کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں یہ کہنا کہ نماز خدا ئے تعالٰی کی پڑھتا ہوں جائز ہے یا نہیں؟ ایک صاحب اس کہنے کو منع کرتے ہیں۔ بینوا توجروا
الجواب: بلا شبہ جائز ہے ان صاحب کے منع کرنے کے اگر یہ معنی ہیں کہ نیت کرتے وقت زبان سے یہ الفاظ نہ کہے جائیں تو ایک قول ضعیف و نا معتمد ہے، عامہ کتب میں جواز تلفّظ بہ نیت بلکہ اس کے استحباب کی تصریح فرمائی۔دُرمختار میں ہے: التلفظ بھا مستحب ھو المختار و قیل سنۃ یعنی احبہ السلف او سنۃ علمائنا۲؎۔
نیت زبان کے ساتھ کرنا مستحب ہے مختار قول یہی ہے بعض نے سنّت کہا یعنی اسے اسلاف پسند کرتے تھے یا ہمارے علماء کا طریقہ ہے (ت)
(۲؎ درمختار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۶۷)
اور اگر یہ مراد نماز کو اﷲ عزّوجل کی طرف اضافت کرنا منع ہے تو سخت جہل اشنع ہے، یہ صاحب بھی ہر نماز میں التحیّات ﷲ والصلوات کہتے ہونگے (کہ سب مجرے اور سب نمازیں اﷲ کی ہیں) پر ظاہر کہ یہاں اضافت بھی لامیہ ہے، بالجملہ اس منع کی کوئی وجہ اصلاً نہیں واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ نمبر ۳۹۳ : ازبدایوں قاضی محلہ مکان مولوی بقاء اﷲ رئیس مرسلہ مولوی عبدالحمید صاحب ۴رجب المرجب ۱۳۱۲ھ
بجناب معلٰی القاب مخدوم و معظم بندہ جناب مولٰینا صاحب دام فیوضہ خادم بے ریا عبدالحمید بعد بجاآوری آداب گزارش کرتا ہے کہ ایک فتوٰی اپنا لکھا ہوا حسبِ ہدایت اپنے استاذ جناب مولانا حافظ بخش کے واسطے تصدیق جناب والا کو بھیجتاہوں ملاحظہ فرما کر مُہرسے مزین فرمادیجئے، اور اگر کوئی غلطی ملاحظہ سے گزرے تو درست فرما کر ممنون فرمایئے، زیادہ ادب۔
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح اس مسئلہ میں کہ فرائض اور واجبات کی نیت میں لفظ ''آج'' یا ''اس'' کا اضافہ کرنا چاہیئے یا نہیں؟ مثلاً یوں کہنا کہ نیت کرتا ہوں فرض آج کے ظہر یا عصر یا اس ظہر یا عصر کی ، اور اگر نہیں کرے گا تو نماز ادا ہوگی یا نہیں؟
خلاصہ جواب: صورت مستفسرہ میں فقہا کا اختلاف ہے چنانچہ قاضی خان نے بلا لفظ ''آج'' یا ''اس'' کے نیت کو جائز ہی نہیں رکھا ہے کما فی فتاواہ وھکذا فی العلمگیریۃ (جیسا کہ ان کے فتاوٰی میں ہے اور اسی طرح فتاوٰی عالمگیری میں ہے۔ ت) اور درمختار میں ہے کہ تعین ضروری نہیں۔پس بموجب قولین اولین کے بلا لفظ ''آج'' یا''اس'' کے مطلق نیت سے نماز ادا نہ ہوگی اور بموجب قول صاحب درمختار کے ادا ہو جائیگی لیکن چونکہ خروج عن الخلاف بالاجماع مستحب ہے اور اسی دُرمختار میں نسبت تعین کی اولویت ظاہر فرمائی ہے اور بلفظ وہوالمختارارشاد کہا ہے پس اولٰی اور مختار یہ ہی ہے کہ تعین وقت کی لفظ''آج''یا''اس'' سے ضرور کرلے ورنہ تارک اولیت ہوگا اور جب شناخت وقت کی نہیں رکھتا اور یہ بالعموم ہے کہ اس عہد میں اکثر لوگ وقت کھو کر نماز پڑھتے ہیں تو عنداﷲ مواخذہ دار رہے گا۔واﷲتعالٰی اعلم ۔بیّنوا توجروا۔
