یونہی اس رخنہ بندی کے لئے پچھلی صف کے نمازیوں کے آگے گزرنا جائز ہے کہ انہوں نے خود اس امرعظیم میں بے پروائی کرکے جس کا شرع میں اس درجہ اہتمام تھا اپنی حرمت ساقط کردی۔ قنیہ میں ہے:
قام فی اخرالصف فی المسجد وبینہ وبین الصفوف مواضع خالیۃ فللداخل ان یمربین یدیہ لیصل الصفوف لانہ اسقط حرمۃ نفسہ فلایاثم الماربین یدیہ۳؎۔
ایک آدمی آخری صف میں کھڑاہوگیا حالانکہ اس کے اور دوسری صفوں کے درمیان خالی جگہیں تھیں تو آنے والے نمازی کو اجازت ہے کہ وہ اس کے آگے سے گزرکر صف مکمل کرے کیونکہ آخر میں کھڑے ہونے والے نے اپنا احترام خود ختم کیا ہے لہٰذا اس کے سامنے سے گزرنے والا گنہگار نہیں ہوگا۔(ت)
(۳؎ القنیہ باب فی السترۃ مطبوعہ کلکۃ بھارت ص۳۹۸)
حدیث میں ہے:
من نظر الی فرجۃ فی صف فلیسدھا بنفسہ فان لم یفعل فمرمارفلیتخط علی رقبتہ فانہ لاحرمۃ لہ۴؎۔ اخرجہ الدیلمی عن ابن عباس رضی اللّٰ تعالٰی عنہما
یعنی جسے صف میں فرجہ نظرآئے وہ خود وہاں کھڑا ہوکر اسے بند کردے اگر اس نے نہ کیا اور دوسرا آیا تو وہ اس کی گردن پرقدم رکھ کر چلاجائے کہ اس کے لئےکوئی حرمت نہ رہی۔ اسے دیلمی نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیاہے۔
(۴؎ المعجم الکبیر مروی از ابن عباس حدیث ۱۱۱۸۴، اور ۱۱۲۱۴ مطبوعہ مکتبہ فیصلیہ بیروت ۱۱ /۱۰۵،۱۱۳)
ف: مسند الفردوس مجھے دستیاب نہیں اور ماثورالخطاب سے یہ حدیث نہیں مل سکی۔ نذیراحمد سعیدی
یونہی اگرصف دوم میں کوئی شخص نیت باندھ چکا اس کے بعد اسے صف اول کا رخنہ نظرآیا تو اجازت ہے کہ عین نماز کی حالت میں چلے اور جاکر فرجہ بند کردے کہ یہ مشی قلیل حکم شرع کے امتثال کوواقع ہوئی، ہاں دوصف کے فاصلہ سے نہ جائے کہ مشی کثیرہوجائے گی۔ علامہ ابن امیر الحاج حلیہ میں ذخیرہ سے ناقل:ان کان فی الصف الثانی فرأی فرجۃ فی الاول فمشی الیھا لم تفسد صلاتہ لانہ ماموربالمراصّۃ قال علیہ الصلاۃ والسلام تراصّوا فی الصّفوف ولوکان فی الصف الثالث تفسد۱؎۔
اگر کوئی آدمی دوسری صف میں کھڑاتھا کہ اس نے پہلی میں رخنہ دیکھا اور وہ اسے پر کرنے کے لئے چلا تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی کیونکہ نماز میں مل کر کھڑا ہونا حکم شرعی ہے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: صفوں میں خوب مل کر کھڑا ہواکرو۔ اور اگر نمازی تیسری صف میں تھا تو اب نماز فاسد ہوجائے گی۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار بحوالہ الحلیہ باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۲۱)
امر کے ساتھ علت بیان کرنابتارہاہے کہ اس نمازی سے رخنہ پرکرنے کامطالبہ ہے تامل۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار بحوالہ الحلیہ باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۲۱)
ثم اقول وباللّٰہ التوفیق یہ احکام فقہ وحدیث باعلٰی ندامنادی کہ وصل صفوف اور ان کی رخنہ بندی اہم ضروریات سے ہے اور ترک فرجہ ممنوع وناجائز، یہاں تک کہ اس کے دفع کو نمازی کے سامنے گزرجانے کی اجازت ہوئی جس کی بابت حدیثوں میں سخت نہی وارد تھی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لویعلم الماربین یدی المصلی ماذا علیہ لکان ان یقف اربعین خیرالہ من ان یمربین یدیہ۳؎۔
اگرنمازی کے سامنے گزرنے والا جانتاکہ اس پرکتنا گناہ ہے توچالیس برس کھڑارہنا اس گزرجانے سے اس کے حق میں بہترتھا۔
