Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۷(کتاب الصلٰوۃ)
12 - 158
عوارف شریف میں ہے:
لتغییر العادۃ فی الوسادۃ والغطاء والوطاء تاثیر فی ذلک ومن ترک شیأا من ذلک و اللہ عالم بنیتہ وعزیمتہ یثیبہ علی ذلک بتیسیر مارام۲؎۔
کیونکہ تکیہ، بچھونے اور لحاف وغیرہ میں عادت کو بدل دینا یعنی ان کو ترک کردینا اس سلسلہ میں بہت مؤثر ہے اور جو ان اشیاء میں سے کسی کو ترک کردے تو اللہ تعالٰی اس کی نیت وارادہ کودیکھتے ہوئے اس کے مقصد میں سہولت پیدافرمادیتاہے یعنی کم خوابی کے آداب اس کو میسرآجاتے ہیں(ت)
(۲؎ عوارف المعارف ملحق احیاء العلوم     الباب السادس والاربعون الخ     مطبوعہ مطبعۃ المشہد الحسینی قاہرہ مص    ص۱۸۴)
۷اپنے اہل خانہ وغیرہم سے کسی معتمد کو متعین کرکہ وقت جماعت سے پہلے جگادے
کماوکل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بلالارضی اللہ تعالٰی عنہ لیلۃ التعریس۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے لیلۃ التعریس میں حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بیدارکرنے کی ذمہ داری سونپی تھی(ت)

ان ساتوں تدبیروں کے بعد کسی وقت سوئے ان شاء اللہ تعالٰی فوت جماعت سے محفوظ ہوگا اور اگرشاید اتفاق سے کسی دن آنکھ نہ بھی کھلی اور جگانے والا بھی بھول گیا یاسورہا کما وقع لسیدنا بلال رضی اللہ تعالٰیعنہ(جیسا کہ سیدنا بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ واقعہ ہوا۔ت) تو یہ اتفاقی عذر مسموع ہوگا اور امید ہے کہ صدق نیت وحسن تدبیر پرثواب جماعت پائے گا وباللہ التوفیق۔
کیا تیری مسجد میں بہت اول وقت جماعت کرتے ہیں کہ دوپہر سے اس تک سونے کا وقفہ نہیں جب تو سب وقتوں سے چھوٹ گیا سوکر پڑھی یاپڑھ کر سوئے بات تو ایک ہی ہے جماعت پڑھ ہی کر سوئے کہ خوف فوت اصلاً نہ رہے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم روزجمعہ کیاکرتے تھے۔
الشیخان عن سھل بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ قال ماکنا نقیل ولانتغذی الابعدالجمعۃ۱؎، وفی لفظ للبخاری کنا نصلی مع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الجمعۃ ثم تکون القائلۃ۲؎، وعندہ عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کنانبکر الی الجمعۃ ثم نقیل۳؎۔
بخاری ومسلم نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے کہ ہم جمعہ کے بعد قیلولہ کرتے اور کھاناکھاتے تھے، دوسری حدیث میں الفاظ بخاری یہ ہیں ہم نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ نمازجمعہ اداکرتے پھرقیلولہ ہوتاتھا، اور بخاری میں ہی حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ہم نمازجمعہ کی طرف جلدی جاتے تھے پھر قیلولہ کرتے تھے(ت)
(۱؎ صحیح البخاری    باب قول اللہ عزوجل فاذا قضیت الصلوٰۃ الخ        مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۲۸)

(۲؎ صحیح البخاری    باب القائلہ بعدالجمعہ            مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۲۸)

(۳؎ صحیح البخاری    باب قول اللہ عزوجل فاذاقضیت الصلوٰۃ الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۲۸)
غرض یہ تین صورتیں ہیں پیش اززوال سواٹھنا، بعد جماعت سونا ان میں کوئی خدشہ ہی نہیں، اور تیسری صورت میں وہ سات تدبیریں ہیں رب عزوجل سے ڈرے اور بصدق عزیمت ان پر عمل کرے پھر دیکھیں کیونکر تہجد تفویت جماعت کا موجب ہوتاہے، بالجملہ نہ ماہ نیم ماہ کہ مہرنیمروز کی طرح روشن ہوا کہ عذر مذکور یکسرمدفوع و محض نامسموع، جماعت وتہجد میں اصلاً تعارض نہیں کہ ایک کاحفظ دوسرے کے ترک کی دستایز کیجئے اور بوجہ تعذر جمع راہ ترجیح لیجئے ھذا ھو حق الجواب واللہ الہادی الی سبیل الصواب (اور یہی حق جواب ہے اور اللہ تعالٰی ہی راہ صواب کی طرف ہادی ہے۔ت)
