غرض حدیث سے ثابت کہ جو تکبیر سن کر حاضر جماعت نہ ہو اسے بدبخت، نامراد، ظالم، اظلم، کافر، منافق فرمایاگیا۔ للہ انصاف ! کیاتکبیر کسی مطلق جماعت کی طرف بلاتی ہے، کیا اس جماعت میں ملونہ ملو ہردعوت تکبیر کی اجابت ہوجاتی ہے،کیا اس میں حی علی الصلٰوۃ حی علی الفلاح کے یہ معنی ہیں کہ چاہے اس نمازوفلاح میں حاضر ہو چاہے نہ آؤ اپنی الگ کرلینا، شاید قدقامت الصلٰوۃ کایہی مطلب ہوگا کہ یہ نماز توکھڑی ہوہی گئی اب اس میں آکرکیاکروگے تم اور کوئی بیٹھی ہوئی اٹھانا حاشا وکلاّ بلکہ تکبیر اسی جماعت کی طرف بلاتی اور اس کی عدم حاضری پروہ حکم وظلم وکفرونفاق وشقاوت وخیبت ہے توقطعاً حکم وجوب وتاکد کی مصداق یہی ماثور ومعہود جماعت ہے۔
ثانیاً یہ توسیع توہمارے طورپرتھی اگرتصریح قنیہ و مجتبی و تقریر بحر پرنظرکیجئے توامراظہر کہاں وہ تضییق کہ اذان کے بعد تکبیر کاانتظار بھی جائزنہیں، کہاں یہ توسیع شنیع کہ سرے سے جماعت اولٰی میں حاضرہونا ہی کچھ ضرورنہیں۔
ثالثًا روشن ترنص قاطع لیجئے سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا شانہ اطہر سے مسجدانور میں قریب(عــــہ۱) امام جلوہ فرماہوتے، ایک دن نماز(عــــہ۲)عشاء کو تشریف لائے جماعت (عــــہ۳)میں قلت دیکھی کچھ لوگ حاضرنہ پائے نہایت(عــــہ۴)شدید غضب وجلال محبوب ذی الجلال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چہرہ اقدس سے ظاہر ہوا، ارشاد فرمایا: خدا کی قسم میرے جی میں آتا ہے کہ مؤذن کو تکبیر کاحکم دوں پھر کسی کو (عــہ)امامت کے لئے فرماؤں پھر بھڑکتی ہوئی مشعلیں لے جاؤں اور ان لوگوں پر ان لوگوں کے گھر پھونک دوں جنہیں یہ اذان سنے یہ وقت ہوگیا اب تک گھروں سے نماز کونہیں نکلتے۔
(عــــہ۱) ھذا ثابت فی غیرھذا الحدیث من عدۃ احادیث صحاح اوردناھا فی حسن البراعۃ ۱۲منہ رحمہ اللہ (م)
یہ بات اس حدیث کے علاوہ متعدد احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہے جنہیں ہم نے حسن البراعۃ فی تنقید حکم الجماعۃمیں ذکر کیا ہے۱۲ منہ رحمہ اللہ (ت)
(عــــہ۲)ھذا منصوص علیہ فی ھذا الحدیث عند غیرہ ۱۲منہ رحمہ اللہ
امام مسلم نے اپنی صحیح اور دیگرمحدثین نے اسی حدیث میں اس بات پر تصریح کی ہے ۱۲منہ رحمہ اللہ (ت)
(عــــہ۳)ھذا عند احمد وغیرہ من حدیث کعب بن عجرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ وعند سراج فی مسندہ فی ھذا الحدیث۔(م)
یہ حدیث امام احمد وغیرہ محدثین کے ہاں حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے اور سراج کے ہاں مسند سراج میں بھی اسی حدیث کے تحت مذکور ہے۔(ت)
(عــــہ۴) ھذا فی روایۃ السراج قال ثم خرج الی المسجد فاذا الناس عزون واذاھم قلیلون فغضب غضبا شدیدا الا اعلم انہ رأیتہ غضب غضبا اشد منہ ثم قال لقد ھممت ان امرر جلایصلی بالناس ثم اتتبع ھذہ الدور التی تخلف اھلوھا عن ھذہ الصلاۃ فاضرمھا علیھم بالنیران۱؎ (م)