الجواب: نیت قصدِقلبی کا نام ہے تلفظ اصلاً ضروری نہیں نہایت کار مستحب ہے تو لفظ اس یا آج درکنار سرے سے کوئی حرفِ نیت زبان پر نہ لایا تو ہرگزکسی کا حرج بھی نہیں قصدِقلبی کی علمائے کرام نے یہ تحدید فرمائی کہ نیت کرتے وقت پوچھاجائے کہ کون سی نماز پڑھنا چاہتا ہے تو فوراً بے تامل بتادے کماذکرہ الامام الزیلعی فی التبیین وغیرہ فی غیرہ(جیسا کہ امام زیلعی نے اسے تبیین الحقائق میں اور دیگر علماء نے اپنی کتب میں ذکر کیا۔ت)اور شک نہیں کہ جوشخص نماز وقتی میں یہ بتادے گا کہ مثلاً نمازِظہر کا ارادہ وہ یہ بھی بتا دیگا کہ آج کی ظہر شاید یہ صورت کبھی واقع نہ ہو کہ نیت کرتے وقت دریافت کئے سے یہ تو بتا دے کہ ظہر پڑھتا ہوں اور یہ سوچتا رہے کہ کب کی تو قصد قلب میں تعیین نوعی نماز کے ساتھ تعیین شخصی بھی ضروری ہوتی ہے اور اسی قدر کافی ہے، ہاں اگر کوئی شخص بالقصد ظہر غیر معین کے نیت کرے یعنی کسی خاص ظہر کا قصد نہیں کرتا بلکہ مطلق ظہر پڑھتا ہوں چاہے وہ کسی دن کی ہو تو بلا شبہ اُس کی نماز نہ ہوگی
فان التعیین فی الفرض فرض بالوفاق وانما الخلف فی عدم اللحاظ لا لحاظ العدم
(فرائض میں تعیینِ وقت بالاتفاق فرض ہے عدمِ لحاظ میں اختلاف ہے لحاظِ عدم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ت)اس طور پر تو یہ مسائل اصلامحلِ خلاف نہیں۔ولہذا محقق اکمل الدین بابرتی نے عنایہ شرح ہدایہ میں فرمایا:
اقول: الشرط المتقدم وھوان یعلم بقلبہ ای صلاۃ یصلی یحسم مادۃ ھذہ المقالات وغیرہا فان العمدۃ علیہ لحصول التمیز بہ وھوالمقصود۱؎کما نقلہ فی ردالمحتار واقرہ ھھنا وفی منحۃ الخالق وایدہ العلامۃ اسمٰعیل مفتی دمشق کمافی المنحۃ۔
میں کہتا ہوں شرطِ مقدم یہ ہے کہ نمازی دل سے یہ جانتا ہو کہ وہ کون سی نماز ادا کر رہا ہے یہ شرط ان اعتراضات وغیرہ کی بنیاد کو ختم کر دیتی ہے کیونکہ حصولِ تمیز کے لئے نمازی پر قصد و نیت ضروری ہے اور یہی مقصود ہے اھ ردالمحتار نے یہاں اسے نقل کر کے مقررر کھا ہے اورمنحۃ الخا لق میں اسے نقل کیا ہے ، نیز اسکی تائید مفتی دمشق شیخ اسمٰعیل نے کی ،ملاحظہ ہو منحۃ الخالق(ت)
(۱؎ العنایۃ مع فتح القدیر باب شروط الصلوٰۃ الخ مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۲۳۳)
(ردالمحتار باب شروط الصلوٰۃ الخ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۳۰۸)
البتہ تعدد فوائت خصوصاً کثرت کی حالت میں یہ صورت ضرور ہوسکتی بلکہ بہت عوام سے واقع ہوتی ہے کہ ظہر کی نیت کرلی اور یہ تعیین کچھ نہیں کہ کس دن تاریخ کی ظہر یہاں باوصف اختلاف تصحیح مذہب اصح واحوط یہی ہے کہ دن کی تخصیص نہ کی تو نماز ادا ہی نہ ہوگی مگر طول مدت یا کثرت عدد میں تعیین روز کہاں یاد رہتی ہے لہذا علماء نے اس کا سہل طریقہ یہ رکھا ہے کہ سب سے پہلی یا سب سے پچھلی ظہر یا عصر کی نیت کرتا رہے جب ایک پڑھ لے گا تو باقی میں جو سب سے پہلی یا پچھلی ہے دہ ادا ہوگی وعلی ھذاالقیاس آخر تک ۔
فی التنویر لابد من التعیین لفرض ولوقضاء قال فی الدرلکنہ یعین ظھر یوم کذا علی المعتمد والاسھل نیۃ اول ظھرعلیہ واٰخر ظہر وفی القھستانی عن المنیۃ لا یشترط ذلک فی الاصح وسیجی آخر الکتاب۲؎
