Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۶(کتاب الصلٰوۃ)
6 - 185
 (۱۲ و۱۳) دونوں ہاتھوں کی پشت۔
 (۱۴) سینہ یعنی گلے کے جوڑ سے دونوں پستان کی زیریں تک۔
 (۱۵ و۱۶) دونوں پستانیں جبکہ اچھی طرح اُٹھ چکی ہوں یعنی اگر ہنوز بالکل نہ اُٹھیں یا خفیف نوخاستہ ہیں کہ ٹوٹ کر سینہ سے جُدا عضو کی صورت نہ بنی ہوں تو اس وقت تک سینہ ہی کے تابع رہیں گی الگ عورت نہ گنی جائیں گی اور جب اُبھار کی اُس حد پر آجائیں کہ سینہ سے جدا عضو قرار پائیں تو اس وقت ایک عورت سینہ ہوگا اور دو عورتیں یہ ، اور وہ جگہ کہ دونوں پستان کے بیچ میں خالی ہے اب بھی سینہ میں شامل رہے گی۔
 (۱۷) پیٹ یعنی سینہ کی حد مذکور سے ناف کے کنارہ زیریں تک ، ناف پیٹ ہی میں شامل ہے۔
 (۱۸) پیٹھ یعنی پیٹ کے مقابل پیچھے کی جانب محاذات سینہ کے نیچے سے شروع کمر تک جتنی جگہ ہے۔
 (۱۹) اُس کے اُوپر جو جگہ پیچھے کی جانب دونوں شانوں کے جوڑوں اور پیٹھ کے بیچ سینہ کے مقابل واقع ہے ظاہراً جدا عورت ہے، ہاں بغل کے نیچے سینہ کی زیریں حد تک دونوں کروٹوں میں جو جگہ ہے اُس کا اگلا حصہ سینہ میں شامل ہے اور پچھلا اسی سترھویں عضو یا شانوں میں اور زیرِ سینہ سے شروع کمر تک جو دونوں پہلو ہیں ان کا اگلا حصہ پیٹ اور پچھلا پیٹھ میں داخل ہوگا۔
 (۲۰و ۲۱) دونوں سرین یعنی اپنے بالائی جوڑ سے رانوں کے جوڑ تک۔
 (۲۲) فرج۔
 (۲۳) دُبر۔
 (۲۴و۲۵) دونوں رانیں یعنی اپنے بالائی جوڑ سے زانوؤں کے نیچے تک دونوں زانو بھی رانوں میں شامل ہیں۔
 (۲۶) زیرِ ناف کی نرم جگہ اور اس سے متصل و مقابل جو کچھ باقی ہے یعنی ناف کے کنارہ زیریں سے ایک سیدھا دائرہ کمر پر کھینچے اس دائرے کے اوپر اوپر تو سینہ تک اگلا حصہ پیٹ اور پچھلا پیٹھ میں شامل تھا اور اس کے نیچے نیچے دونوں سرین اور دونوں رانوں کے شروع جوڑ اور دُبر بالائی کنارے تک جو کچھ حصّہ باقی ہے سب ایک عضو ہے عانہ یعنی بال جمنے کی جگہ بھی اسی میں داخل ہے۔
 (۲۷ و ۲۸) دونوں پنڈلیاں یعنی زیر زانو سے ٹخنوں تک۔
 (۲۹و۳۰) دونوں تلوے۔
فی تنویر الابصار والدرالمختار (تنویر الابصار اور دُرمختار)
عورۃ(للحرۃ) ولوخنثی (جمیع بدنھا) حتی شعرھا النازل فی الاصح (خلاالوجہ و الکفین) فظھر الکف عورۃ علی المذھب(والقدمین)علی المعتمد۱؎ اھ
آزاد عورت اگر چہ خنثی ہو اس کاستر تمام بدن ہے حتٰی کہ اسکے لٹکے ہوئے بال بھی اصح مذہب پر ،مگر چہرہ ، دونوں ہتھیلیاں اور دونوں قدم معتمد قول کے مطابق ستر نہیں۔ ہتھیلی کی پشت صحیح مذہب پر ستر میں شامل ہے ا ھ
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار     باب شروط الصلٰوۃ        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۶۶)
وفی الخلاصۃ المرأۃ اذالم تستر ظھر قد مھا تجوزصلاتھا وبطن الکف والوجہ علی ھذا لان ھذاالثلثۃ منھا لیست بعورۃ وبطن قدمھا ھل ھی عورۃ فیہ روایتان والتقدیر فیہ بربع بطن القدم فی روایۃ الاصل وفی رویۃ الکرخی لیس بعورۃ۲؎ اھ ملخصا
خلاصہ میں ہے کہ اگر عورت نے اپنی پشت قدم کو نہ ڈھانپا تو اس کی نماز جائز ہے اور ہتھیلی کے اندرونی حصے اور چہرے کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ عورت کی یہ تینوں چیزیں ستر میں شامل نہیں،عورت کے پاؤں کا اندرونی حصہ ستر ہے یا نہیں؟ اس میں دو روایتیں ہیں ، روایت اصل میں تلووں کی چوتھائی کھلنے کومانع نمازقرا ردیا اور امام کرخی کی روایت میں ہے یہ شامل ستر نہیں ہے ا ھ ملخصا،
(۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی    الفصل السادس فی سترالعورۃ    مطبوعہ نو لکشو لکھنؤ    ۱/۷۴)
وبھذا التفصیل بین ظھر القدم وبطنھا جزم المحقق علی الاطلاق فی مقدمتہ زادالفقیر وقال العلامۃ الغزی صاحب التنویر فی شرحھااعانۃ الحقیر اقول فاستفید من کلام الخلاصۃ ان الخلاف انما ھو فی باطن القدم و اما ظاھرہ فلیس بعورۃ بلاخلاف۱؎ الخ
ظاہر قدم اور باطن قدم کے درمیان اسی تفصیل پرمحقق علی الاطلاق امام بن ہمام نے اپنے مقدمہ زادالفقیر میں جزم کیا ہے، اس کی شرح اعانۃ الحقیر میں صاحب التنویر علامہ غزی نے کہا میں کہتا ہوں خلاصہ کی گفتگو سے پتا چلتا ہے کہ عورت کے پاؤں کے تلوے میں اختلاف ہے، رہا معاملہ ظاہر قدم کا تو وہ بالاتفاق ستر میں شامل نہیں الخ

(۱؎ ردالمحتار بحوالہ  اعانۃ الحقیر        باب شروط الصلوٰۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱/۲۹۸)
وفی الھندیۃ عن الخلاصۃ ثدی المرأۃ ان کانت صغیرۃ ناھدۃ فھو تبع لصدرھا وان کانت کبیرۃ فھو عضو علیحدۃ۲؎اھ
اور فتاوٰی ہندیہ میں خلاصہ کے حوالے سے ہے کہ اگر لڑکی چھوٹی نوخاستہ پستانوں والی ہو تو اس کے پستان سینے کے تابع ہوں گے اور اگر بڑی ہوتو پستان الگ الگ مستقل عضو ہوں گے۔
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ        الباب الثالث فی شروط الصلوٰۃ     مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور        ۱/۵۹)
اقول امامابین الثدیین فقد کان ھو و موضع الثدیین جمیعا من الصدر قبل انکسارھما اما ھما فقد انحازتا بالانکسار فبقی ما بینھما داخلا فی الصدر کما کان وھوظاھر، اماتبعیۃ السرۃ للبطن فلانا نرھاتتبعہ فی شمول حکم الستر وعدمہ، فبطن الرجل لمالم یکن عورۃ لم تکن عورۃ، من الامۃ مع ظھرھا وبطنھا مانصہ(الشامی) البطن ما لان من المقدم والظھر مایقابلہ من الموخر کذا فی الخزائن وقال الرحمتی الظہرماقابل البطن من تحت الصدر الی السرۃ ''جوھرۃ'' ای فما حاذی الصدر لیس من الظہرالذی ھو عورۃ۱؎اھ
اقول (میں کہتا ہوں) وہ جو پستانوں کے درمیان جگہ ہے تو اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ پستانوں کے ڈھلکنے سے پہلے  پستانوں کی جگہ اور پستان کے درمیان کی جگہ سینے ہی کا حصہ تھے  پھر پستان ڈھلکنے سے جدا عضو بن گئے تو پستانوں کے درمیان کی جگہ جس طرح  پہلے سینہ میں شامل تھی ویسے ہی سینہ میں داخل رہے گی یہ بات تو ظاہر ہے، باقی ناف بطن کے تابع اس لئے ہے کہ وہ ستر اور عدم ستر کے حکم میں شامل ہونے میں پیٹ کے تابع ہے، تو بطن مرد جب ستر میں شامل نہیں تو مرد کی ناف بھی ستر میں شامل نہ ہو گی لیکن لونڈی کی پشت اور بطن دونوں ستر میں شامل ہیں جیسا کہ اس بارے میں شامی نے تصریح کی ہے بطن (پیٹ) وہ ہے جو آگے کی طرف نرم حصہ ہے اور ظہر(پشت) اس کے مقابل پچھلا حصہ ہے کذافی الخزائن ۔شیخ رحمتی نے کہا ظہر (پشت) سے مراد جسم کا وہ حصہ جو سینے سے نیچے ناف تک پیٹ کے مقابل ہے، جوہرۃ۔ یعنی جسم کا وہ حصہ جو سینے کے مقابل ہو وہ اس پشت کا ایسا حصہ نہیں جو ستر میں شامل ہے اھ۔ حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے جانب پہلو بطن کے تابع ہے قنیہ میں اسی طرح ہے، اور اوجہ (بہتر) یہ ہے کہ جو حصہ پہلو کا بطن کے ساتھ متصل ہے وہ بطن کے تابع ہے کما فی البحر۔ یعنی جو پشت کے ساتھ ملنے والا حصہ ہے وہ پشت کے تابع ہے کما فی تحفۃ الاخیاراھ۔
 (۱؎ ردالمحتار   باب شروط الصلوٰۃ ،  مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱/۲۹۷)
Flag Counter