یہ روایت سراج میں ہے، کہا: پھر آپ مسجد کی طرف تشریف لے گئے تو جو لوگ حاضر تھے وہ تھوڑے تھے آپ سخت غضب میں ہوگئے، میںنے آج تک آپ کو اتنا غضبناک کبھی نہیں دیکھاتھا، پھر فرمایا: میں ارادہ کرتاہوں میں کسی آدمی کو حکم دوں جو جماعت کروائے پھر میں ان گھروں کی طرف جاؤں جن کے اہل اس نماز میں حاضر نہیں ہوئے اور ان کو آگ سے جلادوں۔(ت)
(۱؎ عمدۃ القاری بحوالہ مسند سراج باب وجوب صلوٰۃ الجماعۃ مطبوعہ ادارۃ الطباۃعۃ المنیریۃ بیروت ۵ /۱۶۰)
(عــہ)فان قلت الیس فی نفس الحدیث مایدل ان الاولی لاتجب عینا والالماھم ھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان یقیم الصلاۃ ثم ینصرف الیھم لاحراق بیوتھم۔
اگرآپ کہیں کہ کیا نفس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اس بات پردلالت کررہی ہو کہ پہلی (جماعت) واجب عینی نہیں ہے ورنہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کسی کو جماعت قائم کرنے کاحکم دے کر اس (جماعت میں نہ حاضر ہونے والوں) کے گھروں کو جلانے کا ارادہ نہ کرتے۔
قلت ھذا السؤال قد اورد قبل علی الاحتجاج بالحدیث لوجوب الجماعۃ وقد تصدی العلماء لجوابہ قال العلامۃ البدر محمود العینی فی عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری الثالث (ای من وجوہ الجواب عن حدیث الباب) ماقالہ ابن بزیزۃ عن بعضھم انہ استنبط من نفس الحدیث عدم الوجوب لکونہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ھم بالتوجہ الی المتخلفین فلوکانت الجماعۃ فرض عین ماھم بترکھا اذا توجہہ قال العینی ثم نظر فیہ ابن بزیزۃ بان الواجب یجوز ترکہ لما ھو اوجب منہ ۱؎ ۱ھ کلام العمدۃ۔
قلت (میں کہتاہوں) پہلے یہی سوال اس حدیث سے وجوب جماعت پراستدلال کرنے پر وارد ہوا اور علما ء اس کے جواب کے درپے ہوئے ہیں چنانچہ علامہ بدرالدین عینی نے عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں لکھا تیسرا(یعنی حدیث باب پراعتراض کے جوابات میں سے) جواب وہ ہے جو ابن بزیزہ نے بعض محدثین کے حوالے سے ذکر کیا وہ یہ ہے کہ نفس حدیث سے عدم وجوب ثابت ہوتاہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضر نہ ہونے والوں کی طرف جانے کاارادہ کیا ہے اگرجماعت فرض عین ہوتی تو آپ اسے چھوڑ کر وہاں جانے کاارادہ نہ کرتے۔امام عینی کہتے ہیں پھر ابن بزیزہ نے اس کو یہ کہتے ہوئے محل نظر قراردیا کہ بعض اوقات اہم واجب کی وجہ سے دوسرے کم درجہ واجب کو ترک کیاجاسکتاہے ۱ھ(عمدۃ القاری کی عبارت ختم ہوئی)
(۱؎ عمدۃ القاری باب وجوب صلوٰۃ الجماعۃ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت ۵ /۱۶۴)
اقول: فلقد صح مثل ذلک عنہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی الجمعۃ اخرج مسلم فی صحیحہ عن عبداللہ یعنی ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال لقوم یتخلفون عن الجمعۃ لقد ھممت ان اٰمر رجلایصلی بالناس ثم احرق علی رجال یتخلفون عن الجمعۃ بیوتھم۱؎۔
