Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۷(کتاب الصلٰوۃ)
5 - 158
مسئلہ ۸۵۱ تا ۸۵۴: از سہسرام محلہ دائرہ ضلع آرہ مرسلہ حافظ عمرجلیل    ۱۶شوال ۱۳۳۳ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ہذا میں:

(۱) اگرکوئی نماز کسی وجہ سے دہرائی جائے تو وہ شخص کہ نماز مشکوکہ میں شریک نہیں تھا وہ جماعت ثانیہ میں شریک ہوسکتاہے یانہیں؟

(۲) امام فرض پڑھارہاہے ایک مقتدی دوسری یاتیسری رکعت میں ملاتو اس کا جو فرض چھوٹ گیا ہے بآوازِ بلند پڑھے یاآہستہ؟

(۳) قضاعمری کو امام وداع جمعہ کو فجر سے عشاء تک بجہر پڑھادے تو سب کی عمربھر  کی قضاکیااداہوجائے گی؟

(۴)نمازجمعہ میں اگرکوئی شخص تشہد میں شریک ہو تو نماز ہوگی یانہیں؟ بینوا وتوجروا
الجواب

(۱) نماز اگر ترک فرض کے سبب دہرائی جائے نیاشخص شریک ہوسکتاہے ورنہ نہیں۔

(۲) علماء تصریح فرماتے ہیں کہ مسبوق اپنی چھوٹی ہوئی رکعات میں منفرد ہے، اور تصریح فرماتے ہیں کہ منفرد کوجہری رکعتوں میں جہر جائز بلکہ افضل ہے مگراس میں یہ دقت ہے کہ منفرد کاجہر اور کے شامل ہونے کا داعی ہوگا اور یہ دعوت خیر ہے کہ دونوں کو جماعت مل جائے گی لیکن مسبوق کاجہر کہ ناواقف کو شرکت کی طرف داعی ہو، امر ناجائز کی طرف داعی ہوگا اور اس کا وہ عمل باطل ہوجائے گا لہٰذا یہ ہی اصوب معلوم ہوتاہے کہ وہ جہرنہ کرے۔

(۳) یہ قضا عمری کی جماعت جاہلوں کی ایجاد اور محض ناجائز وباطل ہے۔

(۴) اسلام سے پہلے جوشریک ہوگیا اسے جمعہ مل گیا ۔ واللہ سبحانہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۸۵۵ :کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگرمقتدی ابھی التحیات پوری نہ کرنے پایاتھا کہ امام کھڑاہوگیایاسلام پھیردیا تومقتدی التحیات پوری کرلے یا اتنی ہی پڑھ کر چھوڑدے؟ بینوا وتوجروا
الجواب

    ہرصورت میں پوری کرلے اگرچہ اس میں کتنی ہی دیرہوجائے لان التشھد واجب والواجب لایترک لسنۃ والمسئلۃ منصوص علیھا فی الخانیۃ وغیرھا فی کتب العلماء (تشہد واجب ہے اور واجب کو کسی سنت کی وجہ سے ترک نہیں کیاجاسکتا اس مسئلہ پرخانیہ اور دیگر علماء کی کتب میں نص موجود ہے۔ت)

واللّٰہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۸۵۶ تا۸۵۷ :از فیض آباد مرسلہ منشی احمدحسین صاحب خرسند نقشہ نویس اسسٹنٹ انجینئر ریلوے ۲جمادی الاخری ۱۳۲۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین ومفتیان شرع مبین اس مسئلہ میں کہ:
 (۱) زید مسجد یا خلاف آں نماز فرض پڑھارہا ہے اور اس کی پہلی رکعت ہے یا کوئی اور رکعت، اور بکر تنہا یا دو شخص داخل ہوئے باوجود اطلاع ہونے یا ہوجانے کے بکر تنہا یا دونوں شخصوں نے اسی مقام پر اور اسی صف پرعلیحدہ فرض پڑھے اور زید کے مقتدی نہ بنے، کیاحکم ہے ان کی نماز کا؟ یا پہلے ان کو اطلاع نہ تھی نیت باندھنے کے بعد رابع نے بآواز بلند کہہ دیا، اب کیاحکم ہے بکر کی نماز کا ، آیا وہ نماز درست ہوئی؟ اگرنہیں تو اطلاع پانے تک جس قدرہوچکی ہے وہیں سے ترک کردے یا پوری کرکے وہ نماز اعادہ کرے؟ مفصل فرمائیے۔
 (۲) اگرہیجڑا یاعورت یانابالغ یاشیعہ جن کی امامت بالاتفاق ناجائز ہے نماز فرض پڑھ رہاہے مسجد میں یا باہر، اور زید بھی نماز فرض پڑھناچاہتاہے آیا اسی مصلے پرنماز پڑھ سکتاہے یانہ؟ کیا اس شخص کی نماز ختم ہونے تک زیدکو انتظار لازم ہے؟ بینوا وتوجروا۔
الجواب

