Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۷(کتاب الصلٰوۃ)
6 - 158
مسئلہ ۸۶۰ :ازکلکتہ دھرم تلہ نمبر ۶ مرسلہ جناب مرزاغلام قادربیگ صاحب    ۸ رمضان المبارک ۱۳۱۰ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وہ جماعت جوکراہت تحریمی پرمشتمل ہے جیسے پانچ چھ مقتدی امام کے برابر کھڑے ہیں یاامام کی آستین کہنیوں تک چڑھائی ہوئی ہیں یاوہ کلام مجید صحیح نہیں پڑھتااس میں شریک ہونا چاہئے یانہیں؟ بینوا توجرا
الجواب

    غلط خوانی امام اگرتاحدِّ فساد ہے جب توظاہر کہ اس جماعت میں شرکت نہ کی جائے کہ شرعاً وہ جماعت و نماز ہی نہیں اور اگر صرف اس قدر کہ مثلاً حرف صحیح توخوب اداکرلیتاہے مگرپورے اوصاف زائد مثل تفخیم وترقیق لام وراوغیرہما نہیں اداہوتے یااظہار واخفا یا مدوقصروتحقیق وتسہیل وغیرہا ان قواعد تجوید کی رعایت نہیں کرتا جن کی مراعات اگرچہ تجویداً واجب ہوفقہاً صحت نماز کے لئے کچھ ضرور نہیں توضرور شریک ہوکہ جماعت کاترک یا اس سے اعراض صرف اتنی بات پرہرگزروانہیں،یونہی اگرجماعت کراہت تحریم پرمشتمل ہو توشرکت نہ کرے فان سلب المفاسداھم من جلب المصالح (کیونکہ مفسدات کو ختم کرنا مصلحات کے حصول سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ت) اور اگر صرف کراہۃ تنزیہیہ ہو جیسے امامت فاسق غیرمعلن میں تو اگر دوسری جماعت پاکیزہ ملے اس میں بھی شرکت نہ چاہئے ورنہ شریک ہوجائے کہ ترک جماعت کراہت تنزیہی سے اشد ہے بخلاف کراہت تحریم کہ اس کامرتبہ قول سنیت جماعت پر ترک جماعت سے بدتر،اور مسلک معتمد یعنی وجوب جماعت پر ہمسر وبرابر ہے ،

فی حاشیۃ الحلبی ثم الشامی علی الدر، الجماعۃ واجبۃ فتقدم علی ترک کراھۃ التنزیہ۱؎۱ھ وفیہ فی المعراج قال اصحابنا لاینبغی ان یقتدی بالفاسق الا فی الجمعۃ لانہ فی غیرھا یجد اماماغیرہ ۱ھ قال فی الفتح وعلیہ فیکرہ فی الجمعۃ اذا تعددت اقامتھافی المصر علی قول محمد المفتی بہ لانہ بسبیل الی التحول۲؎۱ھ وفی الدر عن النھر عن المحیط صلی خلف فاسق او مبتدع نال فضل الجماعۃ۳؎۱ھ فی ردالمحتار افاد ان الصلاۃ خلفھمااولی من الانفراد۴؎۱ھ وفیہ لوانتظر امام مذھبہ بعیدا عن الصفوف لم یکن اعراضا عن الجماعۃ للعلم بانہ یرید جماعۃ اکمل من ھذہ الجماعۃ۵؎۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم
حاشیہ حلبی پھر شامی علی الدر میں ہے کہ جماعت واجب ہے پس یہ کراہت تنزیہی کے ترک پرمقدم ہوگی۱ھ اور اسی میں معراج کے حوالے سے ہے کہ ہمارے اصحاب احناف نے فرمایاہے کہ نماز جمعہ کے علاوہ کسی نماز میں فاسق کی اقتدا نہیں کرنی چاہئے کیونکہ غیرنمازجمعہ میں دوسرے امام کوپایاجاسکتاہے ۱ھ فرمایا: فتح میں ہے کہ اس دلیل کی بناء پرامام محمد کے مفتی بہ قول کے مطابق جمعہ میں بھی فاسق کی اقتدا مکروہ ہوگی جبکہ شہر میں متعدد جگہ پرجمعہ قائم ہوتا ہو کیونکہ اس صورت میں دوسری جگہ نمازجمعہ کامیسرآنا ممکن ہے۱ھ اور در میں نہر اور اس میں محیط کے حوالے سے ہے کہ فاسق اور بدعتی کے پیچھے نماز ادا کرنے سے جماعت کا ثواب مل جاتاہے۱ھ ردالمحتار میں ہے،اس سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ ان کے پیچھے نمازاداکرناتنہانماز اداکرنے سے اولٰی ہ۱ھ اور اسی میں ہے کہ اگر کوئی شخص صفوں سے دورکھڑے ہوکر اپنے ہم مذہب امام کاانتظار کرتاہے تویہ جماعت سے اعراض شمار نہیں ہوگا کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ وہ تو اس جماعت سے اعلٰی جماعت کے ارادے میں ہے۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم (ت)
 (۱؎ ردالمحتار    باب الامامۃ    مطلب فی الاقتداء بشافعی الخ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۱۶)

