نقل الشیخ خیرالدین عن الرملی الشافعی انہ مشی علی کراھۃ الاقتداء بالمخالف حیث امکنہ غیرہ ومع ذلک ھی افضل من الانفراد یحصل لہ فضل الجماعۃ وبہ افتی الرملی الکبیر واعتمدہ السبکی والاسنوی وغیرھما قال والحاصل ان عندھم فی ذلک اختلافا وقد سمعت مااعتمدہ الرملی وافتی بہ والفقیر اقول مثل قولہ فیما یتعلق باقتداء الحنفی بالشافعی والفقیہ المنصف یسلم ذلک ؎ وانارملی فقہ الحنفی÷ لامرابعد اتفاق العالمین÷ ۱ھ ملخصا یعنی بہ نفسہ ورملی الشافعیۃ رحمھمااﷲ تعالٰی فتحصل ان القتداء بالمخالف المراعی فی الفرائض افضل من الافراد اذا لم یجد غیرہ والافالاقتداء بالموافق افضل۱؎۔
شیخ خیرالدین نے رملی الشافعی سے نقل کیا ہے کہ وہ مخالف کی اقتداء کو اس وقت مکروہ جانتے جب غیر کی اقتداء ممکن ہو، اور اس کے باوجود اقتداء تنہانماز سے افضل ہے اور ایسی صورت میں جماعت کاثواب مل جائے گا۔ اسی پر رملی کبیر نے فتوٰی دیا، سبکی اور اسنوی وغیرہما نے بھی اسی پر اعتماد کیا ہے کہا حاصل یہ ہے کہ ان (فقہاء) کے ہاں اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور میں نے وہ سن رکھا ہے جس پر رملی نے اعتماد کرتے ہوئے فتوٰی دیا اور فقیر انہی کے مطابق کہتاہے اس اقتداء میں جو حنفی کی شافعی کے ساتھ ہو اور منصف فقیہ اسے تسلیم کرے گا۔ میں رملی ہوں فقہ حنفی رکھتاہوں دوعالموں کے اتفاق کے بعد کوئی شک نہیں ہے تلخیصاً یہاں انہوں نے اناسے اپنی ذات اور رملی سے شافعی مراد لیا ہے تو خلاصہ یہ ہوا کہ اس مخالف کی اقتداء جورعایت کرتاہو فرائض میں تنہا نمازپڑھنے سے افضل ہے جبکہ اس کے علاوہ کوئی امام موجود نہ ہو ورنہ موافق ملنے کی صورت میں اس کی اقتداء افضل ہوگی۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۱۶)
اسی میں مولٰنا علی قاری علیہ رحمۃ الباری سے ہے:
لوکان لکل مذھب امام کما فی زماننا فالافضل الاقتداء بالموافق سواء تقدم اوتاخر علی مااستحسنہ عامۃ المسلمین وعمل بہ جمہور المؤمنین من اھل الحرمین والقدس ومصر والشام ولاعبرۃ بمن شذ منھم۱؎۱ھ۔
اگرہرمذہب کاامام ہو جیسا کہ ہمارے دور میں ہے توموافق کی ابتداء افضل ہوگی خواہ وہ پہلے امامت کرے یابعد میں، اسے ہی عامۃ المسلمین نے مستحسن جاناہے اور اہل حرمین، بیت المقدس، مصر اور شام کے جمہور مسلمان اسی پرعمل پیراہیں ان سے جو کوئی اِکّادُکّا اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں، ان کا کوئی اعتبارنہیں(ت)
(۱؎ ردالمحتار باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۱۷)
پھرخود فرمایا:
والذی یمیل الیہ القلب عدم کراھۃ الاقتداء بالمخالف مالم یکن غیرمراع فی الفرائض وانہ لوانتظر امام مذھبہ بعید اعن الصفوف لم یکن اعراضا عن الجماعۃ للعلم بانہ یرید جماعۃ اکمل من ھذہ الجماعۃ۲؎۔
جس بات کی طرف دل مائل ہورہاہے وہ یہ ہے کہ جومخالف فرائض میںرعایت کرنے والا ہو اس مخالف کی اقتداء مکروہ نہ ہوگی، اوراگرکوئی شخص جماعت کی صفوں سے دور اپنے مذہب کے امام کاانتظار کرتاہے تویہ جماعت سے اعراض نہ ہوگا کیونکہ وہ یقینی طور پر اس جماعت سے اکمل جماعت کے انتظار میں ہے(ت)
(۲؎ ردالمحتار باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۱۷)
اسی میں زیرمسئلہ امامت عبدواعرابی وغیرہما تبعاللبحر(بحر کی اتباع میں) ہے:
یکرہ الاقتداء بھم تنزیھا فان امکن الصلاۃ خلف غیرھم فھو افضل والافالاقتداء اولی من الانفراد۳؎۔
ان کی اقتداء مکروہ تنزیہی ہے اگر ان کے علاوہ کوئی امام میسر ہو تواس کی اقتداء افضل ہے ورنہ تنہا اداکرنے سے ان کی اقتدابہترہوگی۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۱۳)
اسی میں ہے:
فی المعراج قال اصحابنا لاینبغی ان یقتدی بالفاسق الافی الجمعۃ لانہ فی غیرھا یجداماما غیرہ۴؎۔
معراج میں ہے کہ ہمارے اصحاب نے فرمایا کہ جمعہ کے علاوہ میں فاسق کی اقتداء جائزنہیں کیونکہ جمعہ کے علاوہ نمازوں میں دوسرے امام کی اقتداء ممکن ہوتی ہے(ت)