(۱) اگر زید قابل امامت تھا اور انہیں معلوم تھاکہ یہ فرض پڑھ رہاہے اور انہوں نے اقتدانہ کی بلکہ جدا جدا فرض پڑھے تواگرجماعت اولٰی ہوچکی ہے جب توفضل سے محروم رہے اور اگریہی جماعت اولٰی ہوئی توگنہگار ہوئے اور اگرزید قابل امامت نہیں اور ان دونوں میں کوئی قابل امامت تھا تو اب بھی وہی احکام ہیں،اوراگران میں بھی کوئی قابل امامت نہیں تو اصلاً حرج نہ ہوا اور نماز تینوں صورتوں میں مطلقاً ہوجائے گی او ر نیت توڑدیناصرف جماعت قائمہ کی تحصیل کے لئے ہے مثلاً ایک شخص نے ظہر کے فرض شروع کئے ایک رکعت یا اس سے کم پڑھنے پایاتھا کہ جماعت قائم ہوئی نیت توڑدے، باقی جماعت معدومہ کی تحصیل کے لئے نیت توڑنے کی کہیں اجازت نہیں۔

(۲) پڑھ سکتاہے اور ختم نماز تک انتظار کرنا کچھ ضرورنہیں۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم
مسئلہ۸۵۸ :از میرٹھ کمبوہ دروازہ کارخانہ داروغہ یادالٰہی صاحب مرسلہ جناب مرزا غلام قادربیگ صاحب ۱۲ رمضان ۱۳۰۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جماعت ثانیہ کی نسبت کیاحکم ہے؟ یہاں بعض لوگوں کو اس کی ممانعت میں تشدد ہے جماعت اولٰی کے بعد آٹھ آٹھ دس دس آدمی جمع ہوجاتے ہیں مگرجماعت نہیں کرتے برابر کھڑے ہوکر علیحدہ علیحدہ نماز پڑھتے ہیں یہ کیسا ہے؟ بینوا توجروا
الجواب

(۱) مسجد اگرشارع عام یا بازار کی ہے جس کے لئے اہل معین نہیں جب توبالاجماع اس میں تکرارجماعت باذان جدید وتکبیر جدید جائز بلکہ یہی شرعاً مطلوب ہے کہ نوبت بہ نوبت جولوگ آئیں نئی اذان واقامت سے جماعت کرتے جائیں۔

(۲) اور اگرمسجد محلہ ہے تو اگر اس کے غیراہل جماعت کر گئے ہیں تواہل محلہ کوتکرار جماعت بلاشبہ جائز۔

(۳) یااول اہل محلہ ہی نے جماعت کی مگربے اذان پڑھ گئے۔

(۴) یااذان آہستہ دی تو ان کے بعد آنے والے باذان جدید بروجہ سنت اعادہ جماعت کریں۔
 (۵) یااگرامام میں کسی نقص قرأت وغیرہ یافسق یامخالفت مذہب کے باعث جماعت اولٰی فاسد یا مطلقا مکروہہ یاباقی ماندہ لوگوں کے حق میں غیراکمل واقع ہوئی جب بھی انہیں اعادہ جماعت سے مانع نہیں۔