بااینہمہ اگر اس تقدیر ضائع وفرض خلاف واقع کامان لینا ہی ضرور توجماعت اولٰی پرتہجد کی ترجیح محض باطل ومہجور، اگر حسب تصریح عامہ کتب تہجد مستحب وحسب اختیار جمہور مشائخ جماعت واجب مانئے جب توظاہر کہ واجب ومستحب کی کیابرابری، نہ کہ اس کو اس پرتفضیل وبرتری، اور اگر تہجد میں اعلی الاقوال کی طرف ترقی اور جماعت میں اونی الاحوال کی جانب تنزل کرکے دونوں کو سنت ہی مانئے تاہم تہجد کو جماعت سے کچھ نسبت نہیں جماعت برتقدیر سنیت بھی تمام سنن حتی کہ سنت فجر سے بھی اہم وآکد واعظم ہے ولہٰذا اگرامام کونمازفجر میں پائے اور سمجھے کہ سنتیں پڑھے گا توتشہد بھی نہ ملے گا توبالاجماع سنتیں ترک کرکے جماعت میں مل جائے
والمسئلۃ منصوص علیھا فی کتب المذھب کافۃ
(اس مسئلہ پرتمام کتب مذہب میں نص موجود ہے۔ت)
طحطاوی حاشیہ مراقی الفلاح شرح نورالایضاح میں زیرقول مصنف الجماعۃ سنۃ فی الاصح (اصح قول کے مطابق جماعت سنت ہے۔ت)
وفی البدائع عامۃ المشائخ علی الوجوب و بہ جزم فی التحفۃ وغیرھا وفی جامع الفقہ اعدل الاقوال واقواھا الوجوب (الی ان قال) وعلی القول بانھا سنۃ ھی اکدمن سنۃ الفجر۱؎۔
بدائع میں ہے کہ عامہ مشائخ کے نزدیک جماعت واجب ہے۔ اسی پرتحفہ وغیرہا میں جزم ہے اورجامع الفقہ میں ہے سب سے معتدل اور مضبوط قول وجوب کا ہے (آگے چل کرکہا) جن کے قول پر جماعت سنت ہے ان کے نزدیک یہ سنت فجر سے زیادہ مؤکد ہے۔(ت)
(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح        باب الامامۃ    مطبوعہ نورمحمد کتب خانہ کراچی    ص۱۵۶)
ردالمحتار باب النوافل میں ہے:
لیس لہ ترک صلاۃ الجماعۃ لانھا من الشعائر فھی اکدمن سنۃ الفجر ولذا یترکھا لوخاف فوت الجماعۃ۲؎۔
عالم دین کے لئے باجماعت نماز کا ترک جائز نہیں کیونکہ یہ شعائر اسلام میں سے ہے اور اس میں فجر کی سنتوں سے زیادہ تاکید ہے یہی وجہ ہے کہ جماعت کے نہ ملنے کاخوف ہو تو سنن فجر کو ترک کیاجاسکتاہے(ت)
(۲؎ ردالمحتار        باب الوتر والنوافل        مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱ /۴۹۹)
اور سنت فجر بالاتفاق بقیہ تمام سنن سے افضل، ولہٰذا بصورت فوت مع الفریضہ بعد وقت قبل زوال ان کی قضا کاحکم ہے بخلاف سائر سنن کہ وقت کے بعد کسی کی قضا نہیں، ولہٰذا بلاعذر مبیح سنت فجر کوبیٹھ کرپڑھنا ناجائز بخلاف دیگرسنن کہ بے عذر بھی روا اگرچہ ثواب آدھا، ولہٰذا صاحبین رحمہما اللہ تعالٰی کہ قائل سنیت وترہوئے سنت فجر کو اس سے آکد ماننے کی طرف گئے، درمختار میں ہے:
السنن اٰکدھا سنۃ الفجر اتفاقا و قیل بوجوبھا فلاتجوزصلاتھاقاعدا بلاعذر علی الاصح ولایجوزترکہا لعالم صارمرجعا فی الفتاوی بخلاف باقی السنن وتقضی اذا فاتت معہ بخلاف الباقی ۱؎۱ھ ملخصا
وہ سنن جن پر سب سے زیادہ تاکید ہے وہ بالاتفاق فجر کی سنتیں ہیں، بعض نے انہیں واجب قراردیاہے لہٰذا اصح قول کے مطابق بغیرعذر کے ان کو بیٹھ کر اداکرنا جائز نہ ہوگا اور اس عالم کے لئے بھی ان کا ترک جائز نہیں جو فتوٰی جات کے لئے مرجع بن چکاہو، یعنی فتوی نویسی سے فراغت نہ ملتی ہو بخلاف باقی سنن کے، یعنی باقی سنن کو لوگوں کی حاجت فتوٰی کے پیش نظرچھوڑسکتاہے اور یہ سنن فرائض کے ساتھ اگر فوت ہوجائیں تو ان کی قضا ہے جبکہ باقی سنن کی قضانہیں ۱ھ تلخیصاً(ت)
(۱؎ درمختار        باب الوتر والنوافل        مطبوعہ مجتبائی دہلی        ۱ /۹۵)
بحرالرائق میں ہے:
سنۃ الفجر اقوی السنن باتفاق الروایات لما فی الصحیحین عن عائشۃ رضی اللہ تعالٰی عنہا قالت لم یکن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی شیئ من النوافل اشد تعاھدا منہ علی رکعتی الفجر۲؎۔
