(چارجوابوں کے مقابلہ میں پرویا ہواہار)
(مولوی اشرف علی تھانوی کے چار۴ فتووں کارَدِّ بلیغ)
مسئلہ ۸۶۲ : ازکان پور بازار میدہ دکان نوربخش ومحمد سلیم مرسلہ مولوی محمد شفیع الدین صاحب نگینوی تلمیذ مولوی احمدحسن صاحب کانپوری ۱۶صفر۱۳۱۲ھ
بخدمت مجمع کمالات عقلیہ ونقلیہ جناب احمد رضاخاں صاحب دامت افضالہم السلام علیکم، ایک استفتا خدمت شریف میں ارسال ہے پہلا جواب مولوی اشرف علی تھانوی نے لکھاتھا دوسرا جواب مولوی قاسم علی مرادآبادی نے لکھا ہے چونکہ دونوں جوابوں میں تخالف ہے لہٰذا ارسال خدمت شریف میں کیاگیاہے جوجواب صحیح ہو اس کومہرودستخط سے مزین فرمائیں، اگر دونوں جواب خلاف تحقیق ہیں توجناب علیحدہ جواب مع حوالہ کتب تحریر فرمائیں ماجوابکم ایھا العلماء رحمکم اللہ تعالٰی (اے علماء رحمکم اللہ تعالٰی ! تمہارا جواب اس سلسلہ میں کیاہے؟۔ت) ان مسئلوں میں کہ:
(۱) ایک شخص اپنے ایک پیر سے معذور ہے چونکہ اس کو شب کودوبارہ مسجد میں آنے سے تکلیف ہوتی ہے تو وہ شخص مسجد میں قبل اذان وجماعت کے اپنی نمازعشاء ہمراہ ایک شخص کے اقامت کہہ کرپڑھ لیتاہے پس شخص مذکور کوجماعت کاثواب ہوگا یانہ۔ اور جو جماعت مع اذان کے بعد کو ہوگی اس میں کچھ کراہت ہوگی یانہ؟
(۲) ہمراہ شخص مذکور کے جونماز پڑھتا ہے توبعد والی جماعت بسبب فوت ہونے تہجد کے ترک کرتاہے جائز ہے یانہ؟
(۳) ایک شخص ہمیشہ قیلولہ اس طرح کرتاہے کہ اس کی ظہر کی جماعت اولٰی ترک ہوجاتی ہے اور عذر اس کاخوف فوت تہجد ہے جائز ہے یانہ؟
(۴) چند شخصوں کوکوئی ضرورت درپیش ہے وہ چند شخص قبل اذان وجماعت اپنی نماز جماعت سے مسجد میں پڑھیں جائز ہے یانہ؟ بینوا توجروا
جواب کان پور
جواب سوال اول: نفس جماعت کاثواب ملے گا مگر جماعت اولٰی کی فضیلت سے محروم رہے گا،جماعت اولٰی وہی ہوگی جو اذان واقامت سے اس کے بعد ہوگی اور اس میں کچھ کراہت نہیں ہے۔
جواب سوال دوم: خوف فوت تہجد ترک جماعت اولٰی میں عذر نہیں ہے۔
جواب سوال سوم: یہ عذر ترک جماعت ظہر نہیں ہوسکتا۔
جواب سوال چہارم: ضرورت شدیدہ میں ترک جماعت اولٰی جائز ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
کتبہ محمد اشرف علی عفی عنہ
7_1.jpg
جوا ب مراد آباد
جواب سوال اول :کایہ ہے کہ شخص مندرجہ سوال کاجماعت کرنا مکروہ تحریمہ ہے ثواب جماعت اصلاً نہ ہوگا اس لئے کہ اولاً تومعذور ہے جماعت ساقط ہے بلکہ بلاجماعت امید حصول ثواب بوجہ معذوری کے ہے۔
کما فی الھندیۃ وتسقط الجماعۃ بالاعذار حتی لاتجب علی المریض والمقعد والزمن ومقطوع الید والرجل من خلاف والمفلوج الذی لایستطیع المشی و الشیخ الکبیر العاجز اوکان قیمالمریض اویخاف ضیاع مالہ۱؎ انتھی ملخصا۔
جیسا کہ ہندیہ میں ہے عذر کی وجہ سے جماعت ساقط ہوجاتی ہے حتی کہ مریض، بیٹھ کر چلنے والے، لُولے اور جس کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت کٹے ہوئے ہوں، ایسا فالج زدہ جوچلنے کی طاقت نہ رکھتاہو، نہایت ہی عاجز بوڑھا یاوہ شخص کسی بیمار کانگہبان ہو یااسے اپنے مال کے ضیاع کاخطرہ ہو مذکور سب افراد پر جماعت واجب نہیں ہے انتہی ملخصا(ت)
ومعھذا (اور اس کے باوجود۔ت) اس شخص کابغیر اذان وقامت کے جماعت کرنا علی الخصوص ایسے شخص کے ساتھ کہ وہ شرعاً معذورنہیں ہے موجب کراہت تحریمہ کاہے۔ چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں لکھا ہے:
ویکرہ اداء المکتوبۃ بالجماعۃ فی المسجد بغیراذان واقامۃ ۱؎۔
مسجد میں فرض نمازبغیر اذان وقامت باجماعت اداکرنامکروہ ہے۔(ت)
پس حصول ثواب نفس جماعت کہاں بلکہ بوجہ ترک سنّت مؤکدہ کے موجب معصیت ہے۔
کماقال العلامۃ الشامی صرح العلامۃ ابن نجیم فی رسالتہ المؤلفۃ فی بیان المعاصی بان کل مکروہ تحریما من الصغائر۳؎ وصرح ایضابانھم شرطوا لاسقاط العدالۃ بالصغیرۃ الادمان ۴؎علیھا۔
جیسا کہ علامہ شامی نے فرمایا علامہ ابن نجیم نے اپنے اس رسالہ میں جو انہوں نے بیان معاصی میں تحریر کیاہے فرمایا: ہرمکروہ تحریمی صغائر میں سے ہے، اور یہ بھی صریح کی ہے کہ اہل علم نے صغیرہ کے سبب اسقاط عدالت کے لئے اس پر ہمیشگی کوشرط قراردیاہے۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار مطلب لمکروہ تجزی من الصفائہ الخ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۳۳۷)
(۴؎ ردالمحتار مطلب لمکروہ تجزی من الصفائہ الخ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۳۳۷)
اور جوجماعت بعد کومع اذان ہوگی وہ بلاکراہت ہوگی کمامر (جیسا کہ گزرا۔ت) فقط
جواب سوال دویم: کایہ ہے کہ جواب سوال اول سے بخوبی مبرہن ہوگیا کہ شرعاً یہ جماعت مکروہ تحریمہ ہے پس دوسرے شخص کااس معذور کے ساتھ قبل اذان کے بخوف فوت نماز تہجد کے نماز پڑھنا ترک کرنا جماعت کاہے اور ترک جماعت کہ سنت مؤکدہ قریب واجب کے ہے واسطے ادائے صلوٰۃ تہجد کے کہ مستحب ہے درست نہیں اس واسطے کہ ترک سنت معصیت ہے برخلاف امرمندوب کہ وہ معصیت نہیں،درمختار میں لکھاہے:
ومن المندوبات رکعتا السفر والقدوم منہ وصلوۃ اللیل۱؎۔
سفر پرجانے اور اس سے واپسی پر دورکعت اور رات کی نماز مندوبات سے ہے۔(ت)