یہ سب صورتیں توقطعی یقینی ہیں اب رہی ایک صورت کہ مسجد مسجدِ محلہ ہے اور اس کے اہل بروجہ مسنون اذان دے کرامام نظیف موافق المذہب کے پیچھے جماعت کرچکے اب غیرلوگ یااہل محلہ ہی سے جوباقی رہ گئے تھے آئے، انہیں بھی اس مسجد میں جماعت ثانیہ جائز ہے یانہیں؟ یہ مسئلہ مختلف فیہا ہے ظاہرالروایہ سے حکم کراہت نقل کیاگیااور علامہ محقق اجل مولی خسرو نے درر و غرر اور مدقق اکمل علامہ محمد بن علی دمشقی حصکفی نے خزائن الاسرار میں فرمایا کہ اس کراہت کامحل صرف اس صورت میں ہے جب یہ لوگ باذان جدید جماعت ثانیہ کریں ورنہ بالاجماع مکروہ نہیں، اور اسی طرف درمختار میں اشارہ فرمایا اور ایسے ہی منبع وغیرہ میں تصریح کی، اور قول محقق منقح یہ ہے کہ اگریہ لوگ اذان جدید کے ساتھ اعادہ جماعت کریں تومکروہ تحریمی، ورنہ اگرمحراب نہ بدلیں تومکروہ تنزیہی ورنہ اصلا کسی طرح کی کراہت نہیں، یہی صحیح ہے اور یہی ماخوذ للفتوی، درمختار میں ہے:
یکرہ تکرار الجماعۃ باذان واقامۃ فی مسجد محلۃ لافی مسجد طریق او مسجد لاامام لہ ولامؤذن۱؎۔
محلہ کی مسجد میں اذان وتکبیر کے ساتھ جماعت کاتکرار مکروہ ہے البتہ راستہ کی مسجد اور ایسی مسجد میں مکروہ نہیں جہاں امام اور مؤذن نہ ہو۔(ت)
 (۱؎ درمختار     باب الامامۃ        مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱ /۸۲)
ردالمحتارمیں ہے:

عبارتہ فی الخزائن اجمع مماھنا ونصھا یکرہ تکرار الجماعۃ فی مسجد محلۃ باذان واقامۃ الااذاصلی بھما فیہ اولا غیراھلہ اواھلہ لکن بمخافتۃ الاذان ولوکرراھلہ بدونھمااوکان مسجد طریق جاز اجماعا کما فی مسجد لیس لہ امام ولامؤذن ویصلی الناس فیہ فوجا فوجا فان الافضل ان یصلی کل فریق باذان واقامۃ علیحدۃ کما فی امالی قاضی خاں ۱؎ ۱ھ ونحوہ فی الدرر والمراد بمسجد المحلۃ مالہ امام وجماعۃ معلومون کما فی الدرر وغیرھا قال فی المنبع والتقید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع وبالاذان الثانی احتراز عما اذ اصلی فی مسجد المحلۃ جماعۃ بغیراذان حیث یباح اجماعا۲؎ 

۱ھ
    اس کی عبارت خزائن میں یہاں سے زیادہ جامع ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں کہ مسجد محلہ میں جدید اذان واقامت کے ساتھ تکرار جماعت مکروہ ہے مگر اس صورت میں جب یہاں پہلے کسی غیراہل محلہ اذان واقامت کے بغیرتکرار جماعت کریں یامسجد راستہ کی ہو تو بالاتفاق جماعت جائز ہوگی جیسا کہ اس مسجد کاحکم ہے جس کا امام اور مؤذن مقرر نہیں اور لوگ گروہ درگروہ اس میں نماز اداکرتے ہوں، تویہاں افضل یہی ہے کہ ہرفریق علیحدہ اذان واقامت کے ساتھ نماز اداکرے جیسا کہ امالی قاضی خاں میں ہے ۱ھ اور اسی کی مثل درر میں ہے محلہ کی مسجد سے مراد وہ مسجد ہے جس کا امام اور جماعت معلوم ہو جیسا کہ درر وغیرہ میں ہے، منبع میں ہے مسجد کومحلہ کے ساتھ مقید کرنا شارع عام کی مسجد سے احتراز ہے اور اذان ثانی کے ساتھ مقید کرنا اس صورت سے احتراز ہے جب مسجد محلہ میں بغیراذان کے جماعت ہوگئی ہو کیونکہ اب بالاتفاق(تکرار جماعت)مباح ہے۱ھ
 (۱؎ ردالمحتار        باب الامامۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱ /۴۰۸)