اقول(میں کہتاہوں) یہی بات صحت کے ساتھ رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے نماز جمعہ کے بارے میں بھی ثا بت ہے، امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جمعہ سے غیرحاضر لوگوں کے بارے میں فرمایا: میراجی چاہتاہے کہ میں کسی آدمی کو جماعت کاحکم دوں کہ وہ لوگوں کونماز پڑھائے پھر میں ان لوگوں کے گھرجلادوں جو جمعہ سے غیرحاضررہتے ہیں۔
(۱؎ صحیح مسلم باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ بیان التشدید فی التخلف عنہا مطبوعہ نورمحمد اصح المطابع کراچی ۱ /۲۳۲)
اقول: علا ان عبداللہ بن وھب روی الحدیث فی مسندہ فقال حدثنا ابن ابی ذئب حدثنا عجلان عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ فذکر الحدیث وفیہ لینتھین رجال من حول المسجد لایشھدون العشاء اولاحرقن بیوتھم۲؎
اقول (میں کہتاہوں) اس کے علاوہ عبداللہ بن وہب نے اپنی مسند میں ذکر کیا کہ ہمیں ابن ابی ذئب نے انہیں عجلان نے انہیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حدیث بیان کی پھر حدیث ذکر کی اس کے الفاظ یوں ہیں: مسجد کے پڑوسی ضرور بازآجائیں جو نمازعشا میں حاضرنہیں ہوتے، ورنہ میں ان کے گھرجلادوں گا۔
(۲؎ عمدۃ القاری بحوالہ مسند عبداللہ بن وہب مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ مصر ۵ /۱۶۰)
وقد قال فی حدیث سقناہ عن الجامع الصحیح ثم اٰخذ شعلا من نار ولانسلم ان بین ان یذھب بعد الاقامۃ بشعل قد اوقدت الی بیوت حول المسجد فیضرمھا علیھم وبین الرجوع الی المسجد مایوجب تفویت الجماعۃ حتی یلزم الترک نعم یفوت الادراک من اول الصلاۃ وھولیس الافضیلۃ، ربما یترک لاقل من ھذا اعلی،
اور اس حدیث میں جسے ہم نے جامع صحیح کے حوالے سے لکھا یہ بھی ہے، فرمایا پھر میں آگ کی مشعل لوں اور ہم نہیں مانتے کہ درمیان اس کے کہ اقامت کے بعد آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کامسجد کے اردگرد لوگوں کے گھروں کوجلانے کے لئے مشعل لے کر جانا اور درمیان اس کے کہ مسجد کی طرف لوٹ آنا کوئیزیادہ وقت ہے جو جماعت کو فوت کردیتاہے، حتی کہ ترک جماعت لازم آئے، ہاں اول نماز کا فوت ہونا لازم آتاہے اور وہ فضیلت کے سواکچھ بھی نہیں، بعض اوقات اس سے بھی کم درجہ شی کی بنا پر اعلٰی کو تک کیاجاسکتاہے،
السکینۃ فی المشی لقولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذا سمعتم الاقامۃ فامشوا الی الصلاۃ وعلیکم بالسکینۃ و الوقار فما ادرکتم فصلوا ومافاتکم فاتموا۱؎، رواہ الشیخان وغیرھما عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ فسقط الاشکال راسا وللہ الحمد واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم ۱۲منہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ (م)
مثلاً جماعت کے لئے دوڑنے کی بجائے سکون سے چلناچاہئے کیونکہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان ہے جب تم اقامت سنو تو نماز کی طرف چلو دراں حال تم پرسکون ووقار لازم ہے جو حصہ نماز پالو اسے اداکرو اور جو رہ جائے اسے پواراکرلو۔ اسے بخاری ومسلم وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے، تو اب اشکال سرے سے ختم ہوگیا۔ وﷲ الحمد واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم ۱۲منہ رضی اﷲتعالٰی عنہ (ت)