(۴؎ ردالمحتار باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۱۴)
بلکہ اسی میں ہے:
بقی لوکان مقتدیا بمن یکرہ الاقتداء بہ ثم شرع من لاکراھۃ فیہ ھل یقطع ویقتدی بہ استظھرط ان الاول لوفاسقالایقطع ولومخالفا وشک فی مراعاۃ یقطع اقول والاظھر العکس لان الثانی کراھتہ تنزیھیۃ کالاعمٰی و الاعرابی بخلاف الفاسق فانہ استظھر فی شرح المنیۃ انھا تحریمیۃ لقولھم ان فی تقدیمیہ للامامۃ تعظیمہ وقد وجب علینا اھتانتہ۱؎الخ
باقی رہا یہ معاملہ کہ اگر کوئی شخص ایسے امام کی اقتدا میں ہے جس کی اقتدا مکروہ تھی، ساتھ ہی ایسا امام جماعت کروائے جس میں کراہت نہیں توآیا اب وہ نماز توڑ کر اس کی اقتدا کرے یانہ، ط نے کہا ظاہر یہ ہے کہ اگرپہلا امام فاسق ہے تونماز نہ توڑے اور اگروہ مخالف ہے اور اس کی رعایت میں شک ہو تو نماز توڑدے۔ میں کہتاہوں اس کا عکس اظہرومختارہے کیونکہ ثانی میں کراہت تنزیہی ہے جیسا کہ اعرابی اور نابینا میں ہے بخلاف فاسق کے، اس کی اقتداء کے بارے میں شرح منیہ میں کہا کہ اس کامکروہ تحریمی ہوناظاہر ہے کیونکہ فقہاکہتے ہیں کہ فاسق کوامام بنانے میں فاسق کی تعظیم ہوتی ہے حالانکہ ہم پراس کی اہانت لازم ہے۱لخ(ت)
(۱؎ ردالمحتار باب ادراک الفریضہ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۵۲۵)
غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی للعلامۃابراہیم الحلبی میں ہے:
یکرہ تقدیم المبتدع ایضا لانہ فاسق من حیث الاعتقادوھواشد من الفسق من حیث العمل لان الفاسق یعترف بانہ فاسق ویخاف ویستغفر بخلاف المبتدع۲؎۔
بدعتی کی اقتدامکروہ ہے کیونکہ وہ اعتقاداً فاسق ہے اور عقیدۃً فاسق عملاً فاسق سے بدتر ہے، کیونکہ فاسق عملی اعتراف کرتا کہ وہ فاسق ہے وہ ڈرتا ہے اور اللہ سے معافی مانگتاہے بخلاف بدعتی کے کہ وہ ایسانہیں کرتا۔(ت)
(۲؎ غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی فصل فی الامامۃ مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور ص۵۱۴)
تنویر الابصار و درمختار میں ہے:
لایصح اقتداء غیرالالثغ بالالثغ علی الاصح کما فی البحر وحررالحلبی وابن الشحنۃ انہ بعد بذل جھدہ دائما حتما کالامی فلایؤم الامثلہ ولاتصح صلاتہ اذامکنہ الاقتداء بمن یحسنہ اوترک جھدہ اووجد قدرالفرض ممالالثغ فیہ ھذا ھو الصحیح المختار فی حکم الالثغ وکذا من لایقدر علی التلفظ بحرف من الحروف۱؎۔
اصح قول کے مطابق غیرتوتلے کاتوتلے کی اقتداکرنا صحیح نہیں، جیسا کہ بحر میں ہے، حلبی اور ابن شحنہ نے کہا جب توتلا دائمی کوشش کرتارہے تووہ امی کی طرح ہے اور صرف توتلے کی اقتداء کرسکتاہے اور جب اسے کسی عمدہ پڑھنے والے کی اقتداء ممکن ہو تو اب تنہانماز نہ ہوگی، اسی طرح حکم ہے جب اس نے کوشش ترک کردی یا وہ مقدار فرض کی قرأت پرقادرہوگیا جس میں اسے توتلاپن پیدانہیں ہوتا ، توتلے کے حکم میں یہی صحیح ومختار ہے، اسی طرح اس شخص کاحکم ہے جو حروف میں سے کسی حرف کے صحیح تلفظ پرقادرنہ ہو۔(ت)
(۱؎ درمختار باب الامامۃ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۸۵)
(راجح اور صحیح قول کے مطابق فصیح کے لئے توتلے کی اقتداء فاسد نمازہے۔ت)
اب محل نظر صرف ایک صورت رہی کہ مسجد محلہ میں اہل محلہ نے باذان واقامت بروجہ سنت امام موافق المذہب سالم العقیدہ متقی مسائل داں صحیح خواں کے ساتھ جماعت اولٰی خالیہ عن الکراہۃ ادا کرلی پھر باقی ماندہ لوگ آئے انہیں دوبارہ اس مسجد میں جماعت قائم کرنے کی اجازت ہے یانہیں، اور ہے توبکراہت یابے کراہت؟ اس بارے میں عین تحقیق وحق وثیق وحاصل انیق ونظردقیق واثرتوفیق یہ ہے کہ اس صورت میں تکرار جماعت باعادہ اذان ہمارے نزدیک ممنوع وبدعت ہے، یہی ہمارے امام رضی اللہ تعالٰی عنہ کامذہب مہذب وظاہرالروایہ ہے، متن متین مجمع البحرین و بحرالرائق علامہ زین میں ہے:
ولاتکررھا فی مسجد محلۃ باذان ثان۴؎۔
مسجد محلہ میں دوسری اذان کے ساتھ تکرارجماعت جائز نہیں۔(ت)