فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۶(کتاب الصلٰوۃ) |
اسی طرح تبیین وغیرہ میں تصریح فرمائی، فقیر غفراﷲلہ نے اپنے رسالہ مذکورہ میں اس بحث کی بحمداﷲ تنقیح بالغ بمالا مزید علیہ ذکر کی اور اُس میں ثابت کردیا کہ افاضل ثلثہ قدست اسرار ہم کا ذکر و دُبر اُنثیین کے ساتھ لفظ حول زائد کرنا بیکار بلکہ موہم واقع ہوا جب ثابت ہولیا کہ یہ جسم یعنی مابین الدبرو الاُنثیین اُن آٹھوں عورتوں سے کسی میں شامل اور کسی کا تابع نہیں ہوسکتا اور وہ بھی قطعاً سترِ عورت میں داخل تو واجب کہ اُسے عضو جداگانہ شمار کیا جائے۔ مرد میں عدداعضائے عورت نو۹ قرار دیا جائے اور کتب مذکورہ میں اُس کا عدم ذکر ذکرِ عدم نہیں کہ آخر اُن میں نہ استیعاب کی طرف ایماء نہ کسی تعداد کا ذکر ، وہ ستر عورت کی دونوں حدیں ذکر فرماچکے اور اتنے اعضا کے استقلال و انفراد پر بھی تصریحیں کر گئے تو جو باقی رہا لاجرم عضو مستقل قرار پائے گا،
فلیفھم ولیتامل لعل اﷲ یحدث بعد ذلک امرا ھذا ماعندی والعلم بالحق عند ربّی۔
سمجھو اور غور کرو شاید اﷲ تعالٰی اس کے بعد کسی آسان امر کو پیدا فرما دے، یہ میری تحقیق ہے اورحق کا علم میرے رب کے پاس ہے (ت)
فقیر غفراﷲ لہ نے سہولت حفظ کے لئے اس مطلب کو چار شعر میں نظم کیا اور ذکر اعضاء میں ترتیب بھی وہی ملحو ظ رہی۔ ان اشعار میں مرد کے لئے سترِعورت کی حدیں بھی بتائی گئیں وہ بھی اس تصریح سے کہ نا ف خارج اور زانو داخل اور وہ مقدار بھی بتا دی گئی جس قدر کا کھلنا مذہب مختار پر مفسد ہے پھر یہ تفرقہ بھی کہ بالقصد کھولنے میں فوراً نماز فاسد ہوگی اور بلا قصد میں مقدار ادائے رکن تک کھلنا چاہئے اس میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ مذہب مختار پر حقیقۃً ادائے رکن شرط نہیں پھر اس مذہب صحیح کی طرف ایما ہے کہ ذکر و اُنثیین و دُبر و ہر سرین تنہا تنہا عضو کامل ہیں اور یہ مذہب صحیح بھی ظاہر کر دیا گیا کہ ہر گُھٹنا اپنی ران کا تابع ہے، اور جو عضو فقیر نے زائد کیا اُس میں یہ اشارہ بھی کردیا کہ اس جزئیہ کی تصریح نہ پائی اور عورت زیرِ نا ف میں یہ بھی مصرح ہوگیا کہ سب جوانب بدن سے مراد ہے اور نیز یہ بھی کہ عانہ اس میں داخل ہے ولہٰذا اسے بھی لفظ ظاہراً کے نیچے رکھا۔بحمداﷲ مختصر بحر کی چار بیتوں میں اس قدر فوائد کثیرہ کے ساتھ لطف یہ ہے کہ بعنایت الہٰی کوئی حرف حشو و مصرع پر کن نہیں نہ کہیں ادائے مطلب میں ایجاز مخل واقع ہوا والحمدﷲ رب العٰلمین وہ اشعار آبداریہ ہیں:
سترِ عورت بمرد نہ عضو ست از تہِ ناف تا تہِ زانو ہرچہ ربعش بقدر رکن کشود یا کشو دے دمے نماز مجو ذَکر وانثیین و حلقہ بس دوسریں ہرفخذ بزانوئے او ظاہراً فصل ا ُنثیین و دُبر باقی زیرِ ناف از ہر سُو
مسئلہ نمبر ۳۹۱ : مسئو لہ مرزا باقی بیگ صاحب رامپوری ۲۸ ذیقعد ۱۳۱۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عورت آزاد کے بدن کے عضوِ عورت ہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب: زنِ آزاد کا سارا بدن سر سے پاؤں تک سب عورت ہے مگر منہ کی ٹِکلی اور دونوں ہتھیلیاں کہ یہ بالاجماع اور عبارت خلاصہ سے مستفاد کہ ناخن پا سے ٹخنوں کے نیچے جوڑ تک پشتِ قدم بھی بالاتفاق عورت نہیں ، تلووں اور پشت کف دست میں اختلاف تصحیح ہے اصل مذہب یہ کہ وہ دونوں بھی عورت ہیں تو اس تقدیر پر صرف پانچ ٹکڑے مستثنٰی ہوئے، منہ کی ٹکلی ، دونوں ہتھیلیاں ، دونوں پشتِ پا ۔ ان کے سوا سارا بدن عورت ہے اور وہ تیس۳۰ عضووں پر مشتمل کہ اُن میں جس عضو کی چوتھائی کھلے گی نماز کا وہی حکم ہوگا جو ہم نے پہلے فتوے میں اعضاء عورت مرد کی نسبت لکھا وہ تیس عضو یہ ہیں:
(۱) سر یعنی طول میں پیشانی کے اُوپر سے گردن کے شروع تک اور عرض میں ایک کان سے دوسرے کان تک جتنی جگہ پر عادۃً بال جمتے ہیں۔
(۲) بال یعنی سر سے نیچے جو لٹکے ہوئے بال ہیں وہ جدا عورت ہیں۔
(۳و۴) دونوں کان
(۵) گردن جس میں گلا بھی شامل ہے۔
(۶و۷) دونوں شانے یعنی جانب پشت کے جوڑ سے شروع بازو کے جوڑ تک۔
(۸و۹) دونوں بازو یعنی اُس جوڑ سے کہنیوں سمیت کلائی کے جوڑ تک۔
(۱۰ و ۱۱) دونوں کلائیاں یعنی کہنی کے اُس جوڑ سے گٹّوں کے نیچے تک۔