البخاری عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ قال قال النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لیس صلاۃ اثقل علی المنافقین من الفجر والعشاء ولو یعلمون مافیھما لاتوھما ولوحَبوًا لقد ھممت ان اٰمر المؤذن فیقیم ثم اٰمر رجلا یؤم الناس ثم اٰخذ شعلامن نار فاحرق علی من لایخرج الی الصلاۃ ۱؎ بعد (عــہ)
البخاری، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافقین پرفجروعشا کی نماز سے بڑھ کر کوئی نماز بھاری نہیں ۔اگرانہیں ان کے درجہ وفضیلت کا علم ہوجائے تو وہ گھٹنوں کے بل ان کی ادائیگی کے لئے آئیں، میراجی چاہتاہے کہ میں مؤذن کو تکبیر کاکہوں اور کسی دوسرے کو جماعت کا حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھرمیں آگ کی مشعل لے کر ان پرپھینکوں جونماز کے لئے ابھی تک گھروںسے نہیں نکلے۔ (ت)
(عــہ)قولہ بعد نقیض قبل مبنی علی الضم فلما حذف منہ المضاف الیہ بنی علی الضم وسمی غایۃ لانتھاء الکلام الیھا والمعنی بعد ان یسمع النداء الی الصلاۃ ۲؎۱ھ عمدۃ القاری قلت والنفی اذا لاقی زمانا استغرق جمیع اجزائہ فیمتدّ من بدء وقت المضاف الیہ الی اٰن التکلم، ولذا یرجع حاصلہ فی امثال المقام الی قولک الی الاٰن، تقول ماجاء نی بعد ای بعد ان ذھب الی ھذا الحین وھذا معنی قولہ سمی غایۃ لانتھاء الکلام الیھا ۱۲منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)
قولہ ''بعد'' یہ قبل کی نقیض ہے یہ مبنی علم الضم ہے۔ کیونکہ جب اس کا مضاف الیہ محذوف ہو تو یہ مبنی علی الضم ہوتاہے۔ کلام اس پرختم ہونے کی وجہ سے اسے غایت بھی کہاجاتاہے۔ الفاظ حدیث کامعنی یہ ہے کہ جونماز کی اذان سن کر نماز کے لئے نہیں آتے۱ھ عمدۃ القاری قلت (میں کہتاہوں) جب نفی کسی زمان پر ملاقی ہو تو تمام اجزاء کومحیط ہوگی تو اس کا احاطہ وقت مضاف الیہ کی ابتداء سے لے کر وقت تکلم تک ہوتاہے، اسی لئے ایسی عبارت کامعنی ایسے مقامات پرمثلاً ''اب تک'' ہوتاہے مثلاً کوئی کہے ماجاء نی بعد یعنی وہ جانے کے بعد اس وقت تک نہیں آیا، اور جو انہوں نے کہا کہ اس پر انتہاء کلام کی وجہ سے اسے غایت کہاجاتاہے اس کا معنی ومفہوم بھی یہی ہے ۱۲منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)
(۲؎ عمدۃ القاری باب فضل صلاۃ العشاء فی الجماعۃ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت ۵ /۱۷۴)
یہ حدیث صحیح نص صریح ہے کہ وقت اقامت تک مسجدمیں حاضر نہ ہونا وہ جرم قبیح ہے جس پر حضور اقدس صلوات اللہ تعالٰی وتسلیماتہ علیہ وعلٰی آلہ الکرام نے ان لوگوں کے جلادینے کا قصد فرمایا، علماء فرماتے ہیں یہ ارشاد کہ تکبیر کہلواکر نماز شروع کراؤں اس کے بعد تشریف لے جاؤں اسی بناپرتھا کہ ان کی عدم حاضری ثابت اور الزام تخلف قائم ہولے اس کا منشا وہی تحقیق ہے جو ہم نے ذکر کی کہ ایجاب اجابت تاوقت اقامت موسع ہے۔ امام اجل ابوزکریا نووی رحمۃ اللہ تعالٰی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:
