بزازیہ، ہندیہ اور دیگر معتبر کتب کی اکثرروایات اس کے معارض ہیں حتی کہ خود ردالمحتار اور اس کا متن درمختار میں بھی معارض ہیں جیسا کہ ہم نے اس کے حاشیہ میں بیان کیاہے۔(ت)
مگر اس قدر بلاشبہہ ثا بت کہ نماز پنجگانہ (عــہ۱) سے جونماز وقتی رجال احرار غیرعُراۃ مسجد میں باجماعت اداکریں اس کے لئے سوا بعض صور مستثناۃ(عــہ۲)کے وقت میں اذان کا پہلے ہولینا سنت مؤکدہ قریب بواجب ہے اور بے اس کےجماعت کرلینا مکروہ وگناہ یہاں تک کہ یہ جماعت شرعاً اصلاً معتبر نہیں اس کے بعد جو جماعت باذان واقامت ہوگی وہی پہلی جماعت ہوگی، بلکہ علماء فرماتے ہیں اگر کچھ لوگوں نے آہستہ اذان دے کر جماعت کرلی کہ آوازِ اذان اوروں کو نہ پہنچی تو ایسی جماعت بھی داخل شمار واعتبار نہیں نہ کہ جب سرے سے اذان دی ہی نہ جائے،
(عــہ۱) دخلت الجمعۃ وخرجت صلٰوۃ العیدین والکسوف والجنازۃ والاستسقاء وغیرھا والفوائت وجماعۃ النساء والصبیان و العبید والعراۃ وجماعۃ البیوت والصحراء ومستندکل ذلک مذکور فیما علقناہ علی ردالمحتار ۲منہ غفرلہ (م )
اس میں جمعہ داخل اور عیدین، کسوف ، جنازہ اور استسقاء وغیرہ اور قضا اور جماعت خواتین، بچوں، غلاموں، ننگوں اور گھریلو جماعت اور جنگل کی جماعت اس سے خارج ہے اور ہرایک پردلیل ہم نے اپنے حاشیہ ردالمحتار میں تحریر کی ہے ۱۲منہ غفرلہ (ت)
(عــہ۲)مثلاً جمعہ کے دن شہر یا قصبہ میں جو معذور ظہرپڑھیں انہیں اذان کی اجازت نہیں اگرچہ جماعت کریں کہ انہیں جماعت کرنابھی جائز نہیں، موسم حج میں عصر، عرفہ وعشائے مزدلفہ کے لئے تکبیرہوتی ہے نہ اذان
کما فی الھندیۃ عن الخانیۃ ولاحاجۃ ھھنا الٰی استثناء فوائت تودی فی المسجد کما فعل الشامی ولاماوراء اول فوائت ولوادیت فی غیرالمسجد کمازدناہ علیہ لان الکلام ھھنا فی الاداء ۱۲منہ غفرلہ (م)
ہندیہ میں خانیہ کے حوالے سے یوں ہی ہے اور ان فوت شدہ نمازوں کے استثناء کی ضرورت نہیں جو مسجد میں ادا کی جائیں جیسا کہ شامی نے کیاہے اور نہ ہی ماورائے اول کے فوت شدہ کااستثناء ضروری ہے اگرچہ وہ غیر مسجد میں ادا کی جائیں جیسا کہ ہم نے اس پر اضافہ کیاہے کیونکہ یہاں گفتگو ادا میں ہورہی ہے۔(ت)
وجیز امام کروری میں ہے:
ویکرہ للرجال اداء الصلٰوۃ بجماعۃ فی مسجد بلااعلامین لا فی المفازۃ والکروم والبیوت۱؎ الخ
مردوں کے لئے مسجد میں فرائض کی جماعت اذان و اقامت کے بغیر مکروہ ہے، جنگل، گھنے باغوں اور گھروں میں مکروہ نہیں الخ (ت)
(۱؎ فتاوٰی بزازیہ علی حاشیہ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الصلوٰۃ فصل الاول فی الاذان    مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۲۴)
اقول:قولہ بلااعلامین ای بدون الجمع بینھما فنافی الکراھۃ ھوالایتان بھما لاباحدھما بدلیل قولہ لا

فی المفازۃ الخ فان ترک اعلام الشروع مکروہ مطلقا ولوفی المفازۃ وقد نص علی الاساءۃ فی ترکہما۔
اقول (میں کہتاہوں) اس کا قول ''بلااعلامین'' یعنی اذان واقامت کو جمع کئے بغیر لہٰذا منافی کراہۃ دونوں کے ساتھ نماز باجماعت اداکرنا ہے نہ صرف ایک کے ساتھ اس کا قول لا فی المفازۃ الخ اس پر دلیل ہے کیونکہ جماعت کے ساتھ اذان کا ترک ہرحال میں مکروہ ہے خواہ جنگل میں ہو اور ان دونوں کے ترک پراساء ت کی تصریح ہے(ت)
درر و غرر علامہ مولی خسرو میں ہے:
(یأتی بھما) ای الاذان والاقامۃ (المسافر والمصلی فی المسجد جماعۃ و فی بیتہ بمصر وکرہ للاول) ای المسافر (ترکہا) ای الاقامۃ (وللثانی) ای للمصلی فی المسجد (ترکہ) ای الاذان (ایضا) ای کالاقامہ ۱؎۔
(ان دونوں کو بجالائے) یعنی اذان واقامت کے ساتھ (مسافر اور نمازی مسجد میں جماعت کے لئے اور شہر میں گھر پرنماز ادا کرنے والا،اور پہلے کے لئے مکروہ ہے) یعنی مسافر کے لئے (اس کا چھوڑنا) یعنی تکبیر کا( اور دوسرے کے لئے) یعنی مسجد میں نماز ادا کرنے والے کے لئے ( اس کا چھوڑنا) یعنی اذان کا (بھی) یعنی اقامت کی طرح مکروہ ہے۔(ت)
(۱؎ الدر الحکام فی شرح غررالاحکام    باب الاذان    مطبوعہ مطبع احمد کامل لاکائنہ فی دارالسعادت مصر    ۱ /۵۶)
Flag Counter