(۳؎ صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب اثم المار بین یدی المصلی مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۷۳)
اخرجہ الائمۃ احمد و الستۃ عن ابی جھیم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال الحافظ فی بلوغ المرام ووقع فی البزار من وجہ اٰخر اربعین خریفا ۱؎ قلت والاحادیث یفسر بعضھا بعضا۔
اسے امام احمد اور ائمہ ستّہ نے حضرت ابوجہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔حافظ نے بلوغ المرام میں کہا کہ مسند بزارمیں ایک اورسند سے مروی الفاظ یہ ہیں: چالیس سال، میں کہتاہوں احادیث آپس میں ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔
(۱1؎ بلوغ المرام مع مسک الختام باب سترۃ المصلی مطبوعہ مطبع نظامی کانپور(انڈیا) ۱ /۱۷۵)
اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
لویعلم احدکم مالہ فی ان یمربین یدی اخیہ معترضا فی الصلاۃ کان لان یقیم مائۃ عام مخیرلہ من الخطوۃ التی خطاھا۲؎۔ رواہ احمد وابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔
اگرتم میں سے کوئی جان لے کہ نمازی کے سامنے سے گزرنے پر کیاگناہ ہوتاہے تو وہ اس ایک قدم چلنے سے سوسال تک کھڑے رہنے کو بہتر سمجھے گا۔ اسے امام احمد اور ا بن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔(ت)
(۲؎ سنن ابن ماجہ باب المرور بین یدی المصلی مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ص۶۸)
اس میں سو برس کھڑا رہنا اس ایک قدم رکھنے سے بہترفرمایا۔
امام طحطاوی فرماتے ہیں: پہلے چالیس ارشاد ہوئے تھے پھر زیادہ تعظیم کے لئے سو۱۰۰ (سال) فرمائے گئے۔
تیسری حدیث میں ہے:
لویعلم المار بین یدی المصلی لاحب ان ینکسر فخذہ ولایمر بین یدیہ۳؎۔ رواہ ابوبکر بن ابی شیبۃ فی مصنفہ عن عبدالحمید بن عبدالرحمٰن منقطعا۔
اگرنمازی کے آگے گزرنے والا دانش رکھتا ہو توچاہتا اس کی ران ٹوٹ جائے مگرنمازی کے سامنے سے نہ گزرے۔ اسے ابوبکر بن ابی شیبہ نے مصنف میں شیخ عبدالحمید بن عبدالرحمن سے منقطع طور پر روایت کیاہے۔
(۳؎ مصنف ابن ابی شیبہ من کان یکرہ ان یمرالرجل الخ مطبوعہ ادارۃُ القرآن کراچی ۱ /۲۸۲)
چوتھی حدیث میں ارشاد فرمایا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
اذا صلی احدکم الی شیئ یستُرہ من الناس فاراد احد ان یجتاز بین یدیہ فلیدفعہ فان ابٰی فلیقاتلہ فانما ھو شیطان۴؎۔ اخرجہ
جب تم میں سے کوئی شخص سترہ کی طرف نماز پڑھتا ہو اور کوئی سامنے سے گزرنا چاہے تو اسے دفع کرے اگرنہ مانے تو اس سے قتال کرے کہ وہ شیطان ہے
(۴؎ صحیح البخاری باب لیردّ المصلی من مرّبین یدیہ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۷۳)
احمد والبخاری ومسلم وابوداؤد والنسائی عن ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔
اسے احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد اور نسائی نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔
ظاہر ہے کہ ایسا شدید امر جس پریہ تشدیدیں اور سخت تہدیدیں ہیں اسی وقت روارکھاگیاہے جب دوسرا اس سے زیادہ اشد اور افسد تھا کما لایخفٰی (جیسا کہ مخفی نہیں۔ت)
ایک دلیل اس وجوب اور فرجہ رکھنے کی کراہت تحریمی پریہ ہے۔
دلیل دوم احادیث کثیرہ میں صیغہ امر کا وارد ہونا
کما سمعت وما ترکت لیس باقل مما سردت
