Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۶(کتاب الصلٰوۃ)
18 - 185
اقول:  اراد العلامۃ الغزی من تلقاء وجہ مستقبلھا حقیقۃ فی ای بلدکان فعبر ھذا التنکیر بتنکیر بعض ولوقال کقول المعراج فی ھذاالبلد ای البلد والمطلوب الجھۃ لکان اولی ، قال العلامۃ السید احمد المصری الطحطاوی فی حاشیتہ قولہ منح اختصر عبارتھا، وھی فلو فرض خط من تلقاء وجہ المستقبل للکعبۃ علی التحقیق فی بعض البلاد وخط اٰخر یقطعہ علی زاویتین قائمتین من جانب یمین المستقبل و شمالہ لاتزول تلک المقابلۃ بالانتقال الی الیمین والشمال علی ذلک الخط بفراسخ کثیرۃ ولھذا وضع العلماء قبلۃ بلد  وبلدین و بلاد علی سمت واحد۔اھ (قولہ قلت فھذا معنی الخ)لیس کما فھمہ فان المتیا من و المتیاسرفی عبارتہ ھو الخط وفی عبارۃ الدر الشخص۱؎ الخ وعزاہ للعلامۃ السید ابراہیم الحلبی محشی الدرر، وقال السید العلامۃ محمد الشامی، فیہ ان عبارۃ المنح ھی حاصل ماقدمناہ عن المعراج ولیس فیھا قولہ ماراعلی الکعبۃ بل ھو المذکور فی صورۃ الدرر ویمکن ان یراد انہ مار علیھا طولا لاعرضا، فیکون ھوالخط الخارج من جبین المصلی والخط الاخر الذی یقطعہ ھو المار عرضا علی المصلی او علی الکعبۃ فیصدق بما صورناہ اولاوثانیا ، ثم ان اقتصارہ علی بعض عبارۃ المنح ادی الی قصر بیانہ علی المسامتۃ تحقیقا و ھی استقبال العین دون المسامتۃ تقدیرا وھی استقبال الجھۃ مع ان المقصود الثانیۃ فکان علیہ ان یحذف قولہ من تلقاء وجہ مستقبلھا حقیقۃ فی بعض البلاد۲؎ اھ فھذاکل ما اوردہ وتمام ما ارادوہ۔
اقول: (میں کہتا ہوں) علّامہ غزی (اپنی عبارت)'' من تلقاء وجہ مستقبلھا حقیقۃ فی بعض البلاد'' میں '' بعض البلاد'' سے کوئی بھی بلد ہو ، مراد لیا ہے اوراس تنکیر کو لفظ ''بعض کی تنکیر '' سے تعبیر کیا ہے ، اور اگر معراج کے قول کی طرح یہ بھی ''ھذا البلاد''کہہ کر وہ علاقہ مرادلیتے جس کی جہت مطلوب ہوتی تو بہتر ہوتا۔علّامہ سید احمد مصری الطحطاوی نے (علّامہ الحصکفی کی عبارت کی)تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس کا قول ''منح'' علّامہ نے منح کی جس عبارت کا حوالہ دیا ہے وہ عبارت مفصل ہے جس کو علّامہ حصکفی نے مختصر کرکے لکھا ہے اسکی عبارت یوں ہے بعض بلاد میں کعبہ کی طرف تحقیقی طور پر چہرہ کرنے والے کی پیشانی سے ایک خط فرض کیا جائے ، اور کعبہ کا استقبال کرنے والے کے دائیں و بائیں ایک اور خط فرض کیا جائے جو پہلے خط کو دوقائمہ زاویوں پر قطع کرتے ہوئے کئی فرسخ تک اس طرح دراز ہو کہ اس خط پر سے کئی فرسخ تک دائیں بائیں انتقال کرنیوالے کا کعبہ سے تقابل زائل نہ ہو۔ اس بناء پر علماء نے ایک ہی سمت پر کئی بلاد کے قبلے وضع کئے۔علّامہ حصکفی کا قول ''قلت فھذامعنی الخ'' علامہ کا یہ فہم درست نہیں ہے کیونکہ ان کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ دائیں اور بائیں ہونے والی چیز خط ہے ،حالانکہ دُرر کی عبارت میں وہ شخص ہے الخ۔علّامہ طحطاوی نے اس بیان کو محشی دُر علّامہ سیّد ابراہیم حلبی کی طرف منسوب کیا ہے۔ علّامہ حصکفی کی عبارت پر علّامہ شامی نے کہا کہ منح کی عبارت یہ معراج کی عبارت (جو ہم ذکر کر آئے) کا خلاصہ ہے حالانکہ معراج میں '' مارّاًعلی الکعبۃ''(کعبہ پر سے گزرنے والے خط ) کا ذکر نہیں ہے ، بلکہ یہ دُرر کی تصویر میں مذکور ہے۔