فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۶(کتاب الصلٰوۃ) |
(۶و۷) فخذین یعنی دونوں رانیں کہ ہر ران اپنی جڑ سے جسے عربی میں رکب و رفع ومغین اور فارسی میں پیغولہ ران اور اردو میں چڈّھا کہتے ہیں گھٹنے کے نیچے تک ایک عضو ہے، ہر گھٹنا اپنی ران کا تابع اور اس کے ساتھ مل کر ایک عورت ہے، یہاں تک کہ اگر صرف گھٹنے پورے کھُلے ہوں توصحیح مذہب پر نماز صحیح ہے کہ دونوں مل کر ایک ران کے ربع کو نہیں پہنچتے ، ہاں خلافِ ادب و کراہت ہونا جدا بات ہے۔
(۸)کمر باندھنے کی جگہ ناف سے اور سیدھ میں آگے پیچھے دہنے بائیں چاروں طرف پیٹ کمر کولہوں کا جو ٹکڑا باقی رہتا ہے وہ سب مل کر ایک عورت ہے۔
ردالمختارمیں ہے:
اعضاء عورۃ الرجل ثمانیۃ الاول الذکر وماحولہ الثانی الانثیان و ماحولھما الثالث الدبر وما حولہ الرابع والخامس الالیتان السادس والسابع الفخذان مع الرکبتین الثامن مابین السرۃ الی العانۃ مع مایحاذی ذلک من الجنبین والظھروالبطن ۱؎
مرد کا ستر آٹھ اعضاء ہیں:(۱) عضو مخصوص اور ارد گرد (۲) خصیتین اور ان کاا ارد گرد (۳) دُبر اور ارد گرد (۴و۵)دونوں سرین کاحصے (۶و۷) دونوں رانیں گھٹنوں سمیت (۸) ناف تا زیرِ ناف سمیت پشت پیٹ اور دونوں پہلوؤں کے اس حصہ کے جو اس کے مقابل و محاذی ہے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار باب شروط الصلٰوۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۳۰۱)
اقول و باﷲ التوفیق(میں اﷲ کی توفیق سے کہتا ہوں۔ ت) یہاں دو مقام تحقیق طلب ہیں:
مقام اوّل: آیا عورت ہشتم میں پیٹ کا وہی نرم حصہ جو ناف کے نیچے واقع ہے جسے ہندی میں پیڑو کہتے ہیں تینوں طرف یعنی کروٹوں اور پیٹھ سے اپنے محاذی بدن کے ساتھ صرف اسی قدر داخل ہے ذکر کے متصل وہ سخت بدن جو بال اُگنے کامقام ہے جسے عربی میں عانہ کہتے ہیں اس میں شامل نہیں یہاں تک کہ صرف مقدار اول کی چوتھائی کھلنی مفسدِ نماز نہ ہو اگر چہ عانہ کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو چہارم سے کم رہے یا عانہ سمیت ناف سے نیچے جس قدر جسم رانوں اور ذکر اور چوتڑوں کے شروع تک باقی رہا سب مل کر ایک عورت ہے۔ یہاں تک کہ افسادِ نماز کے لئے اس مجموع کی چوتھائی درکار ہو اور مقدار اول کا ربع کفایت نہ کرے جتنی کتب فقہ اس وقت فقیر کے پیش نظر ہیں اُن میں کہیں اس تنقیح کی طرف توجہ خاص نہ پائی اور بنظرِ ظاہر کلماتِ علما مختلف سے نظر آتے ہیں مگر بعد غور و تعمق اظہر و اشبہ امر ثانی ہے یعنی یہ سب بدن مل کر ایک ہی عورت ہے ، تو یوں سمجھئے کہ چار اطراف بدن میں اس سے ملے ہوئے جو عضو ہیں مثلاً ران وسرین وذکر، اُن کا آغاز تو معلوم ہی ہے ان سے اُوپراُوپر ناف کے کنارہ زیریں اور سارے دور میں اس کنارے کی سیدھ تک جسم باقی رہا اس سب کا مجموعہ عضو واحد ہے اوراسی طرف علامہ حلبی و علامہ طحطاوی و علامہ شامی رحمۃ اﷲ تعالٰی کا کلام مذکور ناظر کہ انہوں نے