تنویر الابصار میں ہے کہ گر فرض نماز میں تعیین ضروری ہے خواہ وہ قضا ہی کیوں نہ ہوں درمختار میں کہا معتمد قول کے مطابق تعیین یہ ہے کہ فلاں دن کی ظہر ادا کر رہا ہوں اس مسئلہ میں آسان طریقہ یہ ہے کہ یوں نیت کرلے کہ پہلی ظہر جو اس پر لازم ہے وہ پڑھتا ہے۔یا یہ کہ آخر ظہر جو اس پر لازم ہے وہ پڑھتا ہے ۔ قہستانی میں منیہ کے حوالے سے ہے اصح یہ ہے کہ یہ کہنا شرط نہیں ، اور عنقریب کتاب کے آخر میں اس کا ذکر آئے گا۔
قال الشامی ، نقل الشارح ھناک عن الاشباہ انہ مشکل و مخالف لماذکرہ اصحابنا کقاضی خان وغیرہ والاصح الاشتراط قلت وکذاصححہ فی متن الملتقی ھناک فقد اختلف التصحیح والاشتراط احوط و بہ جزم فی الفتح۱؎ ھناکمالا یخفی۔
امام شامی فرماتے ہیں کہ شارح نے یہاں اشباہ سے نقل کیا ہے کہ (تعیین شرط نہ ہونا)ناقابل فہم اور ہمارے علماء قاضی خان وغیرہ کی تصریحات کے خلاف ہے۔بلکہ شرط ہونا اصح ہے، میں کہتا ہوں متنِ ملتقی میں اس مقام پر اسکی تصحیح کی ہے تو اس کی تصحیح میں اختلاف واقع ہوا ہے مگر شرط ہونا احوط ہے اور اسی پر فتح القدیر میں یہاں جزم کیا ہے۔ (ت)
(۱؎ردالمحتار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۳۰۸)
اور اگر فائتہ ایک ہی ہے تو نیت فائتہ کرنے ہی میں تعیین یوم خود ہی آگئی۔
فی ردالمحتار عن الحلیہ ، لوکان فی ذمتہ ظہر واحد فائت فانہ یکفیہ ان ینوی ما فی ذمتہ من الظھر الفائت وان لم یعلم انہ من ای یوم۲؎ ۔
جیسا کہ ردالمحتار میں حلیہ سے ہے کہ اگر کسی شخص کے ذمے ایک ظہر کی نماز قضا لازم ہے تو اس کے لئے اتنی نیت کرلینا کافی ہے کہ وہ اپنی فوت شدہ ظہر ادا کر رہا ہے اگرچہ یہ نہ جانتا ہو کہ وہ کون سے دن کی فوت شدہ ہے(ت)
(۲؎ ردالمحتار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۳۰۸)
بالجملہ نماز وقتی میں صور واقعہ معلومۃ الوقوع موقع خلاف و نزاع نہیں، خلافیہ علماء اُس صورت مفروضہ میں ہے کہ کوئی شخص نماز امروزہ میں تعیینِ نوعی تو کرلے اور تعیین شخصی سے اصلاً ذاہل وغافل ہو کہ بحالت شعور ، قصد صحیح تعیین شخصی کا ملزوم اور عدم لحاظ مفقود و معدو م اوربقصد خلاف، عدمِ لحاظ نہیں ،لحاظِ عدم ہے اور وہ بلاشبہ نافی نماز و منافی جواز، تو غفلت و بے خبری ایسی چاہیئے کہ سوال پر یہ تو بتادے کہ مثلاً ظہر پڑھتا ہوں اور بے تامل و فکر نہ بتاسکے کہ آج کی ظہر ایسی حالت میں اس سوال کا محل نہیں کہ مجھے نیت میں کیا بڑھانا چاہیے کہ وہ تو حال ذہول وعدم شعور میں ہے بلکہ بحث یہ ہوگی کہ ایسی نماز ہوگئی یا نہیں، اس میں تین صورتیں ہیں اگر وقت باقی ہے تو روایات مختلف تصحیحات مختلف کما بینہ فی ردالمحتار وغیرہ من الاسفار(جیسا کہ ردالمحتار اور دیگر معتمد کتب میں اس کا بیان ہے۔ت) غرض توسیع مسلم اور احتیاط اسلم ،یونہی اگر وقت جاتا رہااور اُسے معلوم نہیں اس صورت میں اختلاف تصحیح ہے۔
