فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۶(کتاب الصلٰوۃ) |
قال فی الدرر جھتھا ان یصل الخط الخارج من جبین المصلی الی الخط المار بالکعبۃ علی استقامۃ بحیث یحصل قائمتان ۱؎ اھ وھذا ھوالوجہ الاول واختلف الانظار فی محلہ فحملہ العلامۃ الشامی فی ردالمحتار علی بیان المسامتۃ الحقیقیۃ حیث ذکر اولا عن المعراج عن شیخہ ان معنی التحقیق انہ لو فرض خط من تلقاء وجہہ علٰی زاویۃ قائمۃ الی الافق یکون مارا علی الکعبۃ اھوائھا ۲؎ اھ ثم نقل کلام الدرثم قال قولہ فی الدرر علی استقامۃ متعلق بقولہ یصل لانہ لو وصل الیہ معوجالم تحصل قائمتان بل تکون احدھما حادۃ والاخری منفرجۃ کما بینا ثم ان الطریقۃ التی فی المعراج ھی الطریقۃ الاولی التی فی الدرر الا انہ فی المعراج جعل الخط الثانی مارا علی المصلی علی ماھو المتبادر من عبارتہ وفی الدرر جعلہ ماراعلی الکعبۃ۱؎ اھ ثم صور الذی فی المعراج ھکذا:
دُرر میں کہا ہے کہ کعبہ کی جہت یہ ہے کہ نمازی کی جبین سے نکلنے والا خط کعبہ پر سے گزرنے والے خط سے سیدھا اس طرح ملے کہ اس سے ۲ زاویے قائمے حاصل ہو جائیں اھ، اور یہ پہلی وجہ ہے۔ اور اس محمل میں اختلاف ہے علّا مہ شامی نے ردالمحتار میں اس کو حقیقی سمت پر محمول کیا ہے، جہاں اس نے اوّلاً معراج کے حوالے سے ان کے شیخ کا ذکر کیا ہے کہ تحقیقی کا معنٰی یہ ہے کہ نمازی کے چہرے کی طرف زاویہ قائمہ پر سیدھا خط اُفق کی طرف فرض کیا جائے تو وہ کعبہ یا ہوائے کعبہ پر سے گزرے اھ۔ پھر علّامہ شامی نے درر کا کلام نقل کرتے ہوئے کہا کہ درر کا قول '' علی استقامۃ'' کا تعلق اس کے قول ''یصل'' سے متعلق ہے، اس لئے کہ اگر وہ خط ٹیڑھا ہو کر کعبے کو ملے تو پھر ''قائمین'' (دو قائمے) حاصل نہ ہوں گے بلکہ ان میں سے ایک حادہ اور دوسرا منفرجہ ہوگا۔جیسے ہم بیان کر آئے پھر معراج والا طریقہ یہ درر میں ذکر کردہ پہلا طریقہ ہے، مگر اتنا فرق ہے کہ معراج میں دوسرے خط کو نمازی پر سے گزرنے والا قرار دیا ہے۔جیسا کہ اسکی عبارت سے سمجھا جا رہا ہے۔ اور درر میں اس کو کعبہ پر سے گزرنے والا قرار دیا ہے اھ اس کے بعد علّامہ شامی نے (دونوں کے فرق کو واضح کرتے ہوئے ) ایک معراج والی اور دوسری دُرر والی تصویر بنائی:(ت)
(۱؎ الدرر الحکام شرح غررالحکام باب شروط الصلوٰۃ احمد کامل الکائنہ دار سعادت بیروت ۱/۶۰) (۲؎ ردالمحتار مبحث فی استقبال القبلۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۲۸۷) (۱؎ ردالمحتار مبحث استقبال القبلۃ مطبوعی مجتبائی دہلی ۱/۲۸۷)
6_2.jpg
قلت وقد یؤیّد ھذاالمحمل ان اصل الکلام للامام حجۃ الاسلام وھو کمافی شرح النقایۃ ھکذا، معنی التوجہ الی عین الکعبۃ ھو ان یقف المصلی بحیث لو خرج خط مستقیم من عینیہ بحیث یتساوی بعدہ عن العینین الی جدارالکعبۃ تحصل من جانبیہ زاویتان متساویتان ۲؎ اھ۔ ثم ذکر معنی التوجہ الی الجھۃ بما قدمنا فی القول الثالث۔