ممکن ہے اس سے عرض کی بجائے طول میں گزرنے والا خط مراد ہو تو یہ ایک نمازی کی جبین سے نکلنے والا خط اور دوسرا خط جو پہلے کو قطع کرکے وہ نمازی پر سے عرض (چوڑائی) میں گزرنے والا ہوگا یا کعبہ پر گزرنے والا ہوگا،تو اس سے ہماری پہلی اور دوسری دونوں تصویریں (ان کی تصدیق ہوگی) درست ہوں گی، پھر علامہ کامنح کی کچھ عبارت پر انحصار کرنا، حقیقی سمت پر انحصار کو ظاہر کرتا ہے اور وُہ عین کعبہ کی طرف استقبال ہے نہ کہ فرضی سمت پر انحصار کیونکہ وہ جہت قبلہ کی طرف استقبال ہے حالانکہ سمت فرضی یعنی کعبہ کی جہت کی سمت استقبال کرنا ہی مقصود ہے اس لئے ان کو عبارت سے ''بعض بلاد میں حقیقی طور پر کعبہ کو پیشانی کرنے'' کو حذف کرنا ضروری تھا اھ، یہ علّامہ شامی کی مکمل عبارت ہے اور یہی ان کی مراد ہے۔
 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمحتار        باب شروط الصلوٰۃ        مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت        ۱/۱۹۷) 

(۱؎ ردالمحتار        باب شروط الصلوٰۃ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی         ۱/۲۸۸)
اقول:  و باﷲ التوفیق شرح نظم الدرھکذا (یفرض من تلقاء وجہ) ای وسط جبھتہ (مستقبلھا حقیقۃ) بحیث لورفعت الحجب لرئیت الکعبۃ بین عینیہ (فی بعض البلاد) ای ای بلد یراد (خط) مستقیم قائم (علی) الخط المار بجبھۃ معترضا من وسطہ الی یمینہ او شمالہ بحیث یحدث معہ (زاویۃ قائمۃ) عند الجبھۃ ولم یقل قائمتین لا نہ لا یجب فرض المعترض مارا الی الجھتین بل یکفی ادنی خط الی ایۃ جہۃ منھما۔فلا یحدث بالفعل الا قائمۃ واحدۃ وذلک من ایجازات ھذاالفاضل المدقق فان زاویۃ قائمۃ اخصر من زاویتین قائمتین وفیھا الکفایۃ فاختار ماقل وکفی (الی الافق) مقابل من فی قولہ من تلقاء وجہ ای یبتدئ من وسط الجبھۃ وینتھی الی الافق ویکون فی امتدادہ ھذا (ماراعلی) نفس(الکعبۃ) الی ھھنا تم بیان المسامتۃ الحقیقۃ ثم شرع فی بیان التقریبیۃ فقال (و) یفرض (خط اٰخر) مستقیم (یقطعہ) عند جبھۃ المستقبل (علی زاویتین قائمتین ) مارا بالعرض (یمنۃ ویسرۃ) ای یمین المستقبل ویسارہ ولم یکتف بالخط الاخر المشار الیہ فی قولہ علی زاویۃ قائمۃ لان ثمہ کان یکفی ادنی ماینطق علیہ اسم الخط فی احد الجانبین وان لم یستوعب نصف جبین ذلک الجانب ولاربعہ والآن یحتاج الی خط ممتد یمیناوشمالا الی فراسخ کثیرۃ لیکون محل الانتقال یمنۃ ویسرۃ ولذا اتی ھھنا بتثنیۃ القائمۃ فاذا انتقل المصلی علی ھذا الخط فی ای جہۃ الی فراسخ کثیرۃ حسب مایقتضیہ بعد البلد من الکعبۃ لا یخرج عن الجھۃ واشار الی ذلک بقولہ(قلت فھذا معنی التیامن والتیاسر) المسوغین للمصلی(فی عبارۃ الدرر) فان الدرر انماذکرتیا من المصلی و تیاسرہ وکان یحتمل ان معناہ یجعل الکعبۃ علی یمینہ اویسارہ ولیس مراداقطعا فرسم الخط یمنۃ ویسرۃ واشاربطرف خفی کعادتہ رحمۃ اﷲ تعالٰی فی غایۃ الایجاز الی ان ذٰلک التیامن للمصلی انما ھو علی ھذا الخط المخرج یمنۃ و یسرۃ لاما یتوھم (فتبصر۱؎) کیلا تزل وقد ظھرلک من ھذاالشرح بتوفیق اﷲ تعالٰی:
اقو ل:  اﷲ کی توفیق سے ، دُرمختار کی عبارت کی شرح یوں ہے (وجہ کی طرف سے) وجہ سے مراد وسطِ پیشانی ہے (حقیقۃً کعبہ کا استقبال کرنے والے) مراد یہ ہے کہ اس طرح سیدھا استقبال ہو کہ اگر درمیان سے پردے اُٹھا دئے جائیں تو کعبہ دونوں آنکھوں کے درمیان نظر آئے ،(بعض بلاد میں) سے مراد کوئی بھی علاقہ ہو (خط فرض کیا جائے) سے مراد سیدھا خط قائم کیا جائے، ایک دوسرے خط پر جو استقبال کرنے والے کی پیشانی پر عرضی (چوڑائی) طور پر اس کے درمیان سے دائیں اور بائیں پھیلا ہوا ہو ، ایک خط دوسرے سے اس طرح ملے کہ اس سے وسطِ پیشانی پر زاویہ قائمہ پیدا ہو، یہاں ایک زاویہ قائمہ کو ذکر کیا ہے کیونکہ پیشانی پر خط کا دونوں طر ف پھیلنا ضروری نہیں بلکہ خط ان سے کسی 

ایک طرف بھی ظاہر ہو تو کافی ہو گا، لہذا بالفعل دونوں خطوں سے ایک ہی زاویہ قائمہ پیدا ہوگا اسی لئے یہاں دو زاویوں کو ذکر نہیں کیا۔ اس فاضل مدقق کا یہ ایک اختصار ہے کیونکہ ایک زاویہ قائمہ دو قائم زاویوں کے مقابلہ میں مختصر ہے اور اس ایک زاویے سے مطلوب میں کفایت بھی پائی جاتی ہے اس لئے انھوں نے مختصراً اور کافی کو پسند کیا ہے۔(افق کی طرف ) یہ لفظ'' من تلقاء وجہ''میں مِن کا مقابل ہے ، یعنی پیشانی کے وسط سے نکل کر افق کی طرف پہنچا ہو جس میں لمبائی ہو ( وہ گزر رہا ہو) نفس (کعبہ پر سے) یہاں تک مسامتت حقیقی کا بیان تام ہوگیا ،اس کے بعد سمتِ تقریبی کا بیان شروع ہوا، تو کہا اور دوسرا سیدھا خط فرض کیا جائے جو استقبال کرنے والے کی پیشانی پر پہلے خط کو اس طرح قطع کرے کہ اس سے دو زاوئیے قائمے پیدا ہوں اور یہ دوسرا خط پیشانی پر عرض میں دائیں اور بائیں پھیلا ہوا ہو مراد یہ ہے کہ کعبہ کا استقبال کرنے والے کے دائیں اور بائیں دراز ہوا ہو، اور یہاں پہلے کی طرح ایک زاویہ قائمہ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دو زاویوں کو ذکر کیا، کیونکہ وہاں پر پیشانی پر ظاہر والے خط کا پیشانی کے دائیں اور بائیں دونوں طرف پھیلنا ضروری نہیں تھا بلکہ وہاں برائے نام ہونا کافی تھا جس پر لمبا خط آگرے، اگر چہ اس جانب پیشانی کے نصف بلکہ چوتھائی کو بھی نہ گھیرا ہو لیکن یہاں پیشانی پر ظاہر ہونے والے خط کا دائیں اور بائیں کئی فرسخ تک بڑھا ہونا ضروری ہے تاکہ سمتِ کعبہ سے دائیں اور بائیں انتقال کا محل بن سکے، اسی لئے یہاں دو قائموں 0کو ذکر کیا ، پس جب نمازی دائیں بائیں بڑھنے والے خط پر منتقل ہو خواہ کئی فرسخ دائیں یا بائیں جس قدر بھی کعبہ سے شہر کا بُعد ہو اس کے مطابق منتقل ہونے سے جہتِ کعبہ سے خارج نہ ہوگا، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صاحب الدر نے کہا میں کہتا ہوں (دائیں اور بائیں طرف ہونے کا یہی معنٰی ہے کہ ) دونوں خط نمازی کی دونوں جانب بنیں گے ( جو مذکور ہے دُرر میں) کیونکہ دُرر نے نمازی کے دائیں اور بائیں ہونے کا ذکرکیا ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہوسکتاہے کہ نمازی کعبہ کو اپنے دائیں اور بائیں کرے،لیکن یہ احتمال قطعاً مراد نہیں ہو سکتا۔اس لئے انہوں نے دائیں اور بائیں خط بنا کر ایک مخفی اشارہ دیا جیسا کہ ان رحمۃ اﷲ علیہ کی اختصار کی عادت ہے نمازی کے تیامن و تیا سر میں بھی اختصار سے کام لیا ہے وہ یوں کہ نمازی کا دائیں بائیں پھیلنے والے خط پر قائم رہتے ہوئے سے دائیں یا بائیں ہونا مراد ہے، نہ وُہ کہ جو بعض کو وہم ہوا ، (پس غور کر) تاکہ تُو پھسلے نہیں ۔اﷲ تعالٰی کی توفیق سے تجھ پر اس شرح سے چند امور ظاہر ہوئے:؎
۱؎ ف : یہاں تک دو قوسوں کے درمیان جو عبارت ہے و ہ دُرمختار کی ہے باقی عبارت شرح صورت میں اعلٰی حضرت کی اپنی ہے۔
Flag Counter