فی البحر الرائق شمل مااذانوی العصر بلا قید وفیہ خلاف ففی الظھیریۃ لونوی الظھرلایجوز و قیل یجوز وھو الصحیح ھذا اذا کان مودیافان کان قاضیافان صلی بعد خروج الوقت وھولایعلم لا یجوز و ذکر شمس الائمۃ ینوی صلاۃ علیہ فان کانت وقتیۃ فھی علیہ وان کانت قضاء فھی علیہ ایضا اھ وھکذا صححہ فی فتح القدیر معزیا الی فتاوی العتابی لکن جزم فی الخلاصۃ بعدم الجواز وصححہ السراج الھندی فی شرح المغنی فاختلف التصحیح کما تری۱؎اھ ملخصاوفی ردالمحتار فی النھران ظاھر مافی الظھیریۃ انہ یجوز علی الارجح۲؎ اھ
البحر الرائق میں ہےکہ یہ اس صورت کو بھی شامل ہے جب کوئی نمازِ عصر کی نیت بغیر کسی قید کے کرے تو اس میں اختلاف ہے، ظہیر یہ میں ہے اگر کسی نےظہر کی نیت کی تو جائز نہیں ، بعض کے نزدیک جائزہے اور یہی صحیح ہے۔لیکن یہ اس وقت ہے جب وہ نماز ادا کر رہا ہو (یعنی قضاوالا نہ ہو) اگر نمازِقضا پڑھنے والا ہوتو اگر وقت کے نکلنے کے بعد اس حال میں پڑھی ہے کہ اسے خروج وقت کا علم نہیں ہوا تو نماز جائز نہ ہوگی۔ اور شمس الائمہ کہتے ہیں اتنی نیت کافی ہے کہ میں وہ نماز پڑھتا ہوں جو مجھ پر واجب ہے اب ادا ہو یا قضا وہ یقینا ا س پر لازم تھی اھ اسی طرح فتح القدیر میں فتاوٰی عتابی کے حوالے سے اس کی تصحیح کی ہے ،لیکن خلاصہ میں عدم جواز پر جزم کا اظہار کیا گیا ہے اور سراج ہندی نے شرح المغنی میں اسی کو صحیح کہا جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں۔تصحیح مسئلہ میں اختلاف ہے اھ تلخیصاً ۔ ردالمحتار میں نہر کے حوالے سے ہے کہ ظہیر یہ کی عبارت سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ارجح قول پر جواز ہی ہے۔اھ(ت)
(۱؎ البحر الرائق شرح کنز الدقائق باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۲۷۹)
(۲؎ ردالمحتار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۳۰۸)
اقول: بل لعل ظاھر مافیھا انہ لا یجوز علی الارجح حیث جزم بہ ولم یذبل ماذکر عن شمس الائمۃ بما یدل علی ترجیحہ وانت تعلم ان اماما من الائمۃ اذاقال لایجوز ذلک وقال فلان یجوز فان المتبادر منہ ان مختارنفسہ الاول بل الظاھر انہ الذی علیہ الاکثر خلا فالمن ذکر۔
اقول(میں کہتا ہوں) بلکہ ہو سکتا ہے ظاہر مافی الظہیریۃ کے مطابق ارجح قول پر عدم جواز ہو کہ انہوں نے اس پر جزم کیا ہے اور شمس الائمہ سے اس کی جو ترجیح ذکر کی گئی ہے اس کو رد نہیں کیا کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی امام کہتا ہے کہ یہ بات جائز نہیں اور فلاں اس کے جواز کا قائل ہے تو اس عبارت سے متبادر یہی ہوتا ہے کہ ان کا اپنا مختارقولِ اوّل ہے بلکہ ظاہر وہی ہے جو مختار و اکثر کی رائے کے مطابق ہے بخلاف اس کے جو انہوں نے ذکر کیا ہے۔(ت)
اور اگر یہ بھی خروج وقت پر مطلع ہے تو ظاہر جواز ہے محشیانِ درمختار سادات ابرار حلبی و طحطاوی و شامی رحمہم العزیز الغفار نے اس مسئلہ میں روایت نہ پائی علامہ ح نے عدمِ جواز کا خیال اور علامہ ط نے ان کے خلاف اور علامہ ش نے انکا وفاق کیا،