(۲؎ ردالمحتار        باب الامامۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱ /۴۰۸)
ثم قال اعنی الشامی بعد مانقل الدلیل علی الکراھۃ،مقتضی ھذا الاستدلال کراھۃ التکرار فی مسجد المحلۃ ولو بدون اذان ویؤیدہ ما فی الظھیریۃ لودخل جماعۃ المسجد بعدماصلی فیہ اھلہ یصلون وحدانا وھوظاہر الروایۃ ۱ھ وھذا مخالف لحکایۃ الاجماع المارۃ ۱؎ الخ، وقال قبل ھذا فی باب الاذان بعد نقل عبارۃ الظہیریۃ،وفی آخر شرح المنیۃ وعن ابی حنیفۃ لوکانت الجماعۃ اکثر من ثلثۃ یکرہ التکرار والافلا وعن ابی یوسف اذالم تکن علی الھیأۃ الا ولی لاتکرہ والاتکرہ وھو الصحیح وبالعدول عن المحراب تختلف الھیأۃ کذا فی البزازیۃ ۱ھ وفی التاترخانیۃ عن الولوالجیۃ وبہ ناخذ۲؎۔
پھرکراہت پردلیل نقل کرنے کے بعد شامی نے فرمایا اس استدلال کاتقاضا یہ ہے کہ مسجد محلہ میں تکرار جماعت مکروہ ہے اگرچہ تکرار بغیراذان کے ہو اور اس کی تائید ظہیریہ کی یہ عبار ت بھی کرتی ہے کہ اگر کچھ لوگ مسجد میں اس وقت آئے جب اہل محلہ اس میں جماعت کرواچکے تھے تو وہ اکیلے اکیلے نماز اداکریں اور یہی ظاہر روایت ہے۱ھ اور یہ گزشتہ منقول اجماع کے مخالف ہے الخ اس سے پہلے باب الاذان میں عبارت ظہیریہ کے نقل کرنے کے بعد شامی نے کہا اور شرح منیہ کے آخر میں ہے اور امام ابوحنیفہ سے مروی ہے کہ اگر افراد جماعت تین سے زیادہ ہوں توتکرار مکروہ ہوگا ورنہ نہیں اور امام یوسف سے مروی ہے جب ہیئت اولٰی پرنہ ہو مکروہ نہیں ورنہ مکروہ، اور یہی صحیح ہے اور محراب سے اعراض کرلینے سے ہیئت مختلف ہوجاتی ہے، بزازیہ میں یونہی ہے۱ھ اور تاتارخانیہ میں ولوالجیہ کے حوالے سے ہے کہ ہم اس پرعامل ہیں۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    باب الامامۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۰۹)