عانہ عضو جداگانہ نہ ٹھہرایا ورنہ تقدیر اوّل پر اس قدر ٹکڑا اس میں داخل نہ تھا اور اس کا ران و ذکر میں داخل نہ ہونا خود ظاہر ، تو واجب تھا کہ اس پارہ جسم یعنی عانہ کو نواں۹ عضو شمار فرماتے ، اس مقام کی تحقیق کامل بقدر قدرت فقیر غفراﷲ تعاالٰی نے اپنے رسالہ مذکورہ الطرۃ فی ستر العورۃ میں ذکر کی یہاں ان شاء ا ﷲتعالٰی اسی قدر کافی کہ عانہ اور عانہ سے اوپر ناف تک سارا جسم جسمِ واحد ہے حقیقۃً وہ حساً و حکماً سب طرح متصل، توا سے دو عضو مستقل ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں ۔ہدایہ میں ہے:عندنا ھما (یعنی اللحیین و ھما العظمان الذان علیہما منابۃ الاسنان ) من الوجہ لا تصالھمابہ من غیر فاصلۃ۔۱؎ ہمارے نزدیک یہ دونوں (یعنی دونوں جبڑے ، یہ وہ دونوں ہڈیاں ہیں جن پر دانت قائم ہیں) چہرہ ہی کا حصہ ہیں کیونکہ ان دونوں کا چہرے کے ساتھ اتصال بغیر فاصلہ کے ہے۔ (ت)
(۱؎ الہدایہ کتاب الدیات فصل فی الشجاع مطبوعہ مطبع یوسفی لکھنؤ ۴/۵۸۸)
ف: قوسین سے باہر کی عبارت ہدایہ کی ہے۔ نذیر احمد سعیدی
یہ تو بحمد اﷲ دلیل فقہی ہے اور خاص جزئیہ کی تصریح وہ ہے کہ جواہرالاخلاطی میں فرمایا:
اذاانکشف مابین سرتہ و عورتہ ان کان ربعا فسدت صلوتہ لان ما بینھما عضوکامل ارید منہ حول جمع البدن فاذا انکشف ربعہ کان فاحشا ۱؎ اھ
اگر نمازی کی ناف اور شرمگاہ کا درمیان کھل گیا (کشف ہوگیا) اگر وہ چوتھائی ہو تو نماز فاسد ہو جائے گی کیونکہ ان دونوں کا درمیانی حصہ عضو کامل ہے اس سے مراد تمام بدن کا ارد گرد لیا ہے، پس جب اس کا چوتھائی کھل جائے تو یہ کشف فحش ہوگا اھ (ت)
(۱؎ جواہر الاخلاطی فصل فی الفرائض الخارجیۃ عن الصلٰوۃ قلمی نسخہ ص ۲۰)
دیکھو ناف کے نیچے سے ذکر کے آغاز تک سارے بدن کو ایک عضو ٹھہرایا ، یہ نص جلی ہے اور باقی عبارات علماء محتمل ، تو اسی پر اعتماد ، اسی پر عمل، مالم یظھر الاقوی فی المحل والعلم بالحق عند الملک الاجل (جب تک اس بارے میں اس سے قوی دلیل ظاہر نہیں ہوگی ، باقی قطعی علم اس ذات کے پاس ہے جو مالک و بزرگ ہے۔ت)
مقام دوم: فقیر غفراﷲ لہ نے اس مسئلہ کے تحقیق کے لئے جامع صغیر (۱) امام محمد و قدوری(۲) امام ابوالحسن و وافی ، امام حافظ الدین نسفی وکنز الدقائق و وقایۃ الروایہ امام تاج الشر یعۃ و نقایہ امام صدر الشریعۃ ومنیۃ المصلی واصلاح ابن کمال باشا وملتقی الابحرعلامہ ابراہیم حلبی واشباہ علامہ زین العابدین مصری و تنویر الابصار علامہ عبداﷲ محمد بن عبداﷲ غزی و نور الایضاح علامہ حسن شرنبلالی و ہدایہ امام علی بن ابی بکربرہان الدین فرغانی وکافی امام ابو البرکات عبداﷲ بن احمد سغدی و شرح وقایہ امام عبیداﷲ بن مسعود محبوبی وتبیین الحقائق امام فخرالدین زیلعی و فتح القدیر امام محقق علی الاطلاق محمد بن الہمام و حلیہ امام محمد بن محمد بن امیر الحاج حلبی وایضاح علامہ احمد بن سلیمٰن وزیر رومی وذخیرۃ العقبٰی علامہ یوسف