(۲؎ ردالمحتار    باب الامامۃ    مطلب فی تکرار الجماعۃ فی المسجد        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۱۴

(۳؎ درمختار    باب الامامۃ    باب الامامۃ             مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۸۳)

(۴؎ ردالمحتار    باب الامامۃ    مطلب البدعۃ خمسۃ اقسام        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۱۵)

(۵؎ ردالمحتار    باب الامامۃ    مطلب اذاصلی الشافعی قبل الحنفی الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۱۷)
مسئلہ ۸۶۱ :ازکلکتہ غلام قادربیگ صاحب    مرسلہ غلام قادربیگ صاحب     ۵رجب ۱۳۱۱ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اما م کے ساتھ ایک مقتدی برابرکھڑا ہے دوسرا اور آیا نہ وہ مقتدی اول پیچھے ہٹا نہ امام آگے بڑھا تو یہ اس مقتدی کونیت باندھ کرکھینچے یابے نیت باندھے؟ بینوا تؤجروا
الجواب

دونوں صورتیں جائز ہیں، فتح القدیر سے مستفاد کہ نیت باندھ کر کھینچنا اولٰی ہے، اور خلاصہ میں تصریح فرمائی کہ پہلے کھینچ کرنیت باندھنی مناسب ہے، بہرحال دونوں طریقے رواہیں، فتح کی عبارت یہ ہے:
لواقتدی واحد باخرفجاء ثالث یجذب المقتدی بعد التکبیر ولوجذبہ قبل التکبیر لایضرہ۱؎۔
اگر ایک آدمی نے دوسرے کی اقتدا کی کہ تیسرا آگیا تو وہ مقتدی کو تکبیر کے بعد کھینچے، اگر اس نے تکبیر سے پہلے ہی کھینچ لیا تو بھی کوئی حرج نہیں۔(ت)
 (۱؎ فتح القدیر        باب الامامۃ            مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۳۰۹)
خلاصہ کانص یہ ہے:
ینبغی ان یجذب احدا من الصف فی المسجد او فی الصحراء اولاثم یکبر۲؎۔
مناسب یہی ہے کہ وہ کسی ایک نمازی کوصف سے پہلے کھینچ لے خواہ مسجد ہو یا صحرا پھر تکبیر کہے۔(ت)
 (۲ ؎ خلاصۃ الفتاوٰی    جنس آخر مایتصل بصحۃ الاقتداء الخ    مطبوعہ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ            ۱ /۱۵۷)
مگریہاں واجب التنبیہ یہ بات کہ کھینچنا اسی کوچاہئے جو ذی علم ہو یعنی اس مسئلہ کی نیت سے آگاہ ہو ورنہ نہ کھینچے کہ مبادا وہ بسبب ناواقفی اپنی نمازفاسد کرلے، تحقیق منقح اس مسئلہ میں یہ ہے کہ نماز میں جس طرح اللہ اور اللہ کے رسول کے سوا دوسرے سے کلام کرنا مفسد ہے یونہی اللہ ورسول کے سواکسی کاکہنا ماننا (جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) پس اگر ایک شخص نے کسی نمازی کو پیچھے کھینچا یاآگے بڑھنے کوکہااور وہ اس کاحکم مان کرپیچھے ہٹا نمازجاتی رہی اگرچہ یہ حکم دینے والا نیت باندھ چکاہو اور اگر اس کے حکم سے کام نہ رکھابلکہ مسئلہ شرع کے لحاظ سے حرکت کی تونماز میں کچھ خلل نہیں اگرچہ اس کہنے والے نے نیت نہ باندھی ہو اس لئے بہتریہ ہے کہ اس کے کہتے ہی فوراًحرکت نہ کرے بلکہ ایک ذرہ تامل کرلے تاکہ بظاہر غیر کے حکم ماننے کی صورت بھی نہ رہے جب فرق صرف نیت کاہے اور زمانہ پرجہل غالب، توعجب نہیں کہ عوام اس فرق سے غافل ہوکربلاوجہ اپنی نماز خراب کرلیں، ولہٰذا علماء نے فرمایا: غیرذی علم کواصلاً نہ کھینچے اور یہاں ذی علم وہ جو اس مسئلہ اور نیت کے فرق سے آگاہ ہو،
