Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۷(کتاب الصلٰوۃ)
14 - 158
اَلْقَـطُـوْفُ الــدَّانِیـَۃ لِمَنْ اَحْسَــنَ الْجَمَـاعَۃَ الثَّانِیـَۃ    (۱۳۱۳ھ)

(جماعت ثانیہ کو مستحسن قراردینے والے کے لئے جھکے ہوئے خوشے)
(جماعت ثانیہ کے ثبوت میں)
مسئلہ ۸۶۶ :از مرادآباد مدرسہ امدادیہ مرسلہ مولوی سید محمد حبیب الرحمن صاحب سلہٹی۱۱ جمادی الاولٰی ۱۳۱۳ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جماعت ثانیہ بغیر اذان واقامت درصورت بدل دینے ہیأت جماعت اولٰی کی ازروئے شرع شریف بلاکراہت جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب

صورت مستفسرہ میں جماعتِ ثانیہ بلاکراہت مطلقہ مطلقاً جائزومباح عند اہل التحقیق ہے جس کی تنقیح بالغ وتوضیح بازغ مع ردوامع اوہام نابغ بعض ابنائے زمان بعونہٖ تعالٰی رسائل فقیر سے ظاہروعیاں، یہاں نفس مسئلہ کے اجمالی احکام اور ان کے متعلق نقول ونصوص علمائے کرام پر اقتصار کیجئے کہ شان فتوی اسی کے شایاں۔
فاقول وباﷲ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق (میں کہتاہوں اﷲ تعالٰی کی توفیق سے اور اﷲتعالٰی کی توفیق سے تحقیق کی گہرائی تک پہنچاجاسکتاہے۔ت)
اَوّلاً تکرار جماعت کے جوازوافضلیت کی وہ صورتیں سنئے جن میں اصلاً نزاع کوگنجائش نہیں:
(۱) جومسجد شارع عام یابازار یا اسٹیشن یاسرا کی ہے جس کے لئے اہل معین نہیں، وقت پرجولوگ گزرے یااترے یاآئے یاپڑھ گئے غرض کسی محلہ خاص سے خصوصیت نہیں رکھتی کہ وہاں کی معمولی جماعت وہی ہے اوروں کا آنا اتفاقی وعارضی ہے ایسی مسجد میں بالاجماع تکرار جماعت باذان جدید وتکبیر جدید جائز بلکہ یہی شرعاً مطلوب ہے کہ نوبت بنوبت جولوگ آئیں نئی اذان واقامت سے جماعت کرتے جائیں اگرچہ (ایک نماز کے) وقت میں دس بیس جماعتیں ہوجائیں۔
(۲) مسجد محلہ کہ ایک محلہ خاص سے اختصاص رکھتی ہے اس میں اقامت جماعت انہیں کاحق ہے اگر ان کے غیرجماعت کرگئے تو اہل محلہ کو تکرار جماعت بلاشبہہ جائز ہے جیسے کہ نماز جنازہ،حالانکہ اس کی تکرار اصلاً مشروع نہیں پھر بھی اگر غیرولی بے اذن ولی پڑھاجائے اب ولی آئے اعادہ کامجاز ہے کہ حق اس کا تھا۔
(۳) بعض اہل ہی جماعت کرگئے بے اذان پڑھ گئے۔