فجر کی سنتیں بالاتفاق باقی تمام سنن سے اقوٰی ہیں جیسا کہ بخاری ومسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نوافل میں سب سے زیادہ حفاظت فجر کی سنتوں کی فرماتے تھے(ت)
(۲؎ بحرالرائق    باب الوتر والنوافل        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۲ /۴۷)
اسی میں خلاصہ سے ہے:
اجمعوا علی ان رکعتی الفجر قاعداً من غیر عذرلاتجوز کذا روی الحسن عن ابی حنیفۃ۳؎
تمام فقہا کااتفاق ہے کہ بغیر عذر کے فجر کی سنتیں بیٹھ کر اداکرنا جائز نہیں جیسا کہ حسن نے امام ابوحنیفہ سے روایت کیاہے(ت)
(۳؎ بحرالرائق    باب الوتر والنوافل        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۲ /۴۷)
اسی میں قنیہ سے ہے:
 اذا لم یسع وقت الفجر الا الوتر والفجر، اوالسنۃ والفجر فانہ یوترویترک السنۃ عند ابی حنیفۃ وعندھما السنۃ اولی من الوتر۴؎۔
جب وقت فجر میں، وتروفجر یاسنن وفجر کی ادائیگی کے سواگنجائش نہ رہے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک وترادا کرلئے جائیں اورسنتیں ترک کردی جائیں اور صاحبین کے ہاں سنتوں کی ادائیگی وتر کی ادائیگی سے افضل ہے۔(ت)
 (۴؎ بحرالرائق    باب الوتر والنوافل        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۲ /۴۸)
پھر مذہب اصح پرسنت قبلیہ ظہربقیہ سنن سے آکد ہیں
صححہ المحسن واستحسنہ المحقق فی الفتح فقال وقد احسن لان نقل المواظبۃ الصریحۃ علیھا اقوی من نقل المواظبۃ الصریحۃ علیھا اقوی من نقل مواظبتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی غیرھا من غیررکعتی الفجر۱؎۱ھ وکذا صححہ فی الدرایۃ والعنایۃ والنھایۃ وکذا ذکر تصحیحہ العلامۃ نوح کما فی الطحطاوی علی مراقی الفلاح وکذا صححہ فی البحرعن القنیۃ وعللہ بورود الوعید وتبعہ فی الدر ۔
محسن نے اس کو صحیح اور محقق نے فتح میں اس کو مستحسن قراردیا اور کہا انہوں نے اچھا کیا کیونکہ فجر کی سنتوں کے علاوہ سنن ظہر نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جو مواظبت منقولہ سے زیادہ اقوی ہے۱ھ اور اسی طرح اسے درایہ، عنایہ اور نہایہ میں صحیح کہا اور اسی طرح علامہ نوح نے اس کی تصحیح ذکر کی جیسا کہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں مذکور ہے۔ بحر میں قنیہ کے حوالے سے صحیح کہا اور اس کی علت یہ بیان کی کہ ان کے ترک پروعید وارد ہے اور اس کی اتباع درمختار نے کی ہے۔(ت)
 (۱؎ فتح القدیر            باب النوافل        مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۳۸۳)
اور امام شمس الائمہ حلوانی کے نزدیک سنت فجر کے بعد افضل وآکد رکعتیں مغرب ہیں پھر رکعتیں ظہر پھر رکعتیں عشا پھر قبلیہ ظہر کما فی الفتح وغیرہ۔
قلت وعلیہ مشی فی الھندیۃ عن تبیین الحقائق الامام الزیلعی فقال اقوی السنن رکعتا الفجر ثم سنۃ المغرب ثم التی بعد الظھر ثم التی بعد العشاء ثم التی قبل الظھر۲؎ (ملخصا)۔
قلت (میں کہتاہوں) ہندیہ میں امام زیلعی کی تبیین الحقائق کے حوالے سے یہی بات بیان کرتے ہوئے کہا سب سے قوی اور مؤکد فجر کی سنتیں پھر سنت مغرب پھر بعدیہ ظہر پھر بعدیہ عشاء پھر قبلیہ ظہر(ملخصاً) (ت)
 (۲؎ تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق    باب الوتر والنوافل    مطبوعہ مطبعۃ کبرٰی امیریہ بولاق مصر    ۱ /۱۷۲)
پھر شک نہیں کہ ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نزدیک سب سنن رواتب تہجد سے اہم وآکد ہیں۔