میں کہتا ہوں علّامہ شامی کے اس حقیقی سمت پرحمل کی تائید یوں ہوتی ہے کہ امام حجۃ الاسلام کی اصل کلام جوکہ شرح النقایہ میں ہے کہ عین کعبہ کی طرف توجہ کا معنٰی یہ ہے کہ نمازی یوں کھڑا ہو کہ اگر اسکی دونوں آنکھوں سے ایک سیدھا خط اس طرح نکلے کہ جس کا بعد دونوں آنکھوں سے دیواِر کعبہ تک اس طرح متساوی ہو کہ نمازی کی دونوں جانب دو متساوی زاویے بن جائیں اھ۔ اسکے بعد انھوں نے جہت کعبہ کی طرف توجّہ کا معنی وہی ذکر کیا ہے جو ہم قول ثالث میں ذکر کر آئے ہیں۔
(۲؎ شرح النقایۃ للبرجندی باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ منشی نو لکشو لکھنؤ ۱/۸۸ )
اقول: اوّلاً لکن یلزم العلامۃ المحشی بھذاالحمل حمل الجبین فی عبارۃ الدرر علی الجبھۃ ولا غرو ففی تاج العروس عن شیخہ قدورد الجبین بمعنی الجبھۃ لعلا قۃ المجاورۃ فی قول زھیرکما صرحوابہ فی شرح دیوانہ۱؎ثم ذکر شعرا مثلہ للمتنبی لکن العلامۃ المحشی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ قد استدل بوقوع لفظ الجبین فی عبارۃ الدرر علی انہ لا یلزم خروج الخط من وسط الجبھۃ فان الجبین طرفھا و ھما جبینان کما تقدم فیکون ھذا مناقضا لذاک۔
ۤاقول: (میں کہتا ہوں) اوّلاً لیکن علّامہ محشی کے اس حمل میں درر کی عبارت میں جبین کو الجبھۃ (پیشانی)کے معنی میں لینا لازم ہوگا اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ تاج العروس والے نے اپنے شیخ کے حوالے سے کہا کہ جبین پیشانی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں میں قریب کا تعلق ہے زہیر کے قول میں یہ استعمال پایا گیا ہے جیسا کہ زہیر کے دیوان کے شارحین نے تصریح کی ہے پھرایسا ہی ایک شعر متنبی کا اُنھوں نے ذکر کیا۔ لیکن علّامہ محشی نے دُرر کی عبارت میں جبین کا حقیقی معنٰی مراد لیتے ہوئے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ لفظ جبین سے ثابت ہوتا ہے یہ ضروری نہیں کہ خط نمازی کی پیشانی کے وسط سے نکلے کیونکہ جبین، پیشانی کی ایک طرف کو کہتے ہیں ، اور اس کے دونوں اطراف دو۲ جبین ہیں ، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ، لہذا علامہ کی یہ استدلال والی عبارت جبین کو پیشانی کے معنی میں لینے والی عبارت کے مناقض ہے۔
واقول: ثانیا زاد فی التصویرین مصلیین عن یمین و شمال غیر محاذیین للجدار الذی بازائہ المصلی الوسطانی واقام اعمدتھا فی التصویر الاول علی المار بذاک المصلی عرضا ولاشک انھما لاینتھیان الی الکعبۃ بل یتزوران عنھا ذات الیمین و ذات الشمال کما صور وانما کان شرط فی المعراج ان یمرالخط بالکعبۃ، وفی التصویر الثانی اقامھما علی الخط المار فی امتدادہ بالکعبۃ غیر واقعین علی نفس البیت بل متزا ورین عنھا کما مرولم یرم الدرر خطا یمر علی الکعبۃ ممتدا عن جنبیھا الی الافق انما اراد خطا مقتصرا علیھا لیقع مرور خط الجبین علی نفس الکعبۃ کما فی المعراج والاکیف تکون مسامتۃ حقیقیۃ مع کون المصلی بمعزل عن محاذاتھا فھذان المصلیان لا مدخل لھما فی تصویر الحقیقۃ وکانہ رحمۃاﷲ علیہ اراد ان یزید مع تصویر الحقیقیۃ تصویرالتقریبیۃ وقد کان سھلاعلینا ان نفرض المصلین المزیدین منتقلین بعدۃ فراسخ بحیث لاتزول المقابلۃ لکنہ رحمہ اﷲ تعالٰی سبق الی خاطرہ ان الشرط فی التقریب