Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۷(کتاب الصلٰوۃ)
15 - 158
بحرالرائق میں ہے:
حاصلہ ان صاحب الھدایۃ جوزالاقتداء بالشافعی بشرط ان لایعلم المقتدی منہ مایمنع صحۃ صلاتہ فی رأی المقتدی کالفصد ونحوہ وعددمواضع عدم صحۃ الاقتداء بہ فی العنایۃ وغایۃ البیان بقولہ کما اذالم یتوضأ من الفصد والخارج من غیرالسبیلین وکماکان شاکافی ایمانہ بقولہ انامومن ان شاء اﷲ اومتوضأ من القلتین اویرفع یدیہ عندالرکوع وعند رفع الراس من الرکوع اولم یغسل ثوبہ من المنی ولم یفرکہ اوانحرف عن القبلۃ الی الیسار اوصلی الوتر بتسلیمتین اواقتصرعلی رکعۃ اولم یوتراصلا اوقھقھہ فی الصلاۃ ولم یتوضأ اوصلی فرض الوقت مرۃ ثم ام القوم فیہ زاد فی النہایۃ وان لایراعی الترتیب فی الفوائت وان لایمسح ربع راسہ وزاد قاضی خاں وان یکون متعصبا والکل ظاھر ماعدا خمسۃ اشیاء ۱؎۔
    حاصل یہ ہے کہ صاحب ہدایہ نے شافعی کی اقتداء کو اس شرط کے ساتھ جائز کہاہے کہ جب مقتدی اس امام کے کسی ایسے عمل کو نہ جانتا ہوجومقتدی کی رائے کے مطابق صحت نماز کے منافی ہے۔ مثلاً رگ کٹوانا وغیرہ، عدم صحت اقتداء کے چند مواضع عنایہ اور غایۃ البیان سے، ان الفاظ سے بیان کئے کہ مثلاً جب اس امام نے رگ کٹوانے یاغیرسبیلین سے کسی شے کے خارج ہونے پر وضو نہ کیا ہو یا اس امام کے ایمان میں شک ہے، مثلاً وہ یہ کہتا ہے کہ ''ان شأاﷲمیں مومن ہوں'' یا وہ قلتین پانی سے وضو کرتاہے یا رکوع جاتے وقت اور اُٹھتے وقت رفع یدین کرتاہے یا وہ منی لگ جانے کی وجہ سے کپڑے کو نہیں دھوتا اور نہ ہی اسے کھرچتا ہے(گاڑھی ہونے کی صورت) میں یا وہ قبلہ سے بائیں جانب پھرتاہے یاوہ دوسلاموں سے وتراداکرتاہے یاایک رکعت وترپڑھتاہے یابالکل پڑھتاہی نہیں یانماز میں قہقہہ سے ہنستاہے اور وضونہیں کرتا یاایک دفعہ وقتی نماز پڑھاچکاہے پھر اسی نماز کا امام بن جاتاہے۔ اس پر نہایہ میں اضافہ ہے کہ فوت شدہ نمازوں میں ترتیب کی رعایت نہ رکھتاہو حالانکہ وہ صاحب ترتیب ہو سر کے چوتھائی حصہ کا مسح نہ کرے، قاضی خاں نے یہ اضافہ کیا ہے کہ وہ متعصب ہو،ان پانچ کے علاوہ باقی تمام واضح ہیں۔
 (۱؎ بحرالرائق        باب الوتر والنوافل    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۴۵)
الاول مسئلۃ التوضؤ من القلتین فانہ صحیح عندنااذالم یقع فی الماء نجاسۃ ولم یختلط بمستعمل مساولہ اواکثر فلابد ان یقید قولھم بالقلتین المتنجس ماؤھما او المستعمل بالشرط المذکور لامطلقا۔
اول قلتین سے وضو کرنا ہمارے نزدیک بھی صحیح ہے جبکہ اس میں نجاست نہ گری ہو،اور س کے مساوی یازائد اس میں مستعمل پانی نہ ملا ہولہذا قلتین کے ساتھ یہ شرط لگانا بھی ضروری ہے کہ قلتین کاپانی ناپاک ہویااس میں مستعمل پانی برابریازائد ملاہو ورنہ مطلقاحکم لگانا درست نہیں۔