اقول وکیف لاوقدثبت استنانھا موکدا من دون تردد بخلاف التھجد فان جمہور العلماء یعدونہ من المندوبات حتی جاء المحقق ابن الھمام فبحث بحثا ولم یقطع قولا فتردد فی ندبہ واستنانہ مع التنصیص بان الادلۃ القولیۃ انما تفید الندب، ثم بحث تلمیذہ المحقق ابن امیرالحاج اشبھیۃ سنیتہ علی مافیہ من نزاع طویل ولولا غرابۃ المقام ومخافۃ الطویل لاتینابمافیہ من قال وقیل۔
اقول(میں کہتاہوں) یہ کیسے نہ ہو حالانکہ ان سنن ورواتب کا مؤکد ہونا بغیر کسی تردّد کے ثابت ہےبخلاف تہجدکے، کیونکہ جمہور علماء اسے (یعنی تہجد کو) مندوبات میں شمار کرتے ہیں حتی کہ محقق ابن ہمام جب اس مسئلہ پرپہنچے تو انہوں نے خوب بحث کی لیکن وہ بھی اس بارے میں کوئی قطعی قول نہ کرسکے اور اس کے مندوب ومسنون ہونے میں متردد ہوئے، باوجود اس تنصیص کے کہ ادلہ قولیہ اس کے مندوب ہونے کو ظاہر کرتی ہیں، پھر ان کے شاگرد محقق ابن امیرالحاج نے اس کے سنت ہونے کو اشبہ ومختار کیا۔ علاوہ ازیں اس میں طویل نزاع کوذکرکیا ہے اگر غرابت مقام اور طوالت کاخوف نہ ہوتا تو ہم وہ تمام گفتگو یہاں ذکرکردیتے۔(ت)
ولہٰذا ہمارے علماء سنن رواتب کی نسبت فرماتے ہیں:
انھا لتاکدھا اشبھت الفریضۃ۱؎ کما فی الدر۔
یہ سنن رواتب تاکید کی بنا پر فرائض کے مشابہ ہیں جیسا کہ در میں ہے(ت)
 (۱؎ درمختار        باب الوتر والنوافل        مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۹۵)
اور یہی مذہب جمہورومشرب منصور ہے
وان خالفھم الامام ابواسحاق المروزی من الشافعیۃ فقال بتفضیل التھجد مطلقا، وتبعہ الامام الاجل ابوزکریا النووی الشافعی فی المنہاج مستدلا بما لاحجۃ لہ فیہ عند التدقیق کما بیناہ(عــہ) فیبعض تعلیقاتنا وقد علمت مذہب اصحابناواجماعھم علی ان الاقوی الاٰکد مطلقا سنۃ الفجرفلاعلیک من جنوح الفاضل میرک وباللّٰہ التوفیق تعالٰی وتبارک۔
اپنے بعض حواشی میں اسے بیان کیاہے اور آپ جانتے اگرچہ امام ا بواسحاق شافعی مروزی نے ہمارے اصحاب کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تہجد ہرحال میں سنن رواتب سے افضل ہے، امام اجل ابوزکریا نووی شافعی نے منہاج میں ایسی دلیل دیتے ہوئے ان کی اتباع کی کہ جوتحقیق وتدقیق کے بعد حجت نہیں بن سکتی جیسا کہ ہم اپنے بعض حواشی میں اسے بیان کیا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا مذہب اور اجماع اس بات پر ہے کہ اقوی ومؤکد ہرحال میں فجر کی سنتیں ہیں اور فاضل میرک کی بحث وگفتگو قابل توجہ نہیں وباللہ التوفیق تعالٰی وتبارک۔(ت)
 (عــہ)اخرجہ الا ئمۃ احمد ومسلم و للاربعۃ عن ابی ھریرۃ ومحمد بن ھارون الرویانی فی مسندہ والطبرانی فی الکبیر عن جندب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما قالا قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم افضل الصلٰوۃ بعد المکتوبات صلاۃ فی جوف اللیل ۱؎،
اسے امام احمد، امام مسلم اور دیگر چاروں محدثین ائمہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، اور شیخ محمد ہارون رویانی نے اپنی مسند اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں حضرت جندب رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا، دونوں صحابی کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: فرائض کے بعد سب سے افضل نماز رات کے درمیانی حصہ کی نماز ہے۔
 (۱؎ صحیح مسلم     کتاب الصوم    ۱ /۳۶۸)
فحملہ ابواسحق المروزی ومن وافقہ علی ظاھرہ فقالوا ان صلٰوۃ اللیل افضل من السنن الراتبۃ قال الامام النووی وقال اکثر اصحابنا الرواتب افضل لانھا تشبہ الفرائض قال والاول اقوی واوفق للحدیث ۲؎۱ھ وتبعہ العلامۃ میرک فقال فیہ حجۃ لابی اسحٰق المروزی من شافعیۃ علی ان صلاۃ اللیل افضل من الرواتب ۔
