ثانیاً فوت سنت آئندہ کے خوف متیقن سے فی الحال اپنے ہاتھوں سنت جلیلہ چھوڑدینے کی نظیر یہی ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص مرگ فردا کے اندیشہ سے آج خود کشی کرلے۔
ثالثا یہ کہ جاگنے میں قصداً مکروہات ومنہیاتِ شرعیہ کا ارتکاب ہوگااور تہجد نہ بھی ملا تو حضور سیّد عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نوم میں تفریط نہ رکھی۔
احمد(عــہ۲) ومسلم وابوداؤد ابن حبان عن ابی قتادۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیس فی النوم تفریط انما التفریط فی الیقظۃ۱؎۔
احمد، مسلم، ابوداؤد اور ابن حبان نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: تفریط نیند میں نہیں بلکہ بیداری میں ہے۔(ت)
(۱؎ سنن ابوداؤد باب فی من نام عن صلوٰۃ الخ مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۶۴)
(عــہ۲)عزاہ فی الجامع الصغیر لاحمد وابن حبان قال شارحہ المناوی ورواہ ابو داؤد وغیرہ ۱ ؎اھ ولا شک انہ موجود فی صحیح مسلم ۱۲منہ (م )
جامع صغیرمیں اس کی نسبت امام احمد اور ابن حبان کی طرف کی ہے اس کے شارح امام مناوی نے فرمایا اس کو ان سے ابوداؤد وغیرہ نے روایت کیا ہے۱ھ اور بلاشک یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی موجود ہے ۱۲منہ (ت)
((۱؎ التیسیر شرح جامع الصغیر تحت حدیث مذکور مکتبۃ الامام الشافعی الریاض ۲ /۳۲۶)
بلکہ بہ نیت تہجد سونے والے کو اگرچہ تہجد نہ پائے ثواب تہجد کا وعدہ فرمایا اور اس کی نیند کو رب العزت جل جلالہ، کی طرف سے صدقہ بتایا۔
مالک فی المؤطا وابوداؤد والنسائی عن ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال مامن امریئ تکون لہ صلاۃ بلیل یغلبہ علیھا نوم الاکتب اللہ لہ اجرصلاتہ وکان نومہ علیہ صدقۃ۲؎ وھو عند ابن ابی الدنیا فی کتاب التھجد بسند جید،
امام مالک نے مؤطا میں، ابوداؤد اور نسائی نے ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ہروہ شخص جورات کی نماز(تہجد) کی نیت رکھتا ہو اس پرنیند غالب آجائے تو اللہ تعالٰی اسے نماز کا اجروثواب عطا فرمائے گا اور اس کی نیند اس پر صدقہ ہوگی، یہ حدیث ابن ابی الدنیانے کتاب التہجد میں سند جیّد کے ساتھ یہ حدیث ذکر کی۔
(۲؎ مؤطا امام مالک ماجاء فی صلوٰۃ اللیل مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی ص۹۹)
النسائی وابن ماجۃ وخزیمۃ والبزار بسند صحیح عن ابی الدرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من اتی فراشہ وھو ینوی ان یقوم فیصلی من اللیل فغلبتہ عیناہ حتی یصبح کتب لہ ما نوی وکان نومہ صدقۃ علیہ من ربہ عزوجل ۳؎ وھو بمعناہ عند ابن حبان فی صحیحہ عن ابی زر اوابی الدرداء رضی اللہ تعالٰی عنھما ھکذا بالشک۔
نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ اور بزار نے سند صحیح کے ساتھحضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بستر پر اس نیت سے لیٹا کہ رات کواٹھ کر نماز(تہجد) پڑھے گا مگرنیند کے غلبہ کی وجہ سے صبح تک اس کی آنکھ نہ کھلی تو اسے اس کی نیت کے مطابق اجرملے گا اور اس کی نیند اللہ عزوجل کی طرف سے اس پر صدقہ ہوگی اور یہ حدیث معناً ابن حبان نے اپنی صحیح میں حضرت ابوذریا حضرتابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اسی طرح شک کے ساتھ روایت کی ہے۔(ت)
