مسئلہ ۸۴۹: ازپٹنہ عظیم آباد مرسلہ جناب مرزا غلام قادربیگ صاحب ۲۶ذی الحجہ ۱۳۰۵ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگرصف اول کے مقتدی امام کے ایسے متصل کھڑ ے ہوں کہ ان کے پنجے امام کی ایڑی کے برابرہوں یاایک بالشت امام کی ایڑی سے پیچھے ہوں اس غرض سے کہ دوسری صف بھی مسجد کے اندرہوجائے حالانکہ صحن میں جگہ ہے اور صف اول کاکوئی مقتدی امام کے پیچھے نہ ہو اس صورت میں کراہت ہوگی یانہیں؟ اگرہوگی تو کیسی کراہت ہوگی؟ بینوا توجروا
الجواب
صورت مستفسرہ میں بیشک کراہت تحریمی ہوگی اور ایسے امر کے مرتکب آثم وگنہگار کہ امام کا صف پرمقدم ہونا سنت دائمہ ہے جس پر حضورسیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہمیشہ مواظبت فرمائی اور مواظبت دائمہ دلیل وجوب ہے اور ترک واجب مکروہ تحریمی، اور مکروہ تحریمی کاارتکاب گناہ۔ امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر میں فرماتے ہیں:
ترک التقدم لامام الرجال محرم وکذا صرح الشارح وسماہ فی الکافی مکروھا وھوالحق ای کراھۃ تحریم لان مقتضی المواظبۃ علی التقدم منہ علیہ الصلاۃ والسلام بلاترک الوجوب فلعدمہ کراھۃ التحریم ۱؎۔
مردوں کے امام کے لئے تقدیم کاترک حرام ہے، شارح نے بھی اسی کی تصریح کی ہے، کافی میں اسے مکروہ کا نام دیا اور یہی حق ہے ، اور مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے کیونکہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہمیشہ آگے کھڑاہونا اور اسے کبھی ترک نہ کرنا وجوب پردلالت کرتاہے اور وجوب کاترک کراہت تحریمی ہوتاہے۔(ت)
(۱؎ فتح القدیر باب الامامۃ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۳۰۶)
اسی میں ہے:مقتضی فعلہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم التقدم علی الکثیر من غیر ترک الوجوب۲؎۔
مقتدی کثیر ہونے کی صورت میں حضورعلیہ السلام کا ہمیشہ آگے کھڑا ہونااور کبھی ترک نہ فرمانا وجوب کا تقاضا کرتاہے۔(ت)
(۲؎ فتح القدیر باب الامامۃ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۳۰۹)
بحرالرائق میں ہے:
التقدم واجب علی الامام للمواظبۃ من النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وترک الواجب موجب لکراھۃ التحریم المقتضیۃ للاثم۳؎۔
امام کا مقدم ہونا واجب ہے کیونکہ اسی پرنبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مواظبت فرمائی اور واجب کاترک کراہت تحریمی کاموجب ہے جوگناہ کا مقتضی ہے۔(ت)
اقول وباللّٰہ التوفیق ظاہر ہے کہ حضور سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کایہ تقدم ہمیشہ یونہی تھا کہ صف کے لئے پوری جگہ عطافرماتے نہ وہ ناقص وقاصرتقدم جوسوال میں مذکور ہوا۔ دلیل واضح اس پریہ ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تکمیل صف کانہایت اہتمام فرماتے اور اس میں کسی جگہ فرجہ چھوڑنے کو سخت ناپسندفرماتے۔صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کوارشاد ہوتا:
اقیموا صفوفکم وتراصوا فانی ارٰکم من وراء ظھری۴؎
اپنی صفیں سیدھی کرو اور ایک دوسرے سے خوب مل کر کھڑے ہوکہ بیشک میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھتاہوں۔
(۴؎ صحیح البخاری باب الزاق لمنکب بالمنکب الخ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۰۰)
(سنن النسائی احث الامام علی رص الصفوف والمقاربۃ بینہا مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور ۱ /۹۳)
اخرجہ البخاری والنسائی عن انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ و مسلم بلفظ اتمواالصفوف فانی ارٰکم خلف ظھری ۱؎۔
اسے بخاری اور نسائی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے اور مسلم شریف میں ان الفاظ سے ہے: اپنی صفیں مکمل کرو کیونکہ میں اپنی پشت کے پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔(ت)