قال ط الظاھر الصحۃ عندالعلم بالخروج لان نیتہ حینئذ القضاء خلافا لمافی الحلبی ۱؎اھ وقال ش بحث ح انہ لا یصح و خالفہ ط قلت وھوالاظھر لما مر من العنایۃ ۲؎ اھ اقول نعم ھوالاظہرلما مرعن البحر عن الظہیریۃ من تقیید عدم الجواز بقولہ وھولایعلم اماالاستناد بما مر عن العنایۃ فعندی غیر واقع فی محلہ لما علمت ان محل ھذہ المقالات ما اذا ذھل و غفل وکلام العنایۃ فیما ھو المعتاد والمعھود من ان من شعر بالتعیین النوعی شعر ایضا بالشخصی و رأیتنی کتبت ھھنا علی ھامش الشامی مانصہ اقول مامر عن العنایۃ فیما اذا علم بقلبہ التعیین ولاینبغی لاحد ان یخالف فیہ وھوجارفی کل صورۃ من الصور التسع بل لا تسع علیہ ولاثمان انما ھی صورۃ واحدۃ لاغیر، وانما الکلام فیما اذانوی ذلک ذاھلا عن تعیین الیوم والوقت وح لاستظھار بمامرعن العنایۃ۱؎
امام طحطاوی نے کہا اگر اسے خروجِ وقت کا علم ہو تو صحت نماز ظاہر ہے کیونکہ اس وقت نیت قضاکی ہوگی بخلاف اسکے جو حلبی نے کہا اھ شامی نے کہا حلبی نے بحث کرتے ہوئے اس کی عدم صحت کا قول کیا ہے اورطحطاوی نے ان کی مخالفت کی، میں کہتا ہوں یہی اظہر ہے جیسا کہ عنایہ کے حوالے سے گزراہے اھ اقول (میں کہتا ہوں)ہاں یہی اظہر ہے جیسا کہ البحرالرائق سے ظہیریہ کے حوالے سے عدمِ جواز کی تقیید اس کے قول ''وھولایعلم'' کے ساتھ گزری لیکن اس بات کی سند پکڑنا اس کے ساتھ جو عنایہ سے گزرا میرے نزدیک اس مقام کے مناسب نہیں ، کیونکہ اس تمام گفتگو کا محل وہ ہے کہ جب انسان غافل ہوجائے اور بھول جائے اور عنایہ کی گفتگو معروف مشہور طریقہ (یعنی عدم غفلت) پر ہے کیونکہ جو شخص تعیینِ نوعی کا ادراک رکھتا ہے اسے تعیین شخصی کا ادراک بھی رہے گا ، اور مجھے وہ یاد آیا جو حاشیہ شامی کے اس مقام پر میں نے لکھا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں اقول(میں کہتا ہوں ) عنایہ کی جو عبارت گزری ہے وہ اس صورت سے متعلق ہے جب دل سے اس کے تعین کو جانتا ہو ، اس میں مخالفت کسی کو مناسب نہیں اور یہ بات نو۹ صورتوں میں سے ہر صورت میں جاری ہوگی بلکہ یہ ۹نو ہیں نہ آٹھ یہ تو صرف ایک ہی صورت ہے اسکے علاوہ کچھ نہیں ، یہاں گفتگو اس صورت سے متعلق ہے جب کسی انسان نے نماز کی نیت دن اور وقت کے تعین سے غافل ہو کر کی ہو ، اب تو عنایہ کی گفتگو سے تائید نہیں لائی جاسکتی۔(ت)
(۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۱/۱۹۴)
(۲؎ ردالمحتار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/)۳۰۸)
(۱؎ جدالممتار باب شروط الصلوٰۃ المجمع الاسلامی مبارک پور (ہند) ۱/۲۱۸)
غرض اس صورت مفروضہ کی تینوں شکلوں میں جواز کی طرف راہ ہے۔ولذاارسل فی الدر ارسالا وقال انہ الاصح(اسی لئے درمختار میں اس کو مرسلاً ذکر کیاہے اور کہا یہی اصح ہے۔ت) اور امر عبادات خصوصاً نماز میں حکم احتیاط معروف و معلوم ھکذا ینبغی المقام واﷲ ولی الفضل والانعام واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم(تحقیق مقام کے لئے یہی مناسب تھا ، اﷲ تعالٰی فضل و انعام کا مالک اور وہی پاک اور بہتر جاننے والا ہے۔ت)