Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۷(کتاب الصلٰوۃ)
17 - 158
درمختار و خزائن الاسرار میں ہے:
والنظم للدر یکرہ تکرار الجماعۃ باذان و اقامۃ فی مسجد محلۃ لافی مسجد طریق اومسجد لاامام لہ ولامؤذن۱؎۔
الفاظ در کے ہیں محلہ کی مسجد میں اذان واقامت کے ساتھ تکرارجماعت مکروہ ہے، راستہ کی مسجد یاایسی مسجد جس کا کوئی امام ومؤذن مقررنہ ہو اس میں تکرارجماعت مکروہ نہیں۔(ت)
 (۱؎ درمختار            باب الامامۃ        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی            ۱ /۸۲)
غررالاحکام اور اس کی شرح دررالحکام میں ہے:
لاتکرر الجماعۃ فی مسجد محلۃ باذان واقامۃ یعنی اذاکان لمسجد امام و جماعۃ معلومان فصلی بعضھم باذان واقامۃ لایباح لباقیھم تکرارھابھما۲؎۔
اذان واقامت کے ساتھ جماعت کا تکرار محلہ کی مسجد میں درست نہیں یعنی جب مسجد کے لئے امام اور جماعت متعین ہو پس بعض نے اذان واقامت کے ساتھ نمازپڑھ لی تو اب دوسرے لوگوں کے لئے اذان واقامت کے ساتھ دوبارہ جماعت مباح نہیں ہے۔(ت)
 (۲؎ دررالحکام شرح غررالاحکام    فصل فی الامامۃ        مطبوعہ مطبعہ احمد کامل الکائنہ دارسعادت مصر    ۱ /۸۵)
شرح المجمع للمصنف الامام العلامۃ ابن الساعاتی و فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
المسجد اذاکان لہ امام معلوم وجماعۃ معلومۃ فی محلۃ فصلی اھلہ فیہ بالجماعۃ لایباح تکرارھا فیہ باذان ثان۳؎۔
جب مسجد محلہ کا امام اور جماعت مقرر ہو اور اہل محلہ نے اس مسجد میں نماز اداکرلی ہو تو اب دوسری اذان کے ساتھ تکرارجماعت مباح نہیں۔(ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیہ        الفصل الاول فی الجماعۃ    مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور        ۱ /۸۳)
وجیز کردری و غنیہ علامہ حلبی میں ہے:
لوکان لہ امام ومؤذن معلوم فیکرہ تکرار الجماعۃ فیہ باذان واقامۃ عندنا۴؎۔
اگرمسجد کے لئے امام اور مؤذن مقرر ہو تو ایسی مسجد میں ہمارے نزدیک اذان واقامت کے ساتھ تکرارجماعت مکروہ ہوگا۔(ت)
 (۴؎ غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی    فصل فی احکام المسجد        مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور        ص۶۱۴)
ذخیرۃ العقبٰی شرح صدرالشریعۃ العظمٰی میں ہے:
ان کان للمسجد امام معلوم وجماعۃ معلومۃ فصلوا فیہ بجماعۃ باذان واقامۃ لایباح تکرارھا بھما۱؎۔
اگرمسجد کاامام اور جماعت معین ہے اور اس میں لوگوں نے اذان واقامت کے ساتھ نمازپڑھ لی تو اب اذان واقامت کے ساتھ تکرارجماعت مباح نہیں۔(ت)
 (۱؎ ذخیرۃ العقبٰی        کتاب الصلوٰۃ    مطبوعہ منشی نولکشور کانپور انڈیا            ۱ /۷۷)
جس کاحاصل عندالتحقیق کراہت اذان جدید کی طرف راجع نہ نفس جماعت کی طرف ولہٰذا اسی مذہب کو امام محقق محمد محمد محمد ابن امیرالحاج حلبی نے حلیہ میں اس عبارت سے ارشاد فرمایا:
المسجد اذاکان لہ اھل معلوم فصلوا فیہ اوبعضھم باذان واقامۃ کرہ لغیر اھلہ وللباقین من اھلہ اعادۃ الاذان والاقامۃ۲؎۔
اگرمسجد کے لئے اہل معین ہوں اور اس میں وہ تمام یابعض اہل اذان واقامت کے ساتھ نمازاداکرلیں تو غیراہل محلہ اور باقی ماندہ اہل محلہ کے لئے اذان واقامت کااعادہ مکروہ۔(ت)
 (۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
اور اگربغیر اس کے تکرارجماعت کریں توقطعاً جائز وروا ہے اسی پرہمارے علماء کااجماع ہواہے، خزائن میں ہے:
لوکرراھلہ بدونھما جازاجماعا۳؎۔
اگراہل محلہ نے بغیر اذان واقامت کے تکرارجماعت کیاتو یہ بالاتفاق جائزہے۔(ت)
 (۳؎ ردالمحتار بحوالہ خزائن الاسرار    باب الامامۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱ /۴۰۸)
درر میں ہے:
لوکان مسجد الطریق یباح تکرارھا بھما ولوکرراھلہ بدونھما جاز۴؎۔
اگرراستہ کی مسجد ہو تواذان واقامت دونوں کے ساتھ تکرارجماعت مباح ہے اور اگراہل محلہ ان دونوں کے بغیر تکرارکریں توجماعت جائزہے(ت)
 (۴؎ دررالحکام شرح غررالاحکام    فصل فی الامامۃ    مطبوعہ مطبعہ احمد کامل الکائنہ فی دارسعادت مصر    ۱ /۸۵)
شرح المجمع للمصنف وعلمگیریہ میں ہے:
اما اذا صلوا بغیر اذان یباح اجماعاوکذا فی مسجد قارعۃ الطریق۱؎۔
اگربغیراذان کے پڑھی ہو تو بالاجماع مباح ہے اسی طرح حکم ہے اگرمسجد راستہ پرواقع ہو۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ        الفصل الاول فی الجماعۃ        مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۸۳)
ذخیرۃ العقبٰی و شرح المجمع للعلامہ میں ہے:
لوصلوا فیہ بلااذان یباح اتفاقا۲؎۔
اگربغیراذان کے نماز پڑھی توبالاتفاق تکرارجماعت مباح ہے۔(ت)
 (۲؎ ذخیرۃ العقبٰی        کتاب الصلوٰۃ        مطبوعہ منشی نولکشور کانپورانڈیا        ۱ /۷۷)
عباب و ملتقط و شرح دررالبحار و رسالہ علامہ رحمہ اللہ السندی تلمیذ المحقق ابن الہمام و حاشیۃ البحر للعلامہ خیرالدین الرملی استاذصاحب الدرالمختار میں ہے:
یجوز تکرارالجماعۃ بلااذان وبلااقامۃ ثانیۃ اتفاقا قال و فی بعضھا اجماعا۳؎۔
تکرارجماعت اذان واقامت کے بغیر بالاتفاق جائز ہے کہا بعض کتب میں اجماع کالفظ مستعمل ہواہے۔(ت)
 (۳؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق بحوالہ حاشیہ البحرللعلامہ خیرالدین الرملی    باب الامامۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۳۴۶)
پھر یہ جواز مطلقاً محض وخالص ہے یاکہیں کراہت سے بھی مجامع،اس میں صحیح یہ ہے کہ اگرمحراب میں جماعت ثانیہ کریں تومکروہ،اور محراب سے ہٹ کر تواصلاً کراہت نہیں، خالص مباح وماذون فیہ ہے۔ بزازیہ و شرح منیہ و ردالمحتارمیں ہے:
عن ابی یوسف انہ اذلم تکن الجماعۃ علی الھیئۃ الاولٰی لاتکرہ والاتکرہ وھوالصحیح وبالعدول عن المحراب تختلف الھیأۃ۴؎۔