(۱؎ صحیح مسلم باب تسویۃ الصفوف الخ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی ۱/۱۸۲)
دوسری حدیث میں ہے:
سدوالخلل فان الشیطان یدخل فیما بینکم بمنزلۃ الحذف۲؎۔ رواہ الامام احمد عن امامۃ الباھلی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔
یعنی صف چھدری نہ رکھو کہ شیطان بھیڑکے بچے کی وضع پراس چھوٹی ہوئی جگہ میں داخل ہوتاہے۔ اسے امام احمد نے حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔
(۲؎ مسند احمد بن حنبل حدیث ابی امامۃ الباہلی رضی اللہ عنہ مطبوعہ دارالفکر بیروت ۵ /۲۶۲)
اور یہ مضمون حدیث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بالفاظ عدیدہ مروی ہوا امام احمد بسند صحیح ان سے راوی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:
راصوا الصفوف فان الشیاطین تقوم فی الخلل۳؎۔
یعنی صفیں خوب گھنی رکھو جیسے رانگ سے درزیں بھردیتے ہیں کہ فرجہ رہتاہے تو اس میں شیطان کھڑاہوتاہے۔
(۳؎ مسند احمد بن حنبل ازمسند انس رضی اللہ تعالٰی عنہ مطبوعہ دارالفکر بیروت ۳ /۱۵۴)
نسائی کی روایت صحیحہ میں ہے:
راصّوا صفوفکم وقاربوا بینھا وحاذوابالاعناق فوالذی نفس محمد بیدہ انی لاری الشٰیطین تدخل من خلل الصف کانھا الحذف۴؎۔
اپنی صفیں خوب گھنی اور پاس پاس کرو اور گردنیں ایک سیدھ میں رکھو کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے بیشک میں شیاطین کو رخنہ صف میں داخل ہوتے دیکھتاہوں گویا وہ بھیڑکے بچے ہیں۔
(۴؎ سنن النسائی حث الامام علی رص الصفوف الخ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور ۱ /۹۳)
ابوداؤد طیالسی کی روایت میں یوں ہے:
اقیموا صفوفکم وتراصوا فوالذی نفسی بیدہ انی لاری الشیاطین بین صفوفکم کانھا غنم عفر۱؎۔
اپنی صفیں سیدھی کرو اور ایک دوسرے سے خوب مل کر کھڑے ہو قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بیشک میں شیاطین کو تمہاری صفوں میں دیکھتاہوں گویا وہ بکریاں ہیں بھکسے رنگ کی۔
فائدہ: بھیڑبکری کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اکثردیکھا ہے کہ جہاں چندآدمی کھڑے دیکھے اور دوشخصوں کے بیچ میں کچھ فاصلہ پایا وہ اس فرجہ میں داخل ہوکر اِدھر سے اُدھر نکلتے ہین یوں ہی شیطان جب صف میں جگہ خالی پاتاہے دلوں میں وسوسہ ڈالنے کو آگھستا ہے اور بھکسے رنگ کی تخصیص شاید اس لئے ہے کہ حجاز کی بکریاں اکثر اسی رنگ کی ہیں یاشیاطین اس وقت اسی شکل پرمتشکل ہوئے۔ چوتھی حدیث میں اس تاکید شدید سے ارشاد فرمایا:
اقیموا الصفوف فانما تصفون بصفوف الملٰئکۃ وحاذوابین المناکب وسدوالخلل ولینوا فی ایدی اخوانکم ولاتذروا فرجات للشیاطین ومن وصل صفا وصلہ اللّٰہ ومن قطع صفاقطعہاللّٰہ۲؎ ۔
یعنی صفیں درست کرو کہ تمہیں توملائکہ کی سی صف بندی چاہئے اور اپنے شانے سب ایک سیدھ میں رکھو اور صف کے رخنے بند کرو اور مسلمانوں کے ہاتھوں میں نرم ہوجاؤ اور صف میں شیطان کے لئے کھڑکیاں نہ چھوڑو اور جو صف کو وصل کرے اللہ اسے وصل کرے اور جو صف کو قطع کرے اللہ اسے قطع کرے۔
(۲؎ سنن ابوداؤد باب تسویۃ الصفوف مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۹۷)
( مسند احمد بن حنبل از مسند عبداللہ بن عمرو مطبوعہ دارالفکر بیروت ۲ /۹۸)
رواہ الامام احمد وابوداؤد والطبرانی فی الکبیر والحاکم و ابن خزیمۃ وصححاہ عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما وعند النسائی والحاکم عنہ بسند صحیح الفصل الاخیراعنی من قولہ من وصل ۳؎ الحدیث۔
اسے امام احمد، ابوداؤد، طبرانی نے المعجم الکبیر میں،حاکم اور ابن خزیمہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا اور ان دونوں نے اسے صحیح قراردیا۔ نسائی اور حاکم نے انہی سے سند صحیح کے ساتھ آخری جملہ من وصل صفاً کوفصل کرکے روایت کیاہے الحدیث۔