(جیسا کہ تونے سن لیا اور جن روایات کو میں نے ترک کردیا ہے وہ بیان کردہ سے کم نہیں ہیں۔ت) اس لئے ذخیرہ وحلیہ میں فرمایا:
انہ، مامور بالمر اصّۃ ۱؎ (کیونکہ مل کر کھڑے ہونے کا حکم ہے۔ت)
(۱؎ ردالمحتار بحوالہ حلیہ عن الذخیرۃ باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۲۱)
فتح القدیر و بحرالرائق وغیرہما میں فرمایا:
سدالفرجات المأمور بھا فی الصف۲؎ (صف کے درمیانی رخنہ کو پرکرنے کا حکم ہے۔ت)
اور اصول میں مبرہن ہوچکا ہے امر مفید وجوب ہے الا ان یصرف عنہ صارف (مگر اس صورت میں جب اس کے خلاف کوئی قرینہ ہو۔ت)
دلیل سوم علماء تصریح فرماتے ہیں کہ صف میں جگہ چھوٹی ہو تو اور مقام پرکھڑا ہونا مکروہ ہے۔
فی الخانیۃ والدرالمختار وغیرھما واللفظ للعلائی لوصلی علی رفوف المسجد ان وجد فی صحنہ مکانا کرہ کقیامہ فی صف خلف صف فیہ فرجۃ۳؎۔
خانیہ، درمختار اور دیگر کتب میں ہے علائی کے الفاط یہ ہیں اگر کسی نے رفوف مسجد میں نماز ادا کی حالانکہ صحن مسجد میں جگہ تھی تو مکروہ ہوگی جیسا کہ ایسی صف میں نماز پڑھنا مکروہ ہے جو ایسی صف کے پیچھے ہو جس میں رخنہ تھا۔(ت)
(۳؎ درمختار باب الامامۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱ /۸۴)
اور کراہت مطلقہ سے مراد کراہت تحریم ہوتی ہے،
الا اذا دل دلیل علی خلافہ کما نص علیہ فی الفتح والبحر وحواشی الدر وغیرھما من تصانیف الکرام الغر۔
مگر جب اس کے خلاف دلیل موجود ہو جیسا کہ فتح، بحر، حواشی دراور دیگرتصانیف علماء عظام میں تصریح ہے۔(ت)
دلیل چہارم احادیث سابقہ میں حدیث رابع کے وعید شدید من قطع صفا قطعہ اللّٰہ (جس نے صف قطع کی اللہ اسے قطع کرے گا۔ت) علامہ طحطاوی پھر علامہ شامی زیر عبارت مذکورہ درمختارفرماتے ہیں:
قولہ کقیامہ فی صف الخ ھل الکراھۃ فیہ تنزیھیۃ اوتحریمیۃ ویرشد الی الثانی قولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام من قطع صفا قطعہ اللّٰہ انتھی فافھم۱؎۔
قولہ جیسا کہ کھڑاہونا اس صف میں الخ اس میں کراہت تنزیہی ہے یاتحریمی؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد من قطع اللّٰہ الخ کراہت تحریمی کی طرف راہنمائی کرتاہے انتہی فافہم (ت)
(۱؎ ردالمحتار باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۲۱)
جب یہ امر واضح ہوگیا تو اب صورت مذکورئہ سوال میں دوسری وجہ کراہت تحریم کی اور ثابت ہوئی ظاہر ہے کہ جب امام صف اول میں صرف اس قدر فاصلہ قلیلہ چھوٹا تو بالیقین صف اول ناقص رہے گی اور امام کے پیچھے ایک آدمی کی جگہ چھوٹے گی وہ بھی ایسی جسے بوجہ تنگئی مقام کوئی بھر بھی نہ سکے گا تو یہ فعل ایک مکروہ تحریمی کو مستلزم ،اور جومکروہ تحریمی کو مستلزم ہو خود مکروہ تحریمی ہے، محقق علی الاطلاق فتح القدیر میں بعد عبارت منقولہ صدرِجواب کے فرماتے ہیں:
واستلزم ماذکر ان جماعۃ النساء تکرہ کراھۃ تحریم لان ملزوم متعلق الحکم اعنی الفعل المعین ملزوم لذلک الحکم ۲؎ انتھی
مذکورہ بات اس کو مستلزم ہے کہ خواتین کی جماعت مکروہ تحریمی ہے کیونکہ ملزوم متعلق حکم یعنی فعل معین کا اس حکم کو ملزوم ہوتاہے۔ انتہی۔(ت)
(۲؎ فتح القدیر باب الامامۃ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۳۰۶)
بحمداللہ اس تحقیق انیق سے چند مسائل نفیسہ ثابت ہوئے:
اوّلاً ہرصف پرتقدّم جوبنص ہدایہ وکافی وغیرہما واجب ہے وہ صرف تھوڑا آگے بڑھ جانے سے ادا نہیں ہوتا جب تک پوری صف کی جگہ نہ چھوٹے۔