مسئلہ ۸۶۸ :کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد میں ایک شخص واسطے امامت کے مقرر ہے اگر وہ امام قبل ازنمازعشا یا کسی اور وقت میں کسی مقتدی سے یہ کہہ جائے کہ میں کسی کام کوجاتاہوں میراانتظار کرنا یعنی بعد پوراہونے وقت معینہ کے میراانتظار کرنا، بعدہ، سب مصلی اپنے وقت معینہ پرجمع ہوگئے اور اس کے بعد انہوں نے پاؤگھنٹا وقت معمول سے دیر کی واسطے تعمیل حکم امام صاحب کے، پھر انہوں نے ایک شخص کو امام بناکر نمازپڑھ لی، آیا ان سب کی نماز درست ہوگئی یانہیں؟ اور اگرامام صاحب پھرآکر لوگوں سے کہیں کہ تم لوگوں کی نماز نہیں ہوئی، تویہ قول امام صاحب کاصحیح ہوگا یانہیں؟اور امام صاحب کوئی فتوٰی اپنے رائے سے واسطے خواہش نفس کے دیں توشرعاً کیاحکم ہوگا؟ بینواتوجروا
الجواب
مقتدیوں کے ذمہ امام معین ہی کے انتظار میں بیٹھارہنا اور جب تک وہ نہ آئے جماعت نہ کرنا ہرگزضرور نہیں، بعض اوقات حضوراقدس سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ میں کسی اور محلہ میں تشریف لے گئے ہیں اور واپس تشریف لانے میں دیر ہوئی ہے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے جماعت اداکرلی ہے، ایک بار صدیق اکبر رضی اﷲتعالٰی عنہ کوامام کیا، ایک بار عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲتعالٰی عنہ، اور حضوراقدس صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نے اسے پسند فرمایا
کماھومصرح بہ فی الاحادیث
(جیسا کہ اس پر احادیث میں تصریح موجود ہے۔ت) امام کاکہنا کہ تمہاری نماز نہ ہوئی اگرصرف اسی بنا پرہے کہ میراانتظار نہ کرنے اور دوسرے کوامام بنالینے سے تمہاری نماز نہ ہوئی تومحض باطل اور شریعت مطہرہ پرصریح افترا ہے اپنی خواہش نفسانی کے لئے اپنی رائے سے فتوٰی دینے والا لائق امامت نہیں، ہاں جس شخص کو اس کی غیبت میں مقتدیوں نے امام بنایا وہ اگرقرآن مجید ایسا غلط پڑھتاتھا جس سے فسادنماز ہو یامعاذاللہ اس کے مذہب میں ایسا فساد تھا جس سے اس کی امامت صحیح نہ ہو تو اس بناپر امام کاقول درست ہے کہ تمہاری نمازنہ ہوئی، اس تقدیر پرمقتدیوں نے سخت خطا کی، انہیں توبہ چاہئے اورا س نماز کی قضا پڑھیں واﷲ سبحٰنہ، وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۸۶۹ : ازجامع مسجد ۱۸جمادی الاولٰی ۱۳۱۴ہجری
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تارک الجماعت کس کو کہتے ہیں؟ بینواتوجروا
الجواب
تارک جماعۃ وہ کہ بے کسی عذر شرعی قابل قبول کے قصداً جماعت میں حاضر نہ ہو مذہب صحیح معتمد پراگر ایک بار بھی بالقصد ایسا کیاگنہگار ہوا تارک واجب ہوا مستحق عذاب ہوا والعیاذباﷲ تعالٰی اور اگر عادی ہو کہ بارہا حاضرنہیں ہوتا اگرچہ بارہا حاضربھی ہوتا ہو تو بلاشبہہ فاسق فاجر مردودالشہادۃ ہے فان الصغیرۃ بعدالاصرار تصیر کبیرۃ (صغیرہ اصرار کی بنا پر کبیرہ ہوجاتاہے۔ت) درمختار میں ہے:
(الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال) قال الزاھدی ارادوابالتاکید الوجوب (وقیل واجبۃ وعلیہ العامۃ) ای عامۃ مشائخنا وبہ جزم فی التحفۃ وغیرھا قال فی البحر وھوالراجح عنداھل المذھب (فتسن اوتجب) ثمرتہ تظھر فی الاثم بترکہا مرۃ ۱؎۱ھ مختصراً۔
(جماعت مردوں کے لئے سنت مؤکدہ ہے) زاہدی نے کہا یہاں تاکید سے مرادوجوب ہے (بعض نے کہا ہے کہ جماعت واجب ہے اور اکثرعلماء کی رائے یہی ہے) یعنی ہمارے اکثر مشائخ کی رائے یہی ہے اسی پرتحفہ وغیرہ میں جزم کیاہے، بحر میں ہے کہ اہل مذہب کے ہاں یہی راجح ہے (پس سنت ہو یاواجب) اس کا ثمرہ اختلاف ایک بارترک کرنے پر گناہ کی صورت میں سامنے آئے گا۱ھ مختصراً(ت)
(۱؎ درمختار باب الامامۃ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۸۲)
ردالمحتار میں ہے:
قولہ، قال فی البحر وقال فی النھر ھو اعدل الاقوال واقواھا ولذا قال فی الاجناس لاتقبل شہادتہ اذاترکہااستخفافا ومجانۃ اماسہوااوبتاویل ککون الامام من اہل الاھواء اولایراعی مذھب المقتدی فتقبل ۲؎۱ھ ط
اس کاقول، کہابحر میں ہے اور کہانہر میں ہے کہ یہی معتدل اور قوی قول ہے اور اسی لئے اجناس میں ہے جب کسی نے سستی اور ہلکاسمجھتے ہوئے جماعت کوترک کیا تو اس کی شہادت قبول نہ ہوگی، ہاں اگرسہواً ترک ہو یاتاویلاً جیسے امام کا اہل ہوا میں سے ہونا یامذہب مقتدی کی رعایت نہ کرنے والا ہو توپھر شہادت قبول ہوجائے گی ۱ھ ط(ت) واﷲ سبحٰنہ، وتعالٰی اعلم
(۲؎ ردالمحتار باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۱۰)
مسئلہ۸۷۰ : ازبلڈانہ ملک ابرار مرسلہ شیخ فتح محمد صاحب حلال خور ۱۹جمادی الاولٰی ۱۳۱۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں مسلمان حلال خور جوپنج وقتہ نمازپڑھتاہو اس طرح پر کہ اپنے پیشہ سے فارغ ہوکر غسل کرکے طاہرکپڑے پہن کر مسجد میں جائے تو وہ شریک جماعت ہوسکتاہے یانہیں، اور اگرجماعت میں شریک ہو تو کیاپچھلی صف میں کھڑا ہو یا جہاں اس کو جگہ ملے یعنی اگلی صف میں بھی کھڑاہوسکتاہے اور اس طرف بعد نمازصبح وبعد نمازجمعہ نمازی آپس میں مصافحہ کرتے ہیں توکیا وہ بھی مسلمانوں سے مصافحہ اور مسجد کے لوٹوں سے وضو کرسکتاہے اور جو حلال خور اپنا پیشہ نہ کرتا ہو صرف جاروب کشی بازار وغیرہ کی کرتاہو اس کے واسطے شرع شریف کاکیاحکم ہے؟ ہردوصورتوں میں جو حکم شرع شریف کا ہو اس سے اطلاع بخشئے۔ بینواتوجروا
الجواب
بیشک شریک جماعت ہوسکتاہے اور بیشک سب سے مل کر کھڑا ہوگا اور بے شک صف اول یاثانی میں جہاں جگہ پائے گا قیام کرے گا، کوئی شخص بلاوجہ شرعی کسی کو مسجد میں آنے یاجماعت میں ملنے یا پہلی صف میں شامل ہونے سے ہرگزنہیں روک سکتا، اﷲ عزوجل فرماتاہے:
ان المسٰجد ﷲ۱؎
بیشک مسجدیں خاص اﷲ کے لئے ہیں۔
(۱؎ القرآن ۷۲ /۱۸)
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
العباد عباداﷲ ۲؎
بندے سب اﷲ کے بندے ہیں۔
(۲؎ مسند احمد بن حنبل ازمسند الزبیر بن عوام رضی اﷲ عنہ مطبوعہ دارالفکر بیروت ۱ /۱۶۶)
جب بندے سب اﷲ کے، مسجدیں سب اﷲ کی، توپھرکوئی بندے کو مسجد کی کسی جگہ سے بے حکم الٰہی کیونکر روک سکتاہے۔ اﷲ عزوجل نے کہ ارشاد فرمایا:
من اظلم ممن منع مسٰجد اﷲ ان یذکر فیھا اسمہ۳؎۔
اس سے زیادہ ظالم کون جو اﷲ کی مسجدوں کوروکے ان میں خداکانام لینے سے۔
(۳؎ القرآن ۲ /۱۱۴)
اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ بادشاہ حقیقی عزجلالہ کایہ عام دربار خاں صاحب، شیخ صاحب، مغل صاحب یا تجار زمیندار معافی دارہی کے لئے ہے کم قوم یاذلیل پیشہ والے نہ آنے پائیں، علماء جوترتیب صفوف لکھتے ہیں اس میں کہیں قوم یاپیشہ کی بھی خصوصیت ہے ہرگز نہیں، وہ مطلقاً فرماتے ہیں:
یصف الرجال ثم الصبیان ثم الخناثی ثم النساء۴؎۔
یعنی صف باندھیں مردپھرلڑکے پھرخنثی پھر عورتیں۔
(۴؎ درمختار باب الامامۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱ /۸۴)
بیشک زبّال یعنی پاخانہ کمانے والا یاکناس یعنی جاروب کش مسلمان پاک بدن پاک لباس جبکہ مرد بالغ ہو تو وہ اگلی صف میں کھڑا ہوجائے گا اور خان صاحب اور شیخ صاحب مغل صاحب کے لڑکے پچھلی صف میں جو اس کا خلاف کرے گا حکم شرع کا عکس کرے گا شخص مذکور جس صف میں کھڑاہو اگر کوئی صاحب اسے ذلیل سمجھ کر اس سے بچ کر کھڑے ہوں گے کہ بیچ میں فاصلہ رہے وہ گنہگار ہوں گے اور اس وعید شدید کے مستحق کہ حضوراقدس سیدعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
من قطع صفا قطعہ اﷲ۵؎۔
جو کسی صف کو قطع کرے اﷲ اسے کاٹ دے گا۔
(۵؎ سنن ابوداؤد باب تسویۃ الصفوف مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۹۷)
اور جو متواضع مسلمان صادق الایمان اپنے رب اکرم ونبی اعظم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کاحکم بجالانے کو اس سے شانہ بشانہ خوب مل کر کھڑا ہوگا اﷲ عزوجل اس کا رتبہ بلند کرے گا اور وہ اس وعدہ جمیلہ کا مستحق ہوگا کہ حضورانورسیدالمرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
من وصل صفّا وصلہ اﷲ ۱؎۔
جو کسی صف کو وصل کرے اﷲ اسے وصل فرمائے گا۔
(۱؎ سنن ابوداؤد باب تسویۃ الصفوف مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۹۷)
دوسری جگہ ہمارے نبی کریم علیہ وعلٰی آلہٖ افضل الصلوٰۃ والتسلیم فرماتے ہیں:
الناس بنواٰدم واٰدم من تراب۲؎۔ رواہ ابوداؤد والترمذی وحسنہ والبیھقی بسند حسن عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
لوگ سب آدم کے بیٹے ہیں اور آدم مٹّی سے۔ اسے ابوداؤد وترمذی نے روایت کرکے حسن کہا اور بیہقی نے سند حسن کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔
(۲؎ جامع الترمذی سورہ الحجرات مطبوعہامین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی ۲ /۱۵۹)
دوسری حدیث میں ہے ، حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یاایھا الناس ان ربکم واحد وان اباکم واحد ألا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولالاحمر علی اسود ولالاسود علی احمد الا بالتقوی ان اکرمکم عنداﷲ اتقٰکم۳؎۔ رواہ البیہقی عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنھما۔