انماہم باتیانہم بعد اقامۃ الصلا ۃ لان بذالک یتحقق مخالفتہم وتخلفہم فلیتوجہ اللوم علیہم ۱؎الخ
اقامت نماز کے بعد آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآ لہ وسلم کا ان کی طرف جانے کا ارادہ اس لئے ہے کہ یہ وہی وقت ہے جب نہ آنے والوں کی عدم حاضری اور الزام تخلف ثابت ہوچکا جس کی وجہ سے وہ ملامت کے مستحق قرارپائے ہیں الخ(ت)
(۱؎ شرح مسلم للنووی مع صحیح مسلم باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ زیرحدیث مذکور مطبوعہ نورمحمد اصح المطابع کراچی ۱ /۲۳۲)
اقول یہاں سے واضح ہوگیا کہ ظاہر حدیث میں جو کلام قنیہ و مجتبٰی کی تائید نکلتی تھی ممنوع وساقط ہے معہذا شک نہیں کہ حضور مسجد بنفسہٖ عبادت مقصودہ نہیں بلکہ غرض شہود جماعت ہے اور قبل از اقامت فوت جماعت غیرمعقول تواقامت تک وجوب موسع ماننے سے چارہ نہیں مگربات یہ ہے کہ اقامت تک تاخیر یاتو امام معین کو میسر جس کے بن آئے جماعت قائم ہی نہ ہوگی یا اسے جس کامکان مسجد سے ایسا ملاصق کہ تکبیر کی آواز اس پرمخفی نہ رہے گی ان کے سوا اور نمازیوں کو انتظار اقامت کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں کہ جب نہ تکبیر ان پر موقوف نہ انہیں اس کی آواز آئے گی تو کس چیز کا انتظار کررہے ہیں ایسوں کو اُسی وقت تک تاخیر واجب تک تفویت کاخوف نہ ہو حدیث ایسے ہی لوگوں پرمحمول اور ممکن کہ کلام قنیہ و مجتبٰی بھی اسی معنی پر حمل کریں فیحصل التوفیق وباﷲ التوفیق۔
رابعاً اگربفرض باطل یہ احکام مطلق جماعت کے ہوتے کہ اولٰی وثانیہ دونوں جس کے فرد کو واجب تھا کہ بعد فوت اولٰی ثانیہ بالتعیین واجب ومؤکد ہوتی کہ اب برأت ذمہ اسی فرد میں منحصر ہوگئی حالانکہ ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو بعد فوت اولٰی وجوب درکنار نفس جواز ثانیہ میں نزاع عظیم ہے ظاہرالروایہ(عـــہ۱) منع وکراہت ہے اگرچہ ماخوذ ومختار جواز ہے جبکہ بے اعادہ اذان ہیأۃ اولٰی بدل کر ہو کما بیناہ فی فتاوٰنا بما یقبل المنصف وان کابرالمتعسف (جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تفصیل بیان کردی ہے جسے منصف قبول اور متعسف مخالفت کرے گا۔ت)
(عـــہ۱) یہاں کلام علی ماھوالمشہور بین کثیر من الناس ہے فقیر غفراللہ تعالٰی لہ پر کہ اس کی تحقیق بجمیل توفیق و جلیل تطبیق فائض ہوئی خاص اسباب میں تحریر فقیر سے دیدنی ۱۲منہ رحمہ اللہ تعالٰی (م)
امام اجل ظہیرالدین مرغینانی رحمہ اللہ تعالٰی اپنے فتاوٰی میں فرماتے ہیں:
لودخل جماعۃ المسجد بعد مایصلی فیہ اھلہ یصلون وحدانا وھوظاھر الروایۃ۲؎۔
اگرکچھ آدمی کسی ایسی مسجد میں داخل ہوئے کہ وہاں کے لوگ باجماعت نماز اداکرچکے تھے تو اب یہ تنہا تنہا پڑھیں اور یہی ظاہرروایت ہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار بحوالہ فتاوٰی ظہیریہ مطلب فی تکرار الجماعۃ فی المسجد مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۰۹)
