قال فی البحر الذی یظھر من کلام اھل المذہب ان الاثم منوط بترک الواجب اوالسنۃ المؤکدۃ علی الصحیح لتصریحھم بان من ترک سنن الصلوات لخمس قیل لایأثم والصحیح انہ یأثم وتصریحھم بالاثم لمن ترک الجماعۃ مع انھا سنۃ مؤکدۃ علی الصحیح۲؎۔ فقط
بحر میں ہے کہ اہل مذہب کے کلام سے یہ ظاہر ہورہاہے کہ صحیح مذہب پرگناہ تب ہوگا جب ترک واجب یاترک سنت سنت مؤکدہ ہو کیونکہ علماء کی تصریح ہے جو شخص صلوات خمسہ کی سنن ترک کردے ایک قول کے مطابق گنہگار نہ ہوگا اور صحیح یہ ہے کہ گنہگار ہوگا اور اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ جماعت کا ترک گناہ ہے حالانکہ وہ صحیح قول کے مطابق سنت مؤکدہ ہے۔(ت)
جواب سوال سوم: بہتر یہ ہے کہ بخوف فوت تہجد کے اس قدر قیلولہ نہ کرے کہ جوموجب ترک فضیلت جماعت اولٰی کاہووے ولہٰذا اگر کرے توجائز ہے بشرطیکہ جماعت ترک نہ ہوجائے کہ جماعت ثانیہ ہووے اس لئے کہ ہمارے اساتذہ رحمہم اللہ تعالی کے نزدیک قول محقق یہی ہے کہ جماعت ثانیہ بلاکراہت درست ہے اور مساوی ہے ثواب میں نفس جماعت اولٰی کے، اور جماعت اولٰی، اولٰی ہے، چنانچہ میرے استاد کامل ومحدث والد ماجد قدس سرہ، کااثبات جماعت ثانیہ کے بارہ میں ایک رسالہ مبسوط ہے من شاء فلیطلع علیھا (جوشخص تفصیل چاہے اس کا مطالعہ کرے۔ت) بناء ً علیہ واسطے ادائے نماز تہجد کے کہ اعلٰی درجہ کی مستحب ہے اس قدر قیلولہ کرنا کہ جس سے جماعت اولٰی ترک ہوجائے نہ مطلق جماعت بلاشبہ جائز ہے اس لئے کہ فضیلت جماعت کی مساوی فضیلت تہجد کے نہیں ہے بلکہ کمتر ہے من شاء فلیطالع الاحادیث المرویۃ فی ھذاالباب من الصحاح والحسان (جوشخص تفصیل چاہتا ہے وہ ان احادیث صحیحہ اور حسان کامطالعہ کرے جو اس مسئلہ کے بارے میں مروی ہیں۔ت) فقط۔
جواب سوال چہارم: بحالت عذرشرعی کے بھی قبل اذان کے مسجد میں جماعت کرنااشخاص مندرجہ سوال کا درست نہیں مکروہ ہے البتہ بعد اذان کے درست ہے
واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب والیہ المرجع والماب فقط حررہ العبد المفتقر الی اللّٰہ الغنی محمد قاسم علی عفی عنہ
7_2.jpg
الجواب
اللھم ھدایۃ الحق والصواب
(اے اللہ! حق اور صواب کی ہدایت عطافرما)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیمo الحمدللّٰہ الذی یدہ علی الجماعۃ والصلٰوۃ والسلام علی صاحب الشفاعۃ واٰلہٖ وصحبہ اولی البراعۃ وسائر اھل السنۃ والجماعۃ۔
شروع اللہ کے نام سے جونہایت رحمت والا اور مہربان ہے، تمام تعریف اللہ تعالٰی کے لئے جس کامبارک ہاتھ جماعت پرہے اور صلوٰۃ وسلام اس ذات اقدس پر ہو جو صاحب شفاعت ہے اور آپ کی آل اور اصحاب پر جو صاحب فضیلت ہیں، اور تمام اہل سنت وجماعت پر۔(ت)
جواب سوال اوّل وچہارم:ہاں فعل مذکور مکروہ ومحظور ہے نہ اس وجہ سے کہ معذور سے جماعت ساقط یااسے بے جماعت ثواب ثابت کہ:اولاً ساقط وجوب ہے نہ جواز بلکہ جماعت افضل اورعزیمت،
ردالمحتارمیں ہے کہ ماتن کاقول من غیرحرج قید ہے اس بات کی کہ جماعت سنت مؤکدہ یاواجب ہے اور حرج کی وجہ سے گناہ ختم، اور جماعت کے ترک میں رخصت ہوگی البتہ وہ افضل کو فوت کردے گاالخ(ت)
(۱؎ ردالمحتار مطلب فی تکرار الجماعۃ فی المسجد مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۱۰)
ثانیاً نہ بے جماعت ثواب مانع جماعت فشتان مابین الحکم والحقیقۃ (حکم اورحقیقت میں نہایت ہی فرق ہے ۔ ت) سورئہ اخلاص ثلث قرآن عظیم کے برابر ہے کیا تین بار اسے پڑھنے والا ختم قرآن سے ممنوع ہوگا(نماز مع) جماعت عشاء قیام نصف شب اور مع جماعت فجر قیام تمام لیل کے مساوی ہے کیا یہ نمازیں جماعت سے پڑھنے والا احیائے لیل سے بازرکھاجائے گا، شرع میں اس کی نظائر ہزاردوہزار ہیں۔
فی الحدیث المتواتر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قل ھواللّٰہ احد تعدل ثلث القرآن ۱؎
نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے متواتر روایت میں ہے سورہ اخلاص ''قل ھواللّٰہ احد'' کی تلاوت قرآن کی تہائی کے برابر ہے۔