بن جنید چلپی و غنیہ علامہ برہا ن الدین حلبی و صغیری شرح منیۃالمصلی وشرح نقایہ علامہ عبدالعلی برجندی ہروی و جامع الرموز علامہ شمس الدین محمد قہستانی و بحرالرائق علامہ زین بن ابراہیم مصری ومراقی الفلاح علامہ ابوالاخلاص ابن عمار مصری و درمختار محقق محمد بن علی دمشقی و غمزالعیون علامہ سیدی احمد حموی و مجمع الانہر علامہ شیخی زادہ قاضی رومی و حاشیہ مراقی للعلامۃ السید احمد المصری و حاشیہ درمختار للعلامۃ السید الطحطاوی و ردالمحتار علامہ محقق سیدی امین الدین محمد بن عابدین شامی و فتاوٰی خانیہ امام اجل ابوالمحاسن فخرالدین اوزجندی و خلاصہ امام طاہربن احمد بن عبدالرشید بخاری و جواہر الاخلاطی علامہ برہان الدین ابراہیم بن ابی بکر محمد حسینی و خزانۃ المفتین و فتاوٰی خیریہ وعقود الدریہ و فتاوٰی رحمانیہ ہندیہ وغیرہا کتب فقہ متون و شروح و فتاوٰی جس قدر فقیر کے پاس ہیں سب کی مراجعت کی سوا دو حاشیہ طحطاوی و شامی کے اس تعداد ہشت میں حصر کا نشان کہیں نہ پایا ، علماء کرام رحمہم اﷲ تعالٰی بدایت ونہایت عورت کی حدیں بتا گئے اور بعض بعض اعضاء کو جُدا جُدا بھی ذکر فرما گئے پھر کسی کتاب میں صرف دو تین عضو ذکر کئے،کسی میں چار پانچ ، کسی میں کوئی ، مگر استیعاب نہ فرمایا، نہ پورا شمار بتایا۔ ہاں اس قدر ضرور ہے کہ متفرق کتابوں سے سب کو جمع کیجئے تو بیان میں یہی آٹھ آئے ہیں ،غالباً اسی پر نظر فرما کر علّامہ حلبی رحمۃ اﷲ علیہ نے آٹھ میں حصر فرمادیا اور سیدین فاضلین نے ان کا اتباع کیا خود عبارت علّامہ شامی قدس سرہ السامی دلیل ہے کہ یہ تعداد علّامہ حلبی کی استخراج کی ہوئی ہے یعنی اُن سے پہلے علماء نے ذکر نہ فرمائی، حیث قال بعد تمام الکلام بتعداد اعضاء العورۃ فی الامۃ والحرۃ۱؎ کذاحررہ ح ا ھ(کیونکہ انہوں نے لونڈی اور آزاد عورت کے اعضاء ستر کی تعداد پر گفتگو کی تکمیل کے بعد یہ کہا ہے اسی طرح اس تعدادکو علّامہ حلبی نے تحریر کیا ہے ۱ھ ۔ ت)
(۱؎ ردالمحتار باب شروط الصلوۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۳۰۱)
مگر فقیر غفراﷲ تعالٰی لہ کو اس شمار میں کلام ہے کہ وہ بدن جو دُبر اُنثیین کے درمیان ہے اس گنتی میں نہ آیا اُسے عورت ہشتم کے توابع سے قرار دے سکتے ہیں کہ بیچ میں دو مستقل عورتیں یعنی ذکر و اُنثیین فاضل ہیں، ہدایہ میں فرمایا:
لاوجہ الی ان یکون (یعنی الساعد) بتعاللاصابع لان بینھما عضواکاملا۔۲؎
اس کی کوئی وجہ (دلیل) نہیں کہ (بازو)انگلیوں کے تابع ہو کیونکہ ان دونوں کے درمیان ایک عضو کامل ہے (ت)
(۲؎ الہدایہ کتاب الدیات فصل فی دیۃ اصابع الید وغیرہا مطبوعہ یوسفی لکھنؤ ۴/۵۸۹)
امام نسفی نے کافی شرح وافی میں فرمایا:
اماالساعد فلا یتبعھا(یعنی الاصابع) لانہ غیرمتصل بھا۔۳؎
بازو ان (یعنی انگلیوں )کے تابع نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ ان کے ساتھ متصل نہیں ہے (ت)
(۳؎ کافی شرح وافی)