الذکر عضو بانفرادہ وکذاالانثیان و ھذا ھو الصحیح۱؎
ذکر تنہا عضو ہے اور اسی طرح خصیتین بھی ، اور یہی صحیح ہے۔(ت)
(۱؎ خزانۃ المفتین فصل فی سترالعورۃ قلمی نسخہ ۱/۲۲)
انکشاف ربع الذکر وحدہ او ربع الانثیین بمفردھما یمنع جوازھا۲؎
تنہا ذکر(عضو مخصوص) کی چوتھائی یا تنہا خصیتین کی چوتھائی کا کھل جانا جوازِ نماز سے مانع ہے۔(ت)
(۲؎صغیری شرح منیۃ المصلی الشرط الثالث مطبوعہ مجتبائی دہلی ص ۱۱۹)
حلقۃ الدبر عضو بمفردھاوکلھا لاتزید علی قدرالدرھم ۳ ؎
حلقہ دُبر تنہا عضو ہے اور یہ تمام کا تمام قدر درہم سے زیادہ نہیں ہے۔(ت)
(۳؎ صغیری شرح منیۃ المصلی الشرط الثالث مطبوعہ مجتبائی دہلی ص ۱۱۹)
غنیہ شرح کبیر منیہ میں ہے:
القبل والدبراذاانکشف من احدھما ربعہ وان کان اقل من قدرالدرھم یمنع جواز الصلٰوۃ ۴؎ اھ ملخصا۔
قبل اور دُبر میں سے کسی ایک کا جب چوتھائی حصہ کُھل جائے اگر چہ وہ قدر درہم سے کم ہو جواز نمازسے مانع ہوگا اھ ملخصاً(ت)
(۴؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور ص۲۱۳)
کشف ربع ساقھا یمنع جواز الصلاۃ وکذاالدبر والذکر والانثیان حکمھا کحکم الساق والکرخی اعتبر فی الدبر قدر الدرھم والدبر لایکون اکثرمن قدرالدرھم فھذا یقتضی جوازالصلوۃ وان کان کل الدبر مکشوفا وھوتناقض۵؎ اھ ملتقطا
عورت کی پنڈلی کا چوتھائی حصہ کھل جانا جوازِ نماز سے مانع ہے اور اسی طرح دُبر و ذکر اور خصیتین ہیں ان میں سے ہر ایک کا حکم پنڈلی کی طرح ہے ۔امام کرخی نے دبر میں قدر درہم (کے انکشاف) کا اعتبار کیا ہے حالانکہ دبر قدر درہم سے زائد نہیں ہوتا تو اس قول کا تقاضا یہ ہے کہ اگر چہ تمام دبر ننگی ہو پھر بھی نماز ہو جائے گی اور یہ تناقض ہے۔ا ھ ملتقطا (ت)
غلطوہ بان ھذا تغلیظ یؤدی الی التخفیف اوالاقساط لان من الغلیظۃ مالیس باکثر من قدرالدرھم فیؤدی الی ان کشف جمیعہ لا یمنع و قد اجیب عنہ بانہ قد قیل بان الغلیظۃ القبل والدبر مع حولھما فیجوز کونہ اعتبر ذلک فلا یرد علیہ ما قالوا ویدفعہ ما تقدم من ان الصحیح ان کلامن الذکر والخصیتین عضو مستقل وکذالک الصحیح ان کلا من الالیتین والدبر عضو مستقل فلا یتم ذالک الاعتبار۱؎ اھ مختصرا۔
انہوں نے غلط کہا ہے کہ یہ تغلیظ تخفیف یا اسقاط کا سبب ہے کیونکہ بعض عورت غلیظہ ایسی ہیں جو قدر درہم سے زیادہ نہیں تواس سے لازم آتا ہے کہ ایسے عضو کا تمام کا تمام ننگا ہونا نماز سے مانع نہ ہوگا، اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ایک قول یہ ہے کہ قُبل ،دُبر اور ان دونوں کا ارد گرد (سب مل کر ) غلیظہ ہے ، پس امام کرخی کے قول قدر درھم کا اعتبار درست ہوگا اور فقہاء نے جو اعتراض کیا ہے وہ وارد نہ ہو گا۔ اس کا دفاع گزشتہ گفتگو سے ہو جاتا ہے کہ صحیح قول یہی ہے کہ ذکر (عضو مخصوص) اور خصیتین میں سے ہر ایک مستقل عضو ہے اور اسی طرح صحیح قول کے مطابق دبر اور سرین میں سے ہر ایک مستقل عضو ہے اب وہ( قدر درہم کا) اعتبار درست نہ ہوگا اھ مختصراً(ت)
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)