(۱؎ صحیح البخاری باب فضل قل ھواللّٰہ احد مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷۵۰)
اخرجہ مالک واحمدوالبخاری وابوداؤد ونسائی عن ابی سعید الخدری و البخاری عن قتادۃ بن النعمان و احمد ومسلم عن ابی الدرداء ومالک واحمد ومسلم والترمذی والنسائی وابن ماجۃ و الحاکم عن ابی ہریرۃ واحمد والترمذی وحسنہ والنسائی عن ابی ھریرۃ واحمد والترمذی وحسنہ والنسائی عن ابی ایوب الانصاری واحمد والنسائی والضیاء فی المختارۃ عن ابی بن کعب والترمذی وحسنہ عن انس بن مالک واحمد وابن ماجۃ عن ابی مسعود البدری،وفی الباب عن (عـہ۱)عبداللّٰہ بن مسعود وعبداللّٰہ (عـہ۲)بن عمروومعاذ(عـہ۳) بن جبل وجابر(عـہ۴) بن عبداللہ وعبداللہ (عـہ۵) بن عباس وام(عـہ۶) کلثوم بنت عقبۃ وغیرھم (عـہ۷)رضی اللہ تعالٰی عنہم، مالک واحمد ومسلم عن امیر المؤمنین عثمٰن الغنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من صلی العشاء فی جماعۃ فکانما قام نصف اللیل ومن صلی الصبح فی جماعۃ فکانما صلی اللیل کلہ ۱؎۔
اسے امام مالک، احمد، بخاری، ابوداؤد اور نسائی نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے؛ بخاری نے قتادہ بن نعمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے؛ مالک، احمد، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے؛ احمد و ترمذی اور انہوں نے اس روایت کو حسن قراردیا؛ اور نسائی نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے؛ احمد، نسائی اور ضیاء مقدسی نے مختارہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے؛ ترمذی نے اسے حسن قراردیتے ہوئے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے؛ احمد اور ابن ماجہ نے حضرت ابومسعود بدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمرو، معاذبن جبل ، جابر بن عبداللہ، عبداللہ بن عباس،ام کلثوم بنت عقبہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے بھی روایات مروی ہیں۔ مالک، احمد اور مسلم نے امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز عشاء جماعت کے ساتھ اداکی گویا اس نے نصف رات قیام کیا اور جس نے صبح کی نماز باجماعت پڑھی گویا اس نے تمام رات قیام کیا(ت)
(عــہ۱ رواہ عنہ الطبرانی فی الکبیر ۱۲ منہ
(اس کو ان سے طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیاہے۔ت)
اس کو طبرانی نے معجم کبیر میں اور حاکم نے اور ابونعیم نے حلیہ میں روایت کیاہے۔(ت)
عــہ۳ الطبرانی فی الکبیر ۱۲منہ
(اس کوطبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیاہے۔ت)
عــہ۴ البزار۱۲ منہ
(اس کو بزار نے روایت کیاہے۔ت)
عــہ۵ ابوعبیدہ ۱۲منہ
(اس کو ابوعبیدہ نے روایت کیاہے۔ت)
عــہ۶ الامام احمد ۱۲منہ
(اس کو امام احمد نے روایت کیاہے۔ت)
عــہ۷ رواہ البیھقی فی السنن عن رجاء الغنوی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فھؤلاء خمسۃ عشر صحابیا ۱۲منہ
اس کو بہیقی نے سنن کبرٰی میں رجاء غنوی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے یہ پندرہ کے پندرہ صحابی ہیں(لہٰذا حدیث متواتر ہوئی) ۱۲منہ غفرلہ
(۱؎ صحیح مسلم باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ الخ مطبوعہ نورمحمد اصح المطابع کراچی ۱ /۲۳۲)
ثالثا نہ ایسی حالت میں بے ادائے جماعت ثواب جماعت ملنا ثابت۔
قال المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر و العلامۃ ابراھیم الحلبی فی الغنیۃ فی مسألۃ الاعمی وقول النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لہ مااجدلک رخصۃ معناہ لااجد لک رخصۃ تحصل لک فضیلۃ الجماعۃ من غیرحضورھا لاالایجاب علی الاعمی لانہ علیہ الصلٰوۃ والسلام رخص لعتبان بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ علی مافی الصحیحین۲؎۔
محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں اور علامہ ابراہیم حلبی نے غنیہ میں مسئلہ اعمی کے تحت یہ لکھاہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کانابینا کوفرمانا کہ ''میں تیرے لئے رخصت نہیں پاتا'' اس کامعنی یہ ہے کہ میں تیرے لئے جماعت کی فضیلت وثواب بغیرحاضری جماعت کے نہیں پاتا اس کایہ معنی نہیں کہ آپ نے حاضری جماعت کے نابینا پرلازم فرمائی کیونکہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے دوسرے صحابی عتبان بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اسی عذر کی بنا پر جماعت سے رخصت عنایت فرمائی ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں موجود ہے(ت)
(۲؎ غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی فصل فی الامامۃ مطبوعہ سہیل اکیڈمی ص۵۱۰)
تنبیہ: اقول استشھادنا انما ھو بھما افادامن عدم حصول الفضیلۃ ولوللمعذور بدون الحضور وفیہ ایضا تفصیل یعلم بالرجوع الی المراقی وغیرھا اماکون معی الحدیث ھذا فعندی محل نظر یعرفہ من جمع طرق الحدیث ففی صحیح مسلم عن ابی ھریرۃ قال اتی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم رجل اعمی فقال یارسول اللّٰہ انہ لیس لی قائدیقودنی الی المسجد فسأل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ان یرخص لہ فیصلی فی بیتہ فرخص فلما ولی دعاہ فقال ھل تسمع النداء بالصلاۃ فقال نعم قال فاجب۱؎
تنبیہ اقول (میں کہتاہوں) ہمارااستشہاد ودلیل ان دونوں بزرگوں کے اس افادہ سے ہے کہ فضیلت جماعت حاضری کے بغیر حاصل نہ ہوگی خواہ وہ شخص معذور ہی کیوں نہ ہو، اور اس میں بھی تفصیل ہے جس کے جاننے کیلئے مراقی وغیرہ کی طرف رجوع ضروری ہے، باقی حدیث کایہ معنی کرنا میرے نزدیک محل نظر ہے جس کی معرفت حدیث کے طرق کو جمع کرنے سے ہوگی۔ تو صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک نابینا شخص آیا اور عرض کیا یارسول اللہ ! مجھے کوئی مسجد میں لانے والانہیں، انہوں نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے چاہا کہ آپ اسے اس بات کی اجازت دے دیں کہ وہ گھر میں نماز ادا کرلے، آپ نے اجازت مرحمت فرمائی، جب وہ لوٹے تو آپ نے دوبارہ بلایا اور پوچھا: کیا تم نماز کی اذان سنتے ہو؟ عرض کیا: ہاں۔ فرمایا: اس کا جواب دو(یعنی باجماعت نماز پڑھو)
(۱؎ صحیح مسلم باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ الخ مطبوعہ نورمحمد اصح المطابع کراچی ۱ /۲۳۲)
9واخرجہ السراج فی مسندہ مبینافقال اتی ابن ام مکتوم الاعمی۲؎ الحدیث وعند الحاکم عن ابن ام مکتوم قلت یارسول اللّٰہ ان المدینۃ کثیرۃ الھوام والسباع قال اتسمع حی علی الصلٰوۃ حی علی الفلاح قال نعم فحی ھلا ۳؎
اور اسے سراج نے مسند میں تفصیلاً بیان کرتے ہوئے اس صحابی کا نام لیا کہ آپ کی خدمت میں حضرت ابن ام مکتوم نابیناصحابی حاضر ہوئے الحدیث۔ حاکم روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، یارسول اللہ ! مدینہ طیبہ میں بہت سے کاٹنے والے کیڑے اور درندے ہیں، فرمایا: تم حی علی الصلٰوۃ حی علی الفلاح سنتے ہو؟ عرض کیا ہاں۔فرمایا: اس کی طرف آؤ۔
(۲؎ عمدۃ القاری شرح البخاری بحوالہ السراج فی مسندہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت ۵ /۱۶۳)
۳؎ المستدرک علی الصحیحین کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ دارالفکر بیروت ۱ /۲۴۷
وعند احمد وابن خزیمۃ والحاکم عنہ بسند جید ایسعنی ان اصلی فی بیتی قال اتسمع الاقامۃ قال نعم قال فأتھا۱؎ وفی اخری قال فاحضرھا۲؎ ولم یرخص لہ ۔
مسند احمد، ابن خزیمہ اور حاکم نے انہی سے سند جید کے ساتھ نقل کیاکہ میں نے عرض کیا کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں گھر میں نماز اداکرلوں ؟ فرمایا: کیا اقامت سنتے ہو؟ عرض کیا: ہاں۔فرمایا: اس کی طرف آؤ۔ دوسری روایت میں ہے: اس میں حاضری دو توآپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اسے رخصت نہ دی۔
(۱؎ مسند احمد بن حنبل حدیث عمر بن ام مکتوم رضی اللہ تعالٰی عنہ مطبوعہ دارالفکر بیروت ۳ /۴۲۳)
(۲؎ المستدرک علی الصحیحین کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ دارالفکر بیروت ۱ /۲۴۷)