Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۷(کتاب الصلٰوۃ)
1 - 158
باب الجماعۃ

(جماعت کا بیان)
مسئلہ ۸۴۶: از میرٹھ خیر نگردروازہ خیرالمساجد مرسلہ مولوی ابوالعارف محمد حبیب اللہ صاحب قادری برکاتی     ۲رمضان المبارک ۱۳۳۰ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس صورت میں کہ مسجد خیرنگر دروازہ کا صحن محراب کے ہردو جانب میں مساوی نہیں ہے بلکہ دست راست کی جانب ۱۶فٹ بڑھاہواہے گرمی برسات وغیرہ میں جب نماز صحن مسجد میں پڑھی جاتی ہے توجماعت اس سرے سے اس سرے تک قائم ہوتی ہے جومحراب کی نسبت سے دائیں جانب ۱۶فٹ متجاوز ہوتی ہے جس کا ایک خاکہ بھی مرسلہ خدمت ہے اب دریافت طلب یہ ہے کہ جب صحن مسجد میں جماعت قائم ہوجائے تو امام کو رعایت وسط صف کی لازم ہے یامحاذاتِ محراب ضروری ہے بینوا توجروا۔
الجواب

امام کے لئے سنت متوارثہ کہ زمانہ اقدس رسالت سے اب تک معہود وسط مسجد میں قیام ہے کہ صف پوری ہو توامام وسط صف میں ہو اور یہی جگہ محراب حقیقی ومتورث ہے، محراب صوری کہ طاق نماایک خلا وسط دیوار قبلہ میں بنانا حادث ہے اُسی محراب حقیقی کی علامت ہے، یہ علامت اگر غلطی سے غیروسط میں بنائی جائے اس کا اتباع نہ ہوگا مگرمراعات توسط ضروری ہوگی کہ اتباع سنت وانتفائے کراہت وامتثال ارشاد حدیث توسطوا الامام (امام درمیان میں کھڑا ہو۔ت)، جس مسجد میں مسقف حصہ نہ ہو وہاں یہ محراب صوری ہوتی ہی نہیں جیسے افضل المساجد مسجد الحرام شریف، اور اس میں ہرمسجد کاصحن داخل ہے کہ باختلاف موسم مسجد مستقل ہے فقہائے کرام درجہ مسقفہ کو مسجد شتوی کہتے ہیں اور غیرمسقف کو مسجد صیفی جب ان کے وسط متطابق نہ ہوں تو ہرمسجد کے لئے اس کا اپنا وسط معتبر ہے پس صورت مستفسرہ میں جبکہ مسجد صیفی مسجد شتوی سے سولہ فٹ جانب راست زائد ہے توامام محراب صوری اندرونی کی محاذات سے آٹھ فٹ جانب راست ہٹ کر صحن میں کھڑاہو کہ اس مسجد کی محراب میں قیام حاصل ہو۔ درمختار میں ہے:

یصف الامام ویقف وسطا ۱؎ (امام صف بنوائے اور درمیان میں کھڑاہو۔ت)
 (۱؎ درمختار    باب الامامۃ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۸۳)
درایہ شرح ہدایہ میں ہے:
السنۃ ان یقوم الامام ازاء وسط الصف الاتری ان المحاریب مانصبت الاوسط المساجد وھی قد عینت لمقام الامام مبسوط۲؎۔
سنت یہ ہے کہ امام صف کے محاذی درمیان میں کھڑا ہو، کیا تم نے ملاحظہ نہیں کیا تمام محرابیں مساجد کے وسط میں بنائی گئی ہیں اور وہ مقام امام کا تعین کررہی ہیں، مبسوط۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار    بحوالہ معراج الدرایۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۲۰)
امام بکرخواہرزادہ میں ہے:

لوقام فی احد جانبی الصف یکرہ ولوکان المسجد الصیفی بجنب الشتوی وامتلاَ المسجد یقوم الامام فی جانب الحائط لیستوی القوم من جانبیہ۳؎ الخ اثرھما ش۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
اگرامام صف کی دونوں جانبوں میں سے کسی ایک طرف کھڑاہوا تو یہ مکروہ ہے، اگرمسجد صیفی شتوی کے پہلو میں ہو اور مسجد بھری ہو تو امام دیوار کی جانب کھڑاہو تاکہ امام کی دونوں طرف لوگ برابر ہوں الخ ان دونوں عبارتوں کو شامی نے نقل کیاہے واللہ تعالٰی اعلم(ت)
 (۳؎ ردالمحتار    بحوالہ معراج الدرایۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۲۰)
مسئلہ ۱۸۴۷: از اروہ نگلہ ڈاک خانہ اچھنبرہ ضلع آگرہ مسؤلہ مرسلہ محمدصادق علی خاں صاحب رمضان شریف ۱۳۳۰ہجری

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد کے باہر درمیں جومشرق کی جانب ہوتاہے اس میں تنہا امام کوکھڑے ہوکر نماز پڑھانی کیسی ہے اور اکثرمساجد میں باہر کاصحن اندر کے صحن سے بہت نیچاہوتاہے بینوا توجروا۔
الجواب