درمختار میں ہے:
لوامتثل امرغیرہ فقیل لہ تقدم فتقدم فسدت بل یمکث ساعۃ ثم یتقدم برایہ قھستانی معزیا للزاھدی ۱؎ ملخصا۔
اگرنمازی کسی غیرکاحکم بجالایا مثلاً اسے کہاگیا آگے ہو جا وہ آگے ہوگیا تو نماز فاسد ہوجائے گی بلکہ وہ ایک گھڑی ٹھہرے اور پھر اپنی رائے سے آگے بڑھے قہستانی بحوالہ زاہدی ملخصا(ت)
 (۱؎ درمختار    باب مایفسد الصلوٰۃ الخ    مطبوعہ مبطع مجتبائی دہلی    ۱ /۸۹)
ردالمحتارمیں ہے:
فی المنح بعد ان ذکر لوجذبہ اٰخرفتاخر الاصح لاتفسد صلاتہ وفی القنیۃ قیل لمصل منفرد تقدم فتقدم بامرہ فسدت وعللہ فی شرح القدوری بانہ امتثال لغیر امراللّٰہ تعالٰی۱ھ کلام المصنف وذکر الشرنبلالی ان امتثالہ انما ھو لامر رسول اللّٰہ صی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فلایضراھ قال ط لو قیل بالتفصیل بین کونہ امتثل امر الشارع فلاتفسد وبین کونہ امتثل امر الداخل مراعاۃ لخاطرہ من غیرنظر لامرالشارع فتفسد لکان حسنا۲؎۱ھ مافی ردالمحتار ملتقطااقول وھذا التفصیل کما تری من الحسن بمکان بل ھوالمحل لکلمات العلماء وبہ یحصل التوفیق وباللّٰہ التوفیق۔
منح میں اس کے بعد ہے کہ اگر اس کوکسی دوسرے نے کھینچا اور وہ پیچھے ہوگیا تواصح مذہب یہ ہے کہ اس کی نمازفاسد نہ ہوگی، اور قنیہ میں ہے منفرد (تنہا) نمازی کوکہاگیا آگے ہو اور وہ اس کے حکم کی بنا پر آگے ہوا تونماز فاسد ہوگی۔ شرح قدوری میں اس کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ غیراللہ کاحکم بجالاناہے ۱ھ کلام مصنف ختم ہوا، شرنبلالی نے فرمایا یہ بجاآوری رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حکم کی بناپرتھی لہٰذا نقصان دہ نہیں۱ھ طحطاوی نے فرمایا کہ اگر تفصیل بیان کی جائے درمیان اس کے کہ اگرشارع کاامرسمجھتے ہوئے بجالایا تونمازفاسد نہ ہوگی اور درمیان اس کے اگر داخل ہونے والے کے امر کی وجہ سے اس کے ارادے کی رعایت کرتے ہوئے بجالایا امرشارع کی طرف نظرکئے بغیر، تو نمازفاسد ہوگی، تو یہ (تفصیل بیان کرنا) بہترہوتا۱ھ یہ ردالمحتار کی گفتگو کاخلاصہ تھا، اقول (میں کہتاہوں) یہ تفصیل اس جگہ احسن ہی نہیں بلکہ کلمات علماء کامحل بھی ہے اور اس کے ساتھ ان کے کلام میں تطبیق بھی پیداہوجاتی ہے وباللّٰہ التوفیق (ت)
 (۲؎ ردالمحتار        باب الامامۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۲۲)
درمختارمیں ہے:
یجذب احد الکن قالوا فی زماننا ترکہ اولٰی ۱؎ ملخصا۔
کسی کوکھینچ لے، مگر ہمارے زمانے کے علماء نے فرمایانہ کھینچنا ہی بہترہے ملخصاً (ت)
 (۱؎ درمختار        باب مایفسد الصلوٰۃ الخ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱/۹۲)