امام ابویوسف سے مروی ہے جب جماعت پہلی ہیئت پرنہ ہو تومکروہ نہیں ورنہ مکروہ ہے یہی صحیح ہے، اور محراب سے ہٹ کر اداکرنا ہیئت کی تبدیلی ہے۔(ت)
 (۴؎ ردالمحتار            باب الامامۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱ /۴۰۹)
ولوالجیہ و تاتارخانیہ و شامیہ میں ہے: بہ نأخذ۵؎
 (اسی کو ہم لیتے ہیں۔ت) اُسی میں ہے:
قدقلت ان الصحیح تکرار الجماعۃ اذالم تکن علی الھیأۃ الاولٰی۶؎۔
میں کہتاہوں کہ تکرار جماعت اس وقت صحیح ہے جب وہ جماعت پہلی ہیئت پرنہ ہو(ت)
 (۵؎ ردالمحتار            باب الامامۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱ /۴۰۹)

(۶؎ ردالمحتار            باب الامامۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱ /۴۰۹)
یہ ان احکام میں اجمالی کلام تھا،
وللتفصیل محل اٰخر الحمدﷲ العلی الاکبر والصلاۃ والسلام علی الحبیب الازھرواٰلہ واصحابہ الاطائب الغرر۔
تفصیل کے لئے دوسرامقام ہے تمام حمد اﷲتعالٰی کے لئے جوبلندوبرتر ہے۔ صلوٰۃ وسلام ہو حبیب خوب پر، ان کی آل واصحاب پرجوپاکیزہ ہیں(ت)
واﷲ سبحٰنہ، وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
مسئلہ۸۶۷ : زید نے وقت مغرب ایک مسجد میں داخل ہوکردیکھا کہ جماعت ہورہی ہے اور امام قرأت بجہر پڑھ رہاہے زید نے اس امام کی اقتداء نہ کی اور اس آن واحد میں علیحدہ اپنی قرأت بجہر شروع کردی اور دوسری جماعت قائم کی پس زید کاکیاحکم ہے اور جماعت ثانی کاجوبحالت موجودگی جماعت اول قائم ہوئی ہے کیا حکم ہے اور دوشخص ایک آن میں قرأت بجہر کرسکتے ہیں یانہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب

تفریق جماعت حاضرین حضرت حق سبحٰنہ، وتعالٰی کو نہایت ناپسند ہے حتی کہ انتہادرجہ کی ضرورت میں یعنی جب عساکر مسلمین ولشکر کفارمیں صف آرائی ہو مورچہ بندی کرچکے ہوں اور وقت نماز آجائے اس وقت بھی نمازِخوف کی وہ صورت قرآن مجید میں تعلیم فرمائی جس سے تفریق جماعت نہ ہونے پائے اور ایک ہی امام کے پیچھے نماز ہو ورنہ ممکن تھا کہ نصف برسرمعرکہ رہیں اور نصف باقی اپنی جماعت کرلیں پھر یہ نصف مقابلہ پر چلے جائیں اور وہ آکر اپنی نمازپڑھ لیں اتحادجماعت کی عنداﷲ ایسی ہی توکچھ سخت ضرورت ہے جس کے لئے عین نماز میں مشی کثیر جومفسد صلوٰۃ ہے روارکھی گئی ۔ علاوہ بریں صدہاآیات واحادیث اس فعل کی مذمت پردال ہیں اور حکمت ایک جماعت کی مشروعیت کہ ایتلاف مسلمین ہے کہ نہایت محبوب الٰہی ہے یہ فعل بالکلیہ اس کے مناقض ہے کما لایخفی (جیسا کہ مخفی نہیں۔