الثانی مسئلۃ رفع الیدین من وجہین الاول ان الفسادروایتہ شاذۃ لیست بصحیحۃ روایۃ ولادرایۃ الثانی ان الفساد عند الرکوع لایقتضی عدم صحۃ الاقتداء من الابتداء مع ان عروض البطلان غیرمقطوع بہ حتی یجعل کالمتحقق عند الشروع لان الرفع جائزالترک عندھم لسنیتہ۔
دوم رفع یدین کی دوصورتیں ہیں ایک تو فساد والی روایت شاذہ ہے نہ روایۃً صحیح ہے نہ درایۃً۔ دوسری یہ کہ رکوع کے موقع پر فساد کاعارض ہونا ابتداء ً اقتداء کے منافی نہیں، باوجود اس کے بطلان کاعارض ہونا بھی یقینی نہیں حتی کہ اسے بوقت شروع ہی متحقق قراردے دیاجائے کیونکہ رفع یدین کا چھوڑنا بھی جائز ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ سنت ہی ہے(توممکن ہے وہ اس کو ترک کردے)
الثالث مسئلۃ الانحراف عن القبلۃ الی الیسارلان المانع عندناان یجاوزالمشارق الی المغارب والشافعیۃ لاینحرفون ھذا الانحراف۔
سوم قبلہ سے بائیں طرف انحراف کامعاملہ، تو اس معاملہ میں ہمارے نزدیک مانع وہ انحراف ہے جو مشارق سے مغارب کی طرف متجاوز ہو اور شوافع ایسے انحراف کے قائل نہیں۔
الرابع مسئلۃ التعصب لان التعصب علی تقدیر وجودہ منھم انما یوجب الفسق والفسق لایمنع صحۃ الاقتداء۔
چہارم رہا تعصب کامعاملہ، تو اگر ان سے تعصب ثابت ہو تو یہ فسق کاموجب ہے اور فسق صحت اقتداء سے مانع نہیں ہوتا۔
الخامس مسئلۃ الاستثناء فی الایمان فان التکفیر غلط و الاستثناء قول اکثر السلف۱؎۱ھ ملتقطا
پنجم باقی ایمان کا ان شاء اﷲ کے ساتھ معلق کرنے والا مسئلہ، تو اس میں فتوٰی کفر غلط ہے کیونکہ معلق کرنا بہت سے اسلاف کاقول ہے ۱ھ تلخیصا(ت)یہ کلام بحر فی البحر تھا۔
 (۱؎ بحرالرائق        باب الوتر والنوافل    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۴۵، ۴۶)
اقول وقد کانت ظھرت لی بحمد اﷲ الخمسۃ المذکورۃ اول مانظرت الکلام مع زیادۃ فلنذکر مابقی من الابحاث تتمیما للافادۃ الاول قولھم لم یوتر اصلالایظھرلہ وجہ فانہ بترکہ لایفسق فضلا عما یوجب بطلان الاقتداء فان الوتر وان وجب عندنا فہو مجتہد فیہ ولاتفسیق بالاجتھادیات وان حمل علی انہ ان لم یصلہ لم یصح الاقتداء بہ فی الفجر بشرطہ لفوات الترتیب نافاہ قولہ زاد فی النھایۃ وان لایراعی الترتیب ثم رأیت العلامۃ الشامی عللہ فی منحۃ الخالق بھذا ثم اعلہ بالتکرار قال فلیتامل ماالمراد۱؎