خزائن الاسرار میں ہے:
ینبغی التفویض الی رأی المبتلی فان رأی عالما جذبہ۲؎۔
اس معاملہ کو مبتلا ہونے والے شخص پرچھوڑدیاجائے اگروہ محسوس کرتاہے کہ یہ آدمی مسئلہ جانتاہے تو اسے کھینچ لے(ت)
 (۲؎ ردالمحتاربحوالہ خزائن الاسرار    باب مایفسد الصلوٰۃ الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۷۸)
ردالمحتار میں ہے:
ھوتوفیق حسن اختارہ ابن وھبان فی شرح منظومتہ۳؎۔
یہ بہت اچھی تطبیق ہے اسے ابن وہبان نے اپنی شرح منظومہ میں اختیار کیاہے۔(ت)
 (۳؎ ردالمحتاربحوالہ خزائن الاسرار    باب مایفسد الصلوٰۃ الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۷۸)
رہا یہ کہ جب نہ مقتدی ہٹے نہ امام بڑھے نہ وہ ذی علم ہو کہ یہ کھینچ سکے یا مثلاً امام قعدہ اخیرہ میں ہو جہاں ان باتوں کامحل ہی نہیں تو ایسی صورت میں اس آنے والے کو کیاکرناچاہئے، اگرامام کے ساتھ ایک ہی مقتدی ہو اس کے بائیں ہاتھ پر یہ مل جائے کہ امام کے برابر دومقتدیوں کاہونا صرف خلاف اولٰی ہے۔
قال الشامی الظاھران ھذا اذا لم یکن فی القعدۃ الاخیرۃ والا اقتدی الثالث عن یسارالامام ولاتقدم ولاتاخر۴؎ ۔
امام شافعی نے فرمایا ظاہر یہ ہے کہ یہ اس وقت ہے جب وہ قعدہ اخیرہ میں نہ ہو ورنہ (یعنی اگر قعدہ اخیرہ میں ہو) توتیسرا شخص امام کے بائیں جانب اقتداء کرے، نہ آگے ہو اور نہ پیچھے۔(ت)
 (۴؎ ردالمحتار            باب الامامۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۲۰)
اور اگرپہلے سے دوہیں تو یہ پیچھے شامل ہوجائے کہ امام کے برابر تین مقتدیوں کاہونا مکروہ تحریمی ہے۔
فی الدر لوتوسط اثنین کرہ تنزیھا وتحریما لواکثر۵؎۔
در میں ہے اگر دوکے درمیان امام کھڑا ہوتویہ مکروہ تنزیہی ہے اور اگردو سے زیادہ کے درمیان ہو تو یہ مکروہ تحریمی ہے ۔ (ت)
 (۵؎ درمختار            باب الامامۃ        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۸۳)
مراقی الفلاح میں ہے:
جذب عالما بالحکم لایتاذی بہ والاقام وحدہ۱؎ ۱ھ
حکم مسئلہ سے آگاہ نمازی کوکھینچ لے تاکہ اسے پریشانی نہ ہور اور اگرامام صاحب علم نہیں توتنہا ہی کھڑاہوجائے۱ھ
 (۱؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی    فصل فی بیان احق بالامامۃ    مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۱۶۸)
قلت فارشد الی القیام وحدہ صوتا لصلوۃ غیرہ عن الفساد المحتمل فکیف اذا کان فیہ صون صلاۃ نفسہ وغیرہ جمعیا عن الخلل المتیقن الموجب للاعادۃ۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
قلت (میں کہتاہوں) جب اس کاتنہا کھڑاہونا اس لئے بہتر ہے تاکہ فساد محتمل سے دوسرے کی نماز بچائی جاسکے تو اس وقت تنہا کھڑاہونا کیوں نہ بہتر ہوگا جب اپنی اور دوسرے دونوں کی نماز ایسے خلل یقینی سے بچائی جارہی ہو جواعادہ کا موجب ہو۔ واللہ تعالٰی اعلم(ت)
Flag Counter