ت) جس زمانے میں نظم خلافت حقہ گسیختہ اور بنائے امامت راشدہ ازہم ریختہ ہوگئی تھی اورسلطنت فساق وفجار بلکہ بدمذہبان فاسدالعقیدہ کوپہنچی تھی وہ لوگ امامت کرتے اور صحابہ وتابعین وکافہ مسلمین بمجبوری ان کے پیچھے نماز پڑھتے اس وقت بھی ان اکابردین نے تفریق جماعت گوارا نہ کی پس اس دوسری جماعت کی شناعت میں کوئی شبہہ نہیں اور فاعل اس کا عوض ثواب کے مستوجب طعن وملام ہوا خصوصاً جبکہ وہ اس تفریق کاسبب کسی بغض دنیاوی کے جواسے امام اول سے تھا مرتکب ہوا یابوجہ اپنے فاسدالعقیدہ ہونے کے عناداً امام اول کو بدمذہب ومبتدع ٹھہراکر اس کی اقتدا سے استنکاف کیاکہ ان صورتوں میں تشنیع اس پر اشدواکد ہے مگریہ کہ درحقیقت امام اول سے بدعت تابحدکفر وارتداد مرتقی ہوگئی ہو مثلاً سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی عیاذاً باللہ توہین کرتاہو، حضور کے ختم نبوت میں کلام رکھتاہو حضوروالا کے بعد کسی کے حصول نبوت میں حرج نہ جانتاہو حضوراقدس کی تعظیم جوبعد تعظیم الٰہی کے تمام معظمین کی تعظیم سے اعلٰی واقدم ہے مثل اپنے بڑے بھائی کی تعظیم کے جانتاہو وعلٰی ہذاالقیاس دیگرعقائد زائغہ مکفرہ رکھتاہو اس تقدیر پرتوالبتہ یہ فعل زید کانہایت محمود ہوگا اور وہ اس پراجرجزیل پائے گا کہ صورت مذکورہ میں وہ جماعت عنداﷲ جماعت ہی نہ تھی کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز رأساً باطل ہے۔
فی التنویر ویکرہ امامۃ المبتدع لایکفر بھا وان کفر بھا فلایصح الاقتداء بہ اصلا۱؎۱ھ ملخصا۔
تنویر میں ہے اس بدعتی کی امامت مکروہ ہے جس کی بدعت حد کفر تک نہ پہنچے اوراگر حد کفر تک پہنچ جائے تو اس کی اقتداء بالکل درست نہ ہوگی اھ تلخیصا(ت)
 (۱؎ درمختار    باب الامامۃ        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۸۳)
اور اگر صورت مرقومہ میں امام ثانی مقتدا ومتبوع حضار کاہو اور جس وقت وہ شخص امامت کررہاہے عین اسی حالت میں اس کا دوسری جماعت قائم کردینااور اس کے پیچھے نماز سے احتراز مجمع میں ظاہر کرنا باعث اس کے زجروتوبیخ یاحاضرین کی نگاہ سے اس کے گرجانے کاہو تو اب یہ فعل اور بھی موکدوضروری ہوجائے گا اسی طرح اگرکفروارتداد کے سوا اور کوئی وجہ ایسی ہو جس کے سبب اس کے پیچھے نماز باتفاق روایات باطل محض ہوتی ہو تو جب بھی یہ جماعت ثانیہ قطعاً جائز ہوگی
لماذکرنا ان الجماعۃ الاولٰی لیست بجماعۃ فی الحقیقۃ لبطلان الصلاۃ بالاقتداء بالامام الاول
 (جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ پہلی جماعت درحقیقت جماعت ہی نہیں کیونکہ امام اول کی اقتداء میں نماز ہی باطل ہے۔ت)

لیکن اس فعل میں اگرکوئی غرض صحیح شرعی نہ ہو تو اس تقدیر پراس سے احترازاولٰی ہے ختم جماعت کاانتظار کرکے اپنی جماعت کرلے
وھذا کلہ ظاھر جدالاخفاء فیہ عند عقل سلیم وراء نبیہ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم وحکمہ عزشانہ احکم
 (یہ تمام کاتمام خوب واضح ہے ہرصاحب عقل سلیم اور سمجھدارپرکچھ مخفی نہیں واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم وحکمہ عزشانہ احکم۔ت)
Flag Counter