اقول (میں کہتاہوں) بحمداﷲ سرسری نظر میں یہ پانچ ہی تھے،کچھ اور بحثیں بھی ہیں،ہم ان باقی کو افادہ کے لئے یہاں ذکرکردیتے ہیں،اول،اصلا وہ وتر نہ پڑھتاہو ان کایہ قول درست نہیں کیونکہ وتر کے ترک سے وہ فاسق نہیں ہوتاچہ جائیکہ اس کی اقتداء کو باطل قراردیاجائے کیونکہ وتر ہمارے ہاں اگرچہ واجب ہیں لیکن یہ مسئلہ اجتہادی ہے اور اجتہادی مسائل میں کسی کوفاسق قرارنہیں دیاجاسکتا اور اگر اس عبارت کو اس پر محمول کیاجائے کہ اگروترادانہیں کرتاتواس کی فجر میں اقتداء جائز نہ ہوگی کیونکہ ترتیب فوت ہوگئی ہے، تواب اس کے قول کہ نہایہ میں اضافہ ہے کہ اگرو ہ ترتیب کی رعایت نہیں تواقتداء جائز نہیں، یہ منافی قرارپائے گا، پھر میں نے علامہ شامی کو دیکھا تو انہوں نے منحۃ الخالق میں یہ ہی علت بیان کی اور اس پرتکرار کااعتراض کیا اور کہا اس سے مراد پر غورکرنا چاہئے۔
 (۱؎ منحۃ الخالق علی البحر الرائق        باب الوتروالنوافل    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۴۵)
اقول بل ھو اشد من التکرار فان قولہ زاد لایحتملہ کما علمت الثانی اقول وینبغی اسقاط صلاتہ الوتر بتسلیمتین فان طریان المبطل غیرالبطلان من رأس کما افادہ البحر ثم علی ماذھب الیہ الامام ابوبکر الرازی لایفسد بالمٰال ایضاً لان امامہ لم یخرج عندہ نفسہ بالسلام فانہ یحسب مابعدہ من الوتر وھو مجتھد فیہ نعم الاصح الفساد کما جزم بہ فی متن التنویر وھوالمؤید بقول الجمہور الصحیح المشھور من ان العبرۃ لراء المقتدی، الثالث مثلہ الکلام فی اقتصارہ علی رکعۃ الرابع افادالشامی، قال افادشیخنا حفطہ اﷲ تعالٰی ان المراد انحرا فھم اذا اجتھدوا فی القبلۃ مع وجود المحاریب القدیمۃ فانہ یجوز عندھم لاعندنافلوانحرف عن المحراب القدیم(ای انحرافاجاوزالمشارق الی المغارب)لایصح الاقتداء بہ ۱؎۱ھ
اقول (میں کہتاہوں) بلکہ یہ تکرار سے اشدہے کیونکہ اس کا لفظ ''زاد'' اس کااحتمال نہیں رکھتاجیساکہ جان لیاہے۔ دوسرا یہ کہ اقول (میں کہتاہوں) وتر کو دوسلاموں کے ساتھ اداکرنے والے احتمال کو ساقط کردینا چاہئے تھا کیونکہ عارضی مبطل کا لاحق ہونا وہ اس بطلان کاغیرہوتاہے جو ابتداء ً ہو جیسا کہ بحر میں ہے۔ پھر امام ابوبکر رازی جس طرف گئے ہیں وہ یہ ہے کہ مآلاً بھی نمازفاسد نہ ہوگی کیونکہ ان کے نزدیک سلام کے ساتھ امام نماز سے خارج نہیں ہورہا بلکہ وہ مابعد کو وترسمجھتاہے لہٰذا وہ معاملہ اجتہادی ٹھہرا،ہاں اصح فساد ہے جیساکہ اس پرمتن تنویر میں جزم کیاگیا ہے اور اس کی تائید جمہور کے اس صحیح مشہورقول سے ہوتی ہے کہ اعتبار مقتدی کی رائے کاہے۔ تیسرا یہ کہ وتر کی ایک رکعت پڑھنا اس پر بھی سابقہ گفتگو ہی ہے۔ چوتھا امام شامی نے فرمایا ہمارے شیخ حفظہ اللہ نے فرمایا انحراف سے مراد یہ ہے کہ قدیم محراب ہونے کے باوجود اجتہاد سے کام لیتے ہوئے وہ انحراف کریں تو یہ ان کے ہاں جائز ہے ہمارے ہاں جائز نہیں، تواگرامام محراب قدیم سے منحرف ہوگیا(یعنی ایساانحراف جومشارق سے مغارب کی طرف متجاوز ہو)تو اس کی اقتداء صحیح نہ ہوگی۱ھ