ان یقف المصلی علی ذلک الخط المار عرضا بالمصلی الوسطانی او نقول یقوم بحذاء ذلک الخط العرضی المارفی امتدادہ بالکعبۃ بحیث یکون خط جبھۃ عمود اعلی احدھما ای فی التصویر وعلیھما جمیعا فی التقدیر وبعد تحقیق ھذا الشرط لا تقدیر بمسافۃ فلیحفظا جہتہما وینتقلا ما بدالھما فاذن یکون الخط القائم علیہ اوالیہ المصلیان غیرمحدود علی ما زعم کمایاتی تنصیصہ وھاتان زلتان عظیمتان یجب التنبہ لھما فان الامردین وحاش ﷲ لایزری بالعلماء وقوع بعض زلات من اقلامھم لا سیما مثل ھذا المحقق الذی استنار مشارق الارض ومغاربھا بنورتحقیقاتہ السنیۃ و تطفل الوف مثلی علی موائد عوائد فوائدھ الھنیئۃ جزاہﷲ تعالٰی جزاء العزوالاکرام جمع بیننا و بینہ فی دارالسلام بفضل رحمتہ بہ و بسائر العلماء الکرام علی سیدھم و مولاھم و علیھم و علیہ وعلینا الصلوٰۃ والاسلام اٰمین اٰمین یا بدیع السمٰوات والارض یا ذا الجلال و الاکرام فانا اذکرفی سیاق ذلک ما عرض للمحشین من الوھم والایھام فی فہم کلام المدقق العلائی العلام لیتضح المرام وینجلی بدر السداد من تحت الغمام فاعلم ان الجھبذ المدقق الذی قلما اکتحل عین الزمان بمثلہ فی الاخرین اعنی العلامۃ علاء الدین محمد الحصکفی عاملہ اﷲ تعالٰی بلطفہ الوفی اثر ھھنا عن المنح کلاما قصرمبناہ واستترمعناہ فقال اصابۃ جھتھا بان یبقی شیئ من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ اولھواء ھابان یفرض من تلقاء وجہ مستقبلھا حقیقۃ فی بعض البلاد خط علی الکعبۃ وخط اٰخر یقطعہ علی زاویتین قائمتین یمنۃ و یسرۃ منح قلت فھذا معنی التیامن والتیا سر فی عبارۃ الدرر فتبصر ۱؎ اھ
اقول ثانیا مذکورہ دونوں تصویروں میں کعبہ کی دیوار کے متوازی درمیانے نمازی کے دائیں اور بائیں مزید دو نمازی رکھیں گئے ہیں جو اس دیوار کے متوازی نہیں ہے اور پہلی تصویر میں ان دونوں نمازیوں کے خطوط کو درمیانے نمازی پر سے عرض میں گذر نے والے خط پر ملایا جبکہ یقینا یہ دونوں خطوط کعبہ کے متوازی نہیں ہوتے بلکہ کعبہ سے دائیں اور بائیں گرتے ہیں جیسا کہ تصویر سے واضح ہے (حالانکہ یہ تصویر معراج والی ہے) جبکہ معراج میں خط کا کعبہ پر واقع ہونا شرط قرار دیا گیا ہے، اور دوسری تصویر میں ان دونوں نمازیوں کے خطوط کو کعبہ پر سے گزرنے والے خط سے ملایا جو عین کعبہ پر نہیں بلکہ کعبہ سے دائیں اور بائیں گزرجاتے ہیں جیسا کہ گزرا حالانکہ دُرر نے کعبہ سے گزرکر اس کے دونوں جانب سے اُفق کی طرف نکل جانے والے خط کو ذکر نہیں کیا اس نے صرف وہ خط مرادلیا ہے جو کعبہ پر ختم ہوتا کہ نمازی کی جبین سے نکلنے والے خط کا گزر نفس کعبہ پر واقع ہو جیسا کہ معراج میں ہے ، ورنہ نمازی کے متوازی نہ ہونے کے باوجود حقیقی سمت کیسے ہو سکتی ہے، پس معلوم ہواکہ دائیں اور بائیں جانب والے دونوں نمازیوں کا حقیقی سمت کی تصویر میں کوئی دخل نہیں ، اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ گویا محشی رحمۃ اﷲتعالٰی علیہ نے سمت حقیقی کے ساتھ ساتھ قریبی سمت کی تصویر بھی زائد بنائی ہے،(قریبی سمت بنانے کےلئے) ہمیں یہ کہہ دینا آسان تھا کہ (حقیقی سمت والے نمازی ) کے علاوہ ہم دو نمازی اس سے چند فرسخ کے فاصلے پر اس طرح فرض کرلیں کہ کعبہ سے ان کا تقابل زائل نہ ہو۔ لیکن اﷲ تعالٰی ان پر رحم کرے محشی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کے دل میں یہ بات آئی کہ قریبی سمت کےلئے یہ شرط ہے کہ درمیانے حقیقی سمت والے نمازی پر عرض میں گزرنے والے خط پر کوئی نمازی کھڑا ہو یا یوں کہیں کہ کعبہ پر سے گزرنے والے عرضی خط کے متوازی یُوں کھڑا ہو کہ اس کی پیشانی سے نکلنے والاخط عمود بنے خواہ وہ نمازی یا کعبہ پر سے گزرنے والے ایک خط پر یعنی تصویر میں بنے ، یا ان دونوں پر عمود بنے فرضی طور پر ، اس شرط کے پائے جانے کے بعد مسافت فرض کرنے کی ضرورت نہیں، وہ دونوں نمازی اپنی جہت کو محفوظ رکھیں اور بس ،دائیں یا بائیں جتنا چاہیں وہ منتقل ہو جائیں ، اور جس پر خط قائم ہے یا جس خط کی طرف دونوں نمازی متوجّہ ہیں اسکی محشی رحمۃ اﷲ تعالٰی کے خیال میں کوئی حد نہیں (بشرطیکہ وہ ان خطوط پر قائم رہیں ) جیسا کہ خود ان کی نص اس پر آئے گی حالانکہ (قریبی سمت کی بیان کردہ شرط اور اسکے بعد مذکورہ خطوط کی مسافت کو غیر محدود رکھ کر دونوں نمازیوں کاان خطوط پرحسب خواہش منتقل ہونا) یہ دونوں عظیم غلطیاں ہیں ان پر تنبیہ ضروری ہے ، کیونکہ یہ دینی معاملہ ہے، حاش للہ! علماء کو ان قلموں کی غلطیاں زیب نہیں دیتیں، خصوصاً یہ محقق جس کی قیمتی تحقیقات کے نُور سے زمین کے مشرق ومغرب منور ہو رہے ہیں اور مجھ جیسے ہزاروں لوگ اس کے بے مثل اور اہم فوائد کے دسترخواں کے خوشہ چیں ہیں، اﷲ تعالٰی اس کو عزت و اکرام کی جزا عطا فرمائے ، ہمیں اور اُسے جنّت میں جمع فرمائے اپنی رحمت کے فضل سے جو اُن پر اور تمام علماء کرام پر ہو، اور ان سب کے مولٰی و آقا پراور ان پر اور ہم پر رحمت و سلام ہو ، آمین آمین! اے آسمانوں اور زمینوں کو ابتداء پیدا کرنے والے! یا ذالجلال والاکرام ! میں تو ا س بیان کے سیاق میں علّامہ علائی کے کلام کو سمجھنے میں حاشیہ لکھنے والوں کو جو وہم اور اہمام واقع ہوا ہے کو ذکر کروں گا تاکہ مقصود واضح ہو سکے اور بادل کے نیچے سے درستگی کا روشن چاند نمودار ہوسکے ۔ واضح ہو کہ وہ ماہر ، مدقق جن کی مثل متاخرین میں زمانے نے نہ پائی، میری مراد علامہ علاء الدین محمد حصکفی ہیں ،اُن سے اﷲ تعالٰی اپنے کامل لطف و کرم کا معاملہ فرمائے، نے یہاں پر منح سے ایک ایسی کلام نقل کی جو مختصر ہے اور اسکا معنی مخفی ہے ۔پس کہا کہ جہتِ کعبہ کو پانے کا مطلب یہ ہے کہ نمازی کے چہرے کی سطح کا کوئی حصہ کعبہ یا اسکی فضاء کی سمت میں اس طرح ہو جائے کہ کعبہ کا حقیقی استقبال کرنے والے کے چہرہ سے ایک سیدھا خط زاویہ قائمہ پر افق کی طرف اس طرح نکلے کہ بعض بلاد میں وہ کعبہ پر سے گزرے اور ایک دوسرا خط اس طرح فرض کیا جائے جو پہلے خط کو قطع کرتے ہوئے دو زاویے قائمے دائیں اور بائیں طرف بنائے ،منح۔ میں کہتا ہوں کہ دُرر میں مذکور الیتامن والتیاسر کا یہی معنی ہے غور کر،اھ
(۱؎ درمختار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۶۸)