(۲؎ ردالمحتارباب الاذان        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۲۹۱)
اسی میں ہے:
قد علمت ان الصحیح انہ لایکرہ تکرارالجماعۃ اذا لم تکن علی الھیأۃ الاولٰی۳؎۔
آپ جان چکے کہ صحیح یہی ہے کہ تکرار جماعت مکروہ نہیں جبکہ وہ ہیئت اولٰی پرنہ ہو۔(ت)
 (۳؎ ردالمحتارباب الاذان        مطبوعہ مصطفی البابی مصر     ۱ /۲۹۲)
بالجملہ جماعت ثانیہ جس طرح عامہ بلاد میں رائج ومعمول درر ومنبع و خزائن شروح معتمدہ کے طور پر تو بالاجماع اور عند التحقق قول صحیح مفتی بہ پربلاکراہت جائز ہے کہ دوسری جماعت والے تجدید اذان نہیں کرتے اور محراب سے ہٹ ہی کرکھڑے ہوتے ہیں اور ہم پرلازم کہ ائمہ فتوٰی جس امر کی ترجیح وتصحیح فرما گئے اس کا اتباع کریں۔
درمختارمیں ہے:
اما نحن فعلینا اتباع مارجحوہ وماصححوہ کما لوافتونافی حیاتھم۴؎۔
رہا ہمارامعاملہ تو ہم پراس قول کی اتباع لازم ہے جسے علماء نے ترجیح دی اور جس کی انہوں نے تصحیح فرمائی، جیسے اس صورت میں ہم پر ان کی پیروی لازم تھی کہ اگر وہ ہمارے زمانہ میں زندہ ہوتے اور فتوٰی دیتے۔(ت)
 (۴؎ درمختار    مقدمہ کتاب    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی            ۱ /۱۵)
پھر خلاف صحیح مذہب اختیار کرکے اسے ناجائز وممنوع بتانا اور اس کے سبب لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کوگنہگار ٹھہرانا محض بے جاہے۔
ثم اقول حال زمانہ کی رعایت اور مصلحت وقت کالحاظ بھی مفتی پرواجب ، علماء فرماتے ہیں:
من لم یعرف اھل زمانہ فھو جاھل۔
جوشخص اپنے دور کے لوگوں کے احوال سے آگاہ نہیں وہ جاہل ہے۔(ت)
اب دیکھئے کہ جماعت ثانیہ کی بندش میں کوشش وکاوش سے یہ تونہ ہوا کہ عوام جماعت اولٰی کاالتزام تام کرلیتے، رہا وہی کہ کچھ آئے کچھ نہ آئے، ہاں یہ ہوا کہ آٹھ آٹھ دس دس جورہ جاتے ہیں ایک مسجد میں ایک وقت میں اکیلے اکیلے نماز پڑھ کرناحق روافض سے مشابہت پاتے ہیں حضرات مجتہدین رضوان اللہ تعالٰی اجمعین کے زمانے میں ایسی ٫00٫مشابہت پیداہونا درکنار خود جماعت کی برکات عالیہ ظاہریہ وباطنیہ سے محروم رہنا ایک سخت تازیانہ تھا جس کے ڈر سے عوام خواہی نخواہی جماعت اولٰی کی کوشش کرتے، اب وہ خوف بالائے طاق اور اہتمام التزام معلوم، جماعت کی جوقدرے وقعت نگاہوں میں ہے کہ اگررہ گئے اور تنہا پڑھی ایک طرح کی خجلت وندامت ہوتی ہے جب بفتوٰی مفتیان یہی انداز رہے اور گروہ کے گروہ اکیلے اکیلے پڑھاکئے توایک تومرگ انبوہ جشنے دارد دوسرے شدہ شدہ عادت پڑجاتی ہے چندروز میں یہ رہی سہی وقعت بھی نظر سے گرجائے گی اور اس کے ساتھ ہی سستی و کاہلی اپنی نہایت پرآئے گی، اب تویہ خیال بھی ہوتاہے کہ خیراگرپہلی جماعت فوت ہوئی ایسی دیرتونہ کیجئے کہ اکیلے ہی رہ جائیں اور تنہا پڑھ کرمحرومی وندامت کاصدمہ اٹھائیں، جب یہ ہوگا کہ جماعت توآخر ہوچکی اول ہوچکی اب جماعت توملنے سے رہی اپنی اکیلی نماز ہے جب جی میں آیا پڑھ لیں گے یاپھر مسجد کی بھی کیاحاجت ہے لاؤ گھر ہی میں سہی، لہٰذا ائمہ فتوی رحمہم اللہ تبارک وتعالٰی کچھ سوچ سمجھ کرترجیح وتصحیح فرمایاکرتے ہیں من وتو سے ان کے علوم وسیعہ عقول رفیعہ لاکھوں درجے بلند وبالا ہیں روایت ودرایت ومصالح شریعت وزمانہ وحالت کوجیساوہ جانتے ہیں دوسراکیاجانے لگاپھر ان کے حضور دخل درمعقولات کیسا! فاللّٰہ الھادی وولی الایادی اس مسئلہ میں کلام طویل ہے اور عبد ذلیل پرفیض مولٰی عزیز وجلیل، اگرتفصیل کیجئے رسالہ مبسوط ہوتاہے لیکن     ع
درخانہ اگرکس است یکحرف بس است
(اگرخانہ عقل میں کچھ ہے تو اس کے لئے ایک حرف بھی کافی ہے)

تنبیہ: مگر یہ ان کے لئے ہے جواحیاناً کسی عذر کے باعث حاضری جماعت اولٰی سے محروم رہے نہ یہ کہ جماعت ثانیہ کے بھروسہ پرقصداً بلاعذر مقبول شرعی جماعت اولٰی ترک کریں یہ بلاشبہہ ناجائز ہے کماحققناہ فی فتاوٰنا (جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کی ہے۔ت) واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۸۵۹: ازوطن مرسلہ نواب مولوی سلطان احمدخاں صاحب سلمّہ اللہ تعالٰی۳ رمضان المبارک ۱۳۱۰ھ
چہ می فرمایند علمائے دین درین مسئلہ کہ دوجماعت دریک مسجد دریک وقت بلاعلمی پس نماز مصلین جماعت ثانیہ جائز است یانہ؟ بینوا توجروا
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بغیر علم ایک وقت میں ایک مسجد میں دوجماعت ہونا کیسا ہے؟ پھر دوسری جماعت کے نمازیوں کی نماز جائز ہے یانہیں؟ بیان کرو اجرپاؤ ۔ (ت)
الجواب

درجواز بمعنی صحت شک نیست اگرچہ باوصف علم باشد آرے بحال علم جواز بمعنی حل نیست مگرآنکہ امام اول ناشایان امامت باشد۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم
جواز بمعنی صحت میں کوئی شک نہیں( یعنی درست ہے) اگرچہ جماعت ثانیہ کاباوصف علم ہو البتہ باوصف علم جواز بمعنی حل لینا درست نہیں مگر اس صورت میں کہ امام اول امامت کے لائق نہ ہو۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم (ت)
Flag Counter