اے لوگو! بیشک تم سب کا رب ایک اور بیشک تم سب کا باپ ایک، سن لو کچھ بزرگی نہیں عربی کو عجمی پر، نہ عجمی کو عربی پر، نہ گورے کو کالے پر، نہ کالے کو گورے پر مگر پرہیزگاری سے، بیشک تم میں بڑے رتبے والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے اسے بیہقی نے حضرت جابربن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیاہے۔
(۳؎ شعب الایمان فصل فی حفظ اللسان عن الفخربالابائ حدیث ۵۱۳۷ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ۴ /۲۸۹)
ہاں اس میں شک نہیں کہ زبّالی شرعاً مکروہ پیشہ ہے،جبکہ ضرورت اس پرباعث نہ ہو مثلاً جہاں نہ کافر بھنگی پائے جاتے ہوں جو اس پیشہ کے واقعی قابل ہیں نہ وہاں زمین مثل زمین عرب ہو کہ رطوبت جذب کرلے ایسی جگہ اگربعض مسلمین مسلمانوں پرسے دفع اذیت وتنظیف بیوت وحفظ صحت کی نیت سے اسے اختیار کریں تو مجبوری ہے اور جہاں ایسا نہ ہو تو بیشک کراہت ہے
لتعاطی النجاسات من دون ضرورۃ
(کیونکہ یوں بغیر ضرورت کے نجاسات کولینا لازم آتاہے۔ت) وہ بھی ہرگز حد فسق تک منتہی نہیں،فتح القدیر و فتاوٰی عالمگیری میں ہے؛
رہامعاملہ دنیوی پیشہ والوں کی شہادت کا، جن کو معاشرہ ہیچ تصورکرتاہے مثلاً کوڑا کرکٹ اٹھانے والا، ٹٹی اٹھانے والا، جولاہا، حجام، تو اصح یہ ہے کہ ان کی شہادت قبول ہوگی کیونکہ متعدد صالح لوگوں نے انہیں اپنایاہے، جب تک واضح قباحت معلوم نہ ہو تو بظاہرکسی پیشہ کی وجہ سے ایسانہیں کیاجاسکتا(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ الفصل الثانی فیمن لاتقبل شہادتہ لفسقہ مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۳ /۴۶۹)
مگران قوم دارحضرات کا اس سے تنفر ہرگزاس بناپر نہیں کہ یہ ایک امرمکروہ کامرتکب ہے وہ تنفرکرنے والے حضرات خود صدہا امورمحرمات وگناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں تو اگر اس وجہ سے نفرت ہو تو وہ زیادہ لائق تنفر ہیں ان صاحبوں کی صفوں میں کوئی نشہ باز یاقمار یاسودخوارشیخ صاحب تجار یارشوت ستاں مرزاصاحب عہدہ دار آکرکھڑے ہوں توہرگزنفرت نہ کریں گے اور اگرکوئی کپتان یاکلکٹر صاحب یاجنٹ مجسٹریٹ صاحب یا اسسٹنٹ کمشنرصاحب یاجج ماتحت صاحب آکر شامل ہوں تو ان کے برابرکھڑے ہونے کو تو فخرسمجھیں گے حالانکہ اﷲ ورسول کے نزدیک یہ افعال اور پیشے کسی فعل مکروہ سے بدرجہا بدترہیں
واﷲ یقول الحق وھویھدی السبیل ۲؎۔
(اور اﷲ تعالٰی حق فرماتاہے اور وہی سیدھی راہ کی ہدایت دینے والا ہے۔ت)
(۲؎ القرآن ۳۳ /۴)
درمختار وغیرہ میں ذلیل پیشہ کا ذکر کرکے فرمایا:
واما اتباع الظلمۃ فاخسّ من الکل۳؎۔
ظالم حکام کے خدام توسب پیشہ وروں سے خسیس ترہیں۔(ت)