وبعبارۃ اخری جس جماعت کو علماء واجب یاسنت موکدہ کہتے ہیں اس کا تاکد متفق علیہ ہے اور ثانیہ کا بعد فوت اولٰی بھی نفس جواز مختلف فیہ توثانیہ کسی وقت اس جماعت سے نہیں جس کاحکم وجوب و تاکد ہے لیکن ثانیہ دائما مطلق جماعت کی فرد ہے تولاجرم یہ احکام مطلق اصولی کے نہیں بلکہ خاص اولٰی کے ہیں وھو المطلوب (اور مطلوب یہی تھا۔ت) ردالمحتار میں ہے:
قدعلمت ان تکرارھا مکروہ فی ظاھر الروایۃ الا فی روایۃ عن الامام وروایۃ عن ابی یوسف(عـــہ) کما قدمناہ قریبا وسیأتی ان الراجح عند اھل المذھب وجوب الجماعت وانہ یاثم بتفویتھا اتفاقا ۱؎۔
آپ نے جانا کہ جماعت کا تکرار ظاہرروایت میں مکروہ ہے مگرامام صاحب سے ایک روایت اور امام ابویوسف سے ایک روایت میں مکروہ نہیں جیسا کہ ہم نے ابھی پہلے بیان کیااور عنقریب آرہاہے کہ اہل مذہب کے ہاں راجح وجوب جماعت ہے اور جماعت کو فوت کرنے والا بالاتفاق گنہگار ہے(ت)
(عـــہ) قلت وروایۃ عن محمد کما فی البحر والمجتبی والحلیۃ وغیرھا ۱۲منہ (م)
میں کہتاہوں امام محمد سے بھی ایک روایت یہی ہے جیسا کہ بحر، مجتبٰی، حلیہ اور دیگر کتب میں ہے ۱۲منہ (م)
(۱؎ ردالمحتار مطلب فی کراہت تکرار الجماعۃ فی المسجد مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۲۹۱)
بھلا وہ کیاچیز ہے جس کی تفویت بالاتفاق گناہ ہے ثانیہ کو تو اسی عبارت میں روایت مشہورہ پرمکروہ بتارہے ہیں لاجرم وہ اولٰی ہی ہے توثانیہ کے اعتماد پر اسے فوت کرنا بالاتفاق گناہ ہے اور گناہ کی اجازت دینی اس سے بھی بدتر۔
وبعبارۃ ثالثۃ وہی علما کہ جماعت ثانیہ کو مکروہ بتاتے ہیں وجوب تأکد جماعت کی تصریح فرماتے ہیں
کما لایخفی علی من تتبع کلمات القوم وقد علمت الخلف والوفاق
(جیسا کہ ہراس شخص پر واضح ہے جوفقہاء کی عبارات سے آگاہ ہے اور تو اس میں اختلاف واتفاق کو جانتا ہے۔ت) اور وجوب و تاکد کا کراہت سے اجتماع بمعنی نہی عن الفعل یاندب ترک بعد حصول المتاکد یقینا محال اگرچہ بمعنی المطلوب المطلوب الدفع قبل الحصول و مطلوب الفعل بعد الحصول ممکن اور شک نہیں کہ یہاں اجتماع ہوگا توبمعنی اول فاعرف وافھم ان کنت تفھم بالیقین (اسے پہچان کر اچھی طرح سمجھ لے اگر توفیق کوپانے والا ہے۔ت) وہ حکم اجماعی ایسی ہی جماعت کا ہے جو ثانیہ کو شامل نہیں ورنہ قول مشہور نہ صرف مہجور بلکہ قول بالمحال اور معاذاللہ قانون عقل وتمیز سے دور ہوگا وای شناعۃ اشنع من ذلک (یعنی اس سے بڑھ کر بدبختی کیاہوگی۔ت)
خامساً ایک بدیہی بات، سنیت کا ہے سے ثابت ہوتی ہے مواظبت حضورسید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مطلقاً یامع الترک احیاناً اور وجوب کوکیا چاہے،انکاراعلی الترک بھی یا صرف مواظبت دائمہ، اب دیکھ لیاجائے کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کس جماعت پر مواظبت فرمائی اور کس کے ترک پرنکیر آئی، ظاہر ہے کہ وہ جماعت اولٰی ہی تھی تو وجوب یا استنان موکد اسی کا حکم ہے نہ مطلق ثانیہ کا۔