(۳؎ سنن ابن ماجہ باب ماجاء فیمن نام عن جزبہ من اللیل مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۹۶)
امیرالمؤمنین عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ابوحثمہ اور ان کے صاحبزادہ سلیمان رضی اللہ تعالٰی عنہما کو جماعت صبح میں نہ دیکھا ان کی زوجہ اور ان کی والدہ شفا رضی اللہ تعالٰی عنہما سے سبب پوچھا، کہا نماز شب کے سبب نیند نے غلبہ کیا نماز صبح پڑھ کر سورہے، فرمایا: مجھے جماعت صبح میں حاضرہونا نماز تمام شب سے محبوب تر ہے۔
مالک عن ابن شھاب عن ابی بکربن سلیمٰن بن ابی حثمۃ ان عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ فقد سلیمن ابن ابی حثمۃ فی صلاۃ الصبح وان عمر بن الخطاب غدا الی السوق ومسکن سلیمن بین السوق والمسجد (النبوی) فمرعلی الشفاء ام سلیمٰن فقال لھا لم ارسلیمٰن فی صلٰوۃ الصبح فقالت انہ بات یصلی فغلبتہ عیناہ فقال عمر لان اشھد صلاۃ الصبح فی الجماعۃ احب اِلَیَّ من ان اقوم لیلۃ ۱؎۔
مالک، ابن شہاب سے وہ ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے روایت کرتے ہین کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سلیمان ابن ابی حثمہ کو نماز صبح میں نہ پایا آپ صبح کو جب بازار کی طرف گئے اور سلیمان کاگھر بازار اور مسجد نبوی کے درمیان تھا تو آپ سلیمان کی والدہ شفاء کے پاس سے گزرے اور پوچھا میں نے سلیمان کو آج نمازصبح میں نہیں پایا تو انہوں نے عرض کیا وہ رات بیدار رہے نماز پڑھتے رہے صبح کو نیند غالب آگئی۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا مجھے نماز فجر میں حاضر ہونا اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ساری رات قیام کروں۔
(۱؎ مؤطا امام مالک باب ماجاء فی العتمۃ والصبح مطبوعہ میرمحمد کتب خانہ کراچی ص۱۱۵)
عبدالرزاق فی مصنفہ عن معمر عن الزھری عن سلیمٰن ابن ابی حثمۃ عن امہ الشفاء بنت عبداللہ قالت دخل علی عمر وعندی رجلان نائمان تعنی زوجھا اباحثمۃ و ابنھا سلیمٰن فقال اما صلیا الصبح قلت لم یزالایصلیان حتی اصبحا فصلیا الصبح وناما فقال لان اشھد الصبح فی جماعۃ احب الی من قیام لیلۃ۱؎۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں معمر سے انہوں نے اپنی والدہ شفاء بنت عبداللہ سے بیان کیا کہ ان کی والدہ فرماتی ہیں حضرت عمر میرے پاس آئے تو میرے پاس دو آدمی سوئے ہوئے تھے اس سے وہ اپنا خاوند ابوحثمہ اور اپنا بیٹا سلیمان مراد لیتی ہیں۔ آپ نےفرمایا: انہوں نے نمازصبح کیوں نہ پڑھی؟ میں نے عرض کیا یہ ساری رات نماز میں مشغول رہے حتی کہ صبح ہوگئی پھر انہوں نے نمازصبح ادا کی اور سوگئے۔ تو آپ نے فرمایا: جماعت کے ساتھ نمازفجر کی میری حاضری ساری رات قیام سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔(ت) واللہ تعالٰی اعلم
(۱؎ المصنف ف لعبدالرزاق باب فضل الصلوٰۃ فی جماعۃ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ۱ /۵۲۶)
جواب سوال سوم: اقول وباللہ التوفیق (میں اللہ تعالٰی کی توفیق سے کہتاہوں ۔(ت) اس مسئلہ میں جواب حق کو حق جواب یہ ہے کہ عذرمذکور فی السؤال سرے سے بیہودہ سراپا اہمال ہے وہ زعم کرتاہے کہ سنت تہجد کا حفظ وپاس اسے تفویت جماعت پرباعث ہوتاہے اگرتہجدبروجہ سنت اداکرتا تو وہ خود فوت واجب سے اس کی محافظت کرتا نہ کہ الٹا فوت کاسبب ہوتا،
قال عزوجل ان الصلٰوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر۲؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: بے شک نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔
(۲؎ القرآن ۲۹ /۴۵)
سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
علیکم بقیام اللیل فانہ داب الصلحین قبلکم وقربۃ الی اللّٰہ تعالٰی ومنھاۃ عن الاثم وتکفیر للسیأت ومطردۃ للداء عن الجسد۳؎۔ رواہ الترمذی فیجامعہ وابن ابی الدنیا فی التھجد و ابن خزیمۃ فی صحیحہ والحاکم فی المستدرک وصححہ والبیھقی فی سننہ عن ابی امامۃ الباھلی واحمد والترمذی وحسنہ والحاکم والبیھقی عن بلال والطبرانی فی الکبیر عن سلمان الفارسی وابن السنی عن جابر بن عبداللہ وابن عساکر عن ابی الدرداء رضی اللہ تعالٰی عنھم اجمعین۔
تہجد کی ملازمت کرو کہ وہ (رات کاقیام) اگلے نیکوں کی عادت ہے اور اللہ عزوجل سے نزدیک کرنے والا اور گناہ سے روکنے والا اور برائیوں کاکفارہ اور بدن سے بیماری دورکرنے والا۔ اسے ترمذی نے اپنی جامع،ابن ابی الدنیا نے کتاب التہجد، ابن خزیمہ نے اپنی صحیح اور حاکم نے مستدرک میں روایت کرکے صحیح کہا، اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابوامامہ باہلی سے،اور احمد اور ترمذی نے صحیح قراردیتے ہوئے روایت کیا، حاکم اور بیہقی نے حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں حضرت سلمان فارسی سے ،اور ابن سنی نے حضرت جابر بن عبداللہ سے اور ابن عساکر نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے روایت کیاہے۔
(۳؎ جامع الترمذی ابواب الدعوات مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی ۲ /۱۹۴)
(صحیح ابن خزیمہ باب التحریص علی قیام اللیل الخ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ۲ /۱۷۷)
ف: حدیث مذکور کے الفاظ صفحہ مذکور پرمصنّف میں یوں ہیں:
عن معمر عن الزھری عن سلیمٰن بن ابی حثمۃ عن الشفاء بنت عبداللّٰہ قالت دخل علیّ بیتی عمربن الخطاب فوجد عندی رجلین نائمین فقال وماشان ھذین ماشھدا معی الصلٰوۃ؟ قلت یاامیرالمؤمنین صلیا مع الناس و کان ذلک فی رمضان فلم یزالا یصلیان حتی اصبحا الصبح وناما، فقال عمر لان اصلی الصبح فی جماعۃ احب الی من ان اصلی لیلۃ حتی اصبح۔ نذیر احمد
توفوت جماعت کا الزام تہجد کے سررکھنا قرآن وحدیث کے خلاف ہے اگرمیزان شرع مطہر لے کر اپنے احوال وافعال تولے تو کھل جائے کہ یہ الزام خود اسی کے سرتھا بھلا یہ تہجد وقیلولہ وہ ہیں جو اس نے خود ایجاد کئے جب تو انہیں تفویت شعارعظیم اسلام کے لئے کیوں عذربناتاہے اور اگر وہ ہیں جو حضورسیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے قولاً وفعلاً منقول ہوئے تو بتائیے کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کب ایسے تہجد وقیلولہ کی طرف بلایا جن سے جماعت فریضہ فوت ہو،کیاقرآن وحدیث ایسے ہی تہجد کی ترغیب دیتے ہیں؟ کیا سلف صالح نے ایسے ہی قیام لیل کئے ہیں؟ حاشا وکلاّ ؎
ترسم نہ رسی بکعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ تومیروی بترکستان است
(اے اعرابی! مجھے ڈر ہے کہ تو کعبہ کونہیں پہنچے گا کیونکہ جس راستہ پر تو چل رہاہے وہ ترکستان کوجاتاہے)
یاہذا سنت اداکیاچاہتاہے تو بروجہ سنت اداکر،یہ کیا کہ سنت لیجئے اور واجب فوت کیجئے، ذرابگوش ہوش سن اگرچہ حق تلخ گزرے، وسوسہ ڈالنے والے نے تجھے یہ جھوٹا بہانہ سکھایا کہ اسے مفتیان زمانہ پرپیش کرے جس کا خیال ترغیبات تہجد کی طرف جائے تجھے تفویت جماعت کی اجازت دے جس کی نظرتاکیدات جماعت پرجائے تجھے ترک تہجد کی مشورت دے کہ
من ابتلی ببلیتین اختاراھونھما
(دوبلاؤں میں مبتلا شخص ان دو میں سے آسان کو اختیار کرے۔ت) بہرحال مفتیوں سے ایک نہ ایک کے ترک کی دستاویز نقد ہے مگرحاشاخدام فقہ وحدیث نہ تجھے تفویت واجب کا فتوٰی دیں گے نہ عادی تہجد کوترک تہجد کی ہدایت کرکے ارشاد حضور سید الاسیاد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
یاعبداللہ لاتکن مثل فلان کان یقوم اللیل فترک قیام اللیل۱؎ رواہ الشیخان عن عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ تعالٰی عنھما۔
اے عبداللہ! فلاں شخص کی طرح نہ ہو جو رات کا قیام کرتاتھا مگر اب اس نے ترک کردیا۔ اسے بخاری و مسلم نے حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیاہے۔ت)کاخلاف کریں گے۔
(۱؎ صحیح البخاری باب مایکرہ من ترک قیام اللیل الخ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۵۴)
یہ اس لئے کہ وہ بتوفیقہ عزوجل حقیقت امر سے آگاہ ہیں ان کے یہاں عقل سلیم ونظرقدیم دوعادل گواہ شہادت دے چکے ہیں کہ تہجد وجماعت میں تعارض نہیں ان میں کوئی دوسرے کی تفویت کاداعی نہیں بلکہ یہ ہوائے نفس شریر وسوئے طرزتدبیر سے ناشی ہوا یا ھذا اگر تو وقت جماعت جاگتاہوتا اور بطلب آرام پڑارہتا ہے جب توصراحۃً آثم وتارک واجب، اور اس عذرباطل میں مبطل وکاذب ہے۔ سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الجفاء کل الجفاء والکفر والنفاق من سمع منادی اللہ ینادی الی الصلٰوت فلایجیبہ۲؎۔ حدیث حسن قدذکرنا تخریجہ ولفظ الطبرانی ینادی بالصلاۃ ویدعو الی الفلاح۳؎۔
ظلم پورا ظلم اور کفر اور نفاق ہے کہ آدمی اللہ کے منادی کو نماز کی طرف بلاتا سنے اور حاضر نہ ہو۔ یہ حدیث حسن ہے اس کی تخریج کاذکر ہم نے پیچھے کردیا۔ طبرانی کے الفاظ یوں ہیں: ''نماز کی طرف بلانے والے اور فلاح کی دعوت دینے والے کوسنے''۔
(۲؎ مسند احمد بن حنبل حدیث معاذ بن انس رضی اللہ عنہ مطبوعہ دارالفکر بیروت ۳ /۴۳۹)
(۳؎ المعجم الکبیر ازمعاذبن انس حدیث ۳۹۴ مطبوعہ مکتبہ فیصلیہ بیروت ۲۰ /۱۸۳)
اور اگرایسا نہیں تو اپنی حالت جانچ کہ یہ فتنہ خواب کیونکر جاگا اور یہ فساد عجاب کہاں سے پیدا ہو اس کی تدبیر کر۔ کیا توقیلولہ ایسے تنگ وقت کرتاہے کہ وقت جماعت نزدیک ہوتاہے ناچارہوشیار نہیں ہونے پاتا، یوں ہے تواول وقت خواب کر، اولیائے کرام قدسنا اللہ تعالٰی باسرارہم نے قیلولہ کے لئے خالی وقت رکھا ہے جس میں نماز وتلاوت نہیں یعنی ضحوہ کبرٰی سے نصف النہار تک، وہ فرماتے ہیں چاشت وغیرہ سے فارغ ہوکر خواب خوب ہے کہ اس سے تہجد میں مدد ملتی ہے اور ٹھیک دوپہر ہونے سے کچھ پہلے جاگناچاہئے کہ پیش از زوال وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر وقت زوال کہ ابتدائے ظہر ہے ذکروتلاوت میں مشغول ہو۔ امام اجل شیخ الشیوخ شہاب الحق والدین سہروردی رضی اللہ تعالٰی عنہ عوارف شریف میں فرماتے ہیں:
النوم بعد الفراغ من صلاۃ الضحٰی وبعد الفراغ من اعداد اخر من الرکعات حسن قال سفٰین کان یعجبھم اذا فرغوا ان یناموا طلباللسلامۃ وھذا النوم فیہ فوائد، منھا انہ یعین علٰی قیام اللیل (الی قولہ قدس سرہ) وینبغی ان یکون انتباھہ من نوم النھار قبل الزوال بساعۃ حتی یتمکن من الوضوء والطھارۃ قبل الاستواء بحیث یکون وقت الاستواء مستقبل قبلۃ ذاکرا اومسبحا اوتالیا۱؎الخ
نماز چاشت سے فراغت کے بعد اور اس کے بعد کی مقررہ تعداد کی رکعتیں اداکرکے سونا اچھا اور مناسب ہے۔ سفیان ثوری نے فرمایا کہ صوفیہ کرام جب نماز واوراد سے فارغ ہوجاتے تو سلامتی اور عافیت کے لئے سونے کو پسند کرتے تھے اور اس (دوپہر سے قبل) سونے میں متعدد فوائد ہیں ان میں سے ایک رات کے قیام (شب بیداری) میں مدد ملتی ہے۔(آگے چل کر شیخ قدسرہ، نے) فرمایا: طالب حقیقت کوچاہئے کہ زوال سے کچھ وقت پہلے نیند سے بیدارہوجائے تاکہ استواء سے پہلے وضو اور طہارت سے فارغ ہوکر استواء کے وقت (جوابتدائے ظہرہے) قبلہ رخ ہوکر ذکر یاتسبیح یاتلاوت میں مصروف ہوجائے الخ(ت)
(۱؎ عوارف المعارف ملحق احیاء العلوم الباب الخٰمسون فی ذکر العمل فی جمیع النہار مطبوعہ مطبع المشہد الحسینی قاہرہ مصر ص۱۹۵)
ظاہر ہے کہ جو پیش اززوال بیدار ہولیا اس سے فوت جماعت کے کوئی معنی ہی نہیں۔ کیااس وقت سونے میں تجھے کچھ عذر ہے، اچھاٹھیک دوپہر کو سو مگرنہ اتنا کہ وقت جماعت آجائے، ایک ساعت قلیلہ قیلولہ بس ہے،اگرطول خواب سے خوف کرتاہے تکیہ نہ رکھ بچھونا نہ بچھا کہ بے تکیہ وبے بستر سونا بھی مسنون ہے،سوتے وقت دل کوخیال جماعت سے خوب متعلق رکھ کہ فکر کی نیند غافل نہیں ہوتی، کھانا حتی الامکان علی الصباح کھاکہ وقت نوم تک بخارات طعام فروہولیں اور طول منام کے باعث نہ ہوں، سب سے بہتر علاج تقلیل غذا ہے، سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
مامَلأَ اٰدِمیّ وعاء شرًا من بطنہ بحسب ابن اٰدم اکلاتُ یقمن صلبہ فان کان لامحالہ فثلث لطعامہ وثلث لشرابہ وثلث لنفسہ۱؎۔ رواہ الترمذی وحسنہ وابن ماجۃ وابن حبان عن المقدام بن معدیکرب رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
آدمی نے کوئی برتن پیٹ سے بدتر نہ بھراآدمی کو بہت ہیں چندلقمے جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھیں اور اگر یوں نہ گزرے توتہائی پیٹ کھانے کے لئے تہائی پانی تہائی سانس کورکھے، اسے ترمذی نے روایت کرکے حسن کہا۔ ابن ماجہ اور ابن حبان نے حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔
(۱؎ جامع الترمذی باب ماجاء فی کراہیۃ کثرۃ الاکل مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی ۲ /۶۰)
پیٹ بھر کر قیام لیل کاشوق رکھنا بانجھ سے بچہ مانگنا ہے، جو بہت کھائے گابہت پئے گا، جو بہت پئے گا بہت سوئے گا، جو بہت سوئے گا آپ ہی یہ خیرات وبرکات کھوئے گا ؎
استغفراللہ من قول بلاعمل
لقد نسبت بہ نسلا لذی عقم
(میں اللہ تعالٰی سے بلاعمل قول سے توبہ کرتاہوں، تحقیق بانجھ عورت کو بچے کے ساتھ نسل کے اعتبار سے منسوب کیاگیاہے)
ولہذا حدیث میں آیا حضور سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
ان کثرۃ الاکل شؤم۲؎۔ رواہ البیھقی فی شعب الایمان عن ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنھا۔
بیشک بہت کھانا منحوس ہے۔ اس کو بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیاہے۔
(۲؎ شعب الایمان الفصل الثانی فی کثرۃ الاکل حدیث ۵۶۶۱ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ۵ /۳۲)
یوں بھی نہ گزرے ۵تو قیام لیل میں تخفیف کردورکعتیں خفیف وتام بعدنمازعشاء ذراسونے کے بعد شب میں کسی وقت پڑھنی اگرچہ آدھی رات سے پہلے ادائے تہجد کو بس ہیں۔ مثلاً نوبجے عشا پڑھ کر سورہا دس بجے اٹھ کر دورکعتیں پڑھ لیں تہجد ہوگیا، حدیث میں ہے حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یحسب احدکم اذاقام من اللیل یصلی حتی یصبح انہ قدتھجد انما التھجد المرء یصلی الصلٰوۃ بعد رقدۃ۳؎۔
تم میں کسی کایہ گمان ہے کہ رات کو اٹھ کر صبح تک نماز پڑھے جبھی تہجد ہو تہجد صرف اس کانام ہے کہ آدمی ذراسوکرنمازپڑھے۔
(۳؎ المعجم الکبیر مروی ازحجاج بن عمرو حدیث ۳۲۱۶ مطبوعہ مکتبہ فیصلیہ بیروت ۳ /۲۲۵)
رواہ الطبرانی عن الحجاج بن عمر رضی اللہ تعالٰیعنہ بسند حسن (عــہ) ان شاء اللہ تعالٰی
اس کو طبرانی نے حجاج بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سند حسن ان شاء اللہ تعالٰی سے روایت کیا ہے۔
(عــہ) علق بالمشیۃ لان فیہ ابن لھیعۃ والکلام فیہ معروف والاصواب فیہ عندی ان حدیثہ حسن ان شاء اللہ تعالٰی ۱۲منہ (م)
مشیت باری تعالٰی کے ساتھ معلق کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس حدیث کی سند میں ابن لہیعہ ہیں اور ان میں کلام معروف ہے اور اس کے بارے میں میری رائے میں یوں کہناچاہئے اس کی حدیث ان شاء اللہ تعالٰی حسن ہے ۱۲ منہ (ت)
سوتے وقت اللہ عزوجل سے توفیق جماعت کی دعا اور اس پرسچا توکل مولٰی تبارک وتعالٰی جب تیرا حسن نیت وصدق عزیمت دیکھے گا ضرور تیری مدد فرمائے گا۔
من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ۱؎
(جو اللہ تعالٰی پرتوکل وبھروسہ کرتاہے اس کے لئے اللہ کافی ہے۔ت)