امام کو در میں کھڑا ہونا مکروہ ہے۔
فی رد المحتار عن معراج الدرایۃ عن سیدنا الامام الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ انی اکرہ للامام ان یقوم بین الساریتین۱؎۔
ردالمحتار میں معراج الدرایہ کے حوالے سے ہے کہ سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا میں اس بات کو مکروہ جانتاہوں کہ امام دوستونوں کے درمیان کھڑا ہو۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار        باب مایفسد الصلوٰۃ الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۷۸)
پھرامام ومقتدیان کادرجہ بدلا ہونا کہ امام درجہ مسقف میں ہے اور سب مقتدی صحن میں، یہ دوسری کراہت ہے ۲؎ کما فی جامع الرموز(جیسا کہ جامع الرموزمیں ہے۔ت)
 (۲؎ جامع الرموز    فصل مایفسد الصلوٰۃ الخ    مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران    ۱ /۱۹۴)
پھر اگر در کی کرسی صحن سے بقدر امتیاز بلند ہوئی تو یہ تیسری کراہت ہے۳؎ کما فی الدرالمختار والتفصیل فی فتاوٰنا (جیسا کہ درمختار میں ہے اور اس کی تفصیل ہمارے فتاوٰی میں ہے۔ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۳؎ درمختار        باب مایفسد الصلوٰۃ الخ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱/۹۲)
مسئلہ ۸۴۸: ازڈھاکہ بنگالہ        ۱۶ذی الحجہ ۱۳۳۵ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ طالب علم پرجوطلب علم دین کرتاہے جماعت نمازپنجگانہ واجب ہے یانہیں؟ بیّنوا تؤجروا۔
الجواب

علماء نے طالب ومشتغل علم کو احیاناً ترک جماعت میں معذور رکھا ہے بچند شرائط، اس کا اشتغال خاص علم فقہ سے ہو کہ مقصود اصلی ہے نہ نحو وصرف ولغت ومعانی وبیان وبدیع وغیرہا اگرچہ بوجہ آلیت داخل علم دین ہیں، اور وہ اشتغال بدرجہ استغراق ہو جس کے سبب فرصت نہ پائے نہ یہ کہ اشتغال فقہ کابہانہ کرکے جماعت تو ترک کرے اور اپناوقت بطالت وفضولیات میں گزارے جیسا کہ بہت طلبائے زمانہ کا انداز ہے، یاحالت ایسی ہو کہ کسی وقت اہتمام جماعت کے سبب اس کے کام میں حرج واقع ہو جس کا بندوبست نہ کرسکے نہ دوسرا وقت اس کا بدل سکتاہو مثلاً ایک مجمع طلبہ کے ساتھ فقہ کادرس رکھتاہے اگر اس جماعت کوجائے یہ جماعت نہ پائے، پھر بایں ہمہ کسل نفس کے لئے اس مسئلہ کو حیلہ بناکر ترک جماعت پرمداومت نہ کرے بلکہ احیانا واقع ہو ورنہ معذور نہ ہوگا بلکہ مستحق تعزیر ٹھہرے گا، درمختار میں دربارہ اعذار ترک جماعت لکھا۔
کذا اشتغالہ بالفقہ لابغیرہ کذاجزم بہ الباقانی تبعا للبھنسی ای الااذاواظب تکاسلا فلایعذرویعزر۱؎۔
اسی طرح جوطالبعلم فقہ میں مشغول ہو نہ کہ کسی دوسرے فن میں، اس پر بہنسی کی اتباع میں باقانی نے جزم کیاہے مگر
اس صورت میں جب وہ سستی کی وجہ سے دوام اختیار کرے تو وہ معذور نہ ہوگا اور اس پر تعزیر ہوگی۔(ت)
 (۱؎ درمختار    باب الامامۃ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۸۲)
نورالایضاح و مراقی الفلاح میں ہے:

(وتکرار فقہ) لانحو ولغۃ (بجماعۃ تفوتہ) ولم یداوم علی ترکھا۲؎۔
 (اور تکرار فقہ) نہ کہ نحو ولغت کا (جماعت کے ساتھ جو فوت ہوجائے) اور نہ جماعت کے ترک پردوام اختیار کرنے والا ہو۔(ت)
 (۲؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی    باب الامامۃ    مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۱۶۳)
قنیہ کے لفظ یہ ہیں:

من لایحضرھا لاستغراق اوقاتہ فی تکریر الفقہ۳؎الخ
جوجمیع اوقات میں تکرار فقہ کی وجہ سے حاضر جماعت نہیں ہوسکتا الخ(ت)
 (۳؎ ردالمحتار بحوالہ القنیہ        باب الامامۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۱۱)
علامہ شامی نے فرمایا:

ثم اشتغال لابغیر الفقہ فی بعض من الاوقات عذرمعتبر۴؎ :۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم
بعض اوقات میں وہ اشتغال جوفقہ کے علاوہ میں ہو معتبر عذرنہیں ہے۔(ت)
 (۴؎ ردالمحتار        باب الامامۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۱۲)
Flag Counter