Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۷(کتاب الصلٰوۃ)
4 - 158
ثانیاً ہرصف میں اول سے آخر تک دوسری صف کے لئے صف کامل کی جگہ بچنا واجب ہے۔

ثالثاً کسی صف میں فرجہ رکھنا مکروہ تحریمی ہے، جب تک اگلی صف پوری نہ کرلیں صف دیگر ہرگزنہ باندھیں۔
رابعاً صورت مذکورئہ سوال دوکراہت تحریمی پرمشتمل ہے ایک ترک تقدم دوسری بقائے فرجہ۔
خامساً اکثرواقع ہوتاہے کہ امام کے ساتھ ایک مقتدی تھا دوسراآیا بائیں ہاتھ کوکھڑاہوگیا یہاں تک تو کراہت تنزیہی تھی لترک السنۃ پھر اور لوگ بھی آتے اور یونہی برابرکھڑے ہوجاتے ہیں نہ امام آگے بڑھتاہے نہ مقتدی پیچھے ہتے ہیں یہ صورت مکروہ تحریمی کی ہے کہ اگرچہ اکیلے مقتدی کے حق میں سنت یہ ہے کہ امام کے داہنی جانب بالکل اس کے محاذی کھڑاہونہ متاخر، اور یہ سنت عوام میں صدہاسال سے متروک ہے اکیلا بھی امام سے کچھ پیچھے ہٹ کر کھڑاہوتاہے۔ امام نسفی کافی شرح وافی میں فرماتے ہیں:
الواحد یقوم عن یمینہ ای ان کان مع الامام واحد وقف عن یمین الامام لانہ علیہ الصلٰوہ والسلام صلی بابن عباس فاقامہ عن یمینہ ولایتأخر عن الامام فی ظاھر الروایۃ، وعن محمد انہ یضع اصابعہ عند عقب الامام وھوالذی وقع عند العوام ۱؎ انتھی قلت وعوام زماننا قدتعدواحتی خرجوا عن روایۃ محمد ایضا کماھو مشاھد۔
اکیلا نمازی امام کی دائیں جانب کھڑا ہو یعنی اگر امام کے ساتھ ایک مقتدی ہو تو وہ امام کی دائیں جانب کھڑاہو کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس کو نماز پڑھائی تو ان کو آپ نے اپنی دائیں جانب کھڑاکیا اور ظاہر روایت کے مطابق وہ امام سے پیچھے کھڑا نہ ہو۔ امام محمد سے مروی ہے کہ مقتدی اپنے پاؤں کی انگلیاں امام کی ایڑی کے پاس رکھے اور عوام میں یہی طریقہ جاری ہے انتہی۔ میں کہتاہوں ہمارے دور کے لوگ تجاوز کرگئے ہیں حتی کہ وہ امام محمد سے مروی روایت سے بھی نکل گئے ہیں جیسا کہ مشاہدہ میں ہے۔(ت)
 (۱؎ کافی شرح وافی)
پھر جو بعد کوآئے وہ اس مقتدی کی محاذات میں کھڑے ہوں گے جس کے باعث امام کو قدرے تقدم رہے گا اس صورت میں وہ توسط جس کی نسبت درمختارمیں فرمایا:
لوتوسط اثنین کرہ تنزیھاوتحریما لواکثر۲؎۔
اگرامام دومقتدیوں کے درمیان کھڑا ہوا تو مکروہ تنزیہی ہے اور اگر دو سے زیادہ کے درمیان کھڑا ہوا تو مکروہ تحریمی ہے۔(ت)
 (۲؎ درمختار        باب الامامۃ        مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱ /۸۳)
اگرنہ بھی ماناجائے تاہم اس صورت میں کراہت تحریم ہی رہے گی کہ توسط نہ سہی فرجہ رکھنااور صف کامل کی جگہ نہ چھوڑنا خود موجب کراہت تحریمی ہے،یہ مسائل واجب الحفظ ہیں اکثر اہل زمانہ ان سے غافل
ولعلک لاتجد ھذا التحقیق الخطیر بھٰذا الایضاح والتقریر فی غیرھذا التحریر
(شاید ایسی بے مثال تحقیق اپنی وضاحت وتفصیل کے ساتھ اس تحریر کے علاوہ کہیں نہ ملے(ت) والحمدللّٰہ علی ماعلم اللّٰہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۸۵۰ :یکم جمادی الاخری ۱۳۰۹ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سمجھ وال لڑکا آٹھ نوبرس کاجونماز خوب جانتاہے اگرتنہا ہوتو آیا اسے یہ حکم ہے کہ صف سے دور کھڑا ہو یا صف میں بھی کھڑا ہوسکتاہے؟ بیّنوا توجروا۔
الجواب

صورت مستفسرہ میں اسے صف سے دوریعنی بیچ میں فاصلہ چھوڑکر کھڑاکرنا تو منع ہے
فان صلاۃ الصبی الممیز الذی یعقل الصلاۃ صحیحۃ قطعا،وقدامرالنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بسد الفرج والتراص فی الصفوف ونھی عن خلافہ بنھی شدید۔
کیونکہ وہ بچہ جوصاحب شعور ہو اور نماز کوجانتا ہو اس کی نماز بالیقین صحیح ہے اورنبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صف کے رخنہ کو پر کرنے اور اس میں مل کر کھڑے ہونے کاحکم دیاہے اوراس کے خلاف سے سخت منع فرمایا ہے۔(ت)
اور یہ بھی کوئی ضروری امرنہیں کہ وہ صف کے بائیں ہی ہاتھ کوکھڑاہو علماء اسے صف میں آنے اور مردوں کے درمیان کھڑے ہونے کی صاف اجازت دیتے ہیں۔ درمختارمیں ہے:
لوواحداً دخل فی الصف۱؎
 (اگر بچہ اکیلا ہو توصف میں داخل ہوجائے۔ت)
 (۱؎ درمختار            باب الامامۃ        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۸۴)
مراقی الفلاح میں ہے:
ان لم یکن جمع من الصبیان یقوم الصبی بین الرجال۲؎۔
اگربچے زیادہ نہ ہوں تو بچہ مردوں کے درمیان کھڑاہوجائے(ت)
 (۲؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی    فصل فی بیان احق بالامامۃ    مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۱۶۸)
بعض بے علم جو یہ ظلم کرتے ہیں کہ لڑکا پہلے سے داخل نماز ہے اب یہ آئے تواسے نیت بندھا ہواہٹاکر کنارے کردیتے اور خود بیچ میں کھڑے ہوجاتے ہیں یہ محض جہالت ہے، اسی طرح یہ خیال کہ لڑکا برابرکھڑا ہو تو مرد کی نماز نہ ہوگی غلط وخطا ہے جس کی کچھ اصل نہیں۔
فتح القدیرمیں ہے:
امامحاذاۃ الامرد فصرح الکل بعدم افسادہ الامن شذولامتمسک لہ فی الروایۃ کماصرحوابہ الروایۃ کما صرحوابہ ولافی الدرایۃ۱؎۔
بے ریش بچے کے محاذی ہونے پر تمام علماء نے تصریح کی ہے کہ نماز فاسد نہ ہوگی مگرشاذ طور پر کوئی فساد نماز کاقائل ہے اور اس کے لئے کوئی دلیل نہ روایت میں ہے جیسا کہ فقہا نے اس کی تصریح کی ہے اور نہ ہی درایت میں ہے۔(ت)واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
 (۱؎ فتح القدیر         باب الامامۃ        مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۳۱۲)
Flag Counter