(۴) اذان بھی دی تھی مگرآہستہ ،ان صورتوں میں بھی بعد کو آنے والے باذان جدید بروجہ سنت اعادئہ جماعت کریں کہ جماعت معتبرہ وہی ہے جو اذان سے ہو اور اذان وہ جو اعلان سے ہو۔
(۵) محلے میں حنفی وغیرحنفی دونوں رہتے ہیں پہلے غیرحنفی امام نے جماعت کرلی اور حنفیہ کو معلوم ہے کہ اس نماز میں اس نے مذہب حنفی کے کسی فرض طہارت یافرض صلوۃ یاشرطِ امامت کو ترک کیاہے مثلاً چہارم سرسے کم کا مسح یا آب قلیل نجاست افتادہ سے وضو یاجسم یاکپڑے قدردرہم سے زیادہ منی یاصاحب ترتیب کا باوصف یادو وسعت وقت بے ادائے فائتہ وقتیہ پڑھنا یا نماز وقت تنہا پڑھ کر پھر اسی نمازمیں امامت کرنا تو ایسی حالت میں حنفیہ بلاشبہہ اپنی جماعت جداگانہ کریں کہ اگرچہ شرع اُن جماعت کرنے والوں کے لئے اسے جماعت اولٰی مانے مگر حنفی تو اس میں اقتدا نہیں کرسکتا اگرکرے تو نماز ہی نہ ہو۔
(۶) اس خاص نماز کاتوحال معلوم نہیں مگر اس امام کی بے احتیاطی اور فرائض میں ترک لحاظ مذہب حنفی ثابت ہے جیسے عامہ غیرمقلدین کہ خواہی نخواہی اہل حق سے مخالفت اور مذاہب اربعہ خصوصاً مذہب مہذب حنفیہ کی مضادّت پرحریص ہوتے ہیں جب بھی حنفیہ کو ان کی اقتدا گناہ وممنوع ہے اپنی جماعت جدا کریں۔

(۷) اس کی نسبت امورمذکورہ کی مراعات کاعادی ہونا نہ ہونا کچھ معلوم نہیں جیسے کوئی نامعلوم الحال شافعی مالکی حنبلی اس صورت میں بھی ان کی اقتدا خالی از کراہت نہیں تو جماعت ثانیہ کافضل مبین۔

(۸) عادت مراعات بھی معلوم ہی سہی تاہم بتصریح ائمہ امام موافق المذہب کے پیچھے جماعت ثانیہ ہی افضل واکمل، اور اسی پرحرمین محترمین ومصروشام وغیرہا بلاد دارالاسلام میں جمہور مسلمین کا عمل۔

(۹) جس نے جماعت اولٰی کی فاسد العقیدہ بدمذہب بدعتی تھا مثلاً وہابی یا تفضیلی یامعاذاللہ امکان کذب الٰہی تعالٰی شانہ، ماننے والا یاصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں کسی کو برا جاننے والا کہ عند التحقیق ایسوں کی اقتداء بکراہت شدیدہ سخت مکروہ ہے۔
(۱۰) فاسق تھا جیسے شرابی، زناکاریاداڑھی منڈا سودخوار کہ یہ لوگ ان وہابیوں کذابیوں وغیرہم بدمذہبوں کے مولویوں متقیوں سے بھی اگرچہ لاکھ درجہ بہترحال میں ہیں پھر بھی ان کی اقتدا شرعاً بہت ناپسند ۔

(۱۱) امام اولٰی نرابے علم جاہل نماز وطہارت کے مسائل سے غافل تھا جیسے اکثر گنوار غلام وغیرہم عوام کہ ایسے کی امامت بھی کراہت انضمام۔