امام ابواسحاق مروزی اور ان کے ساتھ موافقت رکھنے والے علماء نے اسے اپنے ظاہری معنی پرمحمول کرتے ہوئے کہا کہ رات کی نماز سنن راتبہ سے افضل ہے۔ امام نووی نے کہا کہ ہمارے اکثر علماء نے فرمایا کہ سنن راتبہ افضل ہیں کیونکہ وہ فرائض کے مشابہ ہیں اور فرمایا پہلا قول اقوی اور حدیث کے زیادہ موافق ہے ۱ھ علامہ میرک نے اسی کا اتباع کرتے ہوئے کہا کہ یہ حدیث امام ابواسحق مروزی شافعی کی اس بات پردلیل ہے کہ رات کی نماز سنن راتبہ سے افضل ہیں۔
 (۲؎ شرح صحیح مسلم للنووی        ۱ /۳۶۹)
وقال اکثر العلماء ان الرواتب افضل و الاول اقوی لنص ھذا الحدیث قال وقد یجاب بان معناہ من افضل الصلاۃ وھو خلاف سیاق الحدیث۳؎ ۱ھ
اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ سنن مؤکدہ افضل ہے مگر پہلا قول اس نص حدیث کی وجہ سے قوی ہے، اور کہا کہ بعض نے یہ جواب دیا ہے کہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ رات کی نماز افضل نماز میں سے ہے، اور یہ سیاق حدیث کے خلاف ہے۱ھ
 (۳؎ مرقات المفاتیح بحوالہ علامہ میرک    ۳ /۳۱۱)
امام موافقوا الجمہور فاولوہ بان المراد الفرائض وتوابعھا ای کان الرواتب لشدہ التصاقھا بالمکتوبات وشبھھا بھادخلت فی قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بعد المکتوبۃ قال المولی علی القاری فی المرقاۃ افضل الصلٰوۃ بعد المفروضۃ ای توابعھا من السنن المؤکدۃ ۱؎ ۱ھ
بہرحال جو جمہور کی موافقت کرنے والے ہیں وہ اس کی تاویل یوں کرتے ہیں کہ یہاں سے اس سے مراد فرائض اور ان کے توابع دونوں ہیں یعنی نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد گرامی''فرائض کے بعد'' کے تحت سنن راتبہ بھی داخل ہیں کیونکہ سنن مؤکدہ کافرائض کے ساتھ شدید اتصال اور مشابہت ہے۔ ملاعلی قاری مرقات میں لکھتے ہیں افضل الصلاۃ بعد المفروضۃ یعنی بعد سنن مؤکدہ کے ۱ھ
(۱؎ مرقات المفاتیح    حدیث۱۲۳۶    مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۳ /۳۱۱)
وقال المناوی فی تیسیر ای ولواحقھا من الرواتب ونحوھا من کل نفل یسن جماعۃ اذھی افضل من مطلق النفل علی الاصح۲؎ ۱ھ
مناوی تیسیر میں لکھتے ہیں اور یعنی فرائض سے ان کے لواحق (سنن مؤکدہ) اور وہ نوافل جن کی جماعت سنت ہے تمام مراد ہیں کیونکہ اصح قول کے مطابق وہ مطلق نفل سے افضل ہیں۱ھ
 (۲؎ التیسیر    مطبوعہ الریاض    ۱ /۱۸۵)
ومثلھا فی السراج المنیر للعزیزی وقال محمد الحفنی فی تعلیقاتہ علی الجامع الصغیر ای النفل المطلق فی اللیل افضل منہ فی النھاروالافالراتبۃ فی النھار افضل منہ فی النھار افضل من التھجد۳؎ ۱ھ
یہی بات عزیزی کی سراج منیر میں ہے۔ محمدحفنی اپنی تعلیقات علی الجامع الصغیر میں لکھتے ہیں رات کے نوافل مطلقاً دن کے نوافل سے افضل ہیں ورنہ سنن راتبہ جو دن میں ہیں وہ تہجد سے افضل ہیں۱ھ
 (۳؎ تعلیقات الحفنی عل السراج المنیر    مطبوعہ مصر        ۱ /۲۴۴)
وابدی القاری جوابین اخرین، فقال وقدیقال التھجد افضل من حیث زیادۃ مشقتہ علی النفس وبعدہ عن الریاء والرواتب افضل من حیث الاٰکدیۃ فی المتابعۃ للمفروضۃ فلامنافاۃ ۴؎ ۱ھ ای ان التہجد لہ ھذا الفضل الجزئی علی الرواتب فلاینافی فضلھا الکلی قال اویقال صلاۃ اللیل افضل لاشتمالھاعلی الوتر الذی ھومن الواجبات۱؎ ۱ھ
اور ملاعلی قاری نے دوجواب اور دئیے اور کہا کبھی یوں کہاجاتاہے کہ تہجد نفس پرزیادہ مشقت اور ریا سے دوری کی وجہ سے افضل ہے اور سنن جو فرائض کے ساتھ ہیں وہ فرائض کی متابعت میں زیادہ مؤکد ہیں وہ اس اعتبار سے افضل ہیں لہٰذا ان میں کوئی منافات نہیں ہے ۱ھ یعنی اگرتہجد کوسنن مؤکد پر یہ فضیلت جزئی حاصل ہے تو یہ ان کی فضیلت کلی کے منافی نہیں ہے۔ فرمایا یا یوں کہاجاسکتاہے کہ رات کی نماز(تہجد) افضل اس لئے ہے کہ وہ وتر پرمشتمل ہے جو کہ واجبات سے ہے۱ھ

(۴؎ مرقات المفاتیح    حدیث۱۲۳۶    مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۳ /۳۱۱)

(۱؎ مرقات المفاتیح    حدیث ۱۲۳۶    مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۳ /۳۱۲)
اقول ھذا لایصلح بیانا لمعنی کلام الشارع صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذلاواجب عندہ انما ثمہ طلب جازم فافتراض اوغیرجازم فندب کماحققہ المحقق حیث اطلق فی الفتح فان کان الوتر عندہ واجبا لدخل فی ثنیا المکتوبۃ ولوترک قولہ الذی ھو من الواجبات وھی الکلام علی استنان الوتر کما ھو مذھب الصاحبین لم یتجہ ایضا لان سنۃ الفجر افضل من الوتر علی قولھما کماسمعت ۔
اقول (میں کہتاہوں) یہ بیان کلام شارع کے معنی کابیان بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا کیونکہ اس کے ہاں کوئی واجب نہیں ہے وہاں تو طلب جازم ہو توافتراض ہے اگرجازم نہ ہو تو ندب ہے جیسا کہ فتح میں محقق نے تحقیق کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے اگرشارع کے ہاں وترواجب ہوتاتو وہ فرض میں شامل ہوتا اور اگر ملاعلی قاری کے قول الذی ھو من الواجبات کوچھوڑ دیاجائے یعنی ان کے کلام میں وتر کواستنان پرمحمول کیاجائے جیسا کہ صاحبین کامذہب ہے توبھی درست نہیں کیونکہ آپ سن چکے کہ ان کے قول کے مطابق فجر کی سنتیں وتر سے افضل ہیں۔

اقول وظھر للعبد الضعیف جواب حسن احسن من کل ماسبق وھو ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یقل ان التھجد افضل الصلوۃ بعد المکتوبات حتی یکون دلیلا لمن شذ انما قال صلٰوۃ اللیل فان ثبت ان صلاہ اللیل تشتمل علی نافلۃ غیرالتھجد ھی افضل النوافل مطلقا حتی رواتب سقطالاحتجاج بہ وھوثابت بحمد اللّٰہ تعالٰی بحدیث الصحیحین عن ام المؤمنین الصدیقۃ رضی اللہ تعالٰی عنھا قالت کان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یصلی من اللیل ثلث عشرۃ رکعۃ منھا الوترورکعتا الفجر ۱؎ فھذا ام المؤمنین وامام الفقھاء والمحدثین وغرۃ العرب العرباء الافصحین رضی اللہ تعالٰی عنھا قدعدت سنت الفجر من صلاۃ اللیل فھذہ ھی النافلۃ التی تفوق الصلوات کلھا بعدالمکتوب فبالاشتمال علیھا فضلت صلٰوۃ اللیل علی صلاۃ النھار بالاطلاق فھذا الجواب القاطع بحمداللہ تعالٰی ثم لاغرومن الامام الاجل النووی انما العجب من العلامۃ میرک کیف تبعہ وخالف اجماع ائمۃ مذھبہ علی ان سنہ الفجر اٰکدالنوافل مطلقا وباللہ التوفیق۱۲منہ (م)

اقول (میں کہتاہوں) اس عبدضعیف کے لئے ایک ایسا جواب ظاہر ہواہے جومذکورہ تمام جوابات سے احسن ہے وہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تہجد فرائض کے بعد افضل صلوٰۃ ہے، حتی کہ یہ مخالفین جمہور کی دلیل بنے، بلکہ آپ نے صلوٰۃ اللیل(رات کی نماز) فرمایا ہے اب اگریہ ثابت ہوجائے کہ رات کی نمازتہجد کے علاوہ دیگرنوافل پربھی مشتمل ہے جو کہ مطلق نوافل حتی کہ سنن مؤکدہ سے بھی افضل ہو تو پھر اس حدیث سے استدلال ساقط ہوجائے گا اور یہ بات بحمداللہ تعالٰی بخاری و مسلم کی اس حدیث سے ثابت ہے جو اُم المؤمنین حضرت صدیقۃ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رات کو تیرہ۱۳رکعت پڑھتے تھے ان میں وتر اور فجر کی سنتیں بھی ہوتی تھیں۔ یاد رہے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا اُم المؤمنین، امام الفقہا، والمحدثین اور سرتاج فصحاء وبلغاء ہیں انہوں نے سنن فجر کو رات کی نماز میں شمار فرمایا ہے۔ پس یہ نوافل فرائض کے بعد تمام نمازوں پرافضل ٹھہرے، چونکہ یہ نوافل صلوٰۃ اللیل پربھی مشتمل ہیں اس لئے رات کی نماز دن کی ہرنماز سے افضل قرارپائی۔ بحمداللہ تعالٰی یہ قاطع جواب ہے۔ پھرامام نووی پرتو کوئی افسوس نہیں تعجب توعلامہ میرک پر ہے کہ انہوں نے امام نووی کی اتباع کرتے ہوئے اپنے ائمہ مذہب کے خلاف بات کیوں کہی، حالانکہ ائمہ مذہب کااتفاق ہے کہ سنن فجر مطلقا نوافل سے مؤکد ہیں خواہ رات کے ہوں یا دن کے، وباللہ التوفیق ۱۲منہ(ت)

(۱؎ صحیح البخاری    کتاب التہجد    باب کیف صلوٰۃ اللیل        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۵۳)
	توتہجد جماعت کے کمترازکمترازکمتر سے کمترپانچویں درجہ میں واقع ہے سب سے آکد جماعت۱پھر۲سنت فجر پھر۳قبلیہ ظہرپھر۴رواتب پھر۵تہجدوغیرہ سنن ونوافل، اور دوسرے قول پرتوکہیں ساتویں درجے میں جاکرپڑے گا کہ سب سے اقوی جماعت ۱پھر۲سنت فجرپھر۳سنت مغرب پھر۴بعدیہ ظہرپھر۵بعدیہ عشاء پھر۶قبلیہ ظہر پھر تہجد وغیرہا۔ پس تہجد کو سنت ٹھہراکر بھی جماعت سے افضل کیا، برابر کہنے کی بھی اصلاکوئی راہ نہیں، نہ کہ مستحب مان کر، اگرکہئے یہاں کلام جماعت اولٰی میں ہے کہ سوال میں اس کی تصریح موجود اور واجب یا اس اعلٰی درجہ کی مؤکد مطلق جماعت ہے نہ خاص جماعت اولٰی بلکہ وہ صرف افضل واولٰی اور فضل تہجد اس سے اعظم و اعلٰی توحفظ تہجد کے لئے ترک اولٰی جائز وروا اگرچہ افضل ایتان وادا۔
اقول وباللّٰہ التوفیق (میں اللہ تعالٰی کی مدد سے کہتاہوں۔ت) قطع نظر اس سے کہ جب تعارض مسلّم اور فضل تہجد آکدواعظم توحفظ تہجد کو ترک اُولٰی نہ ترک اَولٰی، بلکہ ترک ہی اَولٰی کمالایخفی (جیسا کہ مخفی نہیں ہے۔ت) یہ تاصیل وتفریع سراسربے اصل واحداث شنیع کہ نہ احادیث حضور پرنورسیدالانام علیہ وعلٰی آلہ الصلاۃ والسلام اس کے مساعد، نہ کلمات وروایات علمائے کرام وفقہائے عظام مؤید وشاہد، گر ایسا ہو تو بے عذر فوت تہجد وغیرہ بھلے چنگے بیٹھے بٹھائے بھی جماعت اولٰی قصداً فوت کردینا جائز ورواہو جبکہ ایک آدمی اپنے ساتھ جماعت کے لئے حاضرومہیا ہو کہ آخر کچھ گناہ نہ کیا صرف ایک اولویت ترک کی جس میں حکم کراہت بھی نہیں، معاذاللہ مسلمان اگر اس پرعمل کریں تو امر جماعت میں کس قدرتفرقہ شنیعہ واقع ہوتاہے وجوب جان کرترک پرسکت سخت وعیدیں سن کر تو بہت لوگ کسل وکاہلی کرجاتے ہیں کاش یہ سن پائیں کہ جماعت اولٰی کی حاضری شرعاًکچھ ضرورنہیں ایک بہتربات ہے کی کی نہ کی نہ کی، تو ابھی جو رہاسہا انتظام ہے سب درہم برہم ہواجاتاہے، لوگ مزے سے اذان سنیں اور اپنے لہوولعب میں مشغول رہیں کہ جلدی کیاہے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ بنالیں گے، کیاایسی ہی متفرق بے نظم جماعتوں کی طرف حضورسیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بلایا، کیاانہیں کے ترک پرسخت سخت جگرشگاف وعیدوں کاحکم سنایا! حاش للہ ثم حاش للہ!ذرا نگاہ انصاف درکار کہ یہ قصداً تفریق جماعت وتقلیل حضار کس قدر مقاصد شرع سے دور اور نورانیت حق وصواب سے بعید ومہجور ہے، نہیں نہیں بلکہ یقینا وجوب و تاکد مذکور، خاص جماعت اولٰی کے لئے منظور اور وہی صدراول سے معہود، اور وہی احادیث وعید علی الترک میں مقصود ، اور زنہار زنہارہرگزجائز نہیں کہ بے عذر مقبول شرعی جماعت ثانیہ کے بھروسے پر جماعت اولٰی قصداً چھوڑدیجئے اور داعی الٰہی کی اجابت نہ کیجئے،جماعت ثانیہ کی تشریع اس غرص سے ہے کہ احیاناً بعض مسلمین کسی عذرصحیح مثل مدافعت اخبثین یاحاجت طعام وغیرہا کے باعث جماعت اولٰی سے رہ جائیں وہ برکت جماعت سے مطلقاً محرومی نہ پائیں بے اعلان (عــہ)وتداعی محراب سے جدا ایک گوشے میں جماعت کرلیں نہ کہ اذان ہوتی ہے داعی الٰہی پکاراکرے جماعت اولٰی ہواکرے(یہ) مزے سے گھرمیں بیٹھے باتیں بنائیں یاپاؤں پھیلاکر آرام فرمائیں کہ عجلت کیاہے ہم اور کرلیں گے یہ قطعاً یقینا بدعت سیہ شنیعہ ہے۔
(عــہ) اعلان وتداعی معروف شرعی کہ نماز کے لئے مقرر ہے یعنی اذان ۱۲منہ(م)
ھذا مما لایشک فیہ من دخل بستان الفقہ فشم عرفا لانوارہ الفائحۃ اوفتح اجفان الفکر فشام برقا من انوارہ اللائحۃ ومالنا نسترسل فی سر والبراھین علی مثل ھذا الواضح المبین ولکن لاباس ان نذکر شیأ من التنبیہ لیستظھر الفقیہ ویتذکر النبیہ۔
اس بارے میں اس شخص کو ہرگز شک نہیں ہوسکتا جس نے گلستان فقہ کے مہکتے ہوئے پھولوں سے کچھ خوشبو پائی ہو یا اس کے روشن انوار سے مشام جان کو معطر کیا ہو اور ہم اس معاملہ کو ترک نہیں کرسکتے باوجودیکہ اس پرواضح دلائل موجود ہیں کوئی حرج نہیں کہ ہم تنبیہ ذکرکردیں تاکہ صاحب فقہ پراستحضار ہوجائے اور صاحب فہم محفوظ کرے۔(ت)
فاقول وبہ نستعین (میں اللہ تعالٰی کی مددسے کہتاہوں۔ت) اولاً فقیر غفراللہ تعالٰی لہ کاایک موجز وجامع رسالہ مسمی بنام تاریخی حسن البراعۃ فی تنقید حکم الجماعۃ ہے جس میں بفضلہ سبحٰنہ، وتعالٰی حکم جماعت کی تحقیق حدیثی وفقہی اعلٰی درجہ کمال وجمال پرموفق ہوئی ، ہمارے علماء سے درباب شاذومشہور ومقبول ومہجور چھ قول ماثور:
(۱) فرض عین        (۲) فرض کفایہ

(۳) واجب عین        (۳) واجب کفایہ

(۵) سنت مؤکدہ        (۶) مستحب
اس نفیس مبارک رسالہ نے بعونہٖ تعالٰی ثابت کردکھلایا کہ ان اقوال میں اصلاً تدافع وتمانع نہیں سب حق وصحیح اور اپنے اپنے معنی پررجیح ونجیح ہیں، یہ جلیل تحقیق جمیل توفیق وﷲ الحمد والمنۃ عجب نادر وعنقائے مغرب ہے جس کانام سن کر ناظر متحیرانہ کہے ھذا لایکون وکیف یکون (یہ نہیں ہوسکتا اور کیسے ہوسکتا ہے۔ت) اور جب اس کی زاہر تحریر باہر تقریر پراطلاع پائے متعجبانہ اعتراف کرے کہ لمثل ھذا فلیعمل العاملون (کام کرنے والوں کو ایسا ہی کام کرنا چاہئے۔ت)
اس رسالہ میں ہم نے احادیث عبداللہ بن عباس و ابوہریرہ و کعب بن عجرہ و انس بن مالک و عثمان غنی و عمر وبن ام مکتوم و ابوامامہ و جابر بن عبداللہ وغیرہم رضی اللہ تعالی عنہم سے ثابت کیا کہ حضورپرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اذان سن کر حاضری واجب فرمائی، اداشناس سخن انہی احادیث سے جان سکتاہے کہ اذان کس جماعت کے لئے بلاتی اور شرع اس کی اجابت کیوں واجب فرماتی ہے مگر میں یہاں اصرح واوضح ذکرکروں حدیث حسن معاذ بن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ اوپرگزری جس میں ندا سن کرحاضری ہونے پر حکم جفاو کفر ونفاق فرمایاگیا، طبرانی کے یہاں بطریق آخر یوں آئی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
حسب المومن من الشقاء والخیبۃ ان یسمع المؤذن یثوب بالصلاۃ فلایجیبہ ۱؎ ۔
مؤمن کو یہ بدبختی ونامرادی بہت ہے کہ مؤذن کوتکبیر کہتے سنے اور اس کا بلانا قبول نہ کرے۔(ت)
(۱؎ المعجم الکبیر    مروی ازمعاذ بن انس رضی اللہ عنہ    حدیث ۳۹۶    مطبوعہ مکتبہ فیصلیہ بیروت    ۲۰ /۱۸۳)
اس روایت نے روایت سابقہ کی تفسیر کردی کہ وہاں بھی ندا سے یہی تکبیر مراد تھی
فان الاحادیث یفسر بعضھا بعضا وخیرتفسیر للحدیث مایستبین بجمع طرقہ
(احادیث ایک دوسرے کی تفسیرہیں اور حدیث کی سب سے بہترتفسیر وہ ہے جو اس حدیث کے تمام طرق کو جمع کرنے پر ہو۔ت) بلکہ عند التحقیق احادیث ایجاب اجابت فعلیہ عندالاذان کامرجع بھی اسی طرف کہ ہم نے رسالہ مذکورہ میں احادیث و آثار ابوقتادہ و جابربن عبداللہ و ام المؤمنین و ابوہریرہ و جابر بن سمرہ و امیرالمومنین فاروق اعظم وعبداللہ بن عمر و ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ثابت کیاکہ یہ وجوب تاوقت اقامت موسع ہے اگرچہ قنیہ و مجتبی میں صراحۃً تضییق کی کہ جو اذان سن کرتکبیر کے انتظار میں بیٹھا رہے بدکارومردود الشہادۃ ہے۔
Flag Counter