توثابت ہوا کہ ان کی نفرت خدا کے لئے نہیں بلکہ محض نفسانی آن بان اور رسمی تکبر کی شان ہے، تکبرہرنجاست سے بدترنجاست ہے اور دل ہرعضو سے شریف ترعضو افسوس کہ ہمارے دل میں تو یہ نجاست بھری ہو اور ہم اس مسلمان سے نفرت کریں جو اس وقت پاک صاف بدن دھوئے پاک کپڑے پہنے ہے، غرض جو حضرات اس بیہودہ وجہ کے باعث اس مسلمان کو مسجد سے روکیں گے وہ اس بلائے عظیم میں گرفتار ہوں گے جو آیت کریمہ میں گزری کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہے ، اور جوحضرات خود اس وجہ سے مسجد وجماعت ترک کریں گے وہ ان سخت سخت ہولناک وعیدوں کے مستحق ہوں گے جو ان کے ترک پروارد ہیں، یہاں تک رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الجفاء کل الجفاء والکفر والنفاق من سمع منادی اﷲ ینادی ویدعوا الی الفلاح فلایجیبہ ۱؎۔ رواہ الامام احمد والطبرانی فی الکبیر عن معاذبن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔
ظلم پوراظلم اور کفر اور نفاق ہے کہ آدمی مؤذن کو سنے کہ نماز کے لئے بلاتاہے اور حاضر نہ ہو۔ اسے امام احمد اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں حضرت معاذبن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے سندحسن کے ساتھ روایت کیاہے۔
اور جو بندہ خدا اﷲ عزوجل کے احکام پرگردن رکھ کر اپنے نفس کو دبائے گا اور اس مزاحمت ونفرت سے بچے گا مجاہدہ نفس وتواضع کا اﷲ سے ثواب جلیل پائے گا بھلا فرض کیجئے کہ ان مساجد سے تو ان مسلمانوں کو روک دیا وہ مظلوم بیچارے گھروں پرپڑھ لیں گے، سب میں افضل واعلٰی مسجد مسجدالحرام شریف سے انہیں کون روکے گا، اس مسلمان پر اگر حج فرض ہو توکیا اسے حج سے روکیں گے اور خدا کے فرض سے باز رکھیں گے یا مسجد الحرام سے باہرکوئی نیاکعبہ اسے بنادیں گے کہ اس کا طواف کرے۔ اﷲ تعالٰی مسلمانوں کو ہدایت بخشے آمین۔ اس تقریر سے ثابت ہوگیا کہ مسجد کے لوٹے جوعام مسلمانوں پروقف ہیں ان سے وضو کو بھی اسے کوئی منع نہیں کرسکتا جبکہ اس کے ہاتھ پاک ہیں۔ رہا مصافحہ خود ابتدا کرنے کا اختیار ہے کیجئے یا نہ کیجئے،
فان المصافحۃ بعد الصلوات علی الاصح من المباحات والمباح لایلام علی فعلہ ولاترکہ۔
اصح قول کے مطابق نمازوں کے بعد مصافحہ مباح ہے اور مباح کے کرنے یانہ کرنے پرملامت نہیں ہوتی۔(ت)
مگرجب وہ مسلمان مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے اور آپ اپنے اس خیال بے معنی پرہاتھ کھینچ لیجئے تو بیشک بلاوجہ شرعی اس کی دل شکنی،اور بیشک بلاوجہ شرعی مسلمان کی دل شکنی حرام قطعی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من اٰذی مسلما فقد اٰذانی ومن اٰذانی فقد اٰذی اﷲ ۱؎۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔
جس نے کسی مسلمان کو ایذادی اس نے بےشک مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذادی اس نے بیشک اﷲ عزوجل کو ایذادی۔ اسے طبرانی نے المعجم الاوسط میں حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے سندحسن کے ساتھ روایت کیاہے،
واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ مجمع الزوائد بحوالہ طبرانی اوسط باب فیمن یتخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ مطبوعہ دارالکتاب بیروت ۲ /۱۷۹)
(الترغیب والترہیب الترہیب من تخطی الرقاب یوم الجمعہ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۵۰۴)