 (۱؎ منحۃ الخالق علی البحر الرائق        باب الوتر والنوافل    مطبوعہ ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی    ۲ /۴۵)
اقول وھو وجیہ مسقط لوجہ اسقاط عند الانحراف نعم لابد من التقیید وھو غیربعید فان عدم رعایۃ الترتیب وعدم غسل المنی اوفرکہ کل مقید کما نبھنا علیہ ولم یوجب اسقاطھما فکذا ھذا وبہ ظھر الخامس وھو عدم اسقاط التوضؤ من القلتین وان کان الوجہ ھوالتقیید الا ان یفرق بالغالب والنادر والخفی والمتبادر ولنرجع الی ماکنافیہ من الکلام فماکان الامن تجاذب القلم عنان الرقم لمناسبۃ المقام۔
اقول (میں کہتاہوں) یہ توجیہ اس توجیہ کی ساقط ہوگی جو انحراف کے وقت اسقاطاًکی گئی ہے، ہاں اسے مقید کرناضروری ہے اور وہ بعید نہیں کیونکہ عدم رعایت ترتیب یاعدم غسل منی یااس کاکھرچناتمام مقیدہیں جیسا کہ ہم نے اس پرتنبیہ کردی ہے تو یہ بات ان کے اسقاط کاسبب نہیں ہوسکتی تو یہاں (انحراف) میں بھی یہی معاملہ ہے اور اسی سے پانچویں بحث ظاہر ہے اور وہ قلتین پانی سے وضو کاعدم اسقاط ہے اگرچہ یہاں مناسب اس کا مقید کرنا ہے مگر غالب ونادر اور خفی ومتبادرمیں فرق کیاجاتاہے اب ہم سابقہ گفتگو کی طرف لوٹتے ہیں یہ تومناسبت مقام کی وجہ سے قلم سے مجبوراً تحریرصادرہوگئی (ت)
نیز بحر میں ہے:
فصار الحاصل ان الاقتداء بالشافعی علی ثلثۃ اقسام الاول ان یعلم منہ الاحتیاط فی مذھب الحنفی فلاکراھۃ فی الاقتداء بہ الثانی ان یعلم منہ عدمہ فلاصحۃ لکن اختلفوا ھل یشترط ان یعلم منہ عدمہ فی خصوص مایقتدی بہ اوفی الجملۃ صحح فی النھایۃ الاول وغیرہ اختاراالثانی و فی فتاوی الزاھدی الاصح انہ یصح وحسن الظن بہ اولی الثالث ان لایعلم شیئًا فالکراھۃ۱؎ (ملخصاً)۔
حاصل یہ ہے کہ شافعی کی اقتداء تین طرح کی ہے، اول یہ کہ اس امام کا مسلک حنفی کی احتیاط ورعایت کرنامعلوم ہو تواب اس کی اقتداء میں کراہت نہ ہوگی۔ ثانی یہ کہ اس امام کا رعایت نہ کرنا معلوم ہو تو اب اقتداء صحیح نہ ہوگی لیکن اختلاف اس بارے میں ہے کہ کیابالخصوص اسی نماز میں جس میں اقتداء مطلوب ہے عدم احتیاط کاعلم ضروری ہے ۔ یافی الجملہ عدم احتیاط کاعلم ضروری ہے ۔نہایہ میں پہلے کو صحیح کہا اور دوسرے لوگوں نے دوسرے کو مختار قراردیا۔فتاوٰی زاہدی میں ہے کہ اصح یہ ہے کہ اقتداء صحیح ہے اور اس کے ساتھ حسن ظن رکھنا اولٰی ہے۔ ثالث یہ کہ اس کے بارے میں علم نہیں کہ وہ رعایت کرتاہے یانہیں(یعنی مشکوک صورت ہے) تو اب اقتداء مکروہ ہوگی۔(ت)
 (۱؎ بحرالرائق        باب الوتروالنوافل    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۴۶،۴۷)
Flag Counter