فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۶(کتاب الصلٰوۃ) |
وفی حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح اما الجنب فانۃ تبع للبطن کذافی القنیۃ والاوجہ ان مایلی البطن تبع لہ کما فی البحر یعنی وما یلی الظھر تبع لہ کما فی تحفۃ الاخیار ۲؎ اھ وفی ط علی الدرالمختار ان کانت امۃ فاعضاء عورتھا ثمانیۃ ایضا، الفخذان والالیتان والقبل والدبر وماحولھما والبطن والظھرومایلیھما من الجنبین ویزاد فی الحرۃ الساقان مع الکعبین والثدیان المنکسران والاذنان والعضدان مع المرفقین والذراعان مع الرسغین والکتفان وبطناقدمیھا فی روایۃ الاصل و الصدر والراس و الشعر والعنق و ظھر الکفین فھی ثمانیۃ و عشرون عضوا ۳؎ اھ قال ش کذاحررہ ح ۴؎ اھ
طحطاوی علی الدرالمختار میں ہے اگر خاتون لونڈی ہو تو اس کے بھی اعضاءِ ستر آٹھ ہیں دونوں رانیں ، دونوں سرین ، قُبل ، دُبر اور ان کا ارد گرد ، پیٹ ، پشت ، اور اُن دونوں سے متصل پہلو ۔ اور آزاد عورت میں ان اعضاء کا اضافہ ہے دونوں پنڈلیاں ٹخنوں سمیت ، ڈھلکے ہوئے دونوں پستان ،دونوں کان ، دونوں بازو کہنیوں سمیت (مونڈھے تک) دونوں کلائیاں یعنی کہنی کے جوڑ سے گٹوں کے نیچے تک ، دونوں کاندھے، اور روایت اصل کے مطابق عورت کے دونوں قدموں کے تلوے ، سینہ ، سر ، بال گردن دونوں ہاتھوں کی پشت یہ تمام اٹھائیس اعضاء ہیں اھ شامی نے کہا کہ امام حلبی نے اسی طرح تحریر کیاہے اھ (ت)
(۲؎ حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح فصل فی المتعلقات الشروح الخ مطبوعہ نور محمد تجارت کتب گھر کراچی ص ۱۳۱) (۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت ۱/۱۹۱) (۴؎ ردالمحتار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۳۰۱)
اقول: فاتھم رحمھم اﷲ تعالٰی عضوان الاول ماتحت السرۃ الی العانۃ ومایحاذیہ من کل جانب فان ھذا غیرداخل فی البطن والظھر لانہ عورۃ من الرجل دونھما ، ولافی الفرجین والالیتین لکنہ عورۃ بحیالہ فی الرجل فکیف فیھا فھذا فاتھم فی الامۃ والحرۃ جمیعا، والاٰخرمایحاذی الصدر من خلف الٰی مبدأ الظھر فان الظھر کما علمت لا یشملہ ولا الکتفان ولا العنق کما لا یخفی ولا شک انہ عورۃ من الحرۃ ۃ فوجب ان یکون عضوا مستقلا منھا فتمت لھا ثلثون و باﷲ التوفیق۔
اقول ( میں کہتا ہوں) ان اسلاف رحم اﷲ تعالٰی نے دو اعضاء کا ذکر نہیں کیا پہلا جسم کا وہ حصہ جو ناف سے زیرِناف تک اور ہر جانب سے اس کے مدِمقابل ہے، اس لئے کہ یہ حصہ بطن اور پشت میں شامل نہیں اس لئے مرد کا یہ حصہ ستر میں شامل ہے، جبکہ بطن و پشت دونوں اس کے ستر میں شامل نہیں ، اور یہ حصہ دونوں فرجوں (قبل ودبر) اور سرین کے دونوں حصوں میں بھی شامل نہیں لیکن ہرحال میں مرد کا ستر ہے تو عورت کا ستر کیوں نہ ہوگا ایک عضو یہ ہے جس کا ذکر لونڈی اور آزاد عورت دونوں کے بارے میں اسلاف سے رہ گیا۔ دوسرا عضو جسم کا وہ حصہ جو سینے کے مقابل پیچھے سے ابتدائے پشت تک ہے کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ حصہ پشت میں شامل نہیں اور نہ ہی دونوں کاندھوں اور گردن میں شامل ہے ، جیسا کہ مخفی نہیں ، اس کے باوجود بلاشک آزاد عورت کے جسم کا یہ حصہ ستر میں شامل ہے لہذا اس کو بھی عورت کا مستقل عضو شمار کرنا ثابت ہو گیا تو اب ان اعضا کی تعداد تیس۳۰ ہوگئی و باﷲ التوفیق۔ (ت)
تنبیہ اوّل: ملاحظہ حلیہ وغنیـہ و بحر و ردالمحتار وغیرہا سے ظاہر کہ قدم حرہ میں ہمارے علما رضی اﷲتعالٰی عنہم کو اختلافِ شدید مع اختلاف تصحیح ہے، بعض کے نزدیک مطلقاً عورت ہے ،امام اقطع نے شرح قدوری اور امام قاضی خان نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصحیح اور حلیہ میں بدلیل احادیث اسی کی ترجیح کی امام ا سبیجابی و امام مرغینانی نے اسی کو اختیار فرمایا۔ بعض کے نزدیک اصلاً عورت نہیں۔ امام برہان الدین نے ہدایہ اور امام قاضی خان نے شرح جامع صغیر اور امام نسفی نے کافی میں اسی کی تصحیح فرمائی، اسی کو محیط میں اختیار کیا اور دُرمختار میں معتمد اور مراقی الفلاح میں اصح الروایتین کہا، کنز وغیرہ اکثر متون کتاب الصلوٰۃ میں اسی طرف ناظر ہیں۔