تنبیہ احکام افراد جانب مطلق سرایت کرتے شبہہ نہیں مگر وہ مطلق مطلق منطقی ہے جس کے تحقق کو تحقق فرد واحد اور اس پرصدق کا حکم کو صدق علی فرد ولوعلی خلاف سائر الافراد کافی، ولہذا بتضاد احکام افراد مورد احکام متضاد ہوتا ہے بایں معنی مطلق جماعت بیشک فرض واجب سنت مستحب مباح مکروہ حرام سب کچھ ہے کہ جماعت ظہر فی المصر یوم الجمعہ وغیرہ سب کو شامل،اس معنی پر حکم فرد کی مطلق سے نفی دوبار قول بالمتناقضین ہے لثبوتہ ونفیہ کلیھما(عـــہ) والمطلق کلیھما (ثبوت نفی دونوں میں اور دونوں کے دونوں مطلق میں۔ت)
(عـــہ)لانہ ان اثبت للفرد فقد اثبت للمطلق بھکم السرایۃ لکنہ اثبت للفرد فاثبت للمطلق وقد نفی عنہ لکنہ لم یثبت للمطلق فلم یثبت للفرد وقد اثبت لہ ۱۲منہ (م)
اس لئے کہ اگرکسی فرد کے لئے ثابت کیا تو وہ حکم سرایت کی وجہ سے مطلق کے لئے بھی ثابت ہوجاتاہے لیکن جب اس نے فرد کے لئے ثابت کیا تو گویا مطلق کے لئے بھی ثابت کردیا حالانکہ اس نے اس سے نفی کردی لیکن جب مطلق کے لئے ثبوت نہیں تو فرد کے لئے بھی ثابت نہیں حالانکہ اس نے مطلق کے لئے ثابت کیا ہے۱۲(ت)
کلام اس میں نہیں مطلق اصولی یعنی فرد شائع یا ماہیت متقررہ فی ای فرد یُرادُ میں کلام ہے اس کی طرف احکام خاصہ فرد دُونَ فردٍ ہرگز ساری نہیں ہوسکتے اور جوحکم اس کے لئے ثابت وہ ہرفرد کوثابت مالم یمنع مانع (جب تک کوئی مانع نہ پایاجائے۔ت) یہ نکتہ ضروری الحفظ ہے کہ اس سے غفلت باعث غلط وشطط ہوتی ہے
تاج المحققین خاتمۃ المدققین ہمارے سردار والدگرامی قدس سرہ، نے اس کی تحقیق اپنی کتاب ''اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد'' میں کی ہے اور اﷲتعالٰی ہی سیدھے راہ کی ہدایت دینے والا ہے(ت)
بالجملہ نہ جماعت اولٰی پرترجیح تہجّد وجہ صحت رکھتی ہے نہ حکم وجوب وتاکد جماعت اولٰی سے متعدی ہے نہ باعتماد ثانیہ ترک اولٰی کی اجازت ہوسکتی ہے نہ ہرگز اولٰی وثانیہ کاثواب مساوی ہے بلکہ باعتماد ثانیہ تفویت اولٰی گناہ قطعی اجماعی ہے، ہاں مسجد اگرمسجد شارع ہو یعنی اس کے لئے کوئی جماعت معلوم معین نہیں جیسے بازاروں کی مسجدیں کہ کسی خاص محلہ وگروہ سے مختص نہیں کچھ راہ گیر آئے پڑھ گئے کچھ پھرآئے وہ پڑھ گئے، یوں ہی متفرق گروہ آتے اور پڑھتے جاتے ہیں تو وہاں اس قول کی گنجائش ہے کہ ایسی مساجد کی ہرجماعت جماعت اولٰی ہے،
فان الاولی الناھیۃ عن الثانیۃ مطلقا او بشرطہ ھی مافعلھا اھل المسجد باذان جھر اواقامۃ حتی لو ان مسجدا من مساجد الحی اتاہ قوم من غیراھلہ فاذنوا واقاموا وصلوا جماعۃ کان لاھلہ ان یصلوا جماعۃ من دون حاجۃ الی العدول عن المحراب لان الحق لھم فلایبطل بفعل غیرھم کمانصوا علیہ، ومساجد الشوارع لااھل لھا معینا فلایتحقق فیھا الاولی بالمعنی المذکور بل الکل اولی اذلیس بعض من بعض باولی۔
