فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۶(کتاب الصلٰوۃ) |
وھذا نصھما ملتقطاومختلطا و یمنع کشف ربع عضو قدراداء رکن (بسنتہ منیۃ قال شارحھاو ذالک قدر ثلث تسبیـحات واعتبر محمد اداء الرکن حقیقۃ والاول المختار للاحتیاط شرح المنیۃ واقل من قدر رکن فلایفسد اتفاقا لان الانکشاف الکثیرفی الزمان القلیل عفو کالانکشاف القلیل فی زمان الکثیر ، وھذا فی الانکشاف الحادث فی الصلاۃ اما المقارن لابتداء ھا فیمنع انعقاد ھا مطلقا اتفاقا بعد ان یکون المکشوف ربع العضو) بلا صنعہ ( فلوبہ فسدت فی الحال عندھم قنیۃ قال ح ای وان کان اقل من اداء رکن الالحاجۃ کرفع نعلہ لخوف الضیاع مالم یؤد رکنا کما فی الخلاصۃ) او تجمع بالاجزاء(وھی النصف والربع والثلث) لو فی عضو واحد والا فبالقدر (ای المساحۃ) فان بلغ (المجموع بالمساحۃ) ربع ادناھا (ای ادنی الاعضاء المنکشف بعضھا) منع (کمالو انکشف نصف ثمن الفخذ و نصف ثمن الاذن من المرأۃ فان مجموعھما بالمساحۃ اکثر من ربع الاذن التی ھی ادنی العضوین المنکشفین۱؎)
ان دونوں کتابوں کے چیدہ چیدہ مخلوط طور پر الفاظ یہ ہیں: اداء رکن کی مقدار چوتھائی عضو کا ننگا رہنا نماز سے مانع ہے ( یعنی اداءِ رکن جو سنّت کے مطابق ہو ، منیہ۔ اس کے شارح نے کہا کہ یہ تین تسبیحات کی مقدار ہے۔ اور امام محمد رحمۃ اﷲ تعالٰی نے حقیقۃً رکن کی ادائیگی کا اعتبار کیا ہے احتیاط کے پیشِ نظر پہلا قول مختار ہے شرح المنیہ اور جب ربع عضو کا اداء رکن کی ادائیگی سے کم کھلا رہے تو بالا تفاق نماز فاسد نہیں ہوگی، کیونکہ قلیل وقت میں انکشاف کثیر معاف ہے، یہ اس انکشاف کا معاملہ ہے جو دورانِ نماز عارض ہو، اگر وہ انکشاف ابتداء نماز سے عارض ہو اور کھلنے والی جگہ عضو کی چوتھائی ہو تو ایسا انکشاف بالاتفاق مطلقاً انعقادِنماز سے مانع ہے یہ اس وقت ہے جبکہ یہ کشف عورت قصد مصلی کے بغیر ہو (پس اگر ایسا کشف عورت قصد مصلی کے باعث ہو تو فقہاء کے ہاں نماز فی الفور فاسد ہو جائے گی قنیہ، حلبی نے کہا یعنی اگرچہ وہ اداء رکن کی ادائیگی سے کم میں ہو، مگر یہ کہ وہ فعل مصلی کسی ضرورت کی بنا پر ہو جیسے مصّلی کا اپنے جوتوں کو ضائع ہونے کے خوف سے اُٹھالینا جتنے وقت میں وہ رکن نماز ادا نہ کرسکے ۔ خلاصہ میں ایسے ہے۔) اور مکشوف اجزاء کو جمع کیا جائے گا (اور وہ اجزاء مثلاً نصف، چوتھائی اور تہائی ہیں) اگر ایک عضو میں کئی کشف ہوں ورنہ مقدار یعنی پیمائش کے ساتھ اندازہ کیا جائے گا پھر اگر (وہ پیمائش کے ساتھ مجموعہ ) ادنی عضو کے ربع کو پہنچ جائے (یعنی وہ اعضاء جو جزوی طور پر مکشوف ہیں ان میں کہ ادنی عضو کے ربع کو پہنچ جائے) تو ایسا کشف نماز سے مانع ہے، (مثلاً عورت کی ران کے آٹھویں حصّے کا نصف اور کان کے آٹھویں حصے کا نصف اگر کھل جائے تو پیمائش کے اعتبار سے ان دونوں کا مجمموعہ ان دونوں کھلنے والے اعضاء میں سے چھوٹے عضو کان کے چوتھائی سے زیادہ بنتا ہے) (ت)
(1؎ درمختار باب شروط الصلوۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۶۶) ( ردالمحتار باب شروط الصلوۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر۱/۳۰۰)
نوٹ : قوسین کے درمیان والی عبارت ردالمحتار کی ہے اور باہر والی درمختار کی۔ نذیر احمد سعیدی
میں نے ان مسائل میں ہر جگہ اقوی ارجح و احوط قول کو اختیار کیا کہ عمل کے لئے بس ہے اماذکر الخلاف و بسط التعلیل فداع الی تفصیل یفضی الی الطویل (ذکر اختلاف اور ان کے دلائل کی تفصیل کے لئے طویل بحث درکار ہے ۔ ت) بالجملہ ان احکام سے معلوم ہو گیا کہ صرف اجمالاً اس قدر سمجھ لینا کہ یہاں سے یہاں تک سترِعورت ہے ہرگز کافی نہیں بلکہ اعضاء کو جدا جدا پہچاننا ضروری ہے اور وہ علامہ حلبی و علامہ طحطاوی و علامہ شامی محشیانِ درمختار رحمۃ اﷲ علیہم نے مرد میں آٹھ گنے :
(۱) ذکر مع اپنے سب پرزوں یعنی حشفہ وقصبہ و قلفہ کے ایک عضو ہے یہاں تک کہ مثلاً صرف قصبہ کی چوتھائی یا فقط حشفہ کا نص کھلنا مفسد نماز نہیں ، اگر باوجود علم و قدرت ہو تو گناہ وبے ادبی ہے اور ذکر کے گرد سے کوئی پارہ جسم اس میں شامل نہ کیا جائے گا، یہی صحیح ہے یہاں تک کہ صرف ذکر کی چوتھائی کھلنی مفسد نماز ہے، وسری ذالک وتمام التحقیق فی رسالتنا المذکورۃ (اس پر تفصیلی گفتگو اور تحقیقی راز ہمارے مذکور ہ رسالے میں ہیں۔ت)
(۲) انثیین یعنی بیضے کہ دونوں مل کر ایک عضو ہے یہی حق ہے یہاں تک کہ ان میں ایک کی چہارم بلکہ تہائی کھلنی بھی مفسد نہیں،
وقد زلت ھنا قدم العلامۃ البرجندی فی شرح النقایۃ کما نبھنا علیہ فی الطرۃفلیتنبہ۔
اس مقام پر شرح نقایہ میں علامہ برجندی کے قدم پھسل گئے جیسا کہ ہم نے ''الطرۃ فی ستر العورۃ'' میں اس پر تنبیہ کی ہے اس کا مطالعہ کیجئے۔ (ت)
پھر یہاں بھی صحیح یہی ہے کہ ان کے ساتھ ان کے حول سے کچھ ضم نہ کیا جائے گا،یہ دونوں تنہا عضو مستقل ہیں۔
(۳) دُبر یعنی پاخانہ کی جگہ ،اُس سے بھی صرف اس کا حلقہ مراد یہی صحیح ہے اور اسی پر اعتماد۔
(۴و۵) الیتین یعنی دونوں چُوتڑ، ہر چوتڑ مذہب صحیح میں جدا عورت ہے کہ ایک کی چوتھائی کھلنی باعث فساد ہے۔