بعض کے نزدیک بیرونِ نماز عورت ہیں نماز میں نہیں ، یعنی اجنبی کو انکا دیکھنا حرام مگر نماز میں کھل جانا مفسد نہیں، اختیار شرح مختار میں اسی کی تصحیح فرمائی۔ پھر کلام خلاصہ وغیرہا سے مستفاد کہ یہ اختلافات صرف تلووں میں ہیں پشتِ قدم بالاتفاق عورت نہیں ، مگر کلام علامہ قاسم و حلیہ وغنیہ وغیرہا سے ظاہر کہ وہ بھی مختلف فیہ ہے اور شک نہیں کہ بعض احادیث اس کے عورت ہونے کی طرف ناظر کما یظہر بمراجعۃ الحلیۃ وغیرہا (جیساکہ حلیہ وغیرہ کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہو جائے گا۔ت) تو اگر زیادت احتیاط کی طرف نظر جائے تو نہ صرف تلووں بلکہ ٹخنوں کے نیچے سے ناخنِ پا تک سارے پاؤں کو عورت سمجھا جائے ، یوں بھی شمارِ اعضا تیس۳۰ ہی رہے گا اور اگر آسانی پر عمل کریں تو سارے پاؤں عورت سے خارج ہوکر اعضاء اٹھائیس ۲۸ ہی رہیں گے۔آدمی ان معاملات میں مختار ہے جس قول پر چاہے عمل کرے۔
تنبیہ دوم: پشتِ دست اگر چہ اصل مذہب میں عورت ہے مگر من حیث الدلیل یہی روایت قوی ہے گٹوں سے نیچے ناخن تک دونوں ہاتھ اصلاً عورت نہیں۔
یظھرذلک بمراجعۃ الحلیۃ والغنیۃ وغیرھماونص فیہ ماعند ابی داؤد مرسلا من قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان الجاریۃ اذاحاضت لم یصلح ان یری منھا الاوجھھا ویدیھا الی المفصل۱؎
غنیہ اور دیگر کتب کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے اور اس سلسلہ میں حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا وہ ارشاد بھی بطور نص ذکر کیا گیا ہے جو امام ابو داؤد کے نزدیک مرسلاً مروی ہے: جب لڑکی حائضہ ہوجائے تو اس کے چہرے اور کلائیوں تک ہاتھ کے علاوہ اس کے جسم کے کسی حصہ کو دیکھنا جائز نہیں۔
(۱؎ کتاب المراسیل ماجاء فی اللباس حدیث ۳۹۷ مطبوعہ مطبعۃ المکتبۃ العلمیۃ لاہور ص۱۷۵)
قال فی الغنیۃ وکذلک الاٰیۃ لان المراد من الزینۃ بالنظر الی الید ھوالخاتم وھوغیرمختص بباطن الکف بل زینتہ فی الظاھراظھرلانہ موضع الفص والنقش۲؎
غنیہ میں کہا آیت قرآنی سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ زینت ہاتھ کے اعتبار سے ہے اور وہ انگوٹھی میں ہے اور وہ باطن کف کے ساتھ ہی مختص نہیں بلکہ اس کی زینت ہتھیلی کے اوپر میں زیادہ ہوگی کیونکہ ظاہرہی نگینہ و نقش کا محل ہے،
قال ولان الضرورۃ فی ابدائہ اشد۳قال فکان ھذا ھو الاصح وان کان غیر ظاھر الروایۃ۴؎الخ وکذلک قال فی مراقی وحاشیتھا للطحطاوی (جمیع بدن الحرۃ عورۃ الاوجھھاوکفیھا باطنھما و ظاہرھما فی الاصح و ھوالمختار) وان کان خلاف ظاھر الروایۃ۵؎ اھ
قال الشامی وکذا ایدہ فی حلیۃ وقال مشی علیہ فی المحیط و شرح الجامع لقاضی خان۱؎ اھ
اور یہ بھی کہا کہ اس کے اظہار میں شدید ضرورت ہے، پھر کہا یہ اگر چہ غیر ظاہر الرویۃ ہے مگر اصح یہی ہے الخ اسی طرح مراقی الفلاح اور اس کے حاشیہ طحطاوی میں ہے(اصح مذہب کے مطابق آزاد عورت کا تمام بدن ماسوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے خواہ ان کا باطن ہو یا ظاہر عورت کا ستر ہے یہی مختار ہے) اگر چہ یہ ظاہرالروایۃکے خلاف ہے اھ امام شامی نے فرمایا اس طرح حلیہ میں اس کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ محیط اور قاضی خان نے شرح الجامع میں اسی کی اتباع کی ہے اھ(ت)
(۲؎ و ۳؎ و ۴؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی الشرط الثالث مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور ص۲۱۱) (۵؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح فصل فی متعلقات الشروط الخ مطبوعہ نور محمدکارخانہ تجارت کتب کراچی ص۱۳۱) (۱؎ردالمحتار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۲۹۸)
تو روایت قوی پر دو پشتِ دست نکال کر اٹھائیس ہی عضو عورت رہے ، اور اگر بنظر آسانی اُس قول مصحح پر عمل کرکے تلوے بھی خارج رہیں تو صرف چھبیس ہی ہیں اور اصل مذہب پر تیس۳۰ واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