(۱۲) قرآن مجید ایساغلط پڑھتاتھا جس سے معنی فاسد ہوں مثلاً ۱،ع یا ت، ط یا ث،س، ص یا ح، ہ یا ذ،ز،ظ میں تمیز نہ کرنے والے کہ آج کل اس دارالفتن ہند میں اکثر بلکہ عام عوام بلکہ بہت بلکہ اکثر پڑھے لکھے بھی اس بلامیں مبتلا ہیں وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل وانا لِلّٰہ وانا الیہ راجعون پھر خواہ بے خیالی بے احتیاطی یاسیکھنے میں بے پروائی یازبان کی نادرستی کوئی سبب ہو مذہب معتمد پرصحیح خواہ کی نماز اس کے پیچھے مطلقا فاسد ہے اگرچہ ان میں بعض صور میں مذہب متاخرین خود اس کی اپنی نماز کے لئے بہت وسعتیں دے عندالتحقیق بھی بشرائط معلومہ مضبوطہ کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں ذکر کیں تاکہ قادر ناقادر کا امام ہوسکے تو اگریہی صورت صحت واقع ہوکر وہ جماعت اولٰی ٹھہرے لاجرم صحیح خوانوں کوجماعت ثانیہ ہی کاحکم ملے یہ صورت اولٰی کی مانند ہے اول بآخرنسبتے دارد، غرض ایسی صورتیں جماعت ثانیہ کی خاص تاکید یافضل مزید کی ہیں جن میں بالاجماع یاعلی الاصح اصلا کلام کی گنجائش نہیں۔ ضابطہ یہ ہے کہ جب جماعت اولٰی اہل مسجد(عــہ)یااہل مذہب کی نہ ہو یااپنے مذہب میں فاسدہ یامکروہہ ہو تو ہمیں جماعت ثانیہ کی مطلقاً اجازت بلکہ درصورت کراہت قصداً تفویت اولٰی کی رخصت جبکہ ثانیہ نظیفہ مل سکتی ہو اور درصورت فساد تو اس میں شرکت ہی سے صاف ممانعت اگرچہ ثانیہ بھی میسرنہ ہو،اب ان تمام مطالب پرنصوص علماء سنئےے فقیر نے ان سب مسائل میں بتوفیقہٖ تعالٰی قول منقح اختیار کیاہے اسی کے متعلق عبارات کتب بایجازواختصار نقل کروں کہ ذکر اقاویل وتطبیق وتوفیق وترجیح وتحقیق وتنقیح و تدقیق محتاج تطویل، معہذا بعونہٖ تعالٰی ان مباحث میں یہ سب مدارج فتاوٰی ورسائل وتعالیقِ فقیر میں طے ہوچکے ہیں وباﷲ التوفیق۔
 (عـــہ) صادق بان لااھل لہ اوصلی من لیس من اھلہ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)
یہ بایں طور صادق ہے کہ اس مسجد کاکوئی اہل معین نہ ہو یاجس نے نماز پڑھائی وہ مسجد کے اہل میں سے نہ ہو (یعنی اہل محلہ نہ ہو) ۱۲منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)
متن غرر میں ہے:
لاتکرر فی مسجد محلۃ باذان واقامۃالا اذاصلی بھما فیہ اولاغیراھلہ اوصلی اھلہ بمخالفتۃ الاذان ۱؎ ۔
مسجد محلہ میں اذان واقامت کے ساتھ تکرار جماعت جائز نہیں مگر اس صورت میں کہ غیر محلہ والوں نے وہاں اذان واقامت کے ساتھ اوّلاً جماعت کروائی ہو یااہل محلہ نے آہستہ اذان دے کر جماعت کروائی ہو۔(ت)
 (۱؎ کتاب درالحکام شرح غرر الاحکام    فصل فی الامامۃ    مطبوعہ مطبع احمد کامل الکائنہ فی دارسعادت مصر        ۱ /۴۰۸)
خزائن الاسرار شرح تنویر الابصارمیں ہے:
لوکان مسجد طریق جاز اجماعا کما فی مسجد لیس لہ امام ولامؤذن ویصلی الناس فیہ فوجا فوجا فان الافضل ان یصلی کل فریق باذان و اقامۃ علی حدۃ کما فی امالی قاضی خاں۲؎ ۔
اگرمسجد شارع ہے توبالاتفاق تکرارجماعت جائز جیسا کہ اس مسجد کاحکم ہے جس کا امام ومؤذن مقرر نہ ہو اور لوگ اس میں گروہ درگروہ نماز اداکرتے ہوں تووہاں افضل یہ ہے کہ ہرفریق اپنی اپنی اذان و اقامت کے ساتھ الگ الگ نماز پڑھے جیسا کہ امالی قاضی خاں میں ہے۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار بحوالہ خزائن الاسرار    باب الامامۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۰۸)
درمختار میں ہے:
تکرہ خلف مخالف کشافعی لکن فی وتر البحر ان تیقن المراعاۃ لم یکرہ اوعدمھالم یصح وان شک کرہ۳؎ ۔
مخالف کے پیچھے نمازمکروہ ہے مثلاً شافعی المسلک کے پیچھے، لیکن بحر میں وتر کی بحث میں ہے کہ اگر اس کا مذہب حنفی کی رعایت کرنا یقینی ہو توپھرمکروہ نہیں، اگرمذہب حنفی کی رعایت نہ کرنا یقینی ہو تو صحیح نہ ہوگی، اور اس کے بارے میں شک ہو تو نماز مکروہ ہے۔(ت)
 (۳؎ درمختار        باب الامامۃ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۸۳)
Flag Counter