کیونکہ پہلی جماعت دوسری جماعت سے ہرحال میں روکنے والی ہے یا اس شرط کے ساتھ کہ پہلی جماعت اہل محلہ نے بلند اذان واقامت کے ساتھ اداکی ہو حتی کہ اگرغیرمحلہ کے لوگ کسی محلہ کی مسجد میں آئے اور انہوں نے اذان دی اقامت کہی اور جماعت کروائی تو اب اہل محلہ محراب تبدیل کئے بغیر جماعت کروانے کاحق رکھتے ہیں کیونکہ جماعت کرنے کاحق ان کا ہے توغیر کی جماعت کی وجہ سے ان کا حق باطل نہیں ہوسکتا جیسا فقہا نے اس کی تصریح کی ہے اور راستے کی مساجد میں کوئی عملی جماعت متعین نہیں ہوتی لہٰذا باعتبار معنی مذکور کے ایسی مساجد کی کوئی ایک جماعت اولٰی نہ ہوگی بلکہ ہرایک اولٰی ہوگی کیونکہ وہاں بعض بعض سے اَولٰی نہیں ہوتے۔(ت)
ولہٰذا ہرگروہ کہ آتاجائے اپنی اپنی جدا اذان واقامت سے جماعت کرے
کمافی ردالمحتار عن خزائن الاسرار عن امالی الامام قاضی خاں وفی خانیتہ مسجد لیس لہ مؤذن وامام معلوم ویصلی الناس فیہ فوجا فوجا فان الافضل ان یصلی کل فریق باذان واقامۃ علی حدۃ ۱؎
جیسا کہ ردالمحتار میں خزائن الاسرار سے امالی قاضیخاں سے اور انہی کے فتاوٰی خانیہ کے حوالے سے ہے ہروہ مسجد جہاں کوئی مؤذن وامام مقرر نہ ہو وہاں لوگ مسجد میں گروہ درگروہ نمازاداکریں کیونکہ افضل یہ ہے کہ ہرگروہ اذان واقامت کے ساتھ الگ الگ نمازپڑھے ۱ھ۔
(۱؎ ردالمحتار باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۰۸)
(فتاوٰی قاضی خاں فصل فی المسجد مطبوعہ نولکشور لکھنؤ ۱۶ /۳۲)
وفی الشامیۃ عن المنبع اما مسجد الشارع فالناس فیہ سواء لااختصاص لہ بفریق دون فریق۲؎۱ھ۔
اور فتاوٰی شامی میں منبع سے ہے رہا معاملہ مسجد شارع کا تو اس میں تمام لوگ برابرہوتے ہیں اس میں کسی ایک فریق کوتخصیص حاصل نہیں ہے۱ھ(ت)
(۲؎ ردالمحتار باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۰۹)
الحمدﷲ کلام پنے ذردہ اقصی کو پہنچا اور حکم مسائل نے غایت انجلا پایا ھکذا ینبغی التحقیق واﷲ ولی التوفیق(تحقیق کاتقاضا یہی تھا اوراﷲتعالٰی ہی توفیق کامالک ہے۔ت) روشن رہے کہ فقیر غفراﷲتعالٰی لہ، کو کسی کے کلام پراخذ مقصود نہیں بلکہ صرف اظہارحق وادائے واجب اکد واحق کے بعد سوال اعانت جواب و ابانت صواب اہم واجبات شرعیہ سے ہے جس پر ہم سے حضورپرنور خاتم النّبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے عہدواثق لیا۔
اللھم اجعلنا من المفلحین وبعھد نبیک من الموفین علیہ وعلی اٰلہ الصلوۃ والتسلیم ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔
اے اﷲ! ہمیں کامیاب ہونے والوں میں سے کردے او اپنے نبی علیہ وعلٰی آلہ الصلوٰۃ والتسلیم کے ساتھ عہد ایفاء کرنے والابنادے۔ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے قبول فرما بیشک تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے(ت)
الحمدﷲ کہ یہ ضروری وموجز جواب کاشف صواب فرصت اختلاصی کے چند متفرق جلسوں میں ۲۴صفر ۱۳۱۲ہجریہ روزجان افروزدوشنبہ کو وقت اشراق مہرمشرق سمائے ختام و
بلحاظ تاریخ بدء وختم القلادۃ المرصعۃ فی نحرالاجوبۃ الاربعۃ اس کا پورانام ہوا واٰخردعوٰنا ان الحمدﷲ ربّ العٰلمین والصلٰوۃ والسلام علی سید المرسلین محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین اٰمین واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ احکم۔