(۳؎ المستدرک علی الصحیحین کتاب الصلوٰۃ من وصل صفا مطبوعہ دارالفکر بیروت ۱ /۲۱۳)
(سنن النسائی کتاب الامامۃمن وصل صفا مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور ۱ /۹۴)
ملائکہ کی صف بندی کا دوسری حدیث میں خود بیان آیا:
خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقال الاتصفون کما تصف الملٰئِکۃ عن ربھا فقلنا یارسول اللہ کیف تصف الملٰئِکۃ عند ربھا قال یتمون الصف الاول ویتراصّون فی الصف ۱؎۔ اخرجہ احمد ومسلم وابوداؤد والنسائی وابن ماجۃ عن جابر بن سمرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔
سید عالم صلی اللہ تعالٰی علہ وسلم نے باہر تشریف لاکر ارشاد فرمایا: ایسے صف کیوں نہیں باندھتے جیسے ملائکہ اپنے رب کے سامنے صف بستہ ہوتے ہیں۔ ہم نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) ملائکہ اپنے رب کے حضور کیسی صف باندھتے ہیں: فرمایا: اگلی صف کو پورا کرتے ہیں اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔ اسے امام احمد، مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ا بن ماجہ نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔
(۱؎ صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ، حدیث ۱۱۹ باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ الخ مطبوعہ نورمحمد اصح المطابع کراچی ۱ /۱۸۱)
(مسند احمد بن حنبل حدیث جابربن سمرہ مطبوعہ دارالفکر بیروت ۵ /۱۰۱)
(سنن ابوداؤد باب تسویۃ الصفوف مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۹۷)
(سنن نسائی حث الامام علی رص الصفوف الخ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور ۱ /۹۳)
اور مسلمانوں کے ہاتھوں میں نرم ہوجانایہ کہ اگر اگلی صف میں کچھ فرجہ رہ گیا اور نیتیں باندھ لیں اب کوئی مسلمان آیا وہ اس فرجہ میں کھڑا ہونا چاہتاہے مقتدیوں پرہاتھ رکھ کر اشارہ کرے تو انہیں حکم ہے کہ دب جائیں اور جگہ دے دیں تاکہ صف بھر جائے۔ فتح القدیر و بحرالرائق و مراقی الفلاح و درمختار وغیرہا میں ہے:
واللفظ للشرنبلالی قال بعد ایراد الحدیث الرابع وبھذا یعلم جھل من یستمسک عند دخول احد بجنبہ فی الصف یظن انہ ریاء بل ھوا عانۃ علی ماامربہ النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۲؎۔
علامہ شرنبلالی نے چوتھی حدیث ذکرکرنے کے بعد یہ الفاط کہے کہ اس حدیث سے اس شخص کی جہالت واضح ہوجاتی ہے جوریاکاری کاتصور کرتے ہوئے صف میں اپنی کسی جانب نمازی کوشامل ہونے سے روکتاہو بلکہ یہ حضورنبی کریم صلی اللہ تعالٰی علہ وسلم کے حکم کی بجاآوری پردوسرے کی مدد کرناہے۔(ت)
(۲؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی ، فصل فی بیان احق بالامامۃ مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص۱۶۸)
اور نہایت یہ کہ اگراگلی صف والوں نے فرجہ چھوڑا اور صف دوم نے بھی اس کا خیال نہ کیا مگر اپنی صف گھنی کرلی اور نیتیں بندھ گئیں حالانکہ ان پرلازم تھا کہ صف اول والوں نے بے اعتدالی کی تھی تویہ پہلے اس کی تکمیل کرکے دوسری صف باندھتے،اب ایک شخص آیا اور اس نے صف اول کارخنہ دیکھا اسے اجازت ہے کہ اس دوسری صف کو چیرکرجائے اور فرجہ بھردے کہ صف دوم بے خیالی کرکے آپ تقصیروار ہے اوراس کا چیرنا روا۔ قنیہ و بحرالرائق و شرح نورالایضاح و درمختار وغیرہ میں ہے:
شرح تنویر کے الفاظ یہ ہیں اگر کسی نے صف اول میں رخنہ پایا حالانکہ دوسری میں نہ تھا تو اس کے لئے دوسری صف والوں کی کوتاہی کی وجہ سے دوسری صف کو چیرناجائز ہوگا۔(ت)۔
(۱؎ درمختار باب الامۃ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۸۴)
بحر میں: لاحرمۃ لہ لتقصیرھم۲؎ (دوسری صف والوں کی کوتاہی کی وجہ سے بعد میں آنے والے کو دوسری صف چیرناجائز ہے)