فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۶(کتاب الصلٰوۃ) |
مسئلہ نمبر ۳۹۴: ازخیر آباد وضلع سیتاپور محلہ مہمان سرائے درگاہ حضرت مخدوم صاحب خوردقدس سرہ مرسلہ مولوی سید عظیم الدین صاحب خادم آستانہ مقدسہ ۲۵محرم الحرام ۱۳۳۲ھ
چہ می فرمایند علماء دین و مفتیان شرح متین اندریں مسئلہ ،نقشہ نظری بالا درگاہ حضرت مخدوم سید نظام الدین صاحب الہ دیا خیر آبادی عرف حضرت چھوٹے مخدوم صاحب قدس سرہ کا ہے اس احاطہ میں ایک مسجد سہہ دری تعمیر شدہ ۱۰۵۶ھ ہے جس کے اندر دو صف کی گنجائش تھی ان صفوف کاجہت قبلہ موافق رخ مسجد قریب ثلث شمالی بین المغربین تھا اور تخمیناً آخر صدی دو ازدہم تک اسی رُخ نمازادا ہوتی رہی بعد ازاں فرشِ مسجد و صحنِ مسجد کو بوجہ شکستہ ہوجانے کے مرمّت ہوئی چونکہ رُخ روضہ شریف کا جو تعمیر کردہ صناعان دہلی تعمیر شد ہ ۹۹۴ھ ہے ایسا تھا جس کا جہت قبلہ وسط مغربین ہوتا تھا فرش جدید میں نشان صفوف میں موافق رخ روضہ قائم ہوکر اب تک نماز اس رخ ادا ہوئی اس کارروائی سے اندر مسجد کے بجائے دو صفوف کامل کی گنجائش رہی اور وقت ضرورت اگر اندر مسجد صف دویم قائم کی گئی تو کامل نہ ہوسکی ناقص رہی اب پھر فرش مذکورہ خراب ہو کر مرمت ہو رہا ہے بصورت ضرورت نشانات صفوف جدید قائم کئے جائیں گے ، چونکہ اکثر مساجد بلادوامصار ہند قطب رُخ ہیں جن کا جہت قبلہ ثلث جنوبی مغرب میں ہے، نیز عبارت کتب فقہ سے اس کی تائید حسب ذیل معلوم ہوتی ہے۔
فی تجنیس الملتقط القبلۃ فی دیارنا بین مغرب الشتاء ومغرب الصیف، فان صلی الی جہۃ خرجت من المغربین فسدت صلاتہ قال الامام ابومنصورینظر الی اقصر ایام الشتاء والی اطول ایام الصیف فیتعرف مغربھما ثم یترک الثلثین عن یمینہ وثلثا عن یسارہ و یصلی مابین ذلک ، قال الامام السید ناصر الدین الاول للجواز والثانی للاحتساب کما فی جامع المضمرات۔۱؎
تجنیس ملتقط میں ہے کہ ہمارے علاقے کا قبلہ موسم سرما کے مغرب اور موسم گرما کے مغرب کے درمیان ہے اگر کسی نے ایسی جہت میں نمازادا کی جو دونوں مغرب سے خارج ہو تو نماز فاسد ہوگی ، امام ابو منصور نے فرمایا موسم سرما کے سب سے چھوٹے دنوں اور موسم گرما کے سب سے بڑے دنوں کودیکھا (غور کیا ) تو ان دونوں کے مغرب کی پہچان ہو جائے گی ۔پھر اپنے دائیں طرف سے دوتہائی اور بائیں طرف سے ایک تہائی چھوڑ کر اسکے درمیان نماز ادا کرے۔ امام السید ناصرالدین نے فرمایاپہلا قول جواز اور دوسرا استحباب کے لئے ہے، اسی طرح جامع المضمرات میں ہے۔(ت)
(۱؎ تجنیس الملتقط)
عبارتِ بالا کے متعلق تو یہ بات دریا فت طلب ہے کہ صیغہ مضارع ینظر ،فیتعرف،یترک،یصلی معروف یا مجہول اور فاعل یا مفعول مالم یسم فاعلہ کون ہے؟اور لفظ عن یمینہ و عن یسارہ کی ضمائر کا مرجع مصلی ہے یا قبلہ؟ لہذا عبارت عربیہ پر اعراب قائم فرما ئے جائیں اور فاعل وغیرہ مرجع ضمائر کی تشریح اور ہدایتاً امور ذیل کی ہدایت مطلوب ہے۔مسجد موجودہ مذکورہ مخصوصہ کا جہت قبلہ مسجد ہی کے رُخ رہنے دینا اور ہر دو صفوف کامل کی بدستور گنجائش قائم رکھنا افضل واولٰی ہے یا نشانات قائم کرکے جہتِ قبلہ بدل دینا افضل ہے تو قطب رخ میں صف واحد بھی کامل نہیں رہتی ہے افضل و اولٰی ہے یاروضہ کے مطابق جس سے ایک صف کامل قائم رہ سکتی ہے حد مکان اس مسجد خاص میں لحاظ تکمیل صفوف کی تصریح مستحب ہے یا تبدیلی جہت قبلہ کی مغربین شمس و مغربین قمر ایک ہی ہیں یا جُداگانہ ؟جواب استفتاء ہذا کی نہایت عجلت ہے مرمت قریب الاختتام ہے اور یہ پوشیدہ نہیں کہ بحالت تری فرش کے نشانات جیسے پائدار قائم ہو سکیں گے بعد خشکی ممکن نہ ہوگا لہذا توجہ خاص کا محتاج ہے اور کیونکہ استفتاء خاص متعدد علوم و فنون سے تعلق رکھتا ہے بدیں وجہ باوجود آگہی عدیم الفرصتی بندگان ذات بابرکات سے رجوع کی گئی کہ حسب مراد دوسرے کی ، دوسری جگہ حصول جواب کی پوری امید نہ تھی لہذا اس تکلیف دہی خاص کی نسبت مترصد معافی ہوکر توجہ خاص سے مستفید ہونے کا بواپسی امیدوار ہوں، جزاک اﷲفی الدارین خیرا۔
(الجواب) :علمائے کرام نے جو خاص تخمینے جہت قبلہ کے لئے ارشاد فرمائے وہ خاص اپنے بلاد کے لئے ہیں نہ کہ حکم عام ، و لہذا وہ تخمینے بہت مختلف آئے ہیں جن کا بیان ہمارے رسالہ ھدایۃ المتعال فی حدالاستقبال میں ہے ۔ علامہ برجندی نے شرح نقایہ میں اسی عبارت تجنیس الملتقط کی نسبت فرمایا انما یصح فی بعض البقاع۱؎ ( یہ قاعدہ بعض جگہوں میں صحیح و درست ہے۔ت)خیرآباد جس کا عرض شمالی ستائیس ۲۷ درجے اکتیس۳۱ دقیقے اور گرینچ سے مشرقی اسی ۸۰ درجے اڑتالیس دقیقے ہے اس کا قبلہ تقریباً ٹھیک نقطہ مغرب الاعتدال ہے یعنی وسط مغربین صیف و شتا وسط حقیقی سے جنوب کی طرف ایک خفیف مقدار جھکا ہوا پاؤ درجہ تک بھی نہیں پہنچتی نہ وہ محسوس ہونے کے قابل ہے۔
(۱؎ شرح النقایہ للبرجندی کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ لکشور لکھنؤ ۱/۸۹)
وذلک لان عرض مکۃ المکرمۃ شرفھا اﷲ تعالٰی کاحہ الہٰ وطولھا محہ ی فما بین الطولین م حہ لح :.لوظل عرض مکۃ۵۹۳۵۴۲۳ء۹-لوجم مابین الطولین ۸۸۰۱۸۰۲ء۹=۷۱۳۳۶۲۰ء۹قوسہ فی جدول الظل حہ لط نہ لو جمھا ۹۴۸۵۸۹۶ء۹-،محفوظ اول ،ثم فضل عرض البلد علی ھذہ القوس ماقہ لوجمھابالتدفیق۵۰۸۳۹۵۸ء۷-محوظ ثانی،فلوظل مابین الطولین ۹۳۳۵۴۴۶ء۹+محفوظ-محفوظ ثانیا=۷۳۷۲۸۴ء۱۲قوس ھذاالظل فسط حہ مہ الو-ھوالانحراف الی نقطۃ المغرب من نقطۃ الجنوب لان عرض البلد الشمالی اکثر من القوس المذکورۃ فالانحراف من المغرب الاعتدال الی الجنوب مدقہ لح وھوالمقصود۔
یہ اس لئے ہے کہ مکہ مکرمہ ( اﷲ اسکی بزرگی میں اضافہ فرمائے)کا عرض مثلاً کاحہ الہٰ ئہو اور اسکا طول م حہ ی ہو تو دونوں طولوں کے درمیان م حہ لح ہوگا کہ :. اگر ظل عرض مکہ۵۹۳۴۵۲۳ء۹-لو جم جو دونوں طولوں کے درمیان ہے۸۸۰۱۸۰۲ء۹=۷۱۳۳۶۲۰ء۹ہے جس کا قوس جدول میں حہ لط نہ ہو ا اسکا لوجم ۹۴۸۵۸۹۶ء۹ ہے یہ محفوظ اول ہے۔ پھر اس قوس پر عرض بلد زائد ہوگا جو مانہ ہے جس کا لوجم بالتد قیق ۵۰۸۳۹۵۸ء۷ہے یہ محفوظ ثانی ہے، پس اگر ظل''جو دونوں طولوں کے درمیان ہے'' ۹۳۳۵۴۴۶ء۹+محفوظ اول-محفوظ ثانی =۳۷۳۷۲۸۴ء۱۲ ہے اس ظل کا قوس فسط مہ حہ لو ہے اور یہ نقطہ جنوب سے نقطہ مغرب کی طرف انحراف ہے کیونکہ بلد شمالی کا عرض قوسِ مذکورہ سے زائد ہے پس مغربِ اعتدال سے جنوب کی طرف انحراف مدقہ لح ہے اور یہی مقصود ہے۔ت
سوال میں وسط مغربین کو جہت قبلہ روضہ ر خ لکھا اس سے معلوم ہوا کہ مزار مبارک کا منہ صحیح جانب قبلہ تحقیقی ہے تو لازم تھا کہ سرہانا تقریباً سیدھا جانب قطب ہو کہ وسط مغربین و وسط قطبین شیئ واحد ہے مگر نقشہ میں قطب شمالی کا خط دیوار روضہ مبارکہ کی جانب مغرب منحرف بنایا ہے اگرواقعی اتنا انحراف ہے تو وسط مغربین کا ہر گز جہت قبلہ روضہ رخ ہونا متصور نہیں پھر یہاں امراہم اس کی معرفت ہے کہ دیوار محرابِ مسجد کو قبلہ تحقیقی سے کتنا انحراف ہے اگر وہ انحراف ثمن دور یعنی ۴۵ درجے کے اندر ہے تو نماز محراب کی جانب بلا تکلف صحیح و درست ہے ، اس انحراف قلیل کا ترک صرف مستحب ہے خود سوال میں تجنیس ملتقط سے گزرا۔
قال الامام السید ناصر الدین ،الاول للجواز والثانی للاحتساب۔۱؎
امام ناصر الدین نے کہا : پہلی صورت میں جواز اور دوسری میں استحباب ہے ۔(ت)
(۱؎ تجنیس الملتقط)