لوصلی بعض اھل المسجد باقامۃ وجماعۃ ث دخل المؤذن والامام وبقیۃ الجماعۃ فالجماعۃ المستحبۃ لھم والکراھۃ للاولٰی کذا فی المضمرات۲؎۔
اگر کچھ اہل مسجد نے اقامت اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلی پھر مؤذن، امام اور باقی لوگ آئے تو ان کی جماعت مستحب ہے، پہلی جماعت مکروہ ہوگی، مضمرات میں اسی طرح ہے۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ الفصل الاول من باب الاذان مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۵۴)
یہ خاص جزئیہ مسئلہ مسئولہ ہے خلاصہ و خانیہ و ہندیہ وغیرہا میں ہے:
واللفظ للامام البخاری جماعۃ من اھل المسجد اذنودی فی المسجد علی وجہ المخافۃ بحیث لم یسمع غیرھم ثم حضر من اھل المسجد قوم وعلموا فلھم ان یصلوا بالجماعۃ علی وجھھا ولاعبرۃ للجماعۃ الاولٰی۳؎ اھ
الفاظ امام بخاری کے ہیں کہ جماعت کے لئے اہل مسجد میں سے ایک گروہ نے مسجد میں اتنی آہستہ اذان دی کہ ان کے غیر نے نہ سنی پھر دیگر لوگ آئے اور ان کو علم ہواتو ان لوگوں کو حق حاصل ہے کہ وہ سنت طریقہ پر جماعت کروائیں پہلی جماعت کا کوئی اعتبار نہیں ۱ھ(ت)
پس اس معذور اور اس کے شریک اور ان ضرورت والوں کا یہ فعل جماعت مسنونہ معتبرئہ شرعیہ نہیں بلکہ مکروہ ممنوعہ ہے اور جو جماعت باذان واقامت اس کے بعد ہوگی اس میں کچھ کراہت نہ ہوگی بلکہ وہی جماعت مسنونہ وجماعت اولٰی ہے۔
ثانیاً جب یہ جماعت جماعت نہیں تو دقیق نظر حاکم کہ ان کا یہ فعل بعد دخول وقت مسجد سے بے نیت شہود جماعت باہرجانا ہوا یہ بھی مکروہ اور حدیث میں اس پر وعید شدید وارد:
ابن ماجۃ(عـہ) عن امیرالمؤمنین عثمٰن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ادرکہ الاذان فی المسجد ثم خرج، لم یخرج لحاجۃ وھو لایرید الرجعۃ فھو منافق۱؎۔
ابن ماجہ نے امیرالمؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اذان کو مسجد میں پایا پھر وہاںسے نکل گیا حالانکہ اسے نکلنے کی کوئی حاجت بھی نہ تھی اور واپسی کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو وہ منافق ہے۔(ت)
(۱؎ سنن ابن ماجہ باب الاذان وَاَنْتَ فِی الْمَسْجِدِ فَلاتخرج مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵۴)
(عـہ) سندہ ضعیف واقتصرنا علیہ تبعا للبحر وغیرہ وقدثبت بسند صحیح من حدیث ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ لکن فیہ تخصیص مسجد النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فانہ قال قال رسول اللہ تعالٰی علیہ وسلم لایسمع النداء فی مسجدی ھذا ثم یخرج منہ الا لحاجۃ ثم لایرجع الیہ الامنافق ۱؎ رواہ الطبرانی فی الاوسط
اس کی سند ضعیف ہے ہم نے بحر وغیرہ کی اتباع میں اسی پراقتصار کیا ہے حالانکہ سند صحیح کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث ثابت ہے لیکن اس میں مسجد نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تخصیص ہے، کہا ،رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: میری اس مسجد میں کوئی شخص اذان نہیں سنتا، پھر کسی ضرورت کے بغیر مسجد سے نکل جاتاہے اور واپس مسجد کی طرف نہیں آتا مگر یہ کہ وہ منافق ہے اسے طبرانی نے المعجم الاوسط میں ذکر کیا
(۱؎ مجمع الزوائد بحوالہ طبرانی اوسط باب فیمن خرج من المسجد بعد الاذان مطبوعہ دارالکتاب بیروت ۲ /۵)
ولابی داؤد فی مراسیلہ عن سعید بن المسیب رضی اللہ تعالٰی عنہ ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال لایخرج من المسجد احد بعد النداء الامنافق الااحد اخرجتہ حاجۃوھو یرید الرجوع ۲؎ ۱۲منہ غفرلہ (م)
اور امام ابوداؤد نے مراسیل میں حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اذان کے بعد مسجد سے منافق کے علاوہ کوئی نہیں نکلتا مگر عذر کی وجہ سے، جب کوئی حاجت وضرورت اس شخص کو نکالے اور وہ شخص واپسی کا ارادہ رکھتاہو تو منافق نہیں ۱۲منہ غفرلہ (ت)
(۲؎ کتاب المراسیل باب ماجاء فی الاذان مطبوعہ مطبعۃ علمیہ لاہور ص۳۴)
درمختار میں ہے:
کرہ تحریما للنھی خروج من لم یصل من مسجد اذن فیہ جری علی الغالب والمراد دخول الوقت اذن فیہ اولا ۲؎۔
مکروہ تحریمی ہے سبب ممانعت کے نکلنا اس شخص کا جس نے نماز نہ پڑھی ہو اس مسجد سے جس میں اذان ہوگئی ہو، شارح نے کہا ماتن اکثر پرچلا ہے(یعنی اکثریہی ہوتاہے کہ اذان کا وقت ہونے پر اذان ہوجاتی ہے) اور مراد اذان ہونے سے وقت نماز کا آجانا ہے خواہ مسجد میں اذان ہوئی ہو یانہ۔(ت)
الظاھر من الخروج من غیرصلاۃ عدم الصلوٰۃ مع الجماعۃ ۳؎الخ
نماز کے بغیرنکلنے سے ظاہراً مراد یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادانہ کی ہو الخ(ت)
(۳؎ بحرالرائق باب ادراک الفریضہ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۷۲)
اقول:وظاھر ان المراد بالجماعۃ ھی الجماعۃ المسنونۃ المشروعۃ دون المکروھۃ الممنوعۃ فان النھی عن الخروج انما ھو لطلب الجماعۃ فلایتناول الا الجماعۃ المطلوبۃ شرعا کیف وقد تقدم ان الجماعۃ بلا اذان کلا جماعۃ فلایعتدبھا اصلا واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
اقول (میں کہتاہوں) اس سے ظاہراً مراد وہ جماعت ہے جو مسنونہ مشروعہ ہو نہ کہ وہ جو مکروہ و ممنوع ہو کیونکہ نکلنے پر ممانعت وہ طلب جماعت کے واسطے ہے اور یہ حکم اسی جماعت کے لئے ہوگا جو شرعاً مطلوب ہے، یہ کیسے نہ ہو حالانکہ پہلے گزرچکاہے،کہ بغیر اذان کے جماعت ایسے ہے جیسے جماعت ہوئی ہی نہیں، پس اس کا ہرگز اعتبار نہ کیاجائے گا، اللہ تعالٰی تمام نقائص وعیوب اور کمزوریوں سے پاک ہے، وہ سب سے بہترجانتاہے۔ اس جل مجدہ،کاعلم کامل اور اکمل ہے(ت)
جواب سوال دوم:خوف فوت تہجد نہ ترک جماعت ماموربہا کامجوز ہوسکتاہے نہ بعد دخول وقت بے شرکت جماعت شرعیہ مسجد سے نکل جانے کا مبیح نہ جماعت مکروہہ ممنوعہ کا داعی نہ خود اس عذر کا غالباً کوئی محصل صحیح کیا اذان موجب فوت تہجد ہے غرض یہ بہانہ مسموع نہیں اگرچہ تہجد سنت ہی سہی
کما اٰلَ الیہ کلام المحقق فی الفتح ومَالَ الیہ تلمیذہ المحقق محمد الحلبی فی الحلیۃ قائلا انہ الاشبہ
(جیسا کہ اس کی طرف فتح القدر میں کلام محقق لوٹتا ہے او ان کے شاگرد محمد حلبی نے حلیہ میں یہ کہتے ہوئے اسی طرف رجوع کیا کہ یہی اشبہ ہے۔ت) کہ اولاً وہ برتقدیر سنیت بھی معارضہ جماعت کاصالح نہیں دربارہ تہجدصرف ترغیبات ہیں اورترک جماعت پرسخت ہولناک وعیدیں کہ حکم کفر تک وارد،
علی تاویلاتہ المعروفۃ فی امثال المقام وحدیثہ(عــہ۱) عند احمد والطبرانی فی الکبیر عن معاذ ابن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بسند حسن وقال ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فی المختلفین عن الجماعات لوترکتم (عــہ۲) سنۃ نبیکم لکفرتم ۱؎۔
اس طرح کے مقامات پرتاویلات معروفہ کے ساتھ، اور اس پر مسند احمد اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں حضرت معاذ بن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیث سند کے ساتھ ذکر کی ہے اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جماعت سے پیچھے رہنے والوں کے بارے میں فرمایا اگر تم نے اپنے نبی کی سنت ترک کردی تو تم نے کفرکیا۔(ت)
(عــہ۱) سیأتی نصہ فی جواب السؤال الثالث ۱۲منہ(م)
اس حدیث کے الفاظ عنقریب تیسرے سوال کے جواب میں آرہے ہیں ۱۲منہ۔(ت)
(عــہ۲) ھذہ روایۃ ابی داؤد والحدیث بلفظ لضللتم عند مسلم وغیرہ ۱۲منہ (م)
یہ ابوداؤد کی روایت ہے اور مسلم وغیرہ میں اس کے الفاظ ''تم گمراہ ہوجاؤگے'' ہیں ۱۲منہ (ت)
(۱؎ سنن ابی داؤد باب التشدید فی ترک الجماعۃ مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۸۱)
اور جماعت(عــہ۳)عشا کے نہ حاضر ہونے پر گھرجلادینے کا قصد فرمانا ثابت
(عــہ۳) بعض احادیث میں عشاء بعض میں فجر، بعض میں جمعہ، بعض میں مطلق جماعت وارد ہے اور سب صحیح ہیں
کما فی عمدۃ القاری للامام العینی
(جیسا کہ امام بدرالدین عینی کی عمدۃ القاری میں ہے۔ت) یہاں ذکر عشا ہی تھا لہٰذا اس کی تخصیص کی ۱۲منہ غفرلہ (م)
کما ۲؎ فی الصحیحین من حدیث ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم و فی الباب غیر(عــہ۱)
(جیسا کہ بخاری و مسلم میں اس کو ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا اور اس باب میں اس کے علاوہ بھی احادیث موجود ہیں۔ت)
(عــہ۱) فانہ حدیث مشھور ورد من حدیث عمروبن ام مکتوم عند احمد وعن اسامۃ بن زید عند ابن ماجۃ وعن انس بسند جید وعن ابن مسعود کلیھما عند الطبرانی فی الاوسط وعن جابر بن عبداللہ عند الطحاوی فی مشکل الاٰثار وقد ذکرنا احادیثھم فی رسالتنا حسن البراعۃ فی تنقید حکم الجماعۃ اماحدیث ابی ھریرۃ فرواہ من لایحصی من اصحاب الصحاح والسنن والمسانید والمعاجیم واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱۲منہ (م)
کیونکہ مشہور حدیث ہے امام احمد نے حضرت عمرو ابن ام مکتوم سے، ابن ماجہ نے حضرت اسامہ بن زید سے، طبرانی نے اوسط میں حضرت انس سے مسند جید کے ساتھ اور حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے،
طحاوی نے مشکل الآثار میں حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کیاہے،ہم نے ان تمام احادیث کو اپنے رسالے''حسن البراعۃ فی تنقید حکم الجماعۃ'' میں ذکرکیاہے، رہی حدیث ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، تو اسے لاتعداد اصحاب صحاح وسنن اور اصحاب مسانیدومعاجیم نے روایت کیا ہے واللہ